تن درستی اور تنگ دستی
انھوں نے بے حد تگ و دو کی کہ گمشدہ والد کا سراغ ملے لیکن ابھی تک ان کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔
اپنے اس دوست کو میں بتیس سال سے جانتا ہوں جب وہ اسی شہر میں بطور سول جج تعینات تھا۔ چند شہروں میں تعیناتیوں کے بعد وہ اپنی پسند کے شہر میں آیا تھا جب اس شہر سے بھی تبادلے کا حکم آیا تو اس کے ذہن نے کہا کہ یوں تو دربدر ہوتے ہوتے وہ رل جائے گا اس میں کاروبار کرنے کی غیر معمولی صلاحیت تھی۔
اس نے ملازمت سے استعفیٰ دیا اور تعمیراتی کام شروع کر دیا۔ شہر کی معروف سڑک پر ایک پلازہ کھڑا کیا تو بکنگ شروع کرتے ہی خریداروں کا تانتا بندھ گیا۔ قیمتیں مناسب رکھیں تو پراجیکٹ چند ماہ میں کامیابی کی راہ دکھا گیا۔ تعمیر مکمل ہوتے ہی چند الیکٹرانکس اور موبائل فون کے کاروباریوں نے وہاں بزنس شروع کر دیا۔
دیکھا دیکھی بہت سے موبائل فون کے ڈیلروں نے دکانیں سجا لیں۔ بہت سے الیکٹرانکس کے کاروباریوں نے دوسری جگہوں سے اس پلازے میں کاروبار منتقل کرنا فائدہ مند پایا۔ اب تو ادھر ادھر کے بزنس والوں نے اس پلازے پر یلغار کر دی۔ کچھ ہی عرصہ میں یہ پلازہ پورے صوبے میں موبائل فون کے کاروبار کی منڈی بن گیا اور اب صبح دس بجے سے رات گئے تک یہاں گاہکوں کا ہجوم ہوتا ہے لیکن جس شخص نے یہ منڈی سجائی وہ شہر میں موجود ہونے کے باوجود آج اس پلازے کی ملک گیر شہرت اور وجود سے بھی لاعلم و لاتعلق اور بیگانہ ہے اور اس کے پیچھے ایک المیہ کہانی ہے۔
ایک طویل عرصہ تک ہماری دوستی رہی۔ میرے جذبات اور یک طرفہ تعلقات اس کے لیے آج بھی وہی ہیں کہ جو تھے لیکن اب میں اس کے لیے اجنبی ہوں کیونکہ نہ اسے پرانا تعلق یاد ہے نہ ہی میرا نام بلکہ یہ بھی معلوم نہیں کہ میرا مکان اس کی رہائش گاہ سے چھ مکان کے فاصلے پر ہے۔ وہ پہلے کی طرح خوش شکل و خوش پوش نظر آئے گا لیکن قیام بیشتر گھر کے اندر جب کہ باہر اپنے کسی نوجوان بیٹے کے ہمراہ اور وہ بھی مختصر وقت کے لیے صرف ایک جگہ سے دوسری جگہ۔ یہ کوئی کہانی نہیں ایک کامیاب اور دولت مند شخص کا ذکر ہے۔
اس دوست نے ملک گیر شہرت والا بزنس ہاؤس بنانے کے بعد متعدد کمرشل عمارتیں تعمیر کیں پھر وہ ملک سے باہر نقل مکانی کر گیا۔ وہ واپس آیا تو ایک روز میں اپنے مکان کی طرف جاتے ہوئے اسے ایک مکان کے دروازے پر کھڑا دیکھ کر رک گیا۔ کار میں سے اتر کر خوشی سے اس کی طرف دوڑا۔ قریب پہنچا تو اس نے مجھے ایک اجنبی کی طرح دیکھا۔
میں ٹھٹھکا اور ذرا تکلف سے پوچھا شیخ صاحب امریکا سے کب لوٹے؟ کیسے ہو؟ بچوں کا کیا حال ہے؟ وہ اسپاٹ چہرے سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ میں اسے زبردستی اپنے گھر لے گیا۔ چائے منگوائی۔ بغیر کوئی بات چیت کیے ہم نے چائے ختم کی۔ پھر وہ جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ باہر آ کر اس نے دائیں بائیں دیکھا اور اپنے مکان کی طرف چل دیا۔ میں ہکا بکا کھڑا اسے جاتے دیکھتا رہا۔
سات سال قبل ہم لوگ ایک دوست کی بیٹی کی شادی میں شامل تھے۔ یہ دوست محترمہ بے نظیر بھٹو کے پریس سیکریٹری رہ چکے ہیں۔ ان کو تقریب کے دوران معلوم ہوا کہ اسپتال میں داخل ان کے والد جو یادداشت کھو چکے تھے، نگرانی کے باوجود کمرے سے نکل گئے ہیں اور کئی گھنٹے سے مل نہیں رہے۔
انھوں نے بے حد تگ و دو کی کہ گمشدہ والد کا سراغ ملے لیکن ابھی تک ان کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ اس دوست نے بتایا کہ تلاش میں ناکامی کی وجہ Alzheimer's نامی بیماری بنی جس کے نتیجے میں یادداشت جواب دے جاتی ہے۔ ہمارے اول الذکر دوست بھی اسی بیماری کا شکار ہوئے ہیں جنھیں اب مجھ سے گہرا تعلق اور باقی تمام کچھ یعنی دوست، رشتہ دار، کاروبار، راستے اور پندرہ بیس سال پرانی ہر بات اور چیز بھول چکی ہے لیکن اپنا بچپن کسی حد تک یاد ہے۔
عام طور پر پچاس سال کی عمر کے بعد بہت سے لوگوں کی یادداشت متاثر ہونے لگتی ہے لیکن ایلزائمر ایک الگ بیماری ہے جس کی وجہ سے یادداشت رفتہ رفتہ کم ہونی شروع ہوتی اور انتہا کو پہنچ کر انسان کو اتنا بے بس کر دیتی ہے کہ اس کی سماجی اور پیشہ ورانہ کارکردگی بھی ختم ہو جاتی ہے۔ دماغ کو پیغام رسانی بند ہو جاتی ہے اور دماغ سکڑ کر ہر اہلیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس بیماری پر ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا اور صرف امریکا میں ایلزائمر کے مریضوں کی تعداد چالیس لاکھ اور برطانیہ میں چار لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
یادداشت کھو دینے کی اس بیماری کو کھوجنے کا سہرا جرمن نیورو پیتھالوجسٹ اور ماہر نفسیات ڈاکٹر ایلوسیس ایلزائمر کے سر ہے اس لیے بیماری کو بھی اسی کا نام دے دیا گیا۔ یہ ڈاکٹر ایک اکاون سالہ بھلکڑ قسم کی عورت کا معالج تھا۔ جب اسے اس نئی قسم کی بیماری کا علم اور مشاہدہ ہوا وہ پریشان ہو گیا تھا۔ جب اس نے دوران علاج مریضہ کے منہ سے یہ فقرہ سنا کہ ''میں نے اپنے آپ کو کھو دیا ہے۔''
اس بیماری کا شکار ہونے والے تو ان گنت ہوں گے لیکن معروف لوگوں میں کھلاڑی، فلم ایکٹر، سیاست دان اور اہل دانش بھی شامل ہیں۔ امریکی صدر رونلڈ ریگن، برطانوی وزیر اعظم ہیرلڈ ولسن، ناولسٹ ٹیری پریٹ چیٹ، نوبل انعام یافتہ چارلس کے کاؤ، بین حر فلم کے ہیرو چارلٹن ہیسٹن اور آغا خاں کی بیگم ریٹا ہیورتھ کا نام اس ظالم بیماری کے حوالے سے لیا جا سکتا ہے لیکن ہم تو اس شاعر کو بھی یاد رکھیں گے جنھوں نے دماغی اور مالی دونوں کی صحت کے بارے میں کہا:
تنگ دستی اگر نہ ہو غالب
تندرستی ہزار نعمت ہے
لیجیے میں بھی اپنے اس سابق سول جج اور ڈویلپر دوست کا نام بھول رہا ہوں۔ اس کا نام قدیر حسن ہے، قدیر خاں ہے، شیخ عبدالقدیر یا قدیر زماں ہے۔ چلیے چھوڑیئے کہ میرا یہ دوست اب بے خبر ہے کہ کبھی ہم دوست تھے۔
اس نے ملازمت سے استعفیٰ دیا اور تعمیراتی کام شروع کر دیا۔ شہر کی معروف سڑک پر ایک پلازہ کھڑا کیا تو بکنگ شروع کرتے ہی خریداروں کا تانتا بندھ گیا۔ قیمتیں مناسب رکھیں تو پراجیکٹ چند ماہ میں کامیابی کی راہ دکھا گیا۔ تعمیر مکمل ہوتے ہی چند الیکٹرانکس اور موبائل فون کے کاروباریوں نے وہاں بزنس شروع کر دیا۔
دیکھا دیکھی بہت سے موبائل فون کے ڈیلروں نے دکانیں سجا لیں۔ بہت سے الیکٹرانکس کے کاروباریوں نے دوسری جگہوں سے اس پلازے میں کاروبار منتقل کرنا فائدہ مند پایا۔ اب تو ادھر ادھر کے بزنس والوں نے اس پلازے پر یلغار کر دی۔ کچھ ہی عرصہ میں یہ پلازہ پورے صوبے میں موبائل فون کے کاروبار کی منڈی بن گیا اور اب صبح دس بجے سے رات گئے تک یہاں گاہکوں کا ہجوم ہوتا ہے لیکن جس شخص نے یہ منڈی سجائی وہ شہر میں موجود ہونے کے باوجود آج اس پلازے کی ملک گیر شہرت اور وجود سے بھی لاعلم و لاتعلق اور بیگانہ ہے اور اس کے پیچھے ایک المیہ کہانی ہے۔
ایک طویل عرصہ تک ہماری دوستی رہی۔ میرے جذبات اور یک طرفہ تعلقات اس کے لیے آج بھی وہی ہیں کہ جو تھے لیکن اب میں اس کے لیے اجنبی ہوں کیونکہ نہ اسے پرانا تعلق یاد ہے نہ ہی میرا نام بلکہ یہ بھی معلوم نہیں کہ میرا مکان اس کی رہائش گاہ سے چھ مکان کے فاصلے پر ہے۔ وہ پہلے کی طرح خوش شکل و خوش پوش نظر آئے گا لیکن قیام بیشتر گھر کے اندر جب کہ باہر اپنے کسی نوجوان بیٹے کے ہمراہ اور وہ بھی مختصر وقت کے لیے صرف ایک جگہ سے دوسری جگہ۔ یہ کوئی کہانی نہیں ایک کامیاب اور دولت مند شخص کا ذکر ہے۔
اس دوست نے ملک گیر شہرت والا بزنس ہاؤس بنانے کے بعد متعدد کمرشل عمارتیں تعمیر کیں پھر وہ ملک سے باہر نقل مکانی کر گیا۔ وہ واپس آیا تو ایک روز میں اپنے مکان کی طرف جاتے ہوئے اسے ایک مکان کے دروازے پر کھڑا دیکھ کر رک گیا۔ کار میں سے اتر کر خوشی سے اس کی طرف دوڑا۔ قریب پہنچا تو اس نے مجھے ایک اجنبی کی طرح دیکھا۔
میں ٹھٹھکا اور ذرا تکلف سے پوچھا شیخ صاحب امریکا سے کب لوٹے؟ کیسے ہو؟ بچوں کا کیا حال ہے؟ وہ اسپاٹ چہرے سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ میں اسے زبردستی اپنے گھر لے گیا۔ چائے منگوائی۔ بغیر کوئی بات چیت کیے ہم نے چائے ختم کی۔ پھر وہ جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ باہر آ کر اس نے دائیں بائیں دیکھا اور اپنے مکان کی طرف چل دیا۔ میں ہکا بکا کھڑا اسے جاتے دیکھتا رہا۔
سات سال قبل ہم لوگ ایک دوست کی بیٹی کی شادی میں شامل تھے۔ یہ دوست محترمہ بے نظیر بھٹو کے پریس سیکریٹری رہ چکے ہیں۔ ان کو تقریب کے دوران معلوم ہوا کہ اسپتال میں داخل ان کے والد جو یادداشت کھو چکے تھے، نگرانی کے باوجود کمرے سے نکل گئے ہیں اور کئی گھنٹے سے مل نہیں رہے۔
انھوں نے بے حد تگ و دو کی کہ گمشدہ والد کا سراغ ملے لیکن ابھی تک ان کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ اس دوست نے بتایا کہ تلاش میں ناکامی کی وجہ Alzheimer's نامی بیماری بنی جس کے نتیجے میں یادداشت جواب دے جاتی ہے۔ ہمارے اول الذکر دوست بھی اسی بیماری کا شکار ہوئے ہیں جنھیں اب مجھ سے گہرا تعلق اور باقی تمام کچھ یعنی دوست، رشتہ دار، کاروبار، راستے اور پندرہ بیس سال پرانی ہر بات اور چیز بھول چکی ہے لیکن اپنا بچپن کسی حد تک یاد ہے۔
عام طور پر پچاس سال کی عمر کے بعد بہت سے لوگوں کی یادداشت متاثر ہونے لگتی ہے لیکن ایلزائمر ایک الگ بیماری ہے جس کی وجہ سے یادداشت رفتہ رفتہ کم ہونی شروع ہوتی اور انتہا کو پہنچ کر انسان کو اتنا بے بس کر دیتی ہے کہ اس کی سماجی اور پیشہ ورانہ کارکردگی بھی ختم ہو جاتی ہے۔ دماغ کو پیغام رسانی بند ہو جاتی ہے اور دماغ سکڑ کر ہر اہلیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس بیماری پر ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا اور صرف امریکا میں ایلزائمر کے مریضوں کی تعداد چالیس لاکھ اور برطانیہ میں چار لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
یادداشت کھو دینے کی اس بیماری کو کھوجنے کا سہرا جرمن نیورو پیتھالوجسٹ اور ماہر نفسیات ڈاکٹر ایلوسیس ایلزائمر کے سر ہے اس لیے بیماری کو بھی اسی کا نام دے دیا گیا۔ یہ ڈاکٹر ایک اکاون سالہ بھلکڑ قسم کی عورت کا معالج تھا۔ جب اسے اس نئی قسم کی بیماری کا علم اور مشاہدہ ہوا وہ پریشان ہو گیا تھا۔ جب اس نے دوران علاج مریضہ کے منہ سے یہ فقرہ سنا کہ ''میں نے اپنے آپ کو کھو دیا ہے۔''
اس بیماری کا شکار ہونے والے تو ان گنت ہوں گے لیکن معروف لوگوں میں کھلاڑی، فلم ایکٹر، سیاست دان اور اہل دانش بھی شامل ہیں۔ امریکی صدر رونلڈ ریگن، برطانوی وزیر اعظم ہیرلڈ ولسن، ناولسٹ ٹیری پریٹ چیٹ، نوبل انعام یافتہ چارلس کے کاؤ، بین حر فلم کے ہیرو چارلٹن ہیسٹن اور آغا خاں کی بیگم ریٹا ہیورتھ کا نام اس ظالم بیماری کے حوالے سے لیا جا سکتا ہے لیکن ہم تو اس شاعر کو بھی یاد رکھیں گے جنھوں نے دماغی اور مالی دونوں کی صحت کے بارے میں کہا:
تنگ دستی اگر نہ ہو غالب
تندرستی ہزار نعمت ہے
لیجیے میں بھی اپنے اس سابق سول جج اور ڈویلپر دوست کا نام بھول رہا ہوں۔ اس کا نام قدیر حسن ہے، قدیر خاں ہے، شیخ عبدالقدیر یا قدیر زماں ہے۔ چلیے چھوڑیئے کہ میرا یہ دوست اب بے خبر ہے کہ کبھی ہم دوست تھے۔