حریت پسندوں میں پھوٹ ڈالنے کی نئی کوشش سابق ’را‘ چیف کی کتاب کے متنازع انکشافات
اے ایس دلت نے اپنی کتاب میں را اور آئی ایس آئی کے تعلقات پر بھی خاصی روشنی ڈالی ہے
اس مہینے بھارتی خفیہ ایجنسی' را کے سابق چیف ' اے ایس دلت(امر جیت سنگھ دلت) نے بھارت اور پاکستان میں اپنے انکشافات سے خاصی ہلچل مچائے رکھی۔ دلت سکھ قوم سے تعلق رکھتا ہے۔ 1965ء میں انڈین پولیس سروسز کا حصہ بنا۔ 1969ء میںآئی بی (انٹیلی جنس بیورو) کا سپیشل ڈائریکٹر بنایا گیا۔
1988ء میں مقبوضہ کشمیر میں آئی بی کا ڈائرکٹر رہا۔بعد ازاں آئی بی میں'' کشمیر گروپ'' کا سربراہ مقرر ہوا۔یہ عہدہ طویل عرصہ اس کے پاس رہا۔اسی دوران را میں چلا گیا۔ 1999ء میں را کا چیف مقرر ہوا۔2000ء میں ریٹائرڈ ہو گیا۔ جنوری 2000ء میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے اپنا ''مشیر برائے جموں و کشمیر'' مقرر کیا۔
دلت مئی2004ء تک اس عہدے پر فائز رہا۔ اسے بھارت میں جموں و کشمیر کا معاملات پر اتھارٹی سمجھاجاتا ہے۔ آج کل نیشنل سکیورٹی ایڈوائزری بورڈ کا رکن ہے۔ یہ بورڈ دفاع' جاسوسی، خارجہ' سائنس وٹیکنالوجی اور معاشیات کے امور پر حکومت وقت کو تجاویز و مشورے دیتا ہے۔
بھارت کی 25 سکیورٹی ایجنسیوں میں ''را'' سب سے زیادہ اہم' بڑی اور پُراسرار ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ یوں لگایئے کہ بھارتی پارلیمنٹ اور عدلیہ' دونوں را کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کر سکتیں۔ را کے افسر اور ایجنٹ نہایت راز دارانہ طریقے سے کام کرتے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ہونٹوں پر خاموشی کا قفل لگائے رکھتے ہیں۔ اسی لیے کبھی را کا کوئی افسر انٹرویو دے یا کتاب لکھے تو اسے بہت پذیرائی ملتی ہے۔
را پہ کتابیں
میجر جنرل وی کے سنگھ را کا پہلا اعلیٰ افسر ہے جس نے 2007ء میں اپنی آپ بیتی''India's External Intelligence: Secrets of Research and Analysis Wing (RAW)'' شائع کرائی۔ وی کے سنگھ را میں جوائنٹ سیکرٹری (یا نائب سربراہ ) کے طور پر کام کرتا رہا تھا۔ اس کی کتاب نے بھارت میں خاصی ہلچل مچائی کیونکہ پہلی بار بھارتیوں اور دنیا والوں کو کسی حد تک پتا چلا ' را کے ایجنٹ کس طرح دشمنوں کے خلاف اپنی خفیہ سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ ''سرکاری راز'' افشا کرنے پر وی کے سنگھ معتوب بھی ہوا اور انتہا پسند ہندو رہنماؤں نے اس کے خلاف پرچے کٹوائے۔
2012ء میں را کے اعلیٰ افسر، بی رامن کی سیاسی آپ بیتی ''The Kaoboys & R&AW: Down Memory Lane''شائع ہوئی۔ یہ کتاب بھی را کے خفیہ طریقہ کار پر خاصی روشنی ڈالتی ہے۔ 2014ء میں درمیانے درجے کے را افسر ' آر کے یادیو کی کتاب''Mission R&AW'' سامنے آئی۔
یہ بھی را کی تاریخ اور دوسرے ممالک کے خلاف سرگرمیاں کما حقہ انداز میں بیان کرتی ہے۔ اب اے ایس دلت کی کتاب ''Kashmir: The Vajpayee Years''شائع ہوچکی۔ نام سے عیاں ہے ،یہ کتاب واجپائی دور حکومت کے دوران ریاست جموں وکشمیر میںجنم لینے والے حالات و واقعات پہ مبنی ہے۔ تاہم واجپائی دور کے دیگر واقعات بھی جستہ جستہ اس میں ملتے ہیں۔ اے ایس دلت آپ بیتی نما کتاب تحریر کرنے والا را کا پہلا چیف ہے۔
درج بالا کتاب 4 جون کو شائع ہوئی ' مگراس کی فروخت بہت کم تھی۔ وہ اسی وقت بڑھی جب اواخر جون سے اے ایس دلت کتاب کی بابت بھارتی ٹی وی چینلوں کو انٹرویو دینے لگا۔ اس کے انکشافات نے پھر بھارت اور پاکستان کے اخباروں میں نمایاں جگہ پائی اور راتوں رات اسے ایک مشہور ہستی بنا دیا۔ دلت کی کتاب بھی ''ہاٹ کیک'' کی طرح بکنے لگی۔ کسی سیانے کا قول ہے:'' پبلسٹی وہ احمقانہ عمل ہے جسے ذہین لوگ خفیہ طریقے سے دنیا والوں کو بے وقوف بنانے کے لیے انجام دیتے ہیں۔''
سچ و جھوٹ کا ملغوبہ
اے ایس دلت کی کتاب سچ و جھوٹ کا ملغوبہ ہے۔اس کی مسلسل سعی رہی کہ حریت پسند کشمیری لیڈروں پہ تہمتیں لگائی جائیں۔جبکہ بھارتی حکومت اور اس کے کٹھ پتلی مقامی حکمران ستی ساوتری دکھائی دیتے ہیں۔اس کتاب سے بہرحال یہ سچائی واضح ہو گئی کہ مقبوضہ کشمیر اپنے قبضے میں رکھنے کی خاطر بھارتی حکمران بہت جتن کرتے ہیں۔حریف خریدنے کی خاطر بے دریغ پیسا لٹاتے ، مخالفین کا اتحاد توڑنے کے لیے سازشیں اور تحریک آزادی کشمیر دبانے کی بھرپور کوششیں کرتے ہیں۔
کتاب نے انکشاف کیاکہ کشمیری حریت پسند لیڈر را یعنی بھارتی حکومت سے روپیہ پیسا اور مراعات لیتے رہے ہیں۔ اس تہمت کو تمام کشمیری رہنمائوں نے لغو' بے بنیاد اور جھوٹ قرار دیا۔ اس ضمن میں جموںو کشمیر پارلیمنٹ کے رکن اور عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ' انجینئر راشد کا بیان چشم کشا ہے۔ موصوف اپنی صاف گوئی اور غیر جانبداری کے باعث نوجوان کشمیری لیڈروں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے :
'' دلت کے انکشافات سے یہ لگتا ہے کہ ہر کشمیری رہنما ذاتی مفاد رکھتا ہے۔ یہ ان شہدا کی توہین ہے جنہوںنے تحریک آزادی کشمیر کو کامیاب بنانے کے لیے جانیں د یں۔ دراصل شاطر بھارتی حکمران اے ایس دلت جیسے ایجنٹوں کے ذریعے کوشش کر رہے ہیںکہ کشمیری حریت پسندوں میں پھوٹ ڈلوا دی جائے اور وہ آپس میں لڑ پڑیں۔یوں مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کی تحریک پس پشت چلی جائے گی۔بھارتی حکمران اب اپنے تنخواہ دار ایجنٹوں ' مفتی محمد سعید اور فاروق عبداللہ کی بھی کردار کشی پر اتر آئے۔ مدعا یہی ہے کہ و ہ کشمیریوں کو آپس میں لڑوا کر خود حکومت کر سکیں۔کشمیریوں کو بھارتی حکمرانوں سے حد درجہ ہوشیار رہنا چاہیے۔''
کشمیری لیڈروں میں پھوٹ
اے ایس دلت کے انکشافات میں کچھ سچائی بھی ہو سکتی ہے۔ مگر وہ دشمن کی خطرناک خفیہ ایجنسیوں کا اعلی افسر رہا ہے۔درحقیقت مقبوضہ کشمیر میں دلت کی بنیادی ذمے داری یہی تھی کہ تحریک آبادی کو ناکام بنایا جائے۔مثال کے طور پر ایس اے دلت نے کتاب میں اعتراف کیا ہے کہ 1989ء میں جب مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کا آغاز ہوا تو وہاں اندرونی سلامتی کی ذمے دار بھارتی سکیورٹی ایجنسی ' آئی بی دہشت کی علامت بن چکی تھی۔ آئی بی کے اہلکار کشمیری حریت پسندوں کو اغوا کر کے بے دردی سے تشدد کا نشانہ بناتے۔ ان کے اہل خانہ کو بھی مختلف طریقوں سے خوفزدہ کیا جاتا۔ یوں بھارتی حکومت نے ظلم و تشدد کے ذریعے کشمیریوں کا جذبہ آزادی دبا رکھا تھا۔
کتاب انکشاف کرتی ہے کہ تب مقبوضہ کشمیر میں آئی بی کے بیشتر ایجنٹ' مخبر اور جاسوس کشمیری پنڈت تھے۔ گویا آئی بی نے کشمیری پنڈتوں کی مدد سے مسلمانوں کے خلاف محاذ کھول رکھا تھا۔یہی وجہ ہے ' جب مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں نے 1989میں علم آزادی بلند کیا' تو انہوںنے سب سے پہلے کشمیری پنڈتوں کو نشانہ بنایا۔ تب حریت پسند آئی بی سے منسلک کئی پنڈتوں کو جہنم واصل کر نے میں کامیاب رہے ۔
آزادی پسندوں کی دلیرانہ کارروائیوںسے آئی بی کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی اور کئی اہل کار دم دبا کر مقبوضہ کشمیر سے بھاگ گئے۔حریت پسندوں کی سرگرمیوں کے بعد مقبوضہ کشمیر سے کشمیری پنڈتوں کی بہت بڑی تعداد ہجرت کر گئی۔ اب مودی حکومت ان پنڈتوں کو ''مظلوم و معصوم'' قرار دے کر واپس مقبوضہ کشمیر لانا اور بسانا چاہتی ہے۔ حالانکہ بھارتی حکمرانوں نے انہی پنڈتوں کو آلہ کار بنا کر پُرامن اور بے کس کشمیری مسلمانوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے اور انہیں بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم کر دیا۔
اسی طرح یہ اے ایس دلت ہی ہے جس نے جنگ کارگل کے بعد کشمیری حریت پسندوں میں پھوٹ ڈلوانے کی خاطر ایک اہم بھارتی منصوبے کو عملی شکل دی۔تب حزب المجاہدین مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندں کا سب سے بڑا مسلح گروپ تھا۔ اس کے مجاہدین نے تابڑ توڑ حملوں سے بھارتی فوجیوں کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ گروپ میں مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر' دونوں علاقوں کے مجاہدین شامل تھے۔ کمان سید صلاح الدین کے ہاتھ میں تھی' جبکہ مقبوضہ کشمیر میں عبدالمجید بٹ آپریشنل کمانڈر تھے۔
جنگ کارگل کے بعد بھارتی فوج نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول کی سخت ناکہ بندی کر دی۔سو حزب المجاہدین کو جہادی سرگرمیاں جاری رکھنے کی خاطر آزاد کشمیر کے مخیر و عام افراد سے جو بھاری رقم ملتی تھی' وہ ملنا بند ہو گئی۔ ظاہر ہے' ہر تنظیم پیسے سے چلتی ہے لہٰذا جب پیسا کم ہوا' تو تنظیم کا پورا نظام گڑبڑا گیا۔اسی دوران ایس اے دلت نے عبدالمجید بٹ سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ اگر حزب المجاہدین جنگجوئی چھوڑ دے' تو بھارتی حکومت ''دو ارب روپے'' دینے کو تیار ہے۔ تنظیم کو تب رقم کی اشد ضرورت تھی لہٰذا عبدالمجید بٹ نے یہ پیش کش قبول کر لی۔
اب یہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ عبدالمجید بٹ پیسے کے لالچ میں آ گئے کہ دو ارب روپے معمولی رقم نہیں تھے یا پھر انہوں نے مصلحت سے کام لیا اور عارضی طور پر بھارتی خفیہ ایجنسی سے ہاتھ ملا لیے۔ ان کے قریبی ساتھی دعویٰ کرتے ہیں ' دوران حج عبدالمجید بٹ پر یہ القا ہوا کہ اب انہیں جنگجوئی چھوڑ کر مذاکرات کی میز پر آجانا چاہیے۔بہر حال 24جولائی 2000ء کو عبدالمجید بٹ نے سری نگر میں پریس کانفرنس بلائی اور اعلان کر دیا کہ حزب المجاہدین تین ماہ کے لیے جہادی سرگرمیاں روک رہی ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکے۔
کہا جاتا ہے کہ اس ضمن میں عبدالمجید بٹ کو تنظیم کے امیر' سید صلاح الدین کی بھی حمایت حاصل تھی۔مگر کشمیر میں مصروف کار دیگر جہادی تنظیموں پر یہ اعلان بم بن کر گرا۔ حتیٰ کہ تنظیموں کے نمائندہ گروپ' متحدہ جہاد کونسل نے سید صلاح الدین کو صدر کی حیثیت سے ہٹا دیا۔ یوں بھارتی حکمران را کی مددسے اپنے مذموم مقصد میں کامیاب ہوئے اور انہوں نے کشمیری قیادت کے مابین اختلافات پیدا کر دیئے۔ حزب المجاہدین کے لیڈر اور ساتھی (کارکن) پھردو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ بھارتی استعمار کے خلاف جہاد جاری رکھنے کے حق میں تھا اور دوسرا گروپ مذاکرات کرنے کا ہامی! یوں ایس اے دلت نے جہاد کشمیر کی سب سے بڑی تنظیم کو دولخت کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اپنی عیاری اور چال بازی کے ذریعے کشمیری لیڈروں میں پھوٹ ڈالوانے والے ایس اے د لت سے کیا یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ سچ بولے گا؟ اس کاتو مطمع نظر یہی ہے کہ کشمیری رہنماؤں میں نت نئے اختلافات پیدا کرے اور جہاد کشمیر کو بدنام کرنے کے خاطر جھوٹی باتیں گھڑتا رہے۔سیاسی محاذ پر حریت کانفرنس آزادی پسند کشمیریوں کی سب سے بڑی تنظیم تھی۔ دلت اپنے ایجنٹوں کی مدد سے اس میں جا گھسا اور حریت پسند کشمیریوں کا اتحاد پارہ پارہ کرنے میں کامیاب رہا۔
ہوا یہ کہ ایس اے دلت نے عبدالغنی لون کو اپنے جال میں پھنسا لیا۔ لون وادی کشمیر کے ممتاز رہنما تھے۔ پہلے کانگریس میں شامل رہے پھر 1978ء میں اپنی آزادی پسند جماعت، پیپلزکانفرنس کی بنیاد رکھی۔ بعدازاں 1993 ء میں حریت کانفرنس کی داغ بیل ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن 1999ء میں اے ایس دلت انہیں راہ سے بھٹکانے میں کامیاب رہا۔ اب عبدالغنی لون بھی یہ کہنے لگے کہ کشمیر میں جہاد کا کوئی فائدہ نہیں اور یہ کہ غیرملکی (پاکستانی کشمیری) یہاں سے چلے جائیں۔
یوں را کی کوششوں سے حریت کانفرنس میں پھوٹ پڑ گئی اور مقبوضہ کشمیر میں جہاد کو نقصان پہنچا۔مقبوضہ کشمیر کے مجاہدین پاکستان سے آنے والے جہادیوں کا خیرمقدم کرتے اور بخوشی انہیں اپنی صفوں میں جگہ دیتے ہیں۔ ان مجاہدین کو یہ دیکھ کر سخت صدمہ پہنچا کہ عبدالغنی لون جیسے سمجھدار رہنما 'را 'کے چنگل میں پھنس گئے۔ انہوں نے بہت سعی کی کہ لون را کی گرفت سے نکل آئیں مگر ناکام رہے۔21 مئی 2002ء کو نامعلوم افراد نے عبدالغنی لون کو قتل کر دیا۔
مقتول کے بیٹوں اور ساتھیوں نے فوراً آئی ایس آئی پر یہ الزام لگا دیا کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی نے لون کو مروا ڈالا۔عبدالغنی لون کے بیٹے بھول گئے، ان کا باپ خطرناک بھارتی خفیہ ایجنسی کے چنگل میں جا پھنسا تھا۔ اس ایجنسی کے کرتا دھرتا اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے گدھے کو بھی باپ بنا لیتے ہیں۔ چناں چہ جہاد کشمیر، مجاہدین اور آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کی خاطر عبدالغنی لون کو قتل کرنا را کی سازش ہو سکتی ہے۔
فاروق عبداللہ... بہترین کشمیری لیڈر
را کے سابق چیف نے بھارت کے کٹھ پتلی سابق وزیراعلی مقبوضہ کشمیر' فاروق عبداللہ کو ''بہترین کشمیری لیڈر'' قرار دیا۔ جب بھی موصوف کا ذکر آیا' دلت نے اسے ''ہیرو'' بنا ڈالا ۔وہ لکھتا ہے:کشمیر میں سب سے اہم اور بامقصد لیڈر فاروق عبداللہ ہے۔ وہ قوم پرست اور سیکولر رہنما ہے۔ بھارت کا پہلا وزیراعلیٰ ہے جس نے اپنی ریاست میں پوٹا (POTA) قانون رائج کیا۔ بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اسی قانون کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیاگیا۔''اس پیراگراف میں اے ایس دلت نے آدھا سچ بیان کیا۔ حقیقتاً 2002ء میں بی جے پی حکومت نے مسلمانوں کو ''دہشت گرد'' ثابت کرنیکی خاطر یہ قانون وضع کیا۔ بعد ازاں مقبوضہ کشمیر سے لے کر بنگال تک سیکڑوں مسلمان ''دہشت گرد'' قرار دے کر پکڑ لیے گئے اور ریاستی ظلم وستم کا نشانہ بنے۔
منموہن سنگھ حکومت پر تنقید
کتاب میں سابق را چیف منموہن سنگھ حکومت پر خاصے برسے۔ انہوںنے اس حکومت کو ''کشمیر کے لیے کھویا ہوا دور'' قرار دیا ۔لکھتے ہیں:''2006ء کے موسم سرما میں پاکستانی حکمران صدر پرویز مشرف کی کوشش تھی کہ مسئلہ کشمیر حل ہو جائے۔ یوں وہ تاریخ میں اپنا نام زریں حروف سے لکھوا لیتے۔ مگر منموہن سنگھ کی نااہلی نے ان کا خواب آئینے کی طرح چکنا چور کر ڈالا ۔بعض لوگوں کا دعویٰ ہے' اس ناکامی سے صدر پرویز مشرف اتنے آزردہ ہوئے کہ 11/26کے ممبیٔ حملوں میںا ن کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے۔''
شراب کا رسیا مفتی محمد سعید
اے ایس دلت نے اپنی کتاب کی تشہیر کے لیے انڈیا ٹوڈے ٹی وی کے پروگرام' ٹو دی پوائنٹ میں ایک انٹرویو بھی دیا۔ اس میں دلت نے انکشاف کیا کہ مقبوضہ کشمیر کا کٹھ پتلی وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید شراب کا رسیا تھا۔دلت نے بتایا ''مفتی سعید کو بلیک لیبل وہسکی بہت پسند تھی۔ جب بھی ہماری ملاقات ہوئی' وہ خوب شراب پیتا اور آخر تک گلاس نہ چھوڑتا۔ شراب کی لت کے باعث ہی سرکاری ایوانوں میں اسے ''مفتی وہسکی'' کہا جانے لگا۔ لیکن اب وہ شراب چھوڑ چکا ہے ۔''
شراب اسلام میں حرام ہے او ر اب جدید طبی تحقیق بھی دریافت کر چکی کہ یہ ''ام الخبائث '' انسان کو کئی امراض میں مبتلا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ افسوس' مقبوضہ کشمیرمیں حکومت اب ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جو عادی شراب نوش رہ چکا۔ بی جے پی اور مفتی محمد سعید کی پارٹی، پی ڈی پی مل کر مقبوضہ کشمیر میں حکومت کررہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ 2002ء میں بی جے پی کے وزیراعظم واجپائی پی ڈی پی کی اہم رہنما اور مفتی سعید کی بیٹی، محبوبہ مفتی کو مشکوک سمجھتے تھے۔
واجپائی اور ان کے مشیر برائے قومی سلامتی برجیش مشرا کا خیال تھا کہ محبوبہ مفتی نے حزب المجاہدین اور جماعت اسلامی سے تعلقات قائم کررکھے ہیں۔ اور یہ کہ محبوبہ نے الیکشن 2002ء میں سیٹیں جیتنے کے لیے مجاہدین سے مدد لی تھی۔اسی لیے واجپائی نے کانگریسی رہنماء سونیا گاندھی کو مشورہ دیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی حکومت بنانے کے لیے پی ڈی پی سے مدد نہ لیں۔ تاہم سونیا نے اسے درخور اعتنا نہ سمجھا اور پی ڈی پی کو بھی حکومت میں شریک کیا۔
سید علی گیلانی اور پی ڈی پی
دلت نے اپنی کتاب میں یہ ''دلچسپ'' انکشاف بھی کیا کہ پی ڈی پی کے قیام میں سید علی شاہ گیلانی نے بھی حصہ لیا۔ مگر گیلانی صاحب کے مطابق یہ سفید جھوٹ ہے۔ ان کا کہنا ہے ''پی ڈی پی آئی بی کی تخلیق ہے جو اس لیے بنائی گئی تاکہ بھارتی حکمران خفیہ طریقے سے مقبوضہ کشمیر پر حکومت کرسکیں۔''علاوہ ازیں دلت نے اقرار کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں سید علی گیلانی وہ واحد رہنما ہیںجن سے وہ سر توڑ کوشش کے باوجود نہیں مل سکا۔ یہ اقرار واضح کرتا ہے کہ گیلانی صاحب صحیح معنوں میں کشمیری لیڈر ہیں۔ دوسری طرف بھارت کے حمایتی لیڈروں کی زندگی کا مرکز ہی اقتدار اور پیسا ہے۔
فاروق عبداللہ کو لارے
اے ایس دلت نے اپنے انٹرویو میں بیان کیا کہ وزیراعظم واجپائی 2002ء میں فاروق عبداللہ کو بھارت کا نائب صدر بنوانا چاہتے تھے۔ لیکن آر ایس ایس کے رہنمائوں نے تجویز کی مخالفت کردی۔ اس پر فاروق عبداللہ ناراض و رنجیدہ ہوگیا۔ وہ تو اپنے خوابوں میں خود کو راجیہ سبھا (قصر صدارت) میں بیٹھا دیکھ رہا تھا۔جب واجپائی کو اس ناراضی کا معلوم ہوا تو انہوں نے اسے پیغام بھجوایا۔''آپ عنقریب وفاقی وزیر بننے والے ہیں۔'' چناں چہ وہ دوبارہ ہوائوں میں اڑنے لگا۔ مگر واجپائی صاحب اپنا یہ وعدہ بھی پورا نہیں کرسکے اور فاروق عبداللہ مارے غصّے کے ہاتھ ملتا رہ گیا۔
آگرہ مذاکرات
دلت نے کتاب میں آگرہ مذاکرات پر بھی تفصیل سے لکھا۔ بھارتی نائب وزیراعظم، ایل کے ایڈوانی نے مذاکرات کامیاب نہیں ہونے دیئے اور رنگ میں بھنگ ڈال دی۔ دلت کتاب میں لکھتا ہے:''15 جولائی 2001ء کو پاکستانی صدر، جنرل پرویز مشرف آگرہ پہنچے۔ شام کو ان کی نائب وزیراعظم، ایل کے ایڈوانی سے میٹنگ ہوئی۔ اس میں ایڈوانی کہنے لگے،آپ دائود ابراہیم کو ہمارے حوالے کب کررہے ہیں؟وہ تو پاکستان میں عیش کررہا ہے۔''
اس بات نے پاکستانی صدر کو خاصا حیران کردیا۔ جب معاملے پر مزید باتیں ہوئیں، تو ماحول میں خاصی تلخی پیدا ہوگئی۔ تبھی محسوس ہونے لگا کہ مذاکرات کامیاب ثابت نہیں ہوں گے۔یاد رہے، اسی زمانے میں ایڈوانی بی جے پی میں انتہاپسند ہندو لیڈروں کے لیڈر تھے۔ یہ لیڈر کسی صورت پاکستان سے امن معاہدہ نہیںچاہتے تھے۔ اسی لیے واجپائی کی سعی کے باوجود معاہدہ نہیں ہوسکا۔دلت مزید لکھتے ہیں ''ایک بار برجیش مشرا نے مجھے بتایا'' یار، معاہدہ ہوتے ہوتے رہ گیا...ہوگیا تھا وہ تو!'' واجپائی اور برجیش مشرا پاکستان سے دوستانہ معاہدہ نہ ہونے پر بہت رنجیدہ تھے۔
دلت نے کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ وزیراعظم واجپائی نے حساس و نازک معاملات پہ فیصلے کرنے کی ذمے داری اپنے مشیر قومی سلامتی، برجیش مشراکو سونپ دی تھی۔ چناں چہ وہ حکومت وقت میں طاقتور شخصیت بن گئے۔مگر برجیش مشر اکی قوت نے نائب وزیراعظم، ایل کے ایڈوانی کو حسد میں مبتلا کردیا۔ وہ خود کو حکومت میں کمتر حیثیت پر بیٹھا محسوس کرتے۔ لہٰذا اپنا آپ منوانے کی خاطر وہ مشرا کے فیصلوں کی مخالفت کرنے لگے۔ ان میں پاکستان سے امن معاہدہ نہ کرنے کا فیصلہ بھی شامل تھا جسے ایڈوانی نے آر ایس ایس کے عقابوں کی مدد سے ناکام بنا دیا۔
ہم سے غلطی ہوگئی
دلت نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا ''الیکشن 2004ء میں جب بی جے پی کو شکست ہوگئی، تو میں اٹل بہاری واجپائی سے ملنے گیا۔ ان سے پہلا سوال یہ پوچھا ''جناب یہ کیا ہوا؟''وہ ہنسے اور بولے ''انہیں (کانگریس والوں) بھی نہیں معلوم یہ کیا ہوا۔'' واجپائی پھر کچھ دیر خاموش رہے اور پھر رنجیدہ انداز میں کہنے لگے ''شاید ہم سے گجرات میں غلطی ہوئی ہے۔'' میں نے پھر الیکشن سے متعلق کوئی بات نہیں کی۔
یہ حقیقت ہے کہ 2002ء میں ریاست گجرات کے مسلمانوں کا قتل عام بدترین ریاستی دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اسی دہشت گردی نے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو اتنا مقبول بنا ڈالا کہ آج وہ پورے بھارت کے سیاہ و سفید کا مالک بن چکے ہیں۔
آئی ایس آئی بامقابلہ را
اے ایس دلت نے اپنی کتاب میں را اور آئی ایس آئی کے تعلقات پر بھی خاصی روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتا ہے:
را چیف کی حیثیت سے مجھے ایک شخص سے ملنے کی تمنا تھی مگر اس سے بھی ملاقات نہ ہو سکی۔ میری مراد پاکستان کی حریف ایجنسی آئی ایس آئی سے ہے۔ میرے دور میں دو اشخاص ،جنرل ضیاء الدین بٹ اور جنرل محمود اس ایجنسی کے سربراہ تھے۔ ان دونوں کو یہ جان کر خاصی تکلیف پہنچی ہو گی کہ ہم عبدالمجید ڈار کو اپنی چھتری تلے لانے میں کامیاب رہے۔
یہ نہیں تھا کہ میں آئی ایس آئی چیف سے ملنے کے لیے مرا جا رہا تھا۔ مگر یہ امر باعث تعجب ہے کہ میری سی آئی اے، موساد اور روسی خفیہ ایجنسی کے سربراہوں سے ملاقات رہی۔ حتیٰ کہ میں چینی خفیہ ایجنسی کے چیف سے بھی ملا مگر اپنے قریب ترین حریف سے کبھی ملاقات نہ ہو سکی۔دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہ ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ یوں ایک دوسرے سے تعلق برقرار رہتا ہے۔
مفاہمت کا در بند نہیں ہوتا اور کسی قسم کی نہایت خوفناک صورت حال جنم نہیں لیتی۔ مثال کے طور پر جب سرد جنگ عروج پر تھی تب بھی سی آئی اے اور کے جی بی کے مابین گفت وشنید جاری رہی۔جب کیوبن میزائل بحران پیدا ہوا تب بھی امریکی صدر جان کینیڈی اور سوویت وزیراعظم خروشیف کے مابین مسلسل رابطہ تھا۔ تب ایک دوسرے کو خط لکھے گئے اور ٹیلی فون پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے پاکستانیوں کے ساتھ گفتگو کرنا بند کر دی حالانکہ وہ ہمارے پڑوسی ہیں۔
میں اس نظریے کا حامی ہوں کہ مذاکرات اور گفت وشنید کا در ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد میں نے ہر سطح پر اس نظریے کا پرچار کیا۔ چناںچہ جب بھی غیرسرکاری طور پر دونوں ممالک کے ریٹائرڈ جرنیلوں، دانش وروں، سرکاری افسروں اور صحافیوں کا اکٹھ ہوا، میں اس میں شریک تھا۔
مدعا یہی رہا کہ مسائل گولی کی زبان نہیں الفاظ اور دلائل سے حل ہو سکیں۔لیکن آپ یہ مت سمجھیے کہ آئی ایس آئی اور را کے چیف کبھی نہیں ملے۔ عشرہ 1980ء کے اواخر میں میرے پیش رو ،اے کے ورما اور تب کے آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل کی دو ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ لہٰذا اس قسم کی باہمی ملاقاتوں کا نظریہ خطرناک نہیں بلکہ بعض فوائد رکھتا ہے۔ میں نے انہی فوائد پر سابق آئی ایس آئی چیف ،جنرل اسد درانی کی شراکت میں ایک مقالہ بھی لکھا۔
پاکستانی بھی ہم سے ملنے کے متمنی رہتے ۔ جب میں را کا چیف تھا تو مجھے اکثر دوست انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف سے یہ پیغامات ملتے... تم پاکستانیوں سے ملاقات کیوں نہیں کرتے؟ وہ تم سے ملنے کے خواہش مند ہیں۔اس قسم کے پیغامات کبھی سعودی انٹیلی جنس سے موصول ہوتے، کبھی ایرانیوں کی طرف سے آتے۔ چند بار سری لنکنوں نے بھجوائے ۔حتیٰ کہ ایک بار معاملے سے لاتعلق رہنے والی جنوبی افریقن حکومت نے مجھ سے پوچھا ''تم اور پاکستانی آپس میں بات کیوں نہیں کرتے؟''
بھارتی اور پاکستانی انٹیلی جنس رابطے میں ایک بڑی رکاوٹ امریکا اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسیاں ہیں۔ شاید یہ نہیں چاہتیں کہ ہم باہم مل کر اپنے اختلافات ختم کر لیں۔ یوں علاقے میں ان کا اثرورسوخ ماند پڑ جائے گا۔ ایک دن میں اپنے باس برجیش مصرا کے پاس گیا اور انہیں کہا ''سر! یہ پیغام آتے رہتے ہیں۔ مل کے تو دیکھتے ہیں، اس میں حرج ہی کیا ہے۔ انہیں دیکھ ہی لیں۔''
وہ کہنے لگے ''نہیں نہیں، ابھی وقت نہیں آیا۔''
ممکن ہے، برجیش مشرا نے مجھے ''فاختہ'' سمجھا کیونکہ میں پاکستانیوں سے گفت وشنید کرنا چاہتا تھا ۔تاہم ملاقات کا وقت جلد ہی آ پہنچا۔ہوا یہ کہ نومبر 2003ء میں مقبوضہ کشمیر میں جنگ روکنے کے لیے پاک بھارت امن معاہدہ انجام پایا۔ (ماہرین عسکریت کی رو سے یہ دونوں ممالک کے درمیان اپنی نوعیت کا پہلا امن معاہدہ تھا۔
اسی معاہدے کے ذریعے بھارتیوں نے لائن آف کنٹرول پر خاردار باڑ مکمل کر لی)جب امن معاہدہ ہو گیا تو جنگ بندی کی تفصیل طے کرنے کے لیے تب کے را چیف، سی ڈی سہائے اسلام آباد پہنچے۔ ان کی آئی ایس آئی چیف ،جنرل احسان الحق سے بھی ملاقات ہوئی۔ سہائے کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات نتیجہ خیز رہی۔ اس سال اکتوبر 2003ء تک آزاد کشمیر سے جہادیوں کی مقبوضہ کشمیر آمد بہت کم رہ گئی۔
بعدازاں را نے (کشمیری حریت پسند تنظیم) جیش محمد کی سرگرمیوں کے بارے میں آئی ایس آئی کو معلومات پہنچائیں۔ ان میں یہ خبر بھی شامل تھی کہ تنظیم کے کارکن جنرل پرویز مشرف پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ (وہ جہاد کشمیر ختم کرنے پر جنرل مشرف سے ناراض تھے) خیال ہے کہ اسی خبر کی وجہ سے جنرل مشرف کے حفاظتی اقدامات سخت کر دیئے گئے اور وہ (2004ء میں ہونے والے) حملے سے محفوظ رہے۔کچھ عرصہ بعد سی ڈی سہائے کے جانشین را چیف، پی کے ہومس بھی پاکستان گئے۔ تب جنرل اشفاق پرویز کیانی آئی ایس آئی کے سربراہ تھے جو بعدازاں آرمی چیف بھی مقرر ہوئے۔ ان کے مابین بھی ملاقات ہوئی ۔
1988ء میں مقبوضہ کشمیر میں آئی بی کا ڈائرکٹر رہا۔بعد ازاں آئی بی میں'' کشمیر گروپ'' کا سربراہ مقرر ہوا۔یہ عہدہ طویل عرصہ اس کے پاس رہا۔اسی دوران را میں چلا گیا۔ 1999ء میں را کا چیف مقرر ہوا۔2000ء میں ریٹائرڈ ہو گیا۔ جنوری 2000ء میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے اپنا ''مشیر برائے جموں و کشمیر'' مقرر کیا۔
دلت مئی2004ء تک اس عہدے پر فائز رہا۔ اسے بھارت میں جموں و کشمیر کا معاملات پر اتھارٹی سمجھاجاتا ہے۔ آج کل نیشنل سکیورٹی ایڈوائزری بورڈ کا رکن ہے۔ یہ بورڈ دفاع' جاسوسی، خارجہ' سائنس وٹیکنالوجی اور معاشیات کے امور پر حکومت وقت کو تجاویز و مشورے دیتا ہے۔
بھارت کی 25 سکیورٹی ایجنسیوں میں ''را'' سب سے زیادہ اہم' بڑی اور پُراسرار ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ یوں لگایئے کہ بھارتی پارلیمنٹ اور عدلیہ' دونوں را کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کر سکتیں۔ را کے افسر اور ایجنٹ نہایت راز دارانہ طریقے سے کام کرتے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ہونٹوں پر خاموشی کا قفل لگائے رکھتے ہیں۔ اسی لیے کبھی را کا کوئی افسر انٹرویو دے یا کتاب لکھے تو اسے بہت پذیرائی ملتی ہے۔
را پہ کتابیں
میجر جنرل وی کے سنگھ را کا پہلا اعلیٰ افسر ہے جس نے 2007ء میں اپنی آپ بیتی''India's External Intelligence: Secrets of Research and Analysis Wing (RAW)'' شائع کرائی۔ وی کے سنگھ را میں جوائنٹ سیکرٹری (یا نائب سربراہ ) کے طور پر کام کرتا رہا تھا۔ اس کی کتاب نے بھارت میں خاصی ہلچل مچائی کیونکہ پہلی بار بھارتیوں اور دنیا والوں کو کسی حد تک پتا چلا ' را کے ایجنٹ کس طرح دشمنوں کے خلاف اپنی خفیہ سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ ''سرکاری راز'' افشا کرنے پر وی کے سنگھ معتوب بھی ہوا اور انتہا پسند ہندو رہنماؤں نے اس کے خلاف پرچے کٹوائے۔
2012ء میں را کے اعلیٰ افسر، بی رامن کی سیاسی آپ بیتی ''The Kaoboys & R&AW: Down Memory Lane''شائع ہوئی۔ یہ کتاب بھی را کے خفیہ طریقہ کار پر خاصی روشنی ڈالتی ہے۔ 2014ء میں درمیانے درجے کے را افسر ' آر کے یادیو کی کتاب''Mission R&AW'' سامنے آئی۔
یہ بھی را کی تاریخ اور دوسرے ممالک کے خلاف سرگرمیاں کما حقہ انداز میں بیان کرتی ہے۔ اب اے ایس دلت کی کتاب ''Kashmir: The Vajpayee Years''شائع ہوچکی۔ نام سے عیاں ہے ،یہ کتاب واجپائی دور حکومت کے دوران ریاست جموں وکشمیر میںجنم لینے والے حالات و واقعات پہ مبنی ہے۔ تاہم واجپائی دور کے دیگر واقعات بھی جستہ جستہ اس میں ملتے ہیں۔ اے ایس دلت آپ بیتی نما کتاب تحریر کرنے والا را کا پہلا چیف ہے۔
درج بالا کتاب 4 جون کو شائع ہوئی ' مگراس کی فروخت بہت کم تھی۔ وہ اسی وقت بڑھی جب اواخر جون سے اے ایس دلت کتاب کی بابت بھارتی ٹی وی چینلوں کو انٹرویو دینے لگا۔ اس کے انکشافات نے پھر بھارت اور پاکستان کے اخباروں میں نمایاں جگہ پائی اور راتوں رات اسے ایک مشہور ہستی بنا دیا۔ دلت کی کتاب بھی ''ہاٹ کیک'' کی طرح بکنے لگی۔ کسی سیانے کا قول ہے:'' پبلسٹی وہ احمقانہ عمل ہے جسے ذہین لوگ خفیہ طریقے سے دنیا والوں کو بے وقوف بنانے کے لیے انجام دیتے ہیں۔''
سچ و جھوٹ کا ملغوبہ
اے ایس دلت کی کتاب سچ و جھوٹ کا ملغوبہ ہے۔اس کی مسلسل سعی رہی کہ حریت پسند کشمیری لیڈروں پہ تہمتیں لگائی جائیں۔جبکہ بھارتی حکومت اور اس کے کٹھ پتلی مقامی حکمران ستی ساوتری دکھائی دیتے ہیں۔اس کتاب سے بہرحال یہ سچائی واضح ہو گئی کہ مقبوضہ کشمیر اپنے قبضے میں رکھنے کی خاطر بھارتی حکمران بہت جتن کرتے ہیں۔حریف خریدنے کی خاطر بے دریغ پیسا لٹاتے ، مخالفین کا اتحاد توڑنے کے لیے سازشیں اور تحریک آزادی کشمیر دبانے کی بھرپور کوششیں کرتے ہیں۔
کتاب نے انکشاف کیاکہ کشمیری حریت پسند لیڈر را یعنی بھارتی حکومت سے روپیہ پیسا اور مراعات لیتے رہے ہیں۔ اس تہمت کو تمام کشمیری رہنمائوں نے لغو' بے بنیاد اور جھوٹ قرار دیا۔ اس ضمن میں جموںو کشمیر پارلیمنٹ کے رکن اور عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ' انجینئر راشد کا بیان چشم کشا ہے۔ موصوف اپنی صاف گوئی اور غیر جانبداری کے باعث نوجوان کشمیری لیڈروں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے :
'' دلت کے انکشافات سے یہ لگتا ہے کہ ہر کشمیری رہنما ذاتی مفاد رکھتا ہے۔ یہ ان شہدا کی توہین ہے جنہوںنے تحریک آزادی کشمیر کو کامیاب بنانے کے لیے جانیں د یں۔ دراصل شاطر بھارتی حکمران اے ایس دلت جیسے ایجنٹوں کے ذریعے کوشش کر رہے ہیںکہ کشمیری حریت پسندوں میں پھوٹ ڈلوا دی جائے اور وہ آپس میں لڑ پڑیں۔یوں مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کی تحریک پس پشت چلی جائے گی۔بھارتی حکمران اب اپنے تنخواہ دار ایجنٹوں ' مفتی محمد سعید اور فاروق عبداللہ کی بھی کردار کشی پر اتر آئے۔ مدعا یہی ہے کہ و ہ کشمیریوں کو آپس میں لڑوا کر خود حکومت کر سکیں۔کشمیریوں کو بھارتی حکمرانوں سے حد درجہ ہوشیار رہنا چاہیے۔''
کشمیری لیڈروں میں پھوٹ
اے ایس دلت کے انکشافات میں کچھ سچائی بھی ہو سکتی ہے۔ مگر وہ دشمن کی خطرناک خفیہ ایجنسیوں کا اعلی افسر رہا ہے۔درحقیقت مقبوضہ کشمیر میں دلت کی بنیادی ذمے داری یہی تھی کہ تحریک آبادی کو ناکام بنایا جائے۔مثال کے طور پر ایس اے دلت نے کتاب میں اعتراف کیا ہے کہ 1989ء میں جب مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کا آغاز ہوا تو وہاں اندرونی سلامتی کی ذمے دار بھارتی سکیورٹی ایجنسی ' آئی بی دہشت کی علامت بن چکی تھی۔ آئی بی کے اہلکار کشمیری حریت پسندوں کو اغوا کر کے بے دردی سے تشدد کا نشانہ بناتے۔ ان کے اہل خانہ کو بھی مختلف طریقوں سے خوفزدہ کیا جاتا۔ یوں بھارتی حکومت نے ظلم و تشدد کے ذریعے کشمیریوں کا جذبہ آزادی دبا رکھا تھا۔
کتاب انکشاف کرتی ہے کہ تب مقبوضہ کشمیر میں آئی بی کے بیشتر ایجنٹ' مخبر اور جاسوس کشمیری پنڈت تھے۔ گویا آئی بی نے کشمیری پنڈتوں کی مدد سے مسلمانوں کے خلاف محاذ کھول رکھا تھا۔یہی وجہ ہے ' جب مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں نے 1989میں علم آزادی بلند کیا' تو انہوںنے سب سے پہلے کشمیری پنڈتوں کو نشانہ بنایا۔ تب حریت پسند آئی بی سے منسلک کئی پنڈتوں کو جہنم واصل کر نے میں کامیاب رہے ۔
آزادی پسندوں کی دلیرانہ کارروائیوںسے آئی بی کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی اور کئی اہل کار دم دبا کر مقبوضہ کشمیر سے بھاگ گئے۔حریت پسندوں کی سرگرمیوں کے بعد مقبوضہ کشمیر سے کشمیری پنڈتوں کی بہت بڑی تعداد ہجرت کر گئی۔ اب مودی حکومت ان پنڈتوں کو ''مظلوم و معصوم'' قرار دے کر واپس مقبوضہ کشمیر لانا اور بسانا چاہتی ہے۔ حالانکہ بھارتی حکمرانوں نے انہی پنڈتوں کو آلہ کار بنا کر پُرامن اور بے کس کشمیری مسلمانوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے اور انہیں بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم کر دیا۔
اسی طرح یہ اے ایس دلت ہی ہے جس نے جنگ کارگل کے بعد کشمیری حریت پسندوں میں پھوٹ ڈلوانے کی خاطر ایک اہم بھارتی منصوبے کو عملی شکل دی۔تب حزب المجاہدین مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندں کا سب سے بڑا مسلح گروپ تھا۔ اس کے مجاہدین نے تابڑ توڑ حملوں سے بھارتی فوجیوں کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ گروپ میں مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر' دونوں علاقوں کے مجاہدین شامل تھے۔ کمان سید صلاح الدین کے ہاتھ میں تھی' جبکہ مقبوضہ کشمیر میں عبدالمجید بٹ آپریشنل کمانڈر تھے۔
جنگ کارگل کے بعد بھارتی فوج نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول کی سخت ناکہ بندی کر دی۔سو حزب المجاہدین کو جہادی سرگرمیاں جاری رکھنے کی خاطر آزاد کشمیر کے مخیر و عام افراد سے جو بھاری رقم ملتی تھی' وہ ملنا بند ہو گئی۔ ظاہر ہے' ہر تنظیم پیسے سے چلتی ہے لہٰذا جب پیسا کم ہوا' تو تنظیم کا پورا نظام گڑبڑا گیا۔اسی دوران ایس اے دلت نے عبدالمجید بٹ سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ اگر حزب المجاہدین جنگجوئی چھوڑ دے' تو بھارتی حکومت ''دو ارب روپے'' دینے کو تیار ہے۔ تنظیم کو تب رقم کی اشد ضرورت تھی لہٰذا عبدالمجید بٹ نے یہ پیش کش قبول کر لی۔
اب یہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ عبدالمجید بٹ پیسے کے لالچ میں آ گئے کہ دو ارب روپے معمولی رقم نہیں تھے یا پھر انہوں نے مصلحت سے کام لیا اور عارضی طور پر بھارتی خفیہ ایجنسی سے ہاتھ ملا لیے۔ ان کے قریبی ساتھی دعویٰ کرتے ہیں ' دوران حج عبدالمجید بٹ پر یہ القا ہوا کہ اب انہیں جنگجوئی چھوڑ کر مذاکرات کی میز پر آجانا چاہیے۔بہر حال 24جولائی 2000ء کو عبدالمجید بٹ نے سری نگر میں پریس کانفرنس بلائی اور اعلان کر دیا کہ حزب المجاہدین تین ماہ کے لیے جہادی سرگرمیاں روک رہی ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکے۔
کہا جاتا ہے کہ اس ضمن میں عبدالمجید بٹ کو تنظیم کے امیر' سید صلاح الدین کی بھی حمایت حاصل تھی۔مگر کشمیر میں مصروف کار دیگر جہادی تنظیموں پر یہ اعلان بم بن کر گرا۔ حتیٰ کہ تنظیموں کے نمائندہ گروپ' متحدہ جہاد کونسل نے سید صلاح الدین کو صدر کی حیثیت سے ہٹا دیا۔ یوں بھارتی حکمران را کی مددسے اپنے مذموم مقصد میں کامیاب ہوئے اور انہوں نے کشمیری قیادت کے مابین اختلافات پیدا کر دیئے۔ حزب المجاہدین کے لیڈر اور ساتھی (کارکن) پھردو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ بھارتی استعمار کے خلاف جہاد جاری رکھنے کے حق میں تھا اور دوسرا گروپ مذاکرات کرنے کا ہامی! یوں ایس اے دلت نے جہاد کشمیر کی سب سے بڑی تنظیم کو دولخت کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اپنی عیاری اور چال بازی کے ذریعے کشمیری لیڈروں میں پھوٹ ڈالوانے والے ایس اے د لت سے کیا یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ سچ بولے گا؟ اس کاتو مطمع نظر یہی ہے کہ کشمیری رہنماؤں میں نت نئے اختلافات پیدا کرے اور جہاد کشمیر کو بدنام کرنے کے خاطر جھوٹی باتیں گھڑتا رہے۔سیاسی محاذ پر حریت کانفرنس آزادی پسند کشمیریوں کی سب سے بڑی تنظیم تھی۔ دلت اپنے ایجنٹوں کی مدد سے اس میں جا گھسا اور حریت پسند کشمیریوں کا اتحاد پارہ پارہ کرنے میں کامیاب رہا۔
ہوا یہ کہ ایس اے دلت نے عبدالغنی لون کو اپنے جال میں پھنسا لیا۔ لون وادی کشمیر کے ممتاز رہنما تھے۔ پہلے کانگریس میں شامل رہے پھر 1978ء میں اپنی آزادی پسند جماعت، پیپلزکانفرنس کی بنیاد رکھی۔ بعدازاں 1993 ء میں حریت کانفرنس کی داغ بیل ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن 1999ء میں اے ایس دلت انہیں راہ سے بھٹکانے میں کامیاب رہا۔ اب عبدالغنی لون بھی یہ کہنے لگے کہ کشمیر میں جہاد کا کوئی فائدہ نہیں اور یہ کہ غیرملکی (پاکستانی کشمیری) یہاں سے چلے جائیں۔
یوں را کی کوششوں سے حریت کانفرنس میں پھوٹ پڑ گئی اور مقبوضہ کشمیر میں جہاد کو نقصان پہنچا۔مقبوضہ کشمیر کے مجاہدین پاکستان سے آنے والے جہادیوں کا خیرمقدم کرتے اور بخوشی انہیں اپنی صفوں میں جگہ دیتے ہیں۔ ان مجاہدین کو یہ دیکھ کر سخت صدمہ پہنچا کہ عبدالغنی لون جیسے سمجھدار رہنما 'را 'کے چنگل میں پھنس گئے۔ انہوں نے بہت سعی کی کہ لون را کی گرفت سے نکل آئیں مگر ناکام رہے۔21 مئی 2002ء کو نامعلوم افراد نے عبدالغنی لون کو قتل کر دیا۔
مقتول کے بیٹوں اور ساتھیوں نے فوراً آئی ایس آئی پر یہ الزام لگا دیا کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی نے لون کو مروا ڈالا۔عبدالغنی لون کے بیٹے بھول گئے، ان کا باپ خطرناک بھارتی خفیہ ایجنسی کے چنگل میں جا پھنسا تھا۔ اس ایجنسی کے کرتا دھرتا اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے گدھے کو بھی باپ بنا لیتے ہیں۔ چناں چہ جہاد کشمیر، مجاہدین اور آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کی خاطر عبدالغنی لون کو قتل کرنا را کی سازش ہو سکتی ہے۔
فاروق عبداللہ... بہترین کشمیری لیڈر
را کے سابق چیف نے بھارت کے کٹھ پتلی سابق وزیراعلی مقبوضہ کشمیر' فاروق عبداللہ کو ''بہترین کشمیری لیڈر'' قرار دیا۔ جب بھی موصوف کا ذکر آیا' دلت نے اسے ''ہیرو'' بنا ڈالا ۔وہ لکھتا ہے:کشمیر میں سب سے اہم اور بامقصد لیڈر فاروق عبداللہ ہے۔ وہ قوم پرست اور سیکولر رہنما ہے۔ بھارت کا پہلا وزیراعلیٰ ہے جس نے اپنی ریاست میں پوٹا (POTA) قانون رائج کیا۔ بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اسی قانون کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیاگیا۔''اس پیراگراف میں اے ایس دلت نے آدھا سچ بیان کیا۔ حقیقتاً 2002ء میں بی جے پی حکومت نے مسلمانوں کو ''دہشت گرد'' ثابت کرنیکی خاطر یہ قانون وضع کیا۔ بعد ازاں مقبوضہ کشمیر سے لے کر بنگال تک سیکڑوں مسلمان ''دہشت گرد'' قرار دے کر پکڑ لیے گئے اور ریاستی ظلم وستم کا نشانہ بنے۔
منموہن سنگھ حکومت پر تنقید
کتاب میں سابق را چیف منموہن سنگھ حکومت پر خاصے برسے۔ انہوںنے اس حکومت کو ''کشمیر کے لیے کھویا ہوا دور'' قرار دیا ۔لکھتے ہیں:''2006ء کے موسم سرما میں پاکستانی حکمران صدر پرویز مشرف کی کوشش تھی کہ مسئلہ کشمیر حل ہو جائے۔ یوں وہ تاریخ میں اپنا نام زریں حروف سے لکھوا لیتے۔ مگر منموہن سنگھ کی نااہلی نے ان کا خواب آئینے کی طرح چکنا چور کر ڈالا ۔بعض لوگوں کا دعویٰ ہے' اس ناکامی سے صدر پرویز مشرف اتنے آزردہ ہوئے کہ 11/26کے ممبیٔ حملوں میںا ن کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے۔''
شراب کا رسیا مفتی محمد سعید
اے ایس دلت نے اپنی کتاب کی تشہیر کے لیے انڈیا ٹوڈے ٹی وی کے پروگرام' ٹو دی پوائنٹ میں ایک انٹرویو بھی دیا۔ اس میں دلت نے انکشاف کیا کہ مقبوضہ کشمیر کا کٹھ پتلی وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید شراب کا رسیا تھا۔دلت نے بتایا ''مفتی سعید کو بلیک لیبل وہسکی بہت پسند تھی۔ جب بھی ہماری ملاقات ہوئی' وہ خوب شراب پیتا اور آخر تک گلاس نہ چھوڑتا۔ شراب کی لت کے باعث ہی سرکاری ایوانوں میں اسے ''مفتی وہسکی'' کہا جانے لگا۔ لیکن اب وہ شراب چھوڑ چکا ہے ۔''
شراب اسلام میں حرام ہے او ر اب جدید طبی تحقیق بھی دریافت کر چکی کہ یہ ''ام الخبائث '' انسان کو کئی امراض میں مبتلا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ افسوس' مقبوضہ کشمیرمیں حکومت اب ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جو عادی شراب نوش رہ چکا۔ بی جے پی اور مفتی محمد سعید کی پارٹی، پی ڈی پی مل کر مقبوضہ کشمیر میں حکومت کررہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ 2002ء میں بی جے پی کے وزیراعظم واجپائی پی ڈی پی کی اہم رہنما اور مفتی سعید کی بیٹی، محبوبہ مفتی کو مشکوک سمجھتے تھے۔
واجپائی اور ان کے مشیر برائے قومی سلامتی برجیش مشرا کا خیال تھا کہ محبوبہ مفتی نے حزب المجاہدین اور جماعت اسلامی سے تعلقات قائم کررکھے ہیں۔ اور یہ کہ محبوبہ نے الیکشن 2002ء میں سیٹیں جیتنے کے لیے مجاہدین سے مدد لی تھی۔اسی لیے واجپائی نے کانگریسی رہنماء سونیا گاندھی کو مشورہ دیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی حکومت بنانے کے لیے پی ڈی پی سے مدد نہ لیں۔ تاہم سونیا نے اسے درخور اعتنا نہ سمجھا اور پی ڈی پی کو بھی حکومت میں شریک کیا۔
سید علی گیلانی اور پی ڈی پی
دلت نے اپنی کتاب میں یہ ''دلچسپ'' انکشاف بھی کیا کہ پی ڈی پی کے قیام میں سید علی شاہ گیلانی نے بھی حصہ لیا۔ مگر گیلانی صاحب کے مطابق یہ سفید جھوٹ ہے۔ ان کا کہنا ہے ''پی ڈی پی آئی بی کی تخلیق ہے جو اس لیے بنائی گئی تاکہ بھارتی حکمران خفیہ طریقے سے مقبوضہ کشمیر پر حکومت کرسکیں۔''علاوہ ازیں دلت نے اقرار کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں سید علی گیلانی وہ واحد رہنما ہیںجن سے وہ سر توڑ کوشش کے باوجود نہیں مل سکا۔ یہ اقرار واضح کرتا ہے کہ گیلانی صاحب صحیح معنوں میں کشمیری لیڈر ہیں۔ دوسری طرف بھارت کے حمایتی لیڈروں کی زندگی کا مرکز ہی اقتدار اور پیسا ہے۔
فاروق عبداللہ کو لارے
اے ایس دلت نے اپنے انٹرویو میں بیان کیا کہ وزیراعظم واجپائی 2002ء میں فاروق عبداللہ کو بھارت کا نائب صدر بنوانا چاہتے تھے۔ لیکن آر ایس ایس کے رہنمائوں نے تجویز کی مخالفت کردی۔ اس پر فاروق عبداللہ ناراض و رنجیدہ ہوگیا۔ وہ تو اپنے خوابوں میں خود کو راجیہ سبھا (قصر صدارت) میں بیٹھا دیکھ رہا تھا۔جب واجپائی کو اس ناراضی کا معلوم ہوا تو انہوں نے اسے پیغام بھجوایا۔''آپ عنقریب وفاقی وزیر بننے والے ہیں۔'' چناں چہ وہ دوبارہ ہوائوں میں اڑنے لگا۔ مگر واجپائی صاحب اپنا یہ وعدہ بھی پورا نہیں کرسکے اور فاروق عبداللہ مارے غصّے کے ہاتھ ملتا رہ گیا۔
آگرہ مذاکرات
دلت نے کتاب میں آگرہ مذاکرات پر بھی تفصیل سے لکھا۔ بھارتی نائب وزیراعظم، ایل کے ایڈوانی نے مذاکرات کامیاب نہیں ہونے دیئے اور رنگ میں بھنگ ڈال دی۔ دلت کتاب میں لکھتا ہے:''15 جولائی 2001ء کو پاکستانی صدر، جنرل پرویز مشرف آگرہ پہنچے۔ شام کو ان کی نائب وزیراعظم، ایل کے ایڈوانی سے میٹنگ ہوئی۔ اس میں ایڈوانی کہنے لگے،آپ دائود ابراہیم کو ہمارے حوالے کب کررہے ہیں؟وہ تو پاکستان میں عیش کررہا ہے۔''
اس بات نے پاکستانی صدر کو خاصا حیران کردیا۔ جب معاملے پر مزید باتیں ہوئیں، تو ماحول میں خاصی تلخی پیدا ہوگئی۔ تبھی محسوس ہونے لگا کہ مذاکرات کامیاب ثابت نہیں ہوں گے۔یاد رہے، اسی زمانے میں ایڈوانی بی جے پی میں انتہاپسند ہندو لیڈروں کے لیڈر تھے۔ یہ لیڈر کسی صورت پاکستان سے امن معاہدہ نہیںچاہتے تھے۔ اسی لیے واجپائی کی سعی کے باوجود معاہدہ نہیں ہوسکا۔دلت مزید لکھتے ہیں ''ایک بار برجیش مشرا نے مجھے بتایا'' یار، معاہدہ ہوتے ہوتے رہ گیا...ہوگیا تھا وہ تو!'' واجپائی اور برجیش مشرا پاکستان سے دوستانہ معاہدہ نہ ہونے پر بہت رنجیدہ تھے۔
دلت نے کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ وزیراعظم واجپائی نے حساس و نازک معاملات پہ فیصلے کرنے کی ذمے داری اپنے مشیر قومی سلامتی، برجیش مشراکو سونپ دی تھی۔ چناں چہ وہ حکومت وقت میں طاقتور شخصیت بن گئے۔مگر برجیش مشر اکی قوت نے نائب وزیراعظم، ایل کے ایڈوانی کو حسد میں مبتلا کردیا۔ وہ خود کو حکومت میں کمتر حیثیت پر بیٹھا محسوس کرتے۔ لہٰذا اپنا آپ منوانے کی خاطر وہ مشرا کے فیصلوں کی مخالفت کرنے لگے۔ ان میں پاکستان سے امن معاہدہ نہ کرنے کا فیصلہ بھی شامل تھا جسے ایڈوانی نے آر ایس ایس کے عقابوں کی مدد سے ناکام بنا دیا۔
ہم سے غلطی ہوگئی
دلت نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا ''الیکشن 2004ء میں جب بی جے پی کو شکست ہوگئی، تو میں اٹل بہاری واجپائی سے ملنے گیا۔ ان سے پہلا سوال یہ پوچھا ''جناب یہ کیا ہوا؟''وہ ہنسے اور بولے ''انہیں (کانگریس والوں) بھی نہیں معلوم یہ کیا ہوا۔'' واجپائی پھر کچھ دیر خاموش رہے اور پھر رنجیدہ انداز میں کہنے لگے ''شاید ہم سے گجرات میں غلطی ہوئی ہے۔'' میں نے پھر الیکشن سے متعلق کوئی بات نہیں کی۔
یہ حقیقت ہے کہ 2002ء میں ریاست گجرات کے مسلمانوں کا قتل عام بدترین ریاستی دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اسی دہشت گردی نے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو اتنا مقبول بنا ڈالا کہ آج وہ پورے بھارت کے سیاہ و سفید کا مالک بن چکے ہیں۔
آئی ایس آئی بامقابلہ را
اے ایس دلت نے اپنی کتاب میں را اور آئی ایس آئی کے تعلقات پر بھی خاصی روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتا ہے:
را چیف کی حیثیت سے مجھے ایک شخص سے ملنے کی تمنا تھی مگر اس سے بھی ملاقات نہ ہو سکی۔ میری مراد پاکستان کی حریف ایجنسی آئی ایس آئی سے ہے۔ میرے دور میں دو اشخاص ،جنرل ضیاء الدین بٹ اور جنرل محمود اس ایجنسی کے سربراہ تھے۔ ان دونوں کو یہ جان کر خاصی تکلیف پہنچی ہو گی کہ ہم عبدالمجید ڈار کو اپنی چھتری تلے لانے میں کامیاب رہے۔
یہ نہیں تھا کہ میں آئی ایس آئی چیف سے ملنے کے لیے مرا جا رہا تھا۔ مگر یہ امر باعث تعجب ہے کہ میری سی آئی اے، موساد اور روسی خفیہ ایجنسی کے سربراہوں سے ملاقات رہی۔ حتیٰ کہ میں چینی خفیہ ایجنسی کے چیف سے بھی ملا مگر اپنے قریب ترین حریف سے کبھی ملاقات نہ ہو سکی۔دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہ ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ یوں ایک دوسرے سے تعلق برقرار رہتا ہے۔
مفاہمت کا در بند نہیں ہوتا اور کسی قسم کی نہایت خوفناک صورت حال جنم نہیں لیتی۔ مثال کے طور پر جب سرد جنگ عروج پر تھی تب بھی سی آئی اے اور کے جی بی کے مابین گفت وشنید جاری رہی۔جب کیوبن میزائل بحران پیدا ہوا تب بھی امریکی صدر جان کینیڈی اور سوویت وزیراعظم خروشیف کے مابین مسلسل رابطہ تھا۔ تب ایک دوسرے کو خط لکھے گئے اور ٹیلی فون پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے پاکستانیوں کے ساتھ گفتگو کرنا بند کر دی حالانکہ وہ ہمارے پڑوسی ہیں۔
میں اس نظریے کا حامی ہوں کہ مذاکرات اور گفت وشنید کا در ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد میں نے ہر سطح پر اس نظریے کا پرچار کیا۔ چناںچہ جب بھی غیرسرکاری طور پر دونوں ممالک کے ریٹائرڈ جرنیلوں، دانش وروں، سرکاری افسروں اور صحافیوں کا اکٹھ ہوا، میں اس میں شریک تھا۔
مدعا یہی رہا کہ مسائل گولی کی زبان نہیں الفاظ اور دلائل سے حل ہو سکیں۔لیکن آپ یہ مت سمجھیے کہ آئی ایس آئی اور را کے چیف کبھی نہیں ملے۔ عشرہ 1980ء کے اواخر میں میرے پیش رو ،اے کے ورما اور تب کے آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل کی دو ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ لہٰذا اس قسم کی باہمی ملاقاتوں کا نظریہ خطرناک نہیں بلکہ بعض فوائد رکھتا ہے۔ میں نے انہی فوائد پر سابق آئی ایس آئی چیف ،جنرل اسد درانی کی شراکت میں ایک مقالہ بھی لکھا۔
پاکستانی بھی ہم سے ملنے کے متمنی رہتے ۔ جب میں را کا چیف تھا تو مجھے اکثر دوست انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف سے یہ پیغامات ملتے... تم پاکستانیوں سے ملاقات کیوں نہیں کرتے؟ وہ تم سے ملنے کے خواہش مند ہیں۔اس قسم کے پیغامات کبھی سعودی انٹیلی جنس سے موصول ہوتے، کبھی ایرانیوں کی طرف سے آتے۔ چند بار سری لنکنوں نے بھجوائے ۔حتیٰ کہ ایک بار معاملے سے لاتعلق رہنے والی جنوبی افریقن حکومت نے مجھ سے پوچھا ''تم اور پاکستانی آپس میں بات کیوں نہیں کرتے؟''
بھارتی اور پاکستانی انٹیلی جنس رابطے میں ایک بڑی رکاوٹ امریکا اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسیاں ہیں۔ شاید یہ نہیں چاہتیں کہ ہم باہم مل کر اپنے اختلافات ختم کر لیں۔ یوں علاقے میں ان کا اثرورسوخ ماند پڑ جائے گا۔ ایک دن میں اپنے باس برجیش مصرا کے پاس گیا اور انہیں کہا ''سر! یہ پیغام آتے رہتے ہیں۔ مل کے تو دیکھتے ہیں، اس میں حرج ہی کیا ہے۔ انہیں دیکھ ہی لیں۔''
وہ کہنے لگے ''نہیں نہیں، ابھی وقت نہیں آیا۔''
ممکن ہے، برجیش مشرا نے مجھے ''فاختہ'' سمجھا کیونکہ میں پاکستانیوں سے گفت وشنید کرنا چاہتا تھا ۔تاہم ملاقات کا وقت جلد ہی آ پہنچا۔ہوا یہ کہ نومبر 2003ء میں مقبوضہ کشمیر میں جنگ روکنے کے لیے پاک بھارت امن معاہدہ انجام پایا۔ (ماہرین عسکریت کی رو سے یہ دونوں ممالک کے درمیان اپنی نوعیت کا پہلا امن معاہدہ تھا۔
اسی معاہدے کے ذریعے بھارتیوں نے لائن آف کنٹرول پر خاردار باڑ مکمل کر لی)جب امن معاہدہ ہو گیا تو جنگ بندی کی تفصیل طے کرنے کے لیے تب کے را چیف، سی ڈی سہائے اسلام آباد پہنچے۔ ان کی آئی ایس آئی چیف ،جنرل احسان الحق سے بھی ملاقات ہوئی۔ سہائے کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات نتیجہ خیز رہی۔ اس سال اکتوبر 2003ء تک آزاد کشمیر سے جہادیوں کی مقبوضہ کشمیر آمد بہت کم رہ گئی۔
بعدازاں را نے (کشمیری حریت پسند تنظیم) جیش محمد کی سرگرمیوں کے بارے میں آئی ایس آئی کو معلومات پہنچائیں۔ ان میں یہ خبر بھی شامل تھی کہ تنظیم کے کارکن جنرل پرویز مشرف پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ (وہ جہاد کشمیر ختم کرنے پر جنرل مشرف سے ناراض تھے) خیال ہے کہ اسی خبر کی وجہ سے جنرل مشرف کے حفاظتی اقدامات سخت کر دیئے گئے اور وہ (2004ء میں ہونے والے) حملے سے محفوظ رہے۔کچھ عرصہ بعد سی ڈی سہائے کے جانشین را چیف، پی کے ہومس بھی پاکستان گئے۔ تب جنرل اشفاق پرویز کیانی آئی ایس آئی کے سربراہ تھے جو بعدازاں آرمی چیف بھی مقرر ہوئے۔ ان کے مابین بھی ملاقات ہوئی ۔