سامراجی عزائم
جس جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کا انتظار تھا آخرکار وہ منظر عام پر آ گئی۔ اس پر مختلف قسم کے تبصرے سامنے آ رہے ہیں۔
جس جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کا انتظار تھا آخرکار وہ منظر عام پر آ گئی۔ اس پر مختلف قسم کے تبصرے سامنے آ رہے ہیں۔ ن لیگ کی خوشی دیدنی ہے جب کہ پی ٹی آئی والے مایوسی کا شکار ہیں۔ بقول ان کے جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ ان کے لیے غیرمتوقع ہے جب کہ اگر ماضی کا جائزہ لیا جائے تو نواز شریف ہمیشہ ہی مقدر کے سکندر ثابت ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی والوں سے غلطی یہ ہوئی کہ انھوں نے ماضی کو سامنے نہیں رکھا اور حال سے امیدیں وابستہ کر لیں۔ ان کی سادہ لوحی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ وہ اس خوشی فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ تبدیلی آ گئی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تبدیلی کوئی نہیں آئی۔ جو ہے وہ نظر کا دھوکا ہے۔ اسٹیٹس کو ویسا کا ویسا ہی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ... پرو نواز شریف قوتیں اس ملک میں بہت طاقتور ہیں۔ رائز اینڈ رائز آف نواز شریف کا ایک طویل پس منظر ہے۔
1970ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کا پاکستانی سیاست پر چھا جانا اور عوام میں ان کی بے پناہ اور حیرت انگیز پذیرائی نہ صرف پاکستان کے حکمران طبقوں بلکہ بین الاقوامی قوتوں کے لیے بھی ناقابل قبول تھی۔ اس میں شہنشاہ ایران سے لے کر مشرق وسطیٰ کی عرب بادشاہتیں بھی شامل تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے انقلابی اور عوامی نعروں سے اس سامراجی سازش کو خطرے میں ڈال دیا تھا جو سوویت یونین کے خلاف جاری تھی۔ نہ عرب بادشاہتوں کو نہ شہنشاہ ایران کو یہ انقلابی جمہوری صورتحال وارہ کھاتی تھی کیونکہ ان کے ہاں تو بادشاہت کا وہ ہزاروں سال پرانا نظام قائم تھا جس میں تمام اختیار و اقتدار ایک فرد واحد یا چند لوگوں کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور مجبور عوام محض غلام۔ اس پس منظر میں جمہوریت وہ چھوٹ کی بیماری تھی جو مشرق وسطیٰ میں سرایت کر کے عرب بادشاہتوں اور آمریتوں کا خاتمہ کر سکتی تھی۔ چنانچہ اس خطرے سے بچنے کے لیے شہنشاہ ایران کی فرمائش پر بلوچستان میں بار بار فوجی آپریشن کیے گئے۔
سرد جنگ عروج پر تھی۔ اس صورتحال میں ذوالفقار علی بھٹو کباب میں ہڈی بن کر رہ گئے۔ امریکی سامراج یہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ سوویت یونین کے خاتمے کا ایجنڈا جس پر 1917ء کے انقلاب کے بعد کام شروع ہو گیا تھا وہ ناکامی سے دوچار ہو۔ اس ایجنڈے کے تحت اگر مشرق وسطیٰ میں سامراج کی وفادار بادشاہتیں قائم کی گئیں تو برصغیر کو بھی آزادی مل گئی تاکہ سامراج دشمن عوامی سوشلسٹ انقلاب سے برصغیر کو محفوظ رکھا جا سکے۔ انگریز اور امریکی آقاؤں نے فیصلہ کیا کہ بھارت میں جمہوریت چلے گی اور پاکستان میں آمریت چنانچہ جلد ہی پاکستان میں جمہوریت کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا کیونکہ مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک سامراجی تیل کے مفادات عرب بادشاہتوں اور اسرائیل کے تحفظ کے لیے پاکستان میں آمریت درکار تھی۔ چنانچہ سازش پر عمل شروع ہو گیا۔
سب سے پہلے ترقی پسند لبرل بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو مشکوک انداز میں راستے سے ہٹایا گیا پھر باری آئی لیاقت علی خان کی جنھیں راولپنڈی میں سرعام گولی مار کر قتل کیا گیا اور ثبوت مٹانے کے لیے ان کے قاتل کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا گیا پھر باری آئی بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح کی جنھیں الیکشن میں ہرا دیا گیا۔ اندازہ لگائیں وہ بہن جس کو قائداعظم نے کہا تھا کہ اگر فاطمہ میرا ساتھ نہ دیتی تو پاکستان نہ بن پاتا۔ آخر میں فاطمہ جناح بھی دنیا سے چلی گئیں۔ یہ ہوا بانی پاکستان، ان کی بہن اور دوسرے ساتھیوں کا حشر۔ یہ سب ضروری تھا کیونکہ اس کے بغیر سوویت یونین کا خاتمہ نہیں ہو سکتا تھا۔
آپ اندازہ لگائیں سامراج کی اس زبردست پلاننگ پر جس کا آغاز بیسویں صدی کے آغاز سے ہوا جس پر عملدرآمد مرحلہ وار ہوا یہاں تک کہ پاکستان کو توڑ دیا گیا۔ اب بساط تیار تھی سوویت یونین سے لڑائی کے لیے لیکن اس سے بھی بہت پہلے قیام پاکستان کے آغاز کے فوراً بعد سامراج نے قدامت پسندوں کو طاقتور بنانے کا آغاز کر دیا۔ قائداعظم کی تعلیمات کے بالکل برعکس مذہبی شدت پسندی اور مذہبی انتہاپسندی کو پروان چڑھا گیا جس کی کوکھ سے دہشتگردی اور دہشتگرد پیدا ہوئے۔ پاکستان میں شدت پسندی کا یہ ماحول اگر ایک طرف مشرق وسطیٰ کی بادشاہتوں کی بقاء کے لیے ضروری تھا تو دوسری طرف یہ امریکی سامراج کو بھی سوٹ کرتا تھا کہ اس کے بطن سے وہ جنگجو پیدا ہوئے جنہوں نے سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑ کر امریکا کو دنیا کی واحد سپر طاقت بنا دیا جب کہ اس جنگ میں لاکھوں مسلمان مارے گئے۔ حیرت انگیز ناقابل یقین بات یہ ہے کہ اس جنگ میں امریکا کا ایک بھی فوجی نہیں مارا گیا۔
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد پاکستانی عوام میں بھٹو ازم کے خاتمے کے لیے ضروری تھا کہ ایک ایسی سیاسی قیادت متعارف کرائی جائے جس کا تعلق پنجاب سے ہو چنانچہ جنرل ضیاء الحق کی سرپرستی میں جناب نواز شریف کی سیاست کا آغاز ہوا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انھوں نے بینظیر کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ تو دوسری طرف بھٹو ازم کے خاتمے کے لیے کراچی اور سندھ کے شہروں میں مہاجر کارڈ استعمال کیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج پی پی پی اندرون سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ پنجاب میں نواز شریف کے طویل دور اقتدار نے پیپلزپارٹی کا خاتمہ کر دیا۔ اس طرح نادیدہ قوتوں کے پیپلزپارٹی کے خاتمے کا وہ مشن مکمل ہوا جس کا آغاز 1970ء کی دہائی کے وسط سے ہوا۔ تو اس حساب سے تو ن لیگ اور ایم کیو ایم اپنے مقاصد حاصل کر چکی ہیں۔ اب ایک نئے دور کا آغاز ہونا ہے۔
٭ اس سال کا آخر اور اگلے سال کا شروع حکومت کے لیے مشکلات کا دور ہے۔ اگر وہ اس سے کسی طرح گزر گئی تو حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔
سیل فون: 0346-4537997۔
1970ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کا پاکستانی سیاست پر چھا جانا اور عوام میں ان کی بے پناہ اور حیرت انگیز پذیرائی نہ صرف پاکستان کے حکمران طبقوں بلکہ بین الاقوامی قوتوں کے لیے بھی ناقابل قبول تھی۔ اس میں شہنشاہ ایران سے لے کر مشرق وسطیٰ کی عرب بادشاہتیں بھی شامل تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے انقلابی اور عوامی نعروں سے اس سامراجی سازش کو خطرے میں ڈال دیا تھا جو سوویت یونین کے خلاف جاری تھی۔ نہ عرب بادشاہتوں کو نہ شہنشاہ ایران کو یہ انقلابی جمہوری صورتحال وارہ کھاتی تھی کیونکہ ان کے ہاں تو بادشاہت کا وہ ہزاروں سال پرانا نظام قائم تھا جس میں تمام اختیار و اقتدار ایک فرد واحد یا چند لوگوں کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور مجبور عوام محض غلام۔ اس پس منظر میں جمہوریت وہ چھوٹ کی بیماری تھی جو مشرق وسطیٰ میں سرایت کر کے عرب بادشاہتوں اور آمریتوں کا خاتمہ کر سکتی تھی۔ چنانچہ اس خطرے سے بچنے کے لیے شہنشاہ ایران کی فرمائش پر بلوچستان میں بار بار فوجی آپریشن کیے گئے۔
سرد جنگ عروج پر تھی۔ اس صورتحال میں ذوالفقار علی بھٹو کباب میں ہڈی بن کر رہ گئے۔ امریکی سامراج یہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ سوویت یونین کے خاتمے کا ایجنڈا جس پر 1917ء کے انقلاب کے بعد کام شروع ہو گیا تھا وہ ناکامی سے دوچار ہو۔ اس ایجنڈے کے تحت اگر مشرق وسطیٰ میں سامراج کی وفادار بادشاہتیں قائم کی گئیں تو برصغیر کو بھی آزادی مل گئی تاکہ سامراج دشمن عوامی سوشلسٹ انقلاب سے برصغیر کو محفوظ رکھا جا سکے۔ انگریز اور امریکی آقاؤں نے فیصلہ کیا کہ بھارت میں جمہوریت چلے گی اور پاکستان میں آمریت چنانچہ جلد ہی پاکستان میں جمہوریت کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا کیونکہ مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک سامراجی تیل کے مفادات عرب بادشاہتوں اور اسرائیل کے تحفظ کے لیے پاکستان میں آمریت درکار تھی۔ چنانچہ سازش پر عمل شروع ہو گیا۔
سب سے پہلے ترقی پسند لبرل بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو مشکوک انداز میں راستے سے ہٹایا گیا پھر باری آئی لیاقت علی خان کی جنھیں راولپنڈی میں سرعام گولی مار کر قتل کیا گیا اور ثبوت مٹانے کے لیے ان کے قاتل کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا گیا پھر باری آئی بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح کی جنھیں الیکشن میں ہرا دیا گیا۔ اندازہ لگائیں وہ بہن جس کو قائداعظم نے کہا تھا کہ اگر فاطمہ میرا ساتھ نہ دیتی تو پاکستان نہ بن پاتا۔ آخر میں فاطمہ جناح بھی دنیا سے چلی گئیں۔ یہ ہوا بانی پاکستان، ان کی بہن اور دوسرے ساتھیوں کا حشر۔ یہ سب ضروری تھا کیونکہ اس کے بغیر سوویت یونین کا خاتمہ نہیں ہو سکتا تھا۔
آپ اندازہ لگائیں سامراج کی اس زبردست پلاننگ پر جس کا آغاز بیسویں صدی کے آغاز سے ہوا جس پر عملدرآمد مرحلہ وار ہوا یہاں تک کہ پاکستان کو توڑ دیا گیا۔ اب بساط تیار تھی سوویت یونین سے لڑائی کے لیے لیکن اس سے بھی بہت پہلے قیام پاکستان کے آغاز کے فوراً بعد سامراج نے قدامت پسندوں کو طاقتور بنانے کا آغاز کر دیا۔ قائداعظم کی تعلیمات کے بالکل برعکس مذہبی شدت پسندی اور مذہبی انتہاپسندی کو پروان چڑھا گیا جس کی کوکھ سے دہشتگردی اور دہشتگرد پیدا ہوئے۔ پاکستان میں شدت پسندی کا یہ ماحول اگر ایک طرف مشرق وسطیٰ کی بادشاہتوں کی بقاء کے لیے ضروری تھا تو دوسری طرف یہ امریکی سامراج کو بھی سوٹ کرتا تھا کہ اس کے بطن سے وہ جنگجو پیدا ہوئے جنہوں نے سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑ کر امریکا کو دنیا کی واحد سپر طاقت بنا دیا جب کہ اس جنگ میں لاکھوں مسلمان مارے گئے۔ حیرت انگیز ناقابل یقین بات یہ ہے کہ اس جنگ میں امریکا کا ایک بھی فوجی نہیں مارا گیا۔
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد پاکستانی عوام میں بھٹو ازم کے خاتمے کے لیے ضروری تھا کہ ایک ایسی سیاسی قیادت متعارف کرائی جائے جس کا تعلق پنجاب سے ہو چنانچہ جنرل ضیاء الحق کی سرپرستی میں جناب نواز شریف کی سیاست کا آغاز ہوا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انھوں نے بینظیر کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ تو دوسری طرف بھٹو ازم کے خاتمے کے لیے کراچی اور سندھ کے شہروں میں مہاجر کارڈ استعمال کیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج پی پی پی اندرون سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ پنجاب میں نواز شریف کے طویل دور اقتدار نے پیپلزپارٹی کا خاتمہ کر دیا۔ اس طرح نادیدہ قوتوں کے پیپلزپارٹی کے خاتمے کا وہ مشن مکمل ہوا جس کا آغاز 1970ء کی دہائی کے وسط سے ہوا۔ تو اس حساب سے تو ن لیگ اور ایم کیو ایم اپنے مقاصد حاصل کر چکی ہیں۔ اب ایک نئے دور کا آغاز ہونا ہے۔
٭ اس سال کا آخر اور اگلے سال کا شروع حکومت کے لیے مشکلات کا دور ہے۔ اگر وہ اس سے کسی طرح گزر گئی تو حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔
سیل فون: 0346-4537997۔