قائد اعظم اور اردو زبان
پارسی، گھانچی، بوہری، ترک، میمن کے علاوہ احمد آباد کے رہنے والے ہندو زبان بولتے ہیں جیسے گاندھی جی۔
محمد علی جناح کی پیدائش ایک گجراتی خاندان میں ہوئی تھی۔ پارسی، گھانچی، بوہری، ترک، میمن کے علاوہ احمد آباد کے رہنے والے ہندو زبان بولتے ہیں جیسے گاندھی جی۔ اردو سے قائداعظم کی واقفیت اسکول کے زمانے تک تو نظر نہیں آتی۔ سندھ مدرسۃ الاسلام میں انگریزی اور سندھی پڑھی۔ انگلینڈ گئے تو صرف اور صرف انگلش۔ وکیل بنے تو اس زبان سے واقف ہوئے جو قانون کی زبان کہلاتی ہے۔ جب سیاست میں آئے تو اس راہ کے مسافر اس دور میں وہ ہوتے جو انگریزی سے واقف ہوتے۔ قائد کی تقریر سنتے ہوئے جب دیہاتی سے پوچھا گیا کہ تم کیوں تالیاں بجا رہے ہو؟ اس کا جواب تھا کہ ''میں اس آدمی کی زبان تو نہیں سمجھ رہا لیکن یہ جانتا ہوں کہ یہ جو کچھ کہہ رہا ہے وہ سچ ہے۔'' قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل قائد نے اپنی تقریر میں اردو میں چند جملے ادا کیے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے سامنے حلف برداری کی تقریب کے بعد کی تقاریر بھی انگریزی میں تھیں۔ فاطمہ جناح کے ساتھ گھر میں عموماً گجراتی اور انگریزی میں گفتگو ہوتی۔
قائداعظم نے اردو کو پاکستان کی واحد قومی زبان کیوں قرار دیا؟ اس دانش کے پیچھے کیا حکمت کارفرما تھی؟ ہم دیکھتے ہیں کہ بچپن میں ان کا سابقہ گجراتی سے پڑا تو پھر اس کے بعد آخری عمر تک انگریزی سے۔ قائد نے یہ فیصلہ دل کے بجائے دماغ سے کیا تھا۔ اگر اردو ان کی مادری زبان ہوتی اور ان کا واسطہ رہتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ انھوں نے اپنی زبان کو اہمیت دی۔ چند سطحی ذہن کے لوگ سرزمین بنگال پر قائد کے اس فیصلے کو نامناسب قرار دیتے ہیں جب کہ عقل و منطق کے لحاظ سے ان کی دلیل ماند پڑ جاتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ قائد کا فیصلہ کتنا صحیح تھا۔
اردو رابطے کی زبان ہے اور پاکستان کو یکجا رکھنے کا ذریعہ ہے۔ ایک سندھی اور پنجابی ساتھ بیٹھے ہوں تو وہ کس زبان میں بات کریں گے؟ اردو میں۔ اگر بنگالی اور پٹھان ہم سفر ہوں تو ان کی گفتگو کا ذریعہ کیا ہوگا؟ اگر ایک کشمیری اور بلوچ ایک دفتر میں کام کر رہے ہیں تو کیا وہ اشاروں کی مدد سے بات کریں گے؟ اس رابطے کی زبان کو قائد نے قومی زبان قرار دیا جسے بنگالیوں کی اکثریت نہ سمجھ سکی۔ چونکہ قائد نے اردو کے حوالے سے سب سے پہلی بات سرزمین بنگال پر کہی اسی لیے ہم تجزیہ کرتے ہیں کہ کون کس حد تک درست ہے۔
بنگالی جانتے تھے کہ علیحدہ وطن کے لیے ان کی جدوجہد پنجابیوں، پٹھانوں، سندھیوں، بلوچوں اور کشمیریوں کے ساتھ ہے۔ اگر بنگالیوں کو اپنی ثقافت و تہذیب و زبان سے اتنا ہی لگاؤ تھا تو انھیں مغربی بنگال سے الگ ہونے کی ضرورت نہ تھی۔ اپنے صوبے کو دو حصوں میں بانٹنے کا فیصلہ ان کی اپنی رضامندی سے ہوا تھا۔ یہ وہ موقع تھا جب بنگالیوں کے پاس دو راستے تھے۔ ہندوستان کے ویسٹ پاکستان کے مہمان یا ویسٹ بنگال کے بنگالی۔ مغربی پاکستان کے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے، حج کرتے اور عمرے پر جاتے۔ وہ چاہتے تو پنجابیوں اور سندھیوں سے زکوٰۃ لیتے اور دیتے۔ اگر خواہش ہوتی تو پختون و بلوچوں کو رشتہ دیتے اور لیتے۔ یہ سارے کام وہ اپنے ہندو بنگالیوں کے ساتھ نہیں کرسکتے تھے۔ بنگالیوں کے پاس دوسرا راستہ کیا تھا؟
وہ چاہتے تو اپنے بنگال کو متحد رکھتے اور ہندوستان کے ایک صوبے کے طور پر ان کے ساتھ زندگی گزارتے۔ اس طرح بنگال کی ثقافت، تہذیب و زبان دو حصوں میں نہ بٹتی۔ بنگالی مسلمان اس طرح اپنے ہندو بنگالی بھائیوں کے ساتھ مل کر مچھلی چاول کھاتے اور سونار بنگلہ کا نعرہ لگاتے۔ اسی طرح وہ ان کے ساتھ کشتی میں سفر کرتے اور ساڑھی و دھوتی کے کلچر کو پروان چڑھاتے۔ یہ وہ دوسرا راستہ تھا جس پر چل کر بنگالی مسلمان اپنے ہندو بنگالیوں کے ساتھ مل کر رابندر ناتھ ٹیگور اور نذرالاسلام کو پڑھتے۔ ان دو راستوں میں سے بنگالیوں نے پہلا راستہ چنا۔ انھوں نے مذہب کے نام پر اپنے صوبے کا بٹوارا کرکے ہندو مذہب کو ماننے والے بنگالیوں سے اپنے آپ کو الگ کرلیا۔ انھوں نے مغربی پاکستان کے پنجابی مسلمانوں، کلمہ گو سندھیوں، حج پر جانے والے بلوچوں، عمرہ کرنے والے کشمیریوں اور روزہ رکھنے والے پٹھانوں کے ساتھ اپنا رشتہ اور راستہ جوڑا۔ کیا بنگالی منزل پانے کے بعد الجھن کا شکار ہوگئے تھے؟
قائداعظم جیسے عظیم مفکر و دانشور تو کیا ایک عام آدمی بھی بنگالیوں کے اس فیصلے کو دیکھ کر سمجھ سکتا تھا کہ بنگالی ایک وطن کی خاطر وقتی طور پر اپنی زبان و تہذیب کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ بنگالی یہ نہ کرسکے۔ آبادی، آبادی 54 فیصد آبادی کا ڈھول اتنی زور سے پیٹا گیا کہ اس شور میں سب آوازیں دب کر رہ گئیں۔ آج ان کی آبادی ہم سے کم ہے۔ اب اسے کیا نام دیں؟ قسمت کے کس خانے میں ڈالیں۔
کیا اردو مغربی پاکستان کی زبان تھی؟ یہ سب کی زبان تھی اور کسی کی زبان نہ تھی۔اس دور میں بہت زیادہ آبادی دیہاتوں میں رہتی تھی۔ کراچی، لاہور، ملتان، گوجرانوالہ، حیدر آباد، پشاور اور کوئٹہ کی آبادی ملاکر بھی تیس لاکھ نہ تھی۔ تین کروڑ کی آبادی میں اس کا تناسب بہت ہی کم تھا۔ نوے فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی تھی۔ دیہاتوں کی زبان کون سی ہوتی ہے؟ ظاہر ہے کہ پنجاب میں پنجابی، سندھ میں سندھی، کشمیر میں کشمیری اور بلوچستان میں بلوچی بولی جاتی ہوگی۔ اردو تو رابطے کی زبان تھی۔ یوں اردو کو مغربی پاکستان کی زبان کہہ کر زیادہ آبادی پر کم آبادی والوں کی زبان تھوپنے کا الزام عائد کیا گیا۔ صوبائی خودمختاری کا نقطہ بنگالی نہ سمجھ سکے۔ یہ طے تھا کہ مشرقی پاکستان کی صوبائی زبان بنگالی ہوگی۔ ان کے صوبے میں اس زبان کو لاگو کرنے سے انھیں کس نے روکا تھا۔ سائن بورڈ سے لے کر درود و استغفار تک بنگالی میں ہوتے۔ انھیں اپنی صوبائی اسمبلی میں بنگالی میں تقریر کرنے سے کس نے منع کیا تھا۔
ہندوستان کی قومی زبان ہندی قرار پائی۔ اس کے خلاف تو کلکتے کے بنگالیوں نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ ویسٹ بنگال کی اسمبلی نے مطالبہ نہیں کیا کہ بنگالی کو بھی ہندی کی طرح قومی زبان بنایا جائے۔ جس طرح بھارت میں ہندی رابطے کی زبان ہے اسی طرح پاکستان میں اردو زبان رابطے کی زبان ہے۔ اس کا خواہ مخواہ دوسری علاقائی زبانوں سے ٹکراؤ پیدا نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ہماری وہ نفسیاتی کیفیت ہے جو ہم پچھلی ایک صدی سے دیکھتے آرہے ہیں۔ ہندی کو اردو سے متصادم قرار دیا گیا۔ غیر منقسم ہندوستان میں کھجور کے درخت اور اونٹ کو اسلام اور گائے اور پیپل کے درخت کو ہندوازم سے وابستہ کیا گیا تھا۔ پاکستان میں بنگالی اور اردو کو خوامخواہ ایک دوسرے سے مقابل سمجھا گیا۔ اب پچھلی نصف صدی سے اردو کے فروغ کی بات کی جائے تو اسے انگریزی سے دوری اختیار کرنے کی پالیسی سمجھا جاتا ہے۔
اگر ہمیں ایک وطن میں متحد رہنا ہے تو ہمیں اتحاد والی باتوں کو فروغ دینا ہوگا۔ جس طرح قومی پارٹیاں، ریڈیو پاکستان ، ریلوے، کرکٹ، ہاکی اور پی ٹی وی ہمارے اتحاد کی علامتیں ہیں اسی طرح اردو بھی اتحاد کی علامت ہے۔ آج ہم بڑی آسانی سے ایک ارب ہندوؤں سے گفتگو کرسکتے ہیں۔ جسے ہم اردو کہتے ہیں اسے وہ ہندی کہتے ہیں۔ ہمارے پاس پندرہ کروڑ بنگلہ دیشی مسلمانوں سے رابطے کی کوئی زبان نہیں کہ اردو سے وہ دور ہوگئے۔ ان کی بنگالی کہیں نہیں بھاگی جا رہی تھی۔ آج بنگلہ دیشی اردو سے ناواقفیت کی بنا پر پاک و ہند کے ڈیڑھ ارب انسانوں سے رابطے میں نہیں ہیں۔ ٹی وی پر جس آسانی سے بھارتی و پاکستانی بات کرسکتے ہیں وہ بے تکلفی سابقہ مغربی پاکستانیوں سے نہیں۔ بنگالی اس اہم بات کو نہ سمجھ سکے جو سرزمین بنگال پر کہی تھی قائد اعظم نے اردو زبان کے حوالے سے۔
قائداعظم نے اردو کو پاکستان کی واحد قومی زبان کیوں قرار دیا؟ اس دانش کے پیچھے کیا حکمت کارفرما تھی؟ ہم دیکھتے ہیں کہ بچپن میں ان کا سابقہ گجراتی سے پڑا تو پھر اس کے بعد آخری عمر تک انگریزی سے۔ قائد نے یہ فیصلہ دل کے بجائے دماغ سے کیا تھا۔ اگر اردو ان کی مادری زبان ہوتی اور ان کا واسطہ رہتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ انھوں نے اپنی زبان کو اہمیت دی۔ چند سطحی ذہن کے لوگ سرزمین بنگال پر قائد کے اس فیصلے کو نامناسب قرار دیتے ہیں جب کہ عقل و منطق کے لحاظ سے ان کی دلیل ماند پڑ جاتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ قائد کا فیصلہ کتنا صحیح تھا۔
اردو رابطے کی زبان ہے اور پاکستان کو یکجا رکھنے کا ذریعہ ہے۔ ایک سندھی اور پنجابی ساتھ بیٹھے ہوں تو وہ کس زبان میں بات کریں گے؟ اردو میں۔ اگر بنگالی اور پٹھان ہم سفر ہوں تو ان کی گفتگو کا ذریعہ کیا ہوگا؟ اگر ایک کشمیری اور بلوچ ایک دفتر میں کام کر رہے ہیں تو کیا وہ اشاروں کی مدد سے بات کریں گے؟ اس رابطے کی زبان کو قائد نے قومی زبان قرار دیا جسے بنگالیوں کی اکثریت نہ سمجھ سکی۔ چونکہ قائد نے اردو کے حوالے سے سب سے پہلی بات سرزمین بنگال پر کہی اسی لیے ہم تجزیہ کرتے ہیں کہ کون کس حد تک درست ہے۔
بنگالی جانتے تھے کہ علیحدہ وطن کے لیے ان کی جدوجہد پنجابیوں، پٹھانوں، سندھیوں، بلوچوں اور کشمیریوں کے ساتھ ہے۔ اگر بنگالیوں کو اپنی ثقافت و تہذیب و زبان سے اتنا ہی لگاؤ تھا تو انھیں مغربی بنگال سے الگ ہونے کی ضرورت نہ تھی۔ اپنے صوبے کو دو حصوں میں بانٹنے کا فیصلہ ان کی اپنی رضامندی سے ہوا تھا۔ یہ وہ موقع تھا جب بنگالیوں کے پاس دو راستے تھے۔ ہندوستان کے ویسٹ پاکستان کے مہمان یا ویسٹ بنگال کے بنگالی۔ مغربی پاکستان کے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے، حج کرتے اور عمرے پر جاتے۔ وہ چاہتے تو پنجابیوں اور سندھیوں سے زکوٰۃ لیتے اور دیتے۔ اگر خواہش ہوتی تو پختون و بلوچوں کو رشتہ دیتے اور لیتے۔ یہ سارے کام وہ اپنے ہندو بنگالیوں کے ساتھ نہیں کرسکتے تھے۔ بنگالیوں کے پاس دوسرا راستہ کیا تھا؟
وہ چاہتے تو اپنے بنگال کو متحد رکھتے اور ہندوستان کے ایک صوبے کے طور پر ان کے ساتھ زندگی گزارتے۔ اس طرح بنگال کی ثقافت، تہذیب و زبان دو حصوں میں نہ بٹتی۔ بنگالی مسلمان اس طرح اپنے ہندو بنگالی بھائیوں کے ساتھ مل کر مچھلی چاول کھاتے اور سونار بنگلہ کا نعرہ لگاتے۔ اسی طرح وہ ان کے ساتھ کشتی میں سفر کرتے اور ساڑھی و دھوتی کے کلچر کو پروان چڑھاتے۔ یہ وہ دوسرا راستہ تھا جس پر چل کر بنگالی مسلمان اپنے ہندو بنگالیوں کے ساتھ مل کر رابندر ناتھ ٹیگور اور نذرالاسلام کو پڑھتے۔ ان دو راستوں میں سے بنگالیوں نے پہلا راستہ چنا۔ انھوں نے مذہب کے نام پر اپنے صوبے کا بٹوارا کرکے ہندو مذہب کو ماننے والے بنگالیوں سے اپنے آپ کو الگ کرلیا۔ انھوں نے مغربی پاکستان کے پنجابی مسلمانوں، کلمہ گو سندھیوں، حج پر جانے والے بلوچوں، عمرہ کرنے والے کشمیریوں اور روزہ رکھنے والے پٹھانوں کے ساتھ اپنا رشتہ اور راستہ جوڑا۔ کیا بنگالی منزل پانے کے بعد الجھن کا شکار ہوگئے تھے؟
قائداعظم جیسے عظیم مفکر و دانشور تو کیا ایک عام آدمی بھی بنگالیوں کے اس فیصلے کو دیکھ کر سمجھ سکتا تھا کہ بنگالی ایک وطن کی خاطر وقتی طور پر اپنی زبان و تہذیب کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ بنگالی یہ نہ کرسکے۔ آبادی، آبادی 54 فیصد آبادی کا ڈھول اتنی زور سے پیٹا گیا کہ اس شور میں سب آوازیں دب کر رہ گئیں۔ آج ان کی آبادی ہم سے کم ہے۔ اب اسے کیا نام دیں؟ قسمت کے کس خانے میں ڈالیں۔
کیا اردو مغربی پاکستان کی زبان تھی؟ یہ سب کی زبان تھی اور کسی کی زبان نہ تھی۔اس دور میں بہت زیادہ آبادی دیہاتوں میں رہتی تھی۔ کراچی، لاہور، ملتان، گوجرانوالہ، حیدر آباد، پشاور اور کوئٹہ کی آبادی ملاکر بھی تیس لاکھ نہ تھی۔ تین کروڑ کی آبادی میں اس کا تناسب بہت ہی کم تھا۔ نوے فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی تھی۔ دیہاتوں کی زبان کون سی ہوتی ہے؟ ظاہر ہے کہ پنجاب میں پنجابی، سندھ میں سندھی، کشمیر میں کشمیری اور بلوچستان میں بلوچی بولی جاتی ہوگی۔ اردو تو رابطے کی زبان تھی۔ یوں اردو کو مغربی پاکستان کی زبان کہہ کر زیادہ آبادی پر کم آبادی والوں کی زبان تھوپنے کا الزام عائد کیا گیا۔ صوبائی خودمختاری کا نقطہ بنگالی نہ سمجھ سکے۔ یہ طے تھا کہ مشرقی پاکستان کی صوبائی زبان بنگالی ہوگی۔ ان کے صوبے میں اس زبان کو لاگو کرنے سے انھیں کس نے روکا تھا۔ سائن بورڈ سے لے کر درود و استغفار تک بنگالی میں ہوتے۔ انھیں اپنی صوبائی اسمبلی میں بنگالی میں تقریر کرنے سے کس نے منع کیا تھا۔
ہندوستان کی قومی زبان ہندی قرار پائی۔ اس کے خلاف تو کلکتے کے بنگالیوں نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ ویسٹ بنگال کی اسمبلی نے مطالبہ نہیں کیا کہ بنگالی کو بھی ہندی کی طرح قومی زبان بنایا جائے۔ جس طرح بھارت میں ہندی رابطے کی زبان ہے اسی طرح پاکستان میں اردو زبان رابطے کی زبان ہے۔ اس کا خواہ مخواہ دوسری علاقائی زبانوں سے ٹکراؤ پیدا نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ہماری وہ نفسیاتی کیفیت ہے جو ہم پچھلی ایک صدی سے دیکھتے آرہے ہیں۔ ہندی کو اردو سے متصادم قرار دیا گیا۔ غیر منقسم ہندوستان میں کھجور کے درخت اور اونٹ کو اسلام اور گائے اور پیپل کے درخت کو ہندوازم سے وابستہ کیا گیا تھا۔ پاکستان میں بنگالی اور اردو کو خوامخواہ ایک دوسرے سے مقابل سمجھا گیا۔ اب پچھلی نصف صدی سے اردو کے فروغ کی بات کی جائے تو اسے انگریزی سے دوری اختیار کرنے کی پالیسی سمجھا جاتا ہے۔
اگر ہمیں ایک وطن میں متحد رہنا ہے تو ہمیں اتحاد والی باتوں کو فروغ دینا ہوگا۔ جس طرح قومی پارٹیاں، ریڈیو پاکستان ، ریلوے، کرکٹ، ہاکی اور پی ٹی وی ہمارے اتحاد کی علامتیں ہیں اسی طرح اردو بھی اتحاد کی علامت ہے۔ آج ہم بڑی آسانی سے ایک ارب ہندوؤں سے گفتگو کرسکتے ہیں۔ جسے ہم اردو کہتے ہیں اسے وہ ہندی کہتے ہیں۔ ہمارے پاس پندرہ کروڑ بنگلہ دیشی مسلمانوں سے رابطے کی کوئی زبان نہیں کہ اردو سے وہ دور ہوگئے۔ ان کی بنگالی کہیں نہیں بھاگی جا رہی تھی۔ آج بنگلہ دیشی اردو سے ناواقفیت کی بنا پر پاک و ہند کے ڈیڑھ ارب انسانوں سے رابطے میں نہیں ہیں۔ ٹی وی پر جس آسانی سے بھارتی و پاکستانی بات کرسکتے ہیں وہ بے تکلفی سابقہ مغربی پاکستانیوں سے نہیں۔ بنگالی اس اہم بات کو نہ سمجھ سکے جو سرزمین بنگال پر کہی تھی قائد اعظم نے اردو زبان کے حوالے سے۔