بے حس سُوچی
برمی مسلمانوں کے خلاف ظلم کی ایک نئی لہر نے پھر سے سر اٹھایا ہے۔
ISLAMABAD:
برمی مسلمانوں کے خلاف ظلم کی ایک نئی لہر نے پھر سے سر اٹھایا ہے۔ 26جولائی 2015 کو برمی شدت پسند بُدھوں نے بندوقوں اور بھالوں سے مجبور اور بے آسرا مسلمانوں پر ایک بڑا نیا حملہ کیا ہے۔ میانمار، جسے کبھی ''برما'' بھی کہا جاتا تھا، آج دنیا کا غالباً واحد ملک ہے جہاں مسلمانوں کو کھُلے عام قتل کیا جارہا ہے۔
یہ مسلمان ''روہنگیا'' کہلاتے ہیں۔ ان پر حکومتی سرپرستی میں کیے گئے مظالم کی المناک داستانیں ساری دنیا میں بازگشت بن کر گونج تو رہی ہیں لیکن مظلوم روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کا کوئی بھی مسلمان ملک پناہ دینے پر تیار ہے نہ او آئی سی ایسی عالمِ اسلام کی تنظیم میانمار پر دباؤ ڈال کر انھیں اپنے ہی وطن میں امن و آشتی کی فضا فراہم کرنے میں کامیاب ہورہی ہے۔
میانمار کی حکومت سے اس لیے بھی زیادہ شکوہ ہے کہ یہ بُدھ کے ماننے والوں کی حکومت ہے، وہی مہاتما بدھ جس کے پیروکاروں کے بارے میں ہمیشہ سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ وہ اتنے امن پسند ہوتے ہیں کہ کسی کیڑے مکوڑے کو بھی ہلاک کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ آج یہی بدھ حکومت اور اس کے پیروکاروں کی اکثریت میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی جانیں ہڑپ کرنے اور ان کا خون پینے کے در پے ہوچکے ہیں۔ بنگلہ دیش، میانمار کا بالکل ہمسایہ ملک ہے اور بھارت و چین بھی۔ کوئی بھی مگر مظلوم روہنگیا مسلمانوں کی اخلاقی اور معاشی دستگیری پر تیار نہیں۔
کیا اسے مسلمانوں پر اللہ کی ناراضی کا سبب کہا جائے کہ آج دنیا بھر میں مسلمان وحشت و بربریت کا ہدف بنے نظر آرہے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت اپنے ہی مسلمان ممالک میں، اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی شقاوتِ قلبی کا نشانہ بن رہی ہیں۔ پاکستان و افغانستان میں طالبان، عالمِ عرب میں القاعدہ اور داعش اور افریقہ میں ''بوکوحرام'' اور ''الشباب'' ایسی خونخوار مسلّح تنظیمیں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا بے دردی سے خون بہا رہی ہیں۔ عراق و شام اور لیبیا ''داعش'' اور ''القاعدہ'' کی وحشتوں کا مرکز بن کر رہ گئے ہیں۔
ISIS نامی یہ تنظیم اپنے ہی مسلمان برادری کی جائیدادیں بھی لُوٹ رہی ہے اور اپنے نظامِ حکومت و نظریہ تسلیم نہ کرنے والوں کے گھروں کو نذرِ آتش بھی کیا جارہا ہے اور ان کے ہاتھوں خواتین و بچوں کو لونڈیاں اور غلام بنانے کا عمل بھی جاری ہے۔ ایسے پیش منظر میں میانمار کے درماندہ اور بدقسمت روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے بدھ حکمرانوں سے کیا گِلہ ہوسکتا ہے؟ اس کا مطلب مگر یہ ہر گز نہیں کہ روہنگیا کے مظلوم و دربدر مسلمانوں کے بارے میں ہم اپنی زبانیں اور قلم بند کرلیں۔ میانمار کے ظالم، سفاک اور بے حس حکمرانوں سے احتجاج کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔
روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے ہمیں سب سے زیادہ گِلہ آنگ سان سوچی (جسے بعض لوگ ''سوشی'' بھی کہتے ہیں) سے ہے۔ میانمار کی یہ خاتون اپنے ملک میں ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کا نشان رہی ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ اپنے ملک کے آمر حکمرانوں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف علمِ احتجاج بلند کیا ہے۔ برسوں حوالۂ زندان رکھی اور گھر کی قیدی بنائی گئیں لیکن انسانی حقوق کی بازیابی کی جدوجہد کا جھنڈا جھکنے نہ دیا۔
دنیا نے بھی ان کی جدوجہد کی قدر کی اور انھیں امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا۔ ہم نے بھی ان کے حق میں اور ان کی جدوجہد کو سیلوٹ پیش کرتے ہوئے کئی کالم اور مضامین لکھ کر کئی صفحات سیاہ کیے ۔ افسوس، صد افسوس کہ اب جب کہ میانمار کے روہنگیا مظلوم مسلمانوں کی باری آئی ہے، آنگ سان سوچی صاحبہ کے منہ کو قفل لگ گیا ہے۔
ان کی زبان گویا مفلوج ہوگئی ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں سے میانمار کے آمر حکمرانوں اور برمی بُدھوں کی طرف سے روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے خونریز مظالم کا سلسلہ جاری ہے لیکن آنگ سان سوچی کی زبان سے ایک بار بھی ان مقہور مسلمانوں کے حق میں کوئی ایک لفظ بھی ادا نہ ہوسکا ہے۔ انھوں نے اس ضمن میں میانمار حکمرانوں اور برما کے ان بدھ سیاستدانوں کے خلاف ایک بار بھی احتجاج نہیں کیا ہے جنہوں نے روہنگیا مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کررکھا ہے۔ آنگ سان سوچی کی اس خاموشی کا اس کے علاوہ کیا مطلب ہوسکتا ہے کہ وہ بھی بباطن مسلمان دشمن ہی ثابت ہوئی ہیں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے اس خاتون نے ظالموں سے سمجھوتہ کرلیا ہے۔
رواں سال کے آخر میں میانمار میں انتخابات ہورہے ہیں۔ آنگ سان سوچی کو ڈر ہے کہ اگر انھوں نے روہنگیا مسلمانوں کے حق میں ایک لفظ بھی ادا کیا تو وہ بدھوں کے اکثریتی ووٹوں سے محروم ہو کر اقتدار کی حصہ دار نہ بن سکیں گے۔ اس منافقانہ کردار اور مجرمانہ خاموشی پر آنگ سان سوچی نے عالمِ اسلام کی طرف سے احترام کھو دیا ہے۔
گذشتہ دنوں آنگ سانگ سوچی نے چین کا دورہ کیا تو وہاں ان کا سرکاری سطح پر اسی طرح استقبال کیا گیا جیسے کسی سربراہِ مملکت کا سواگت کیا جاتا ہے۔ حیرانی ہے کہ آنگ سان وہاں بھی روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے کوئی بیان دینے سے گریزاں رہیں۔ گذشتہ برسہا برس سے چین اور میانمار سرحدی تنازعات کے حوالے سے سخت کشیدگی میں چلے آرہے ہیں۔ چین اور میانمار چار ہزار کلومیٹر مشترکہ سرحد رکھتے ہیں۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بھارت، میانمار کے توسط سے چین کو تنگ کررہا ہے۔ مبینہ طور پر چین کے خلاف یہ بھارتی ہلہ شیری ہی ہے جس کی بدولت میانمار آگے بڑھ کر چین کا گریبان پکڑنے کی ناکام کوشش کرتا رہتا ہے۔ نومبر 2014ء میں امریکی صدر بارک اوباما نے بھی میانمار کا دورہ کیا تھا جس سے ساری دنیا حیران رہ گئی تھی۔
امریکا مگر اس دورے سے میانمار کے آمر حکمرانوں کو استعمال کرتے ہوئے چین کے لیے مسائل پیدا کرنا چاہتا ہے۔ ادھر میانمار نے اپنے ہمسائے بنگلہ دیش سے بھی روہنگیا مسلمان کے حوالے سے تعلقات بگاڑ رکھے ہیں۔ دونوں ممالک باہم دست و گریباں ہیں۔ بنگلہ دیش کو غصہ ہے کہ میانمار کے بدھ حکمران دانستہ روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
برمی مسلمانوں کے خلاف ظلم کی ایک نئی لہر نے پھر سے سر اٹھایا ہے۔ 26جولائی 2015 کو برمی شدت پسند بُدھوں نے بندوقوں اور بھالوں سے مجبور اور بے آسرا مسلمانوں پر ایک بڑا نیا حملہ کیا ہے۔ میانمار، جسے کبھی ''برما'' بھی کہا جاتا تھا، آج دنیا کا غالباً واحد ملک ہے جہاں مسلمانوں کو کھُلے عام قتل کیا جارہا ہے۔
یہ مسلمان ''روہنگیا'' کہلاتے ہیں۔ ان پر حکومتی سرپرستی میں کیے گئے مظالم کی المناک داستانیں ساری دنیا میں بازگشت بن کر گونج تو رہی ہیں لیکن مظلوم روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کا کوئی بھی مسلمان ملک پناہ دینے پر تیار ہے نہ او آئی سی ایسی عالمِ اسلام کی تنظیم میانمار پر دباؤ ڈال کر انھیں اپنے ہی وطن میں امن و آشتی کی فضا فراہم کرنے میں کامیاب ہورہی ہے۔
میانمار کی حکومت سے اس لیے بھی زیادہ شکوہ ہے کہ یہ بُدھ کے ماننے والوں کی حکومت ہے، وہی مہاتما بدھ جس کے پیروکاروں کے بارے میں ہمیشہ سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ وہ اتنے امن پسند ہوتے ہیں کہ کسی کیڑے مکوڑے کو بھی ہلاک کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ آج یہی بدھ حکومت اور اس کے پیروکاروں کی اکثریت میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی جانیں ہڑپ کرنے اور ان کا خون پینے کے در پے ہوچکے ہیں۔ بنگلہ دیش، میانمار کا بالکل ہمسایہ ملک ہے اور بھارت و چین بھی۔ کوئی بھی مگر مظلوم روہنگیا مسلمانوں کی اخلاقی اور معاشی دستگیری پر تیار نہیں۔
کیا اسے مسلمانوں پر اللہ کی ناراضی کا سبب کہا جائے کہ آج دنیا بھر میں مسلمان وحشت و بربریت کا ہدف بنے نظر آرہے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت اپنے ہی مسلمان ممالک میں، اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی شقاوتِ قلبی کا نشانہ بن رہی ہیں۔ پاکستان و افغانستان میں طالبان، عالمِ عرب میں القاعدہ اور داعش اور افریقہ میں ''بوکوحرام'' اور ''الشباب'' ایسی خونخوار مسلّح تنظیمیں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا بے دردی سے خون بہا رہی ہیں۔ عراق و شام اور لیبیا ''داعش'' اور ''القاعدہ'' کی وحشتوں کا مرکز بن کر رہ گئے ہیں۔
ISIS نامی یہ تنظیم اپنے ہی مسلمان برادری کی جائیدادیں بھی لُوٹ رہی ہے اور اپنے نظامِ حکومت و نظریہ تسلیم نہ کرنے والوں کے گھروں کو نذرِ آتش بھی کیا جارہا ہے اور ان کے ہاتھوں خواتین و بچوں کو لونڈیاں اور غلام بنانے کا عمل بھی جاری ہے۔ ایسے پیش منظر میں میانمار کے درماندہ اور بدقسمت روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے بدھ حکمرانوں سے کیا گِلہ ہوسکتا ہے؟ اس کا مطلب مگر یہ ہر گز نہیں کہ روہنگیا کے مظلوم و دربدر مسلمانوں کے بارے میں ہم اپنی زبانیں اور قلم بند کرلیں۔ میانمار کے ظالم، سفاک اور بے حس حکمرانوں سے احتجاج کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔
روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے ہمیں سب سے زیادہ گِلہ آنگ سان سوچی (جسے بعض لوگ ''سوشی'' بھی کہتے ہیں) سے ہے۔ میانمار کی یہ خاتون اپنے ملک میں ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کا نشان رہی ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ اپنے ملک کے آمر حکمرانوں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف علمِ احتجاج بلند کیا ہے۔ برسوں حوالۂ زندان رکھی اور گھر کی قیدی بنائی گئیں لیکن انسانی حقوق کی بازیابی کی جدوجہد کا جھنڈا جھکنے نہ دیا۔
دنیا نے بھی ان کی جدوجہد کی قدر کی اور انھیں امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا۔ ہم نے بھی ان کے حق میں اور ان کی جدوجہد کو سیلوٹ پیش کرتے ہوئے کئی کالم اور مضامین لکھ کر کئی صفحات سیاہ کیے ۔ افسوس، صد افسوس کہ اب جب کہ میانمار کے روہنگیا مظلوم مسلمانوں کی باری آئی ہے، آنگ سان سوچی صاحبہ کے منہ کو قفل لگ گیا ہے۔
ان کی زبان گویا مفلوج ہوگئی ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں سے میانمار کے آمر حکمرانوں اور برمی بُدھوں کی طرف سے روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے خونریز مظالم کا سلسلہ جاری ہے لیکن آنگ سان سوچی کی زبان سے ایک بار بھی ان مقہور مسلمانوں کے حق میں کوئی ایک لفظ بھی ادا نہ ہوسکا ہے۔ انھوں نے اس ضمن میں میانمار حکمرانوں اور برما کے ان بدھ سیاستدانوں کے خلاف ایک بار بھی احتجاج نہیں کیا ہے جنہوں نے روہنگیا مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کررکھا ہے۔ آنگ سان سوچی کی اس خاموشی کا اس کے علاوہ کیا مطلب ہوسکتا ہے کہ وہ بھی بباطن مسلمان دشمن ہی ثابت ہوئی ہیں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے اس خاتون نے ظالموں سے سمجھوتہ کرلیا ہے۔
رواں سال کے آخر میں میانمار میں انتخابات ہورہے ہیں۔ آنگ سان سوچی کو ڈر ہے کہ اگر انھوں نے روہنگیا مسلمانوں کے حق میں ایک لفظ بھی ادا کیا تو وہ بدھوں کے اکثریتی ووٹوں سے محروم ہو کر اقتدار کی حصہ دار نہ بن سکیں گے۔ اس منافقانہ کردار اور مجرمانہ خاموشی پر آنگ سان سوچی نے عالمِ اسلام کی طرف سے احترام کھو دیا ہے۔
گذشتہ دنوں آنگ سانگ سوچی نے چین کا دورہ کیا تو وہاں ان کا سرکاری سطح پر اسی طرح استقبال کیا گیا جیسے کسی سربراہِ مملکت کا سواگت کیا جاتا ہے۔ حیرانی ہے کہ آنگ سان وہاں بھی روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے کوئی بیان دینے سے گریزاں رہیں۔ گذشتہ برسہا برس سے چین اور میانمار سرحدی تنازعات کے حوالے سے سخت کشیدگی میں چلے آرہے ہیں۔ چین اور میانمار چار ہزار کلومیٹر مشترکہ سرحد رکھتے ہیں۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بھارت، میانمار کے توسط سے چین کو تنگ کررہا ہے۔ مبینہ طور پر چین کے خلاف یہ بھارتی ہلہ شیری ہی ہے جس کی بدولت میانمار آگے بڑھ کر چین کا گریبان پکڑنے کی ناکام کوشش کرتا رہتا ہے۔ نومبر 2014ء میں امریکی صدر بارک اوباما نے بھی میانمار کا دورہ کیا تھا جس سے ساری دنیا حیران رہ گئی تھی۔
امریکا مگر اس دورے سے میانمار کے آمر حکمرانوں کو استعمال کرتے ہوئے چین کے لیے مسائل پیدا کرنا چاہتا ہے۔ ادھر میانمار نے اپنے ہمسائے بنگلہ دیش سے بھی روہنگیا مسلمان کے حوالے سے تعلقات بگاڑ رکھے ہیں۔ دونوں ممالک باہم دست و گریباں ہیں۔ بنگلہ دیش کو غصہ ہے کہ میانمار کے بدھ حکمران دانستہ روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش کی طرف دھکیل رہے ہیں۔