جوہری معاہدہ من گھڑت بحران کا خاتمہ

ایران کے عالمی طاقتوں سے جوہری معاہدے کے بعد ’’من گھڑت بحران‘‘ کا خاتمہ ہوگیا ہے۔

shabbirarman@yahoo.com

بالآخر ایران کے عالمی طاقتوں سے جوہری معاہدے کے بعد ''من گھڑت بحران'' کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ 14 جولائی 2015 کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ایران اور امریکا سمیت 6 بڑی عالمی طاقتوں برطانیہ، فرانس، چین، روس اور جرمنی کے درمیان تاریخ ساز معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں۔ یہ مذاکرات 18 روز تک جاری رہے۔

معاہدے کے تحت ایران کا ایٹمی پروگرام محدود کردیا گیا ہے اور وہ اب ایٹم بم حاصل نہیں کرے گا جب کہ اس کے بدلے میں ایرانی تیل کی فروخت پر اور دیگر اقتصادی پابندیاں ختم کردی جائیں گی۔ اسرائیل کے سوا پاکستان سمیت دنیا بھرکے ممالک نے معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے۔ایران اور عالمی طاقتوں کے 13 سالہ تنازع کے خاتمے کے بعد ایران عالمی معائنہ کاروں کو اپنی جوہری اور فوجی تنصیبات تک رسائی دے گا۔ اقوام متحدہ کے معائنہ کار 24 دنوں میں جوہری سرگرمیوں کی نگرانی کے ساتھ ایرانی فوجی تنصیبات کے دوروں کا مطالبہ بھی کرسکیں گے۔

ایران کو اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کو تمام جوہری تنصیبات تک مکمل رسائی دینا ہوگی۔ یہ انسپکٹر طے کریں گے کہ ایران ایک مقررہ حد تک ہی یورینیم افزودہ کرے اور اس کا ذخیرہ رکھ سکے۔ ایران کو صرف پرامن مقاصد کے لیے جوہری ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی اجازت ہوگی۔ ایٹمی پروگرام کسی صورت میں ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال نہیں کیا جاسکے گا۔ ایران کو اقوام متحدہ کے نگرانوں کی درخواست چیلنج کرنے کا حق حاصل ہوگا۔

اس صورت میں فیصلہ ایران اور 6 عالمی طاقتوں کا ثالثی بورڈ کرے گا۔ اس معاہدے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی منظور کرایا جائے گا۔ اگر معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی تو 65 روز کے اندر ایران پر تجارتی اور اقتصادی پابندیاں دوبارہ عائد کردی جائیں گی۔یقیناً یہ معاہدہ عالمی تعلقات عامہ میں ایک نئے باب کا آغاز ثابت ہوسکتا ہے اور یہ ساری دنیا کے لیے امید کی کرن ہے۔ امریکا ایران کے ایٹمی تنصیبات تباہ بھی کرسکتا تھا لیکن اس سے مشرق وسطیٰ میں ایک اور جنگ چھڑ جاتی۔ آج ایران ایک نئے مقام پر پہنچا ہے، ایران کے لیے جوہری معاہدہ دنیا سے تعلقات کی نئی شروعات ہے۔

ایران پر عائد پابندیاں ختم ہوجائیں گی تاہم ایران جوہری توانائی اور تحقیق پر کام ملکی سطح پر جاری رکھے گا۔ جوہری معاہدہ روکنے کی صیہونی سازشیں ناکام ہوگئی ہیں، اس کے باوجود اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اس معاہدے کو تاریخی غلطی قرار دیتے ہیں کہ وہ ایران کے جوہری مقاصد روکنے کے لیے جو کچھ کرسکتے ہیں کریں گے۔

اسرائیل سمجھتا ہے کہ ایران کو یقینی طور پر جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا راستہ ملنے والا ہے، پابندیاں اٹھانے سے ایران کو سیکڑوں بلین ڈالرز کا فائدہ ہوگا جسے وہ خطے اور پوری دنیا میں جارحیت اور دہشتگردی کے لیے استعمال کرے گا۔ اگرچہ معاہدے کیمطابق ایران پر اسلحے کی پابندیاں 5 سال تک برقرار رہیں گی، تاہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی خصوصی اجازت کے بعد ایران کو اسلحے کی فراہمی ممکن ہے۔ اس طرح عالمی اسلحے کے تاجر ممالک کو ایک نئی مارکیٹ میسر آئے گی دوسری صورت میں پابندیاں ہٹ جانے کی صورت میں ایران کو جو مالی فائدہ حاصل ہوگا انھیں اسلحہ فروخت کے ذریعے واپس بھی لیا جاسکتا ہے۔

عالمی قوتوں کو یہ بھی خدشہ ہے کہ ایران پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد ملنے والے مالی وسائل کو کیسے استعمال کرتا ہے، یہ دیکھنا ہوگا اور ایران کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ شام میں جاری تصادم ختم کرانے میں عالمی قوتوں کو مدد فراہم کریگا ۔ یعنی ایک تیر سے کئی شکار ہیں۔ اس معاہدے کی روشنی میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یورپی یونین ایران کے خلاف پابندیاں ختم کردیتا لیکن یورپی یونین نے پابندیوں کو مزید 6 ماہ کی توسیع کردی ہے جو 14 جنوری 2016 تک ہوگی۔


جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یورپی یونین ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو ناقابل قبول قرار دیتے ہیں کہ یہ بدترین ڈیل ہے اس سے ایران کو ساز باز کرنے کا موقع مل جائے گا۔ ایران پر پابندیوں کے منصوبہ ساز رابرٹ مینڈیز کا کہنا ہے کہ لب لباب یہ ہے کہ معاہدہ ایران کا ایٹمی پروگرام ختم نہیں اسے محفوظ کرے گا۔سعودی عرب ایران کے ایٹمی معاہدے کو ''عرب مفادات پر حملے'' کے طور پر پرکھ رہا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے پاکستان نے ہمیشہ یہ موقف اختیار کیا کہ مسئلے کا بات چیت کے ذریعے پرامن حل نکلنا چاہیے۔ پاکستان اور ایران دو اسلامی برادر ممالک ہیں ان کے تعلقات ہمیشہ اچھے رہے ہیں۔

ایران پر پابندیاں ختم ہونے سے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے میں تیزی آئے گی۔ اور باہمی تجارت میں اضافہ ہوگا۔حسن روحانی نے ایران کے صدر کا حلف اٹھانے کے بعد منعقدہ ایک تقریب میں تین اہم باتیں کہی تھیں جن کو انھوں نے پورا کر دکھایا ہے، انھوں نے واقعی ایران کو عالمی تنہائی سے باہر نکال دیا ہے، ایران میں خواتین کے حقوق اور آزادی کو فروغ دے رہے ہیں اور عوام کی ذاتی زندگی میں مداخلت کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ انھوں نے 4 اگست 2013 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ہے۔ ایران کے صدر حسن روحانی نے صدارتی انتخابات کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ایران اپنے جوہری پروگرام پر زیادہ شفافیت دکھانے کے لیے تیار ہے لیکن یورینیم کی افزودگی بند نہیں کرے گا۔ اس سلسلے میں ایران پر عائد پابندیاں غیر منصفانہ ہیں۔

مغرب کو شبہ رہا ہے کہ ایران جوہری اسلحہ بنانا چاہتا ہے لیکن ایران کہتا رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ ایران گزشتہ 13 سالوں سے عالمی تعصب کے نرغے میں رہا ہے ایک وقت ایسا بھی آیا جب کشیدگی کے خاتمے علاقے میں استحکام اور بین الاقوامی طور پر نیک نیتی کے فروغ کے لیے رضاکارانہ طور پر ایران نے اپنی جوہری تنصیبات کے سخت معائنے کے لیے اقوام متحدہ کے ساتھ معاہدے پر دستخط اور یورینیم کی افزودگی معطل کرنے پر اتفاق کرلیا تھا۔ البتہ اس منصوبے کے کچھ حصوں کی ایرانی پارلیمنٹ سے منظوری لینی پڑی تھی۔

اس ضمن میں جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ اور ایرانی وزیر خارجہ کمال خرازی، ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کے سیکریٹری ڈاکٹر حسن روحانی کی جانب سے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا کہ ایران نے آئی اے ای اے کے ایڈیشنل پروٹوکول پر دستخط کرنے کا فیصلہ کیا اور ایرانی حکومت بین الاقوامی ایجنسی سے تعاون جاری رکھے گی۔''

ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کی ایک ٹیم نے ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل محمود البرادی کی سربراہی میں 2 اکتوبر تا 31 اکتوبر 2003تک ایران کی ایٹمی تنصیبات کا فیصلہ کن معائنہ کیا اور اس دوران ایران نے یہ ثابت کیا کہ وہ خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیار تیار نہیں کر رہا ہے اس کے باوجود بعض مغربی طاقتیں خوفزدہ رہیں اور بالآخر یہ خوف ختم ہونے جا رہا ہے اور ایک پرسکون ماحول میسر ہونے والا ہے۔

اس تناظر میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مخصوص عالمی قوتیں اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی ہیں۔ اگر افغانستان اور عراق میں ان قوتوں کو کامیابی ملتی تو اس کے بعد ایران کی باری آتی لیکن ان عالمی قوتوںکو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنا پڑی اور وہ ایٹمی پروگرام کے خطرات کا سہارا لے کر مسلم ممالک کو زیر کرنے کی راہ پر گامزن دکھائی دینے لگی ہیں جس کا آغاز ایران سے کیا ہے۔

سچ یہ ہے کہ خدا کی زمین مسلمانوں کے لیے تنگ کردی گئی ہے تو دوسری طرف مسلم ممالک کے درمیان تفرقہ پیدا کردیا گیا ہے۔ ایران نے اچھا کیا جو اس نے یہ معاہدہ کیا ورنہ مشکل وقت میں کل کی طرح آیندہ بھی مسلم ممالک اس کی مدد کو نہ آتے۔ بلاشبہ ایران نے اپنے ملک و قوم کے بہترین مفاد میں یہ معاہدہ کیا اس تناظر میں وہ دن دور نہیں جب ایران ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔
Load Next Story