کرپشن سرمایہ داری کا ناگزیر نتیجہ
ہم اکثر سنتے آرہے ہیں کہ اگر پولیس کا محکمہ ٹھیک کردیا جائے تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا
ISLAMABAD:
ہم اکثر سنتے آرہے ہیں کہ اگر پولیس کا محکمہ ٹھیک کردیا جائے تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا، کوئی کہتا ہے کہ کسٹم کا محکمہ درست کردیا جائے تو مسائل حل ہوجائیں گے، کوئی کہتا ہے کہ عدلیہ کا محکمہ درست ہوجائے تو سب کچھ بدل جائے گا، کوئی کہتا ہے کہ اسمبلی ارکان کی کرپشن ختم ہوجائے تو معاشرہ سدھرجائے گا، کوئی کہتا ہے کہ سول نوکر شاہی کی کرپشن ختم کردی جائے تو سدھار آسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔
مختلف ملکوں میں طریقہ واردات اور لوٹ مار کے اسٹائل مختلف ہیں مگر کرپشن ہر جگہ جاری ہے یہ سرمایہ داری کی برائی نہیں بلکہ اس کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ طبقاتی نظام میں لوٹ مارکے بغیر ارب پتیوں اور بے روزگاروں کی خلیج میں اضافہ ہو ہی نہیں سکتا۔ کہیں مہذب اورکہیں بھونڈے انداز سے کرپشن ہوتی ہے۔ سوئٹزر لینڈ میں 50 فیصد دولت کے مالک 1فیصد لوگ ہیں اور باقی 50 فیصد دولت کے مالک 99 فیصد لوگ ہیں۔ چین کی اسمبلی میں 83 ارب پتی اور ملک بھر میں 27 کروڑ بے روزگار ہیں۔
جاپان کی 13 کروڑ کی آبادی میں 5 فیصد یعنی 65 لاکھ بے روزگار ہیں (سرکاری اعداد وشمار) اکثر یہ بھی لوگ کہتے ہیں کہ ڈیفالٹرکی زد میں آئس لینڈ، آئرلینڈ اور یونان آسکتے ہیں تو پھر پاکستان کیوں نہیں؟ اس کا مطلب یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہماری معیشت بہتر ہے۔ حال ہی میں پاکستان کے وزیر خزانہ اور آئی ایم ایف کے اعلیٰ عہدیدار نے پاکستان کو دنیا کے 10 ملکوں میں شامل کیا ہے جو ترقی کی منازل سے گزر رہے ہیں۔
پاکستان کا بجٹ 76 فیصد کالے دھن پر مشتمل ہے یعنی ہر 10 میں سے 7 آدمی کرپشن میں ملوث ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی کہتا ہے کہ پاکستان میں 73 فیصد لوگ کالے دھن سے وابستہ ہیں۔ کالے دھن میں ملوث ہونے کا مطلب اسمگلنگ، ہیروئن کا کاروبار، اسلحے کی پیداوار اور خریدوفروخت، رشوت، کک بیک، ذخیرہ اندوزی ،کمیشن، چیٹنگ، دھوکا، منی لانڈرنگ وغیرہ شامل ہیں۔
ہماری حکومت کھلے عام اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں یہ دعوت دیتی رہتی ہے کہ کالے دھن کو کیسے سفید دھن میں تبدیل کیا جائے۔ مثال کے طور پر کسی نے 20 ارب روپے کالے دھن کے جمع کیے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ وہ حکومت کے کھاتے میں 8/10 ارب روپے دے کر باقی رقم کو سفید دھن میں تبدیل کرسکتا ہے اور ایسے کام سیکڑوں کالے دھندے کرنے والے کرکے پاک صاف ہوچکے ہیں۔ حال ہی میں حکومت نے کرپشن کے خلاف سخت قدم اٹھایا ہوا ہے۔
بہرحال وزیر اطلاعات اور بلدیات سندھ شرجیل انعام میمن نے کے ایم سی کے محکمہ تعلیم کے 1841 گھوسٹ ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کردیا ہے۔ ان کے کیسز کو اینٹی کرپشن میں بھیجنے کی ایڈمنسٹریٹرکراچی کو ہدایت جاری کردی ہے۔ انھوں نے کہا کہ گریڈ 1 سے 17 کے یہ گھوسٹ ملازمین جعلی طریقوں سے کے ایم سی کے محکمہ تعلیم میں بھرتی ہوئے تھے اور ان کو فارغ کرنے سے کے ایم سی کو سالانہ 60 کروڑ روپے کی تنخواہوں کی مد میں بچت ہوگی۔
کاش 22 گریڈ تک کے افسران کا محاسبہ ہوتا توایک ارب روپے کی بچت ہوجاتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ساری تحقیقات کے لیے ایف آئی اے سے رجوع کیا گیا ہے۔ یہ کیسے طے ہوگا کہ ایف آئی اے تحقیقات درست اور غیرجانبداری سے کرے گی۔کیا وہاں تمام معاملات درست ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ 60 کروڑ کی بچت سے حکومت کیا کرے گی۔ کیا ان پیسوں سے کارخانے لگا کر روزگار دے گی، اسپتال قائم کرے گی یا تعلیمی ادارے قائم کرے گی یا پھر یہ پیسہ بھی دوسرے خردبرد کرنے والے اداروں کے ہتھے چڑھ جائے گا۔
انھی دنوں ڈائریکٹر ایف آئی اے شاہد حیات نے کہا ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کی جانب سے گھوسٹ اساتذہ اور دیگر ملازمین کے نام پر کروڑوں روپے کی خوردبرد کے الزام میں موجودہ ڈائریکٹر سمیت 18 افسران اور ملازمین اور بینک منیجرز گرفتار ہیں۔ انھوں نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ گرفتار کیے گئے افسران میں ڈائریکٹر منصور مرزا، سابق ڈائریکٹر محمد احسان، ڈائریکٹر پے رول محمد امین، ڈپٹی ڈائریکٹر سلیم کالے خان شامل ہیں جب کہ سابق ڈائریکٹر خرم عارف اور عبدالخالق کی گرفتاری کے لیے کوشش کی جا رہی ہے۔
بینک کے افسروں کی ملی بھگت سے اپنے خاندان کے افراد، دوستوں، رشتے داروں اور دیگر افراد کے نام سے جعلی بینک اکاؤنٹ کھولے تھے اور یہ سلسلہ 6 سالوں سے جاری تھا۔ تمام ٹاؤنز سے ڈائریکٹرزکے لیے رشوت جمع کی جاتی تھی۔ ان کے خاندان کے دو درجن کے قریب افراد بھی ہر ماہ بوگس تنخواہ وصول کرتے تھے جن میں 64 سالہ ساس بھی شامل تھیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہی شاہد حیات جب آئی جی سندھ پولیس تھے تو انھوں نے ایک پریس کانفرنس کی تھی جس میں کہا تھا کہ کراچی کی 13 سیاسی اور مذہبی جماعتیں ہیں جو بھتہ خوری، قتل و غارت گری اور اغوا میں شریک ہیں۔ ان جماعتوں اور افراد کے ناموں کی فہرست بھی پیش کی تھی۔ مگر ان کا کیا ہوا؟ بھتہ خوری اب بھی چل رہی ہے بلکہ چند دنوں قبل کی خبر ہے کہ اولڈ کراچی سے یعنی لی مارکیٹ، بولٹن مارکیٹ وغیرہ سے مٹھائی کی اور دیگر دکانوں سے ایک کروڑ روپے اور 100 موٹر سائیکل بھتہ خوروں نے وصول کیے۔ جب کہ جان کے خوف سے دکانداروں نے نام اور پتہ بتانے سے منع کردیا۔
کے ایم سی میں کچھ کارروائی ہو رہی ہے اس کی جڑیں اعلیٰ افسران اور فنانس ڈپارٹمنٹ سے جڑی ہوئی ہیں اور جہاں سے پے شیٹ بنتی ہیں وہاں سے درست کھوج لگایا جاسکتا ہے۔ لہٰذا فنانس کے پے شیٹ کے اعلیٰ افسروں کو بھی گرفتار کیا جائے ان کرپشنز میں ان اعلیٰ افسران کی پوچھ گچھ کی جائے جو ان کی بنیاد ہیں، جیساکہ ایڈمنسٹریٹر، میٹروپولیٹن کمشنر، میونسپل کمشنر، جہاں پے رول بنتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ''جو کروڑوں روپے رشوت خوری میں بناتے ہیں وہ چند کروڑ خرچ کرکے بحال بھی ہوسکتے ہیں۔
1984 میں رشوتیں چھپ چھپا کر لی جاتی تھیں، 1988 میں ڈی ایم سی بنی اور 1992 سے جعل سازی شروع ہوئی۔ 2000 میں جب ٹاؤنز بنے اس وقت سے بڑے پیمانے پر رشوت شروع ہوئی۔ ناظمین کے ذریعے کرپشن بڑے پیمانے پر ہوئی۔ ان کے ہیڈ اربوں روپے لے کر ملک سے باہر دبئی اور دیگر ملکوں میں چلے گئے جن کے ساتھ کراچی میٹرو پولیٹن کے اعلیٰ ذمے داران بھی چلے گئے۔
ان کرپشنز کا تدارک کرنے کے لیے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ، نیب کے چیئرمین، وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ سندھ کو مداخلت کرنی ہوگی۔ بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ جو ادارے کرپشن کو ختم کرنے میں معاونت کریں گے اس میں یعنی پولیس میں (سندھ میں) 2000 جرائم پیشہ افراد موجود ہیں۔ ہرچند کہ مسائل کا مکمل اور حتمی حل ایک غیرطبقاتی سوسائٹی کے قیام میں ہی ممکن ہے۔
ہم اکثر سنتے آرہے ہیں کہ اگر پولیس کا محکمہ ٹھیک کردیا جائے تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا، کوئی کہتا ہے کہ کسٹم کا محکمہ درست کردیا جائے تو مسائل حل ہوجائیں گے، کوئی کہتا ہے کہ عدلیہ کا محکمہ درست ہوجائے تو سب کچھ بدل جائے گا، کوئی کہتا ہے کہ اسمبلی ارکان کی کرپشن ختم ہوجائے تو معاشرہ سدھرجائے گا، کوئی کہتا ہے کہ سول نوکر شاہی کی کرپشن ختم کردی جائے تو سدھار آسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔
مختلف ملکوں میں طریقہ واردات اور لوٹ مار کے اسٹائل مختلف ہیں مگر کرپشن ہر جگہ جاری ہے یہ سرمایہ داری کی برائی نہیں بلکہ اس کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ طبقاتی نظام میں لوٹ مارکے بغیر ارب پتیوں اور بے روزگاروں کی خلیج میں اضافہ ہو ہی نہیں سکتا۔ کہیں مہذب اورکہیں بھونڈے انداز سے کرپشن ہوتی ہے۔ سوئٹزر لینڈ میں 50 فیصد دولت کے مالک 1فیصد لوگ ہیں اور باقی 50 فیصد دولت کے مالک 99 فیصد لوگ ہیں۔ چین کی اسمبلی میں 83 ارب پتی اور ملک بھر میں 27 کروڑ بے روزگار ہیں۔
جاپان کی 13 کروڑ کی آبادی میں 5 فیصد یعنی 65 لاکھ بے روزگار ہیں (سرکاری اعداد وشمار) اکثر یہ بھی لوگ کہتے ہیں کہ ڈیفالٹرکی زد میں آئس لینڈ، آئرلینڈ اور یونان آسکتے ہیں تو پھر پاکستان کیوں نہیں؟ اس کا مطلب یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہماری معیشت بہتر ہے۔ حال ہی میں پاکستان کے وزیر خزانہ اور آئی ایم ایف کے اعلیٰ عہدیدار نے پاکستان کو دنیا کے 10 ملکوں میں شامل کیا ہے جو ترقی کی منازل سے گزر رہے ہیں۔
پاکستان کا بجٹ 76 فیصد کالے دھن پر مشتمل ہے یعنی ہر 10 میں سے 7 آدمی کرپشن میں ملوث ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی کہتا ہے کہ پاکستان میں 73 فیصد لوگ کالے دھن سے وابستہ ہیں۔ کالے دھن میں ملوث ہونے کا مطلب اسمگلنگ، ہیروئن کا کاروبار، اسلحے کی پیداوار اور خریدوفروخت، رشوت، کک بیک، ذخیرہ اندوزی ،کمیشن، چیٹنگ، دھوکا، منی لانڈرنگ وغیرہ شامل ہیں۔
ہماری حکومت کھلے عام اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں یہ دعوت دیتی رہتی ہے کہ کالے دھن کو کیسے سفید دھن میں تبدیل کیا جائے۔ مثال کے طور پر کسی نے 20 ارب روپے کالے دھن کے جمع کیے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ وہ حکومت کے کھاتے میں 8/10 ارب روپے دے کر باقی رقم کو سفید دھن میں تبدیل کرسکتا ہے اور ایسے کام سیکڑوں کالے دھندے کرنے والے کرکے پاک صاف ہوچکے ہیں۔ حال ہی میں حکومت نے کرپشن کے خلاف سخت قدم اٹھایا ہوا ہے۔
بہرحال وزیر اطلاعات اور بلدیات سندھ شرجیل انعام میمن نے کے ایم سی کے محکمہ تعلیم کے 1841 گھوسٹ ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کردیا ہے۔ ان کے کیسز کو اینٹی کرپشن میں بھیجنے کی ایڈمنسٹریٹرکراچی کو ہدایت جاری کردی ہے۔ انھوں نے کہا کہ گریڈ 1 سے 17 کے یہ گھوسٹ ملازمین جعلی طریقوں سے کے ایم سی کے محکمہ تعلیم میں بھرتی ہوئے تھے اور ان کو فارغ کرنے سے کے ایم سی کو سالانہ 60 کروڑ روپے کی تنخواہوں کی مد میں بچت ہوگی۔
کاش 22 گریڈ تک کے افسران کا محاسبہ ہوتا توایک ارب روپے کی بچت ہوجاتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ساری تحقیقات کے لیے ایف آئی اے سے رجوع کیا گیا ہے۔ یہ کیسے طے ہوگا کہ ایف آئی اے تحقیقات درست اور غیرجانبداری سے کرے گی۔کیا وہاں تمام معاملات درست ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ 60 کروڑ کی بچت سے حکومت کیا کرے گی۔ کیا ان پیسوں سے کارخانے لگا کر روزگار دے گی، اسپتال قائم کرے گی یا تعلیمی ادارے قائم کرے گی یا پھر یہ پیسہ بھی دوسرے خردبرد کرنے والے اداروں کے ہتھے چڑھ جائے گا۔
انھی دنوں ڈائریکٹر ایف آئی اے شاہد حیات نے کہا ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کی جانب سے گھوسٹ اساتذہ اور دیگر ملازمین کے نام پر کروڑوں روپے کی خوردبرد کے الزام میں موجودہ ڈائریکٹر سمیت 18 افسران اور ملازمین اور بینک منیجرز گرفتار ہیں۔ انھوں نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ گرفتار کیے گئے افسران میں ڈائریکٹر منصور مرزا، سابق ڈائریکٹر محمد احسان، ڈائریکٹر پے رول محمد امین، ڈپٹی ڈائریکٹر سلیم کالے خان شامل ہیں جب کہ سابق ڈائریکٹر خرم عارف اور عبدالخالق کی گرفتاری کے لیے کوشش کی جا رہی ہے۔
بینک کے افسروں کی ملی بھگت سے اپنے خاندان کے افراد، دوستوں، رشتے داروں اور دیگر افراد کے نام سے جعلی بینک اکاؤنٹ کھولے تھے اور یہ سلسلہ 6 سالوں سے جاری تھا۔ تمام ٹاؤنز سے ڈائریکٹرزکے لیے رشوت جمع کی جاتی تھی۔ ان کے خاندان کے دو درجن کے قریب افراد بھی ہر ماہ بوگس تنخواہ وصول کرتے تھے جن میں 64 سالہ ساس بھی شامل تھیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہی شاہد حیات جب آئی جی سندھ پولیس تھے تو انھوں نے ایک پریس کانفرنس کی تھی جس میں کہا تھا کہ کراچی کی 13 سیاسی اور مذہبی جماعتیں ہیں جو بھتہ خوری، قتل و غارت گری اور اغوا میں شریک ہیں۔ ان جماعتوں اور افراد کے ناموں کی فہرست بھی پیش کی تھی۔ مگر ان کا کیا ہوا؟ بھتہ خوری اب بھی چل رہی ہے بلکہ چند دنوں قبل کی خبر ہے کہ اولڈ کراچی سے یعنی لی مارکیٹ، بولٹن مارکیٹ وغیرہ سے مٹھائی کی اور دیگر دکانوں سے ایک کروڑ روپے اور 100 موٹر سائیکل بھتہ خوروں نے وصول کیے۔ جب کہ جان کے خوف سے دکانداروں نے نام اور پتہ بتانے سے منع کردیا۔
کے ایم سی میں کچھ کارروائی ہو رہی ہے اس کی جڑیں اعلیٰ افسران اور فنانس ڈپارٹمنٹ سے جڑی ہوئی ہیں اور جہاں سے پے شیٹ بنتی ہیں وہاں سے درست کھوج لگایا جاسکتا ہے۔ لہٰذا فنانس کے پے شیٹ کے اعلیٰ افسروں کو بھی گرفتار کیا جائے ان کرپشنز میں ان اعلیٰ افسران کی پوچھ گچھ کی جائے جو ان کی بنیاد ہیں، جیساکہ ایڈمنسٹریٹر، میٹروپولیٹن کمشنر، میونسپل کمشنر، جہاں پے رول بنتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ''جو کروڑوں روپے رشوت خوری میں بناتے ہیں وہ چند کروڑ خرچ کرکے بحال بھی ہوسکتے ہیں۔
1984 میں رشوتیں چھپ چھپا کر لی جاتی تھیں، 1988 میں ڈی ایم سی بنی اور 1992 سے جعل سازی شروع ہوئی۔ 2000 میں جب ٹاؤنز بنے اس وقت سے بڑے پیمانے پر رشوت شروع ہوئی۔ ناظمین کے ذریعے کرپشن بڑے پیمانے پر ہوئی۔ ان کے ہیڈ اربوں روپے لے کر ملک سے باہر دبئی اور دیگر ملکوں میں چلے گئے جن کے ساتھ کراچی میٹرو پولیٹن کے اعلیٰ ذمے داران بھی چلے گئے۔
ان کرپشنز کا تدارک کرنے کے لیے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ، نیب کے چیئرمین، وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ سندھ کو مداخلت کرنی ہوگی۔ بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ جو ادارے کرپشن کو ختم کرنے میں معاونت کریں گے اس میں یعنی پولیس میں (سندھ میں) 2000 جرائم پیشہ افراد موجود ہیں۔ ہرچند کہ مسائل کا مکمل اور حتمی حل ایک غیرطبقاتی سوسائٹی کے قیام میں ہی ممکن ہے۔