میٹرک بورڈ سوالیہ بینک کا منصوبہ سرد خانے کی نذر ہو گیا
میٹرک بورڈ، سوالیہ بینک کا منصوبہ سرد خانے کی نذر ہو گیا
ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کی انتظامیہ کی غفلت اور متعلقہ شعبے کی نااہلی کے سبب میٹرک کے امتحانات کیلیے سوالات کے ذخیرے پر مشتمل ''کوئیسشن بینک ''کا منصوبہ ناکام ہوگیا ہے اور انتظامیہ نے اس منصوبے کو سردخانے کی نذر کردیا ہے، منصوبے کے تحت میٹرک بورڈ کی انتظامیہ کو نویں اور دسویں کے سالانہ امتحانات میں شریک ہونے والے ساڑھے3 لاکھ طلبا کیلیے ہزاروں سوالات کا ایک ذخیرہ تیار کرنا تھا
جس میں سے ہر مضمون کے کم از کم3 ہزار سوالات شامل کیے جانے تھے جس کا کام ثانوی تعلیمی بورڈ کے ریسرچ سیکشن کو سونپا گیا تھا، اس سلسلے میں بورڈ انتظامیہ کی جانب سے کئی اجلاس بھی منعقد ہوئے تھے جس میں سوالیہ بینک کی تیاری، مضامین کے انتخاب، سوالات کی ترتیب، تعداد اور اس سلسلے میں اساتذہ سے رابطے سمیت دیگر متعلقہ امور پر بات چیت کی گئی تھی جس کے بعد اس منصوبے کو عملدرآمد کیلیے بورڈ کے ریسرچ سیکشن کے حوالے کردیا گیا تھا اور ریسرچ سیکشن کی معاونت کیلیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی،
بورڈ کے ریسرچ سیکشن کے سربراہ عبدالرحمن کے علاوہ کمیٹی میں صالح زیدی، سرکاری اسکول کے پرنسپل مرزا ارشد بیگ، علی ارشد، خاتون ٹیچر ریحانہ، نجی اسکول کے ٹیچر حبیب الرحمان سمیت دیگر اراکین شامل تھے، اس ٹیم کو نویں اور دسویں کے سالانہ امتحانات میں سوالیہ پرچے تیار کرنے والے اسکول اساتذہ سے رابطہ کرکے ان سے متعلقہ مضامین کیلیے سوالات حاصل کرکے انھیں سوالیہ بینک کا حصہ بنایا جانا تھا، اجلاسوں میں سوالیہ بینک کے منصوبے کو دی گئی
حتمی شکل کے مطابق کسی بھی مضمون کے ایک ہزار ایم سی کیوز، ایک ہزار مختصر سوالات اور ایک ہزار تفصیلی جوابات کے سوالات جمع کیے جانے تھے جس کے بعد بورڈ کے پاس نویں اور دسویں کے ہر مضمون کے تین تین ہزار سوالات جمع ہوجاتے جس کے ذریعے سالانہ امتحانات میں معیاری پرچے بنائے جانے تھے تاہم بورڈ کی انتظامی غفلت اور ریسرچ سیکشن کی جانب سے معاملے میں بے اعتنائی برتنے کے باعث یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا،
واضح رہے کہ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کی جانب سے سالانہ امتحانات کیلیے سوالیہ بینک کا منصوبہ بورڈ کے سابق چیئرمین انظار زیدی کے دور میں بنایاگیا تھا، ادھر معلوم ہوا ہے کہ اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی میں اس منصوبے پر کام جاری ہے۔
جس میں سے ہر مضمون کے کم از کم3 ہزار سوالات شامل کیے جانے تھے جس کا کام ثانوی تعلیمی بورڈ کے ریسرچ سیکشن کو سونپا گیا تھا، اس سلسلے میں بورڈ انتظامیہ کی جانب سے کئی اجلاس بھی منعقد ہوئے تھے جس میں سوالیہ بینک کی تیاری، مضامین کے انتخاب، سوالات کی ترتیب، تعداد اور اس سلسلے میں اساتذہ سے رابطے سمیت دیگر متعلقہ امور پر بات چیت کی گئی تھی جس کے بعد اس منصوبے کو عملدرآمد کیلیے بورڈ کے ریسرچ سیکشن کے حوالے کردیا گیا تھا اور ریسرچ سیکشن کی معاونت کیلیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی،
بورڈ کے ریسرچ سیکشن کے سربراہ عبدالرحمن کے علاوہ کمیٹی میں صالح زیدی، سرکاری اسکول کے پرنسپل مرزا ارشد بیگ، علی ارشد، خاتون ٹیچر ریحانہ، نجی اسکول کے ٹیچر حبیب الرحمان سمیت دیگر اراکین شامل تھے، اس ٹیم کو نویں اور دسویں کے سالانہ امتحانات میں سوالیہ پرچے تیار کرنے والے اسکول اساتذہ سے رابطہ کرکے ان سے متعلقہ مضامین کیلیے سوالات حاصل کرکے انھیں سوالیہ بینک کا حصہ بنایا جانا تھا، اجلاسوں میں سوالیہ بینک کے منصوبے کو دی گئی
حتمی شکل کے مطابق کسی بھی مضمون کے ایک ہزار ایم سی کیوز، ایک ہزار مختصر سوالات اور ایک ہزار تفصیلی جوابات کے سوالات جمع کیے جانے تھے جس کے بعد بورڈ کے پاس نویں اور دسویں کے ہر مضمون کے تین تین ہزار سوالات جمع ہوجاتے جس کے ذریعے سالانہ امتحانات میں معیاری پرچے بنائے جانے تھے تاہم بورڈ کی انتظامی غفلت اور ریسرچ سیکشن کی جانب سے معاملے میں بے اعتنائی برتنے کے باعث یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا،
واضح رہے کہ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کی جانب سے سالانہ امتحانات کیلیے سوالیہ بینک کا منصوبہ بورڈ کے سابق چیئرمین انظار زیدی کے دور میں بنایاگیا تھا، ادھر معلوم ہوا ہے کہ اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی میں اس منصوبے پر کام جاری ہے۔