بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کی کوششیں
بلوچستان میں نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے صوبے کے حالات کو معمول پر لانے کے لیے کوششیں تیز کردی ہیں جو قابلِ ستائش ہیں
بلوچستان میں نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے صوبے کے حالات کو معمول پر لانے کے لیے کوششیں تیز کردی ہیں جو قابلِ ستائش ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی ایماء پر عمائدین کے ایک وفد نے لندن میں مقیم خود ساختہ جلا وطن رہنما خان آف قلات میر احمد سلیمان داؤد خان سے ملاقات کی اور ان کو وطن واپسی پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ اس وفد میں نواب محمد خان شاہنوانی، سردار کمال خان بنگلزئی، میرکبیر محمد شاوانی اور خالد لانگو شامل تھے۔
ڈاکٹر مالک بھی اس وفد کے ساتھ خان آف قلات سے بات چیت میں شامل ہوئے۔ وفد نے خان قلات کو بتایا کہ ان کی غیر حاضری سے ایک سیاسی خلاء پیدا ہوگیا ہے۔ وفد نے یہ بھی بتایا کہ بلوچستان میں سیاسی ، سیکیورٹی اور اقتصادی صورتحال بد سے بدترین ہورہی ہے۔ خان آف قلات نے اپنے جواب میں کہا کہ 2006میں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد ہونے والے قبائل کے جرگے میں انھیں لندن جانے اور قلات کو علیحدہ ریاست قرار دینے کے لیے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں مقدمہ دائر کرنے کافیصلہ ہوا تھا ۔
یہ جرگہ 103 سال بعد منعقد ہوا تھا جس میں قبائلی سردار، سیاستدان اور دانشوروں نے شرکت کی۔ اب قبائلی روایت کی تابعداری کرتے ہوئے ضروری ہے کہ قبائل پر مشتمل جرگہ ان کے واپس آنے کے بارے میں فیصلہ کرے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں ایجنسیوں کی کارروائیاں روکی جائیں اور سیاسی کارکنوں کے اغواء اور مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔
خان آف قلات کا شکوہ تھا کہ وفاقی حکومت اور سیکیورٹی ایجنسیوں کی حکمت عملی صوبے میں امن و امان کے قیام کے حق میں نہیں ہے۔ اب حکومتِ بلوچستان بڑے قبائلی جرگے میں شریک قبائلی رہنماؤں پر زور دے گی کہ وہ خان آف قلات سے واپسی کی درخواست کریں۔
بلوچستان وہ بدقسمت صوبہ ہے جو آزادی کے بعد سے استحصال اور پسماندگی کا شکار ہے۔ اب تک پانچ کے قریب فوجی آپریشن اس صوبے میں ہوچکے ہیں۔ 2006 میں سابق صدر پرویز مشرف کی غیر منطقی پالیسی کی بناء پر نواب اکبر بگٹی کے خلاف آپریشن ہوا۔ انھیں ڈیرہ بگٹی میں اپنے گھر کو چھوڑ کر جوکہ اس وقت مستقل گولہ باری کی زد میں تھا پہاڑوں پر جانا پڑا اور ایک پہاڑی غار میں پناہ لینی پڑی اور گولہ باری سے اس غار کو منہدم کیا گیا۔
اکبر بگٹی واحد بلوچ سردار تھے جنہوں نے 1947 میں ریاست قلات کی پاکستان میں شمولیت کی حمایت کی تھی اور آخری وقت تک وہ پاکستان کے حامی رہے۔ اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کو اپنی سرگرمیاں پھیلانے کا موقع ملا۔ ان لوگوں نے مایوس بلوچ نوجوانوں کے ذہنوں کو پراگندہ کیا۔
یہی وجہ تھی کہ اسکولوں میں پاکستانی قومی ترانہ پڑھنا جرم بن گیا۔ دیگر صوبوں سے آ کر آباد ہونے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔ اساتذہ اور سول سروس کے اراکین کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ اس صورتحال کی بناء پر ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان بلوچستان چھوڑ کر چلے گئے۔ اس صورتحال سے تعلیم اور صحت کا نظام شدید متاثر ہوئے۔ سیاسی کارکنوں کے اغواء کے واقعات رپورٹ ہوئے، مذہبی انتہاپسند گروہوں کو کھلی چھوٹ مل گئی۔
ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ ، ان کی بستیوں اور بسوں کو خودکش حملہ آوروں نے نشانہ بنانا شروع کیا۔ 2008 میں قائم ہونے والی نواب اسلم رئیسانی کی پیپلز پارٹی کی حکومت حالات کی نزاکت کو سمجھ نہیں پائی اور یہ خبریں عام ہوئیں کہ رئیسانی حکومت کے وزراء ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان کے کاروبارکی پشت پناہی کررہے ہیں۔
2013 کے انتخابات میں نیشنل پارٹی دوبارہ ابھر کر سامنے آئی۔ میر حاصل بزنجو کی قیادت میں نیشنل پارٹی کے رہنماؤں اور مسلم لیگ ن کے سربراہ کے درمیان مری معاہدہ ہوا۔ مسلم لیگ نے اکثریت ہونے کے باوجود نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر مالک بلوچ کو حکومت بنانے کی دعوت دی۔ مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق اور قبائلی رہنما اس مخلوط حکومت میں شامل ہوئے۔ ڈاکٹر مالک نے کرپشن کے خاتمے، امن و امان کو بہتر بنانے اور تعلیم اور صحت کے شعبوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دینے کا عزم کیا۔
ڈاکٹر مالک نے کانٹوں بھرا تاج پہن لیا تھا۔ ان کی وزارت میں شریک کئی وزراء کے علیحدہ اہداف تھے۔ دوسری طرف سیکیورٹی ایجنسیوں کو آپریشن کے منفی پہلوؤں پر قائل کرنا ایک مشکل ٹاسک تھا۔ اس کے ساتھ ہی بلوچستان کے مسئلے کے مستقل حل کے لیے جلاوطن رہنماؤں سے رابطے بھی ضروری تھے۔
ڈاکٹر مالک کی حکومت نے امن و امان کو بہتر بنانے کے لیے قابلِ قدر اقدمات کیے۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں ان مسلح گروہوں کی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں جو ہزارہ برادری کی نسل کشی اور سیاسی کارکنوں کو قتل کرنا ثواب سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عسکری گروہ کے کیمپ کے خاتمے کے بعد صوام کے مضافاتی علاقے سے مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔ اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث گروہ کا خاتمہ ہوا، صوبے کے ڈاکٹر، اساتذہ، تاجر اور ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد اور دیگر کی زندگی کو تحفظ حاصل ہوا۔ حکومت کے اقدامات کی بناء پر سیاسی کارکنوں کے اغواء کا سلسلہ خاصا کم ہوا ہے ۔
ڈاکٹر مالک سیکیورٹی ایجنسیوں اور بلوچستان کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد پر یقین رکھنے والے گروہوں کے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے میں خاطرخواہ طور پر کامیاب نہ ہوسکے۔ صوبے کے مختلف حصوں میں آپریشن اور دیگر صوبوں سے آ کر ترقیاتی کام کرنے والے مزدوروں کے قتل کا سلسلہ نہ رک سکا اور صوبے کی ترقی کے منصوبے اپنے اہداف حاصل نہ کرسکے۔ اب پاکستان اور چین کے اقتصادی راہداری کے منصوبے کا محور بلوچستان ہے۔
یہ راہداری گوادر سے شروع ہوگی اور پھر سندھ اور پنجاب سے ہوتی ہوئی پختون خواہ اور گلگت بلتستان پر اختتام پذیر ہوگی۔ ایران اور امریکا کے درمیان ایٹمی معاہدے پر اتفاقِ رائے کے بعد ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی تعمیر کے امکانات بھی پیدا ہوجائیں گے۔ بلوچستان کے قوم پرستوں کو ان ترقیاتی منصوبوں پر تحفظات ہیں۔ ان لوگوں کا ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ ترقیاتی منصوبوں میں بلوچ نوجوانوں کا حصہ کم ہوگا اور دیگر صوبوں سے ان منصوبوں کے لیے آنے والے افراد اور ان کے اہلِ خانہ کی بناء پر بلوچوں کے ریڈ انڈین بننے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
ان خدشات میں خاصا وزن ہے مگر اقتصادی ترقی ہی بلوچستان کے عوام کا تحفظ کرسکتی ہے۔ اگر بلوچستان کی حکومت ،قوم پرست جماعتیں، جلاوطن رہنما اور علیحدگی کا خواب دیکھنے والے نوجوان ایک گول میز کانفرنس میں اکٹھے ہوں اور ایسا لائحہ عمل بنائیں کہ ان خدشات کے خاتمے کے امکانات پیدا ہوجائیں ۔
وفاقی حکومت سے اس لائحہ عمل سے متعلق مذاکرات ہوں۔ دنیا کے ان ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے جو قبائلی نظام سے جدید نظام میں داخل ہوئے اور بلوچوں کے حقوق کے لیے آئین میں ترمیم کی جائے تو پھر بلوچستان کے مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔ مذاکرات میں فریقین کی شرکت سے ہی حقیقی لائحہ عمل تیار ہوسکتا ہے۔ جلاوطن رہنماؤں اور علیحدگی پسندوں کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ غیر ملکی امداد کے مخصوص مقاصد ہوتے ہیں اور جب ان ممالک کے مقاصد پورے ہوجاتے ہیں تو پالیسیاں تبدیل کرلی جاتی ہیں۔خطے میں ہونے والی تبدیلیوں سے سب کو سیکھنا چاہیے۔
ڈاکٹر مالک بھی اس وفد کے ساتھ خان آف قلات سے بات چیت میں شامل ہوئے۔ وفد نے خان قلات کو بتایا کہ ان کی غیر حاضری سے ایک سیاسی خلاء پیدا ہوگیا ہے۔ وفد نے یہ بھی بتایا کہ بلوچستان میں سیاسی ، سیکیورٹی اور اقتصادی صورتحال بد سے بدترین ہورہی ہے۔ خان آف قلات نے اپنے جواب میں کہا کہ 2006میں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد ہونے والے قبائل کے جرگے میں انھیں لندن جانے اور قلات کو علیحدہ ریاست قرار دینے کے لیے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں مقدمہ دائر کرنے کافیصلہ ہوا تھا ۔
یہ جرگہ 103 سال بعد منعقد ہوا تھا جس میں قبائلی سردار، سیاستدان اور دانشوروں نے شرکت کی۔ اب قبائلی روایت کی تابعداری کرتے ہوئے ضروری ہے کہ قبائل پر مشتمل جرگہ ان کے واپس آنے کے بارے میں فیصلہ کرے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں ایجنسیوں کی کارروائیاں روکی جائیں اور سیاسی کارکنوں کے اغواء اور مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔
خان آف قلات کا شکوہ تھا کہ وفاقی حکومت اور سیکیورٹی ایجنسیوں کی حکمت عملی صوبے میں امن و امان کے قیام کے حق میں نہیں ہے۔ اب حکومتِ بلوچستان بڑے قبائلی جرگے میں شریک قبائلی رہنماؤں پر زور دے گی کہ وہ خان آف قلات سے واپسی کی درخواست کریں۔
بلوچستان وہ بدقسمت صوبہ ہے جو آزادی کے بعد سے استحصال اور پسماندگی کا شکار ہے۔ اب تک پانچ کے قریب فوجی آپریشن اس صوبے میں ہوچکے ہیں۔ 2006 میں سابق صدر پرویز مشرف کی غیر منطقی پالیسی کی بناء پر نواب اکبر بگٹی کے خلاف آپریشن ہوا۔ انھیں ڈیرہ بگٹی میں اپنے گھر کو چھوڑ کر جوکہ اس وقت مستقل گولہ باری کی زد میں تھا پہاڑوں پر جانا پڑا اور ایک پہاڑی غار میں پناہ لینی پڑی اور گولہ باری سے اس غار کو منہدم کیا گیا۔
اکبر بگٹی واحد بلوچ سردار تھے جنہوں نے 1947 میں ریاست قلات کی پاکستان میں شمولیت کی حمایت کی تھی اور آخری وقت تک وہ پاکستان کے حامی رہے۔ اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کو اپنی سرگرمیاں پھیلانے کا موقع ملا۔ ان لوگوں نے مایوس بلوچ نوجوانوں کے ذہنوں کو پراگندہ کیا۔
یہی وجہ تھی کہ اسکولوں میں پاکستانی قومی ترانہ پڑھنا جرم بن گیا۔ دیگر صوبوں سے آ کر آباد ہونے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔ اساتذہ اور سول سروس کے اراکین کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ اس صورتحال کی بناء پر ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان بلوچستان چھوڑ کر چلے گئے۔ اس صورتحال سے تعلیم اور صحت کا نظام شدید متاثر ہوئے۔ سیاسی کارکنوں کے اغواء کے واقعات رپورٹ ہوئے، مذہبی انتہاپسند گروہوں کو کھلی چھوٹ مل گئی۔
ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ ، ان کی بستیوں اور بسوں کو خودکش حملہ آوروں نے نشانہ بنانا شروع کیا۔ 2008 میں قائم ہونے والی نواب اسلم رئیسانی کی پیپلز پارٹی کی حکومت حالات کی نزاکت کو سمجھ نہیں پائی اور یہ خبریں عام ہوئیں کہ رئیسانی حکومت کے وزراء ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان کے کاروبارکی پشت پناہی کررہے ہیں۔
2013 کے انتخابات میں نیشنل پارٹی دوبارہ ابھر کر سامنے آئی۔ میر حاصل بزنجو کی قیادت میں نیشنل پارٹی کے رہنماؤں اور مسلم لیگ ن کے سربراہ کے درمیان مری معاہدہ ہوا۔ مسلم لیگ نے اکثریت ہونے کے باوجود نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر مالک بلوچ کو حکومت بنانے کی دعوت دی۔ مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق اور قبائلی رہنما اس مخلوط حکومت میں شامل ہوئے۔ ڈاکٹر مالک نے کرپشن کے خاتمے، امن و امان کو بہتر بنانے اور تعلیم اور صحت کے شعبوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دینے کا عزم کیا۔
ڈاکٹر مالک نے کانٹوں بھرا تاج پہن لیا تھا۔ ان کی وزارت میں شریک کئی وزراء کے علیحدہ اہداف تھے۔ دوسری طرف سیکیورٹی ایجنسیوں کو آپریشن کے منفی پہلوؤں پر قائل کرنا ایک مشکل ٹاسک تھا۔ اس کے ساتھ ہی بلوچستان کے مسئلے کے مستقل حل کے لیے جلاوطن رہنماؤں سے رابطے بھی ضروری تھے۔
ڈاکٹر مالک کی حکومت نے امن و امان کو بہتر بنانے کے لیے قابلِ قدر اقدمات کیے۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں ان مسلح گروہوں کی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں جو ہزارہ برادری کی نسل کشی اور سیاسی کارکنوں کو قتل کرنا ثواب سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عسکری گروہ کے کیمپ کے خاتمے کے بعد صوام کے مضافاتی علاقے سے مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔ اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث گروہ کا خاتمہ ہوا، صوبے کے ڈاکٹر، اساتذہ، تاجر اور ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد اور دیگر کی زندگی کو تحفظ حاصل ہوا۔ حکومت کے اقدامات کی بناء پر سیاسی کارکنوں کے اغواء کا سلسلہ خاصا کم ہوا ہے ۔
ڈاکٹر مالک سیکیورٹی ایجنسیوں اور بلوچستان کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد پر یقین رکھنے والے گروہوں کے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے میں خاطرخواہ طور پر کامیاب نہ ہوسکے۔ صوبے کے مختلف حصوں میں آپریشن اور دیگر صوبوں سے آ کر ترقیاتی کام کرنے والے مزدوروں کے قتل کا سلسلہ نہ رک سکا اور صوبے کی ترقی کے منصوبے اپنے اہداف حاصل نہ کرسکے۔ اب پاکستان اور چین کے اقتصادی راہداری کے منصوبے کا محور بلوچستان ہے۔
یہ راہداری گوادر سے شروع ہوگی اور پھر سندھ اور پنجاب سے ہوتی ہوئی پختون خواہ اور گلگت بلتستان پر اختتام پذیر ہوگی۔ ایران اور امریکا کے درمیان ایٹمی معاہدے پر اتفاقِ رائے کے بعد ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی تعمیر کے امکانات بھی پیدا ہوجائیں گے۔ بلوچستان کے قوم پرستوں کو ان ترقیاتی منصوبوں پر تحفظات ہیں۔ ان لوگوں کا ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ ترقیاتی منصوبوں میں بلوچ نوجوانوں کا حصہ کم ہوگا اور دیگر صوبوں سے ان منصوبوں کے لیے آنے والے افراد اور ان کے اہلِ خانہ کی بناء پر بلوچوں کے ریڈ انڈین بننے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
ان خدشات میں خاصا وزن ہے مگر اقتصادی ترقی ہی بلوچستان کے عوام کا تحفظ کرسکتی ہے۔ اگر بلوچستان کی حکومت ،قوم پرست جماعتیں، جلاوطن رہنما اور علیحدگی کا خواب دیکھنے والے نوجوان ایک گول میز کانفرنس میں اکٹھے ہوں اور ایسا لائحہ عمل بنائیں کہ ان خدشات کے خاتمے کے امکانات پیدا ہوجائیں ۔
وفاقی حکومت سے اس لائحہ عمل سے متعلق مذاکرات ہوں۔ دنیا کے ان ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے جو قبائلی نظام سے جدید نظام میں داخل ہوئے اور بلوچوں کے حقوق کے لیے آئین میں ترمیم کی جائے تو پھر بلوچستان کے مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔ مذاکرات میں فریقین کی شرکت سے ہی حقیقی لائحہ عمل تیار ہوسکتا ہے۔ جلاوطن رہنماؤں اور علیحدگی پسندوں کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ غیر ملکی امداد کے مخصوص مقاصد ہوتے ہیں اور جب ان ممالک کے مقاصد پورے ہوجاتے ہیں تو پالیسیاں تبدیل کرلی جاتی ہیں۔خطے میں ہونے والی تبدیلیوں سے سب کو سیکھنا چاہیے۔