افغان حکومت نے ملا عمر کی ہلاکت کی تصدیق کردی
ملاعمر سے متعلق خبریں پھیلانے کا مقصد افغان حکومت سے جاری مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنا ہے، افغان طالبان
افغان حکومت نےملا عمر کی ہلاکت کی تصدیق کردی جب کہ صدارتی ترجمان کا کہنا ہے ملا عمر 2013 میں پاکستان میں ہلا ک ہوا تاہم طالبان اب بھی اس کی تردید کررہے ہیں۔
بی بی سی کے مطابق ملا عمر کا انتقال 2 سے 3 برس قبل ہوچکا ہے، افغان حکومت نے اس کی تصدیق کردی ہے جب کہ صدارتی ترجمان نے کہا کہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق ملا عمر 2013 میں پاکستان میں ہلاک ہوا تاہم افغان طالبان نے اس خبر کی تصدیق یا تردید سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بارے میں جلد ہی بیان جاری کیا جائے گا۔ بی بی سی کا کہنا ہے کہ ملا عمر کی ہلاکت کی کئی مرتبہ خبریں آئی ہیں تاہم پہلی مرتبہ اس کی تصدیق اعلیٰ ترین افغان حکام نے کی ہے۔
دوسری جانب امریکی خبر رساں ادارے وائس آف امریکا کے مطابق افغان طالبان نے بی بی سی کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملا عمر بخیریت اور مکمل صحت یاب ہیں، ان کے انتقال کی بے بنیاد خبریں پھیلانے کا مقصد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مذاکراتی عمل کوسبوتاژ کرنا ہے۔
واضح رہے کہ 2001 میں امریکی حملے کے بعد سے ملا عمر کو کسی نہیں دیکھا ہے۔ وہ گذشتہ 14 سالوں سے روپوشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عید الفطر کے موقع پر ایک پیغام میں ملا عمر نے افغانستان میں امن کے لیے بات چیت کو جائز قرار دیا تھا تاہم انہوں نے افغان حکومت اورطالبان رہنماؤں کے مذاکرات کا براہ راست کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔
https://www.dailymotion.com/video/x2zo40c_mulla-umar-dead_news
بی بی سی کے مطابق ملا عمر کا انتقال 2 سے 3 برس قبل ہوچکا ہے، افغان حکومت نے اس کی تصدیق کردی ہے جب کہ صدارتی ترجمان نے کہا کہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق ملا عمر 2013 میں پاکستان میں ہلاک ہوا تاہم افغان طالبان نے اس خبر کی تصدیق یا تردید سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بارے میں جلد ہی بیان جاری کیا جائے گا۔ بی بی سی کا کہنا ہے کہ ملا عمر کی ہلاکت کی کئی مرتبہ خبریں آئی ہیں تاہم پہلی مرتبہ اس کی تصدیق اعلیٰ ترین افغان حکام نے کی ہے۔
دوسری جانب امریکی خبر رساں ادارے وائس آف امریکا کے مطابق افغان طالبان نے بی بی سی کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملا عمر بخیریت اور مکمل صحت یاب ہیں، ان کے انتقال کی بے بنیاد خبریں پھیلانے کا مقصد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مذاکراتی عمل کوسبوتاژ کرنا ہے۔
واضح رہے کہ 2001 میں امریکی حملے کے بعد سے ملا عمر کو کسی نہیں دیکھا ہے۔ وہ گذشتہ 14 سالوں سے روپوشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عید الفطر کے موقع پر ایک پیغام میں ملا عمر نے افغانستان میں امن کے لیے بات چیت کو جائز قرار دیا تھا تاہم انہوں نے افغان حکومت اورطالبان رہنماؤں کے مذاکرات کا براہ راست کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔
https://www.dailymotion.com/video/x2zo40c_mulla-umar-dead_news