ایک پٹی ایک سڑک
ایک نوجوان آدمی کے لیےیہ انتہا درجہ کی فرحت و انبساط اور بے پایاں آزادی کا احساس اپنی نوعیت کا ایک الگ ہی تجربہ تھا۔
جیسا کہ مجھے تجربہ ہوا جب 1970ء میں، میں نے کچھ وقت کے کے ایچ (قراقرم ہائی وے) فلائٹ (چار آرمی ایوی ایشن اسکواڈرن) میں میجر ایچ یو کے نیازی جو بعد میں میجر جنرل ہو گئے، کی قیادت میں بلند و بالا پہاڑوں پر پروازیں کرتے گزارا جو کہ کئی وجوہات کی بنا پر ابھی تک میری یادداشت میں تازہ ہے۔
Aloutte-3، کو پائلٹ کرتے ہوئے جو کہ اس وقت فضا کی بی ایم ڈبلیو کے نام سے جانی جاتی تھی صرف منظر کی خوبصورتی ہی دیکھ کر انسان دم بخود رہ جاتا تھا۔ انتہائی سخت موسمی حالات سے قطع نظر جو کہ نومبر تک معمول پر نہیں آتے تھے۔ چنانچہ قراقرم کی وادیوں پر طیارے کی پرواز انتہائی جان جوکھم کا مرحلہ ہوتی ہے۔ ہر صبح ایک نیا معرکہ ہمارے اعتماد اور طیارے کی کارکردگی کا امتحان لیتا تھا۔ نئی نئی جگہوں کا وزٹ کیا جاتا تھا اور ہمارے دوستوں میں نئے نئے چہرے شامل ہو جاتے تھے۔ ایک نوجوان آدمی کے لیے یہ انتہا درجہ کی فرحت و انبساط اور بے پایاں آزادی کا احساس اپنی نوعیت کا ایک الگ ہی تجربہ تھا۔
پرواز کرتے ہوئے جب نیچے روسی ساخت کے ایم آئی6 طیارے کا تباہ شدہ ڈھانچہ نظر آتا تو ہمیں اس قدر بلندی پر پرواز کرنے کے خطرات کا واضح طور پر ادراک ہو جاتا۔ صرف چند ماہ پہلے مجھے بھی نالٹر (Nalter) کے مقام پر ایک المیے کا شکار ہونا پڑا۔ پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) ڈویژن کے دو فوجیوں کے ساتھ گلگت کے شمال میں ''کے کے ایچ'' کی تعمیر کے دوران جھیل پر برف جمی ہوئی تھی۔ صبح سویرے ان کو سیکڑوں کی تعداد میں اپنے بیس کیمپ سے نکل کر اپنی نمایاں خاکستری وردیوں میں مارچ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ وہ پہاڑوں کے دامن سے نکل کر سنگین چٹانوں کو ڈائنامائٹ سے توڑتے تھے۔
یہ اتنا خطرناک کام تھا کہ اس کے نتیجے میں مہلک حادثات بھی درپیش آتے جس کا شکار ہونے والوں کو ان کے بیس کیمپ پر قائم اسپتالوں میں پہنچا دیا جاتا جو کہ بڑا دل دہلا دینے والا کام تھا کیونکہ میرے پرواز کے لبادہ پر جگہ جگہ خون کے دھبے پڑ جاتے تھے جو کہ ان کی بہادری اور جانبازی کا سرخ تمغہ سمجھے جاتے تھے۔ ''کے کے ایچ'' پر ہزاروں لاکھوں بے نام چینی سپاہیوں نے خدمات انجام دیں اور اپنی جان کی قربانیاں بھی دیں۔ یہ قربانیاں اس ناقابل بیان مشکلات کی حامل سڑک کو تعمیر کرنے میں کام آئیں۔ فرض اور قربانی کا اس قدر عظیم مظاہرہ شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتا ہے۔
میرے لیے ان بہادر اور بے غرض انسانوں کی معیت میں رہنا ایک بڑے اعزاز کی بات تھی۔آخر یہ چینی ایک نا معلوم مقام سے پاکستان تک سڑک کی تعمیر کے لیے اس قدر پرعزم کیوں تھے؟ جن لوگوں نے اُرمچی اور کاشغر کو دیکھ رکھا ہے وہ یہ یقین کریں گے کہ یہ کام ناممکنات میں سے تھا۔ ''تم پاکستانی لوگ بیوقوف ہو' تم پانچ اور دس سال کے عرصے کے حساب سے سوچتے ہو' ہم چینی پچاس سے سو سال آگے کی سوچتے ہیں''۔ یہ میرے مترجم کا کہنا تھا۔
چین کے عزت مآب سفیر زہانگ چن سیانگ (Zhang Chun Xiang) میرے بہت اچھے دوست بن گئے جو کہ 1970ء کے عشرے میں ''کے کے ایچ'' کی تعمیر کے دوران خود بھی مترجم کے فرائض انجام دیتے رہے تھے۔ وہ بیجنگ یونیورسٹی سے گریجوایشن کرنے کے بعد یہاں آئے تھے۔ 45 سالہ عزت مآب سفیر کے 28 سال پاکستان میں سفارتی سرگرمیوں میں بسر ہوئے۔ وہ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں چینی کونسل جنرل کے منصب پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔
جس کے بعد انھیں 1998ء سے 2005ء تک پاکستان میں منصب سفارت پر فائز کیا گیا۔ وہ ہم پاکستانیوں میں سے بہت سے لوگوں سے کہیں زیادہ روانی کے ساتھ اردو بولتے ہیں بلکہ اگر کوئی غلط بات ہو جائے تو پنجابی زبان میں سب و شتم کی مہارت بھی رکھتے ہیں۔چالیس سے پچاس سال بعد جیو پولیٹیکل (جغرافیائی اور سیاسی ہم آہنگی) آج کے دور کی اقتصادیات کے ساتھ وابستہ ہو جائے گی۔ چینی صوبے سنکیانگ سے لے کر قراقرم کے پہاڑوں کی چوٹیوں سے گزرتے ہوئے پاکستان کے میدانوں کے راستے گوادر تک ہائی وے (سڑک) کی تعمیر بتدریج ایک بہت عظیم الشان شاہکار کے نقش و نگار میں رنگ بھر رہی ہے۔
اس سڑک کے مشرقی پہلو کی تعمیر حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے جب کہ پاک فوج 870 کلومیٹر طویل مغربی پہلو تعمیر کرنے پر کمربستہ ہے جس پر ایف ڈبلیو او ایک کریش پروگرام کے طور پر عمل پیرا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری بے حد ناگزیر ہے جس کی اہمیت کسی بھی دوسرے اقتصادی منصوبے پر فوقیت رکھتی ہے۔ اس منصوبے کو اصطلاحی زبان میں ''گیم چینجر'' کے طور پر بیان کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کی تعمیر سے صورت حال میں انقلابی تبدیلی پیدا ہو جائے گی جس سے خطے کے عوام کی غربت اور بے کسی پر قابو پانے میں حیرت انگیز طور پر مدد ملے گی۔
میں اگرچہ تمام حکومتوں پر مسلسل اور متواتر تنقید کرتا چلا آیا ہوں لیکن موجودہ حکومت کے اس منصوبے کی میں حد سے بڑھ کر داد دینا چاہتا ہوں جس نے ایک خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کا بِیڑا اٹھا رکھا ہے اور بڑی استقامت کے ساتھ اس کو بروئے کار لانے پر عمل پیرا ہے۔ اس کا سہرا یقینی طور پر میاں نواز شریف کے سر جاتا ہے جو کہ اس منصوبے کے روح رواں ہیں جب کہ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور کابینہ میں ان کے سرتاج عزیز جیسے ساتھیوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے جو سی پی ای سی کے اجلاسوں میں اس منصوبے کی تائید و معاونت کرتے رہے ہیں۔چینی حکام اس منصوبے کو ''ون بیلٹ' ون روڈ'' یعنی ایک پٹی ایک سڑک کا نام دیتے ہیں۔
اس کے بارے میں سیکیورٹی کے معاملات پر بات کرنے کے لیے مجھے این آئی ایس سی (نیشنل انسٹیٹیوٹ فارا سٹرٹیجک کمیونیکیشن) کی طرف سے بیجنگ جانے کی دعوت ملی اور گزشتہ تین دن سے مجھے اس منصوبے کے مشرقی اور مغربی دونوں پہلوؤں کے حوالے سے سلامتی کے خطرات پر اپنے خیالات پیش کرنے کا موقع ملا ہے۔
Aloutte-3، کو پائلٹ کرتے ہوئے جو کہ اس وقت فضا کی بی ایم ڈبلیو کے نام سے جانی جاتی تھی صرف منظر کی خوبصورتی ہی دیکھ کر انسان دم بخود رہ جاتا تھا۔ انتہائی سخت موسمی حالات سے قطع نظر جو کہ نومبر تک معمول پر نہیں آتے تھے۔ چنانچہ قراقرم کی وادیوں پر طیارے کی پرواز انتہائی جان جوکھم کا مرحلہ ہوتی ہے۔ ہر صبح ایک نیا معرکہ ہمارے اعتماد اور طیارے کی کارکردگی کا امتحان لیتا تھا۔ نئی نئی جگہوں کا وزٹ کیا جاتا تھا اور ہمارے دوستوں میں نئے نئے چہرے شامل ہو جاتے تھے۔ ایک نوجوان آدمی کے لیے یہ انتہا درجہ کی فرحت و انبساط اور بے پایاں آزادی کا احساس اپنی نوعیت کا ایک الگ ہی تجربہ تھا۔
پرواز کرتے ہوئے جب نیچے روسی ساخت کے ایم آئی6 طیارے کا تباہ شدہ ڈھانچہ نظر آتا تو ہمیں اس قدر بلندی پر پرواز کرنے کے خطرات کا واضح طور پر ادراک ہو جاتا۔ صرف چند ماہ پہلے مجھے بھی نالٹر (Nalter) کے مقام پر ایک المیے کا شکار ہونا پڑا۔ پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) ڈویژن کے دو فوجیوں کے ساتھ گلگت کے شمال میں ''کے کے ایچ'' کی تعمیر کے دوران جھیل پر برف جمی ہوئی تھی۔ صبح سویرے ان کو سیکڑوں کی تعداد میں اپنے بیس کیمپ سے نکل کر اپنی نمایاں خاکستری وردیوں میں مارچ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ وہ پہاڑوں کے دامن سے نکل کر سنگین چٹانوں کو ڈائنامائٹ سے توڑتے تھے۔
یہ اتنا خطرناک کام تھا کہ اس کے نتیجے میں مہلک حادثات بھی درپیش آتے جس کا شکار ہونے والوں کو ان کے بیس کیمپ پر قائم اسپتالوں میں پہنچا دیا جاتا جو کہ بڑا دل دہلا دینے والا کام تھا کیونکہ میرے پرواز کے لبادہ پر جگہ جگہ خون کے دھبے پڑ جاتے تھے جو کہ ان کی بہادری اور جانبازی کا سرخ تمغہ سمجھے جاتے تھے۔ ''کے کے ایچ'' پر ہزاروں لاکھوں بے نام چینی سپاہیوں نے خدمات انجام دیں اور اپنی جان کی قربانیاں بھی دیں۔ یہ قربانیاں اس ناقابل بیان مشکلات کی حامل سڑک کو تعمیر کرنے میں کام آئیں۔ فرض اور قربانی کا اس قدر عظیم مظاہرہ شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتا ہے۔
میرے لیے ان بہادر اور بے غرض انسانوں کی معیت میں رہنا ایک بڑے اعزاز کی بات تھی۔آخر یہ چینی ایک نا معلوم مقام سے پاکستان تک سڑک کی تعمیر کے لیے اس قدر پرعزم کیوں تھے؟ جن لوگوں نے اُرمچی اور کاشغر کو دیکھ رکھا ہے وہ یہ یقین کریں گے کہ یہ کام ناممکنات میں سے تھا۔ ''تم پاکستانی لوگ بیوقوف ہو' تم پانچ اور دس سال کے عرصے کے حساب سے سوچتے ہو' ہم چینی پچاس سے سو سال آگے کی سوچتے ہیں''۔ یہ میرے مترجم کا کہنا تھا۔
چین کے عزت مآب سفیر زہانگ چن سیانگ (Zhang Chun Xiang) میرے بہت اچھے دوست بن گئے جو کہ 1970ء کے عشرے میں ''کے کے ایچ'' کی تعمیر کے دوران خود بھی مترجم کے فرائض انجام دیتے رہے تھے۔ وہ بیجنگ یونیورسٹی سے گریجوایشن کرنے کے بعد یہاں آئے تھے۔ 45 سالہ عزت مآب سفیر کے 28 سال پاکستان میں سفارتی سرگرمیوں میں بسر ہوئے۔ وہ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں چینی کونسل جنرل کے منصب پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔
جس کے بعد انھیں 1998ء سے 2005ء تک پاکستان میں منصب سفارت پر فائز کیا گیا۔ وہ ہم پاکستانیوں میں سے بہت سے لوگوں سے کہیں زیادہ روانی کے ساتھ اردو بولتے ہیں بلکہ اگر کوئی غلط بات ہو جائے تو پنجابی زبان میں سب و شتم کی مہارت بھی رکھتے ہیں۔چالیس سے پچاس سال بعد جیو پولیٹیکل (جغرافیائی اور سیاسی ہم آہنگی) آج کے دور کی اقتصادیات کے ساتھ وابستہ ہو جائے گی۔ چینی صوبے سنکیانگ سے لے کر قراقرم کے پہاڑوں کی چوٹیوں سے گزرتے ہوئے پاکستان کے میدانوں کے راستے گوادر تک ہائی وے (سڑک) کی تعمیر بتدریج ایک بہت عظیم الشان شاہکار کے نقش و نگار میں رنگ بھر رہی ہے۔
اس سڑک کے مشرقی پہلو کی تعمیر حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے جب کہ پاک فوج 870 کلومیٹر طویل مغربی پہلو تعمیر کرنے پر کمربستہ ہے جس پر ایف ڈبلیو او ایک کریش پروگرام کے طور پر عمل پیرا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری بے حد ناگزیر ہے جس کی اہمیت کسی بھی دوسرے اقتصادی منصوبے پر فوقیت رکھتی ہے۔ اس منصوبے کو اصطلاحی زبان میں ''گیم چینجر'' کے طور پر بیان کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کی تعمیر سے صورت حال میں انقلابی تبدیلی پیدا ہو جائے گی جس سے خطے کے عوام کی غربت اور بے کسی پر قابو پانے میں حیرت انگیز طور پر مدد ملے گی۔
میں اگرچہ تمام حکومتوں پر مسلسل اور متواتر تنقید کرتا چلا آیا ہوں لیکن موجودہ حکومت کے اس منصوبے کی میں حد سے بڑھ کر داد دینا چاہتا ہوں جس نے ایک خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کا بِیڑا اٹھا رکھا ہے اور بڑی استقامت کے ساتھ اس کو بروئے کار لانے پر عمل پیرا ہے۔ اس کا سہرا یقینی طور پر میاں نواز شریف کے سر جاتا ہے جو کہ اس منصوبے کے روح رواں ہیں جب کہ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور کابینہ میں ان کے سرتاج عزیز جیسے ساتھیوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے جو سی پی ای سی کے اجلاسوں میں اس منصوبے کی تائید و معاونت کرتے رہے ہیں۔چینی حکام اس منصوبے کو ''ون بیلٹ' ون روڈ'' یعنی ایک پٹی ایک سڑک کا نام دیتے ہیں۔
اس کے بارے میں سیکیورٹی کے معاملات پر بات کرنے کے لیے مجھے این آئی ایس سی (نیشنل انسٹیٹیوٹ فارا سٹرٹیجک کمیونیکیشن) کی طرف سے بیجنگ جانے کی دعوت ملی اور گزشتہ تین دن سے مجھے اس منصوبے کے مشرقی اور مغربی دونوں پہلوؤں کے حوالے سے سلامتی کے خطرات پر اپنے خیالات پیش کرنے کا موقع ملا ہے۔