قیام امن و امان اور سیرت طیبہؐ سے رہنمائی
خود غیر مسلم دنیا میں بھی آپؐ کی حیات طیبہؐ کو موضوع تحریر بنایا گیا اور آپؐ کے اعجاز سیرت کا برملا اعتراف کیا گیا
QUETTA:
انسانیت کے محسن اعظم، سید عرب وعجم، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت طیبہ کے متعلق خود عہد نبویؐ سے عہد حاضر تک اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ اسے ایک ابدی حقیقت کا نام دینے میں کوئی تامل اور تردد نہیں کہ۔۔۔۔ اتنا کسی اور شخصیت کے بارے میں نہیں لکھا گیا۔ آپؐ کی حیات طیبہ کے ایک ایک گوشے کو مورخین اور ارباب سیر نے دنیا کے سامنے پیش کیا، جوں جوں زمانے نے ترقی کی اسی رفتار سے آپؐ کی ذات سراپا کمالات کی اہمیت بڑھتی رہی، رحمۃ اللعالمینؐ کے عہد مبارک سے عصر حاضر تک ہر زمانے اور ہر زبان میں آپؐ کی سیرت طیبہؐ پر ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔
خود غیر مسلم دنیا میں بھی آپؐ کی حیات طیبہؐ کو موضوع تحریر بنایا گیا اور آپؐ کے اعجاز سیرت کا برملا اعتراف کیا گیا اور یہ تاقیامت جاری رہے گا، مغربی دنیا کا نامور مشتشرق پروفیسر مارگولیوث اپنی کتاب "Mohammad and the Rise of Islam" کے ''مقدمہ'' میں اعتراف کرتا ہے کہ ''محمدؐ کے سوانح نگاروں کا ایک طویل سلسلہ ہے، جس کا ختم ہونا ناممکن ہے لیکن اس میں جگہ پانا قابل عزت و تکریم ہے۔'' یہ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکْ کی لافانی صداقت ہی ہے کہ زمانہ حال کے نامور امریکی عیسائی مصنف مائیکل ایچ ہارٹ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب "The 100" میں پیغمبر اسلامؐ کو اول مقام پر رکھا ہے، مائیکل ہارٹ لکھتا ہے:
"Mohammad was the only Man in History. Who was supremely successful on both the religious and the secular levels of humble origins."
انسانیت کے محسن اعظم، پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ نے انسانیت کی عظمت، احترام اور حقوق پر مبنی نہایت واضح اور ابدی تعلیمات و ہدایات کی روشنی میں ''حقوق انسان'' (Human Rights) کے متعلق وہ دائمی تصور حقوق و فرائض عطا فرمائے وہ انسانی تاریخ کی حتمی اور دائمی دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔
یوں تو آپؐ کی پوری حیات طیبہ انسانی حقوق کی تعلیمات سے عبارت ہے لیکن بطور خاص ان میں ''خطبہ حجۃ الوداع'' 9 ذی الحجہ 10ھ /6 مارچ 632ء اہم ترین حیثیت رکھتا ہے، سچ تو یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں ''حقوق انسانی'' کی تحریک کے آغاز و ارتقا کا تمام تر سہرا محسن انسانیتؐ کے سر ہی ہے۔ رسالت مآبؐ کا یہ تاریخی خطبہ بلاشبہ انسانی حقوق کا اولین، مثالی، ابدی اور عالمی منشور اعظم ہے جو ایک تاریخی شہادت اور ناقابل تردید حقیقت ہے۔
''خطبہ حجۃ الوداع'' انسانی حقوق کی تاریخ کا مبدا و منتہیٰ ہے لہٰذا یورپ کے معروف مورخ لارڈ ایکٹن نے اس بے مثال و لازوال خطبہ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ''آسمان نے روز و شب کی ہزار کروٹیں بدلیں لیکن احترام انسانیت اور حقوق انسانی کے لیے اس سے زیادہ پُردرد اور پُرخلوص آواز نہیں سنی۔''
رحمتہ اللعالمینؐ کا ''خطبہ حجۃالوداع'' بلاخوف تردید حقوق انسانی کا اولین اور ابدی منشور ہے جو نہ کسی سیاسی مصلحت کی بنیاد پر تھا اور نہ کسی وقتی جذبہ کی پیداوار، یہ حقوق انسانی کے اولین علمبردار محسن انسانیتؐ کا انسانیت کے نام آخری اور دائمی پیغام تھا۔ جس میں انسانی حقوق کے بنیادی خطوط کی رہنمائی کرتے ہوئے انسانی حقوق کا وہ مثالی اور ابدی منشور عطا کیا گیا، جس پر انسانیت جتنا فخر کرے کم ہے، جتنا ناز کرے بجا ہے۔ فصاحت و بلاغت کی معراج، انسانیت کی شان، انسانی حقوق کا دائمی نشان یہ عظیم الشان تاریخ ساز خطبہ انسانیت کی عظمت، جلالت شان اور تاریخی اہمیت کے باعث 'حجۃ الاسلام ، حجۃالبلاغ، حجۃالتمام اور حجۃالکمال کے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
10ھ بمطابق 632ء میں حج کے موقعے پر نبی کریمؐ نے میدان عرفات میں جہاں عرب کے گوشے گوشے سے جانثاران نبوت، صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین شرف ہمرکابی اور زیارت نبویؐ کے جذبہ لافانی کے تحت امنڈ پڑے تھے۔ تاحد نظر انسانوں کا ایک موجیں مارتا ہوا سمندر نظر آتا تھا۔ انسانی تاریخ کے ان بے مثل پروانوں اور بے نظیر فداکاروں سے جن کی تعداد کم و بیش ایک لاکھ تیس ہزار مقدس نفوس پر مشتمل تھی خاتم الانبیاؐ نے نہایت فصیح و بلیغ الفاظ میں یہ عظیم الشان اور تاریخ ساز خطبہ ارشاد فرمایا تھا جس کی قدر و منزلت حقوق انسانی کے حوالے سے صرف تاریخ اسلام ہی میں نہیں بلکہ تاریخ عالم میں بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے اور جو کل انسانیت کے لیے مشعل راہ، چراغ راہ اور مینارہ نور ہے۔
اس منشورانسانی حقوق کی تاریخی اہمیت، حقیقت اور عظمت کا اندازہ کرنے اور انسانی حقوق کے حوالے سے آپؐ کے تاریخی اور مرکزی کردار کی اہمیت جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اس مثالی منشور انسانیت کی جوکہ مکمل طور پر انسانیت کا منشور اعظم ہے۔ تاریخی اہمیت کے پیش نظر اس میں عطا کردہ حقوق انسانیت پر ایک سرسری نگاہ ڈالی جائے لہٰذا ذیل میں ''خطبۃ حجۃالوداع'' کے حقوق انسانی سے متعلق چند نکات ہدیہ قارئین ہیں۔1۔ جان، مال، عزت و آبرو اور اولاد کے تحفظ کا حق۔ 2۔ امانت کی ادائیگی، قرض کی وصولیابی اور جائیداد کے تحفظ کا حق۔ 3۔ سود کے خاتمے کا تاریخی اعلان، انسانیت پر احسان عظیم۔4۔ پر امن زندگی اور بقائے باہمی کا حق (Harmonious Coexistence) کا حق۔ 5۔ ملکیت، عزت نفس اور منصب کے تحفظ کا حق۔ 6۔ انسانی جان کے تحفظ اور قصاص ودیت (Relating to Retaliation and blood money) میں مساوات کا قانونی حق۔ 7۔ انسانی مساوات کا حق اور انسانی تفاخر و طبقاتی تقسیم کے خاتمے کا تاریخی اعلان۔ 8۔ عورتوں کے حقوق کا تاریخی اعلان۔ 9۔ غلاموں کے حقوق کا انقلابی اور عملی اعلان۔ 10۔ عالمگیر مساوات انسانی اور مواخات (Confraternity) کا حق۔ 11۔ انسانیت کے منشور اعظم ''خطبۃ حجۃ الوداع'' کے تحفظ اور اس کے نافذ العمل بنانے کا اعلان۔
انسانیت کے محسن اعظم حضرت محمدؐ کے ''خطبہ حجۃ الوداع'' 632ء کی طرف دیکھیے اس میں انسانیت کے لیے تمام انسانی حقوق آئینی دفعات اور اس کے نافذ العمل بنانے کے حتمی، ابدی و تاریخی اعلان کے ساتھ فراہم کر دیے ہیں اور اتنی واضح تعلیمات اور ہدایات دی گئی ہیں کہ جن کی من مانی تشریح اور خود ساختہ مفہوم اخذ کرنے کے لیے بھی کسی قسم کے تکلفات کی گنجائش نہیں رہتی۔ پیغمبر اسلامؐ کے انسانی حقوق کے حوالے سے کیے گئے تمام اقدامات، اعلانات اور ہدایات کو آپؐ کی حیات طیبہ میں ہی آپؐ کے قائم کردہ مدنی معاشرہ میں عدل و انصاف اور انسانی مساوات کے زریں اصول پر عملاؐ نافذ العمل اور آئینی شکل میں اسلامی دستور اور نظام حیات کا جزو لازم بنا دیا گیا تھا۔
بالخصوص عہد نبویؐ کے مدنی معاشرہ، عہد خلافت راشدہؓ کے فلاحی معاشرہ (11ھ تا 40ھ/ 632ء تا 661ء) اور بعد کے اسی نہج پر قائم اسلامی ادوار میں جس طرح نافذ العمل بنایا گیا، اسلامی تاریخ کے سنہرے اوراق اس کے گواہ ہیں۔ آج عروس البلاد کراچی میں انسانی جان کی حرمت کو پیوند خاک کا نمونہ بننے سے بچانے اور شہر میں قتل و غارت گری، کشت و خون کے خاتمے اور قیام امن و امان کے لیے ہماری حکومت کو ایسا عظیم ضابطہ اخلاق تشکیل دینے اور ایسے شفاف اور موثر قانون سازی کرنے کی اشد ضرورت ہے جس کی بنیادیں ''خطبہ حجۃالوداع'' کی انسانی حقوق کی دفعات پر استوار کی جائیں جب کہ عوام میں دینی شعور بیدار کرنا ہمارے علما کرام کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔
ہمارے سیاسی و مذہبی مسائل کے حل اور جھگڑوں کو نبٹانے کے لیے حکومت اور علما کرام کو ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں تحمل، برداشت، رواداری، مساوات، اعتدال پسندی، وسیع القلبی و وسیع نظری اور اخوت و بھائی چارے کو فروغ دیا جائے اور انتہا پسندی، دہشت گردی اور شرپسندی کا مستقل بنیادوں پر خاتمہ کیا جائے، جان مسلم کے احترام و تقدس نیز احترام آدمیت اور تکریم انسانیت کا وہ عظیم شعور اجاگر کیا جائے جس کی جانب رحمۃ اللعالمینؐ نے اپنے آخری خطبے میں واضح طور نشاندہی و رہنمائی فرمائی ہے۔
انسانیت کے محسن اعظم، سید عرب وعجم، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت طیبہ کے متعلق خود عہد نبویؐ سے عہد حاضر تک اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ اسے ایک ابدی حقیقت کا نام دینے میں کوئی تامل اور تردد نہیں کہ۔۔۔۔ اتنا کسی اور شخصیت کے بارے میں نہیں لکھا گیا۔ آپؐ کی حیات طیبہ کے ایک ایک گوشے کو مورخین اور ارباب سیر نے دنیا کے سامنے پیش کیا، جوں جوں زمانے نے ترقی کی اسی رفتار سے آپؐ کی ذات سراپا کمالات کی اہمیت بڑھتی رہی، رحمۃ اللعالمینؐ کے عہد مبارک سے عصر حاضر تک ہر زمانے اور ہر زبان میں آپؐ کی سیرت طیبہؐ پر ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔
خود غیر مسلم دنیا میں بھی آپؐ کی حیات طیبہؐ کو موضوع تحریر بنایا گیا اور آپؐ کے اعجاز سیرت کا برملا اعتراف کیا گیا اور یہ تاقیامت جاری رہے گا، مغربی دنیا کا نامور مشتشرق پروفیسر مارگولیوث اپنی کتاب "Mohammad and the Rise of Islam" کے ''مقدمہ'' میں اعتراف کرتا ہے کہ ''محمدؐ کے سوانح نگاروں کا ایک طویل سلسلہ ہے، جس کا ختم ہونا ناممکن ہے لیکن اس میں جگہ پانا قابل عزت و تکریم ہے۔'' یہ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکْ کی لافانی صداقت ہی ہے کہ زمانہ حال کے نامور امریکی عیسائی مصنف مائیکل ایچ ہارٹ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب "The 100" میں پیغمبر اسلامؐ کو اول مقام پر رکھا ہے، مائیکل ہارٹ لکھتا ہے:
"Mohammad was the only Man in History. Who was supremely successful on both the religious and the secular levels of humble origins."
انسانیت کے محسن اعظم، پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ نے انسانیت کی عظمت، احترام اور حقوق پر مبنی نہایت واضح اور ابدی تعلیمات و ہدایات کی روشنی میں ''حقوق انسان'' (Human Rights) کے متعلق وہ دائمی تصور حقوق و فرائض عطا فرمائے وہ انسانی تاریخ کی حتمی اور دائمی دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔
یوں تو آپؐ کی پوری حیات طیبہ انسانی حقوق کی تعلیمات سے عبارت ہے لیکن بطور خاص ان میں ''خطبہ حجۃ الوداع'' 9 ذی الحجہ 10ھ /6 مارچ 632ء اہم ترین حیثیت رکھتا ہے، سچ تو یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں ''حقوق انسانی'' کی تحریک کے آغاز و ارتقا کا تمام تر سہرا محسن انسانیتؐ کے سر ہی ہے۔ رسالت مآبؐ کا یہ تاریخی خطبہ بلاشبہ انسانی حقوق کا اولین، مثالی، ابدی اور عالمی منشور اعظم ہے جو ایک تاریخی شہادت اور ناقابل تردید حقیقت ہے۔
''خطبہ حجۃ الوداع'' انسانی حقوق کی تاریخ کا مبدا و منتہیٰ ہے لہٰذا یورپ کے معروف مورخ لارڈ ایکٹن نے اس بے مثال و لازوال خطبہ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ''آسمان نے روز و شب کی ہزار کروٹیں بدلیں لیکن احترام انسانیت اور حقوق انسانی کے لیے اس سے زیادہ پُردرد اور پُرخلوص آواز نہیں سنی۔''
رحمتہ اللعالمینؐ کا ''خطبہ حجۃالوداع'' بلاخوف تردید حقوق انسانی کا اولین اور ابدی منشور ہے جو نہ کسی سیاسی مصلحت کی بنیاد پر تھا اور نہ کسی وقتی جذبہ کی پیداوار، یہ حقوق انسانی کے اولین علمبردار محسن انسانیتؐ کا انسانیت کے نام آخری اور دائمی پیغام تھا۔ جس میں انسانی حقوق کے بنیادی خطوط کی رہنمائی کرتے ہوئے انسانی حقوق کا وہ مثالی اور ابدی منشور عطا کیا گیا، جس پر انسانیت جتنا فخر کرے کم ہے، جتنا ناز کرے بجا ہے۔ فصاحت و بلاغت کی معراج، انسانیت کی شان، انسانی حقوق کا دائمی نشان یہ عظیم الشان تاریخ ساز خطبہ انسانیت کی عظمت، جلالت شان اور تاریخی اہمیت کے باعث 'حجۃ الاسلام ، حجۃالبلاغ، حجۃالتمام اور حجۃالکمال کے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
10ھ بمطابق 632ء میں حج کے موقعے پر نبی کریمؐ نے میدان عرفات میں جہاں عرب کے گوشے گوشے سے جانثاران نبوت، صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین شرف ہمرکابی اور زیارت نبویؐ کے جذبہ لافانی کے تحت امنڈ پڑے تھے۔ تاحد نظر انسانوں کا ایک موجیں مارتا ہوا سمندر نظر آتا تھا۔ انسانی تاریخ کے ان بے مثل پروانوں اور بے نظیر فداکاروں سے جن کی تعداد کم و بیش ایک لاکھ تیس ہزار مقدس نفوس پر مشتمل تھی خاتم الانبیاؐ نے نہایت فصیح و بلیغ الفاظ میں یہ عظیم الشان اور تاریخ ساز خطبہ ارشاد فرمایا تھا جس کی قدر و منزلت حقوق انسانی کے حوالے سے صرف تاریخ اسلام ہی میں نہیں بلکہ تاریخ عالم میں بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے اور جو کل انسانیت کے لیے مشعل راہ، چراغ راہ اور مینارہ نور ہے۔
اس منشورانسانی حقوق کی تاریخی اہمیت، حقیقت اور عظمت کا اندازہ کرنے اور انسانی حقوق کے حوالے سے آپؐ کے تاریخی اور مرکزی کردار کی اہمیت جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اس مثالی منشور انسانیت کی جوکہ مکمل طور پر انسانیت کا منشور اعظم ہے۔ تاریخی اہمیت کے پیش نظر اس میں عطا کردہ حقوق انسانیت پر ایک سرسری نگاہ ڈالی جائے لہٰذا ذیل میں ''خطبۃ حجۃالوداع'' کے حقوق انسانی سے متعلق چند نکات ہدیہ قارئین ہیں۔1۔ جان، مال، عزت و آبرو اور اولاد کے تحفظ کا حق۔ 2۔ امانت کی ادائیگی، قرض کی وصولیابی اور جائیداد کے تحفظ کا حق۔ 3۔ سود کے خاتمے کا تاریخی اعلان، انسانیت پر احسان عظیم۔4۔ پر امن زندگی اور بقائے باہمی کا حق (Harmonious Coexistence) کا حق۔ 5۔ ملکیت، عزت نفس اور منصب کے تحفظ کا حق۔ 6۔ انسانی جان کے تحفظ اور قصاص ودیت (Relating to Retaliation and blood money) میں مساوات کا قانونی حق۔ 7۔ انسانی مساوات کا حق اور انسانی تفاخر و طبقاتی تقسیم کے خاتمے کا تاریخی اعلان۔ 8۔ عورتوں کے حقوق کا تاریخی اعلان۔ 9۔ غلاموں کے حقوق کا انقلابی اور عملی اعلان۔ 10۔ عالمگیر مساوات انسانی اور مواخات (Confraternity) کا حق۔ 11۔ انسانیت کے منشور اعظم ''خطبۃ حجۃ الوداع'' کے تحفظ اور اس کے نافذ العمل بنانے کا اعلان۔
انسانیت کے محسن اعظم حضرت محمدؐ کے ''خطبہ حجۃ الوداع'' 632ء کی طرف دیکھیے اس میں انسانیت کے لیے تمام انسانی حقوق آئینی دفعات اور اس کے نافذ العمل بنانے کے حتمی، ابدی و تاریخی اعلان کے ساتھ فراہم کر دیے ہیں اور اتنی واضح تعلیمات اور ہدایات دی گئی ہیں کہ جن کی من مانی تشریح اور خود ساختہ مفہوم اخذ کرنے کے لیے بھی کسی قسم کے تکلفات کی گنجائش نہیں رہتی۔ پیغمبر اسلامؐ کے انسانی حقوق کے حوالے سے کیے گئے تمام اقدامات، اعلانات اور ہدایات کو آپؐ کی حیات طیبہ میں ہی آپؐ کے قائم کردہ مدنی معاشرہ میں عدل و انصاف اور انسانی مساوات کے زریں اصول پر عملاؐ نافذ العمل اور آئینی شکل میں اسلامی دستور اور نظام حیات کا جزو لازم بنا دیا گیا تھا۔
بالخصوص عہد نبویؐ کے مدنی معاشرہ، عہد خلافت راشدہؓ کے فلاحی معاشرہ (11ھ تا 40ھ/ 632ء تا 661ء) اور بعد کے اسی نہج پر قائم اسلامی ادوار میں جس طرح نافذ العمل بنایا گیا، اسلامی تاریخ کے سنہرے اوراق اس کے گواہ ہیں۔ آج عروس البلاد کراچی میں انسانی جان کی حرمت کو پیوند خاک کا نمونہ بننے سے بچانے اور شہر میں قتل و غارت گری، کشت و خون کے خاتمے اور قیام امن و امان کے لیے ہماری حکومت کو ایسا عظیم ضابطہ اخلاق تشکیل دینے اور ایسے شفاف اور موثر قانون سازی کرنے کی اشد ضرورت ہے جس کی بنیادیں ''خطبہ حجۃالوداع'' کی انسانی حقوق کی دفعات پر استوار کی جائیں جب کہ عوام میں دینی شعور بیدار کرنا ہمارے علما کرام کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔
ہمارے سیاسی و مذہبی مسائل کے حل اور جھگڑوں کو نبٹانے کے لیے حکومت اور علما کرام کو ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں تحمل، برداشت، رواداری، مساوات، اعتدال پسندی، وسیع القلبی و وسیع نظری اور اخوت و بھائی چارے کو فروغ دیا جائے اور انتہا پسندی، دہشت گردی اور شرپسندی کا مستقل بنیادوں پر خاتمہ کیا جائے، جان مسلم کے احترام و تقدس نیز احترام آدمیت اور تکریم انسانیت کا وہ عظیم شعور اجاگر کیا جائے جس کی جانب رحمۃ اللعالمینؐ نے اپنے آخری خطبے میں واضح طور نشاندہی و رہنمائی فرمائی ہے۔