ملاعمر افغان منظر نامہ کا طلسماتی کردار
1979-1989ء کے دوران ملاعمر اسامہ بن لادن سے منسلک رہے، روسی جارحیت کے خلاف دیگر متحارب قبائل کے ہمراہ لڑتے رہے
افغان طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر کی ہلاکت کے حوالے سے اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ طالبان نے بھی اس کی تصدیق کر دی ہے۔ گزشتہ روز طالبان شوریٰ نے ملا محمد اختر منصور کو نیا امیر منتخب کر لیا ہے' سراج حقانی کو نائب امیر شمالی افغانستان جب کہ ہیبت اللہ اخونزادہ کو نائب امیر جنوبی افغانستان بنایا گیا ہے' یوں ملا عمر کے مرنے کی باقاعدہ تصدیق کر دی گئی ہے' طالبان نے افغان حکومت سے مذاکرات بھی معطل کر دیے ہیں تاہم یہ عندیہ دیا ہے کہ طالبان شوریٰ مذاکرات کے حق میں ہے۔
ملا عمر نے روسی جارحیت کے خلاف افغانستان میں لڑائی لڑی اور پھر طالبان کے ذریعے افغانستان کی حکومت حاصل کی' وہ افغان جنگ کا اہم کردار رہے۔ ان کی حیات و موت کی پراسراریت مغربی میڈیا سمیت ملکی اہل سیاست و صحافت کے لیے حیرت ناک ہے کیونکہ اطلاعات کے ناقابل یقین عصری انقلاب اور ذرائع ابلاغ کی غیر معمولی سرعت اور خبروں تک رسائی کے متعدد وسائل کے باوجود اسامہ بن لادن کے بعد اب ملا عمر کی موت بھی معمہ بن گئی ہے، افغان حکومت نے ملا عمر کی ہلاکت کی تصدیق ہے۔امریکا نے کہا ہے کہ ملا عمر کی موت کی اطلاعات قابل اعتبار ہیں۔ بی بی سی نے بدھ کو افغان حکومت میں موجود ذرائع کے حوالے سے ملا محمد عمر کے انتقال کا دعویٰ کیا ہے۔ کابل کے صدارتی محل سے بدھ کی شب جاری ہونیوالے بیان میں کہا گیا کہ افغان حکومت مصدقہ معلومات کی بنیاد پر تصدیق کر رہی ہے کہ ملا عمر اپریل 2013ء میں پاکستان میں انتقال کر گئے تھے۔پاکستان میں انتقال کی خبر دے کر دراصل افغان حکومت نے شرارت کی ہے۔
دوسری جانب پاکستانی سرکاری ذرائع نے ملا عمر کی کراچی میں موت کی خبر کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔1979-1989ء کے دوران ملاعمر اسامہ بن لادن سے منسلک رہے، روسی جارحیت کے خلاف دیگر متحارب قبائل کے ہمراہ لڑتے رہے۔ چار بار زخمی ہوئے، ایک حملہ میں ان کی دائیں آنکھ ضایع ہو گئی،1994ء میں افغان کمیونسٹ حکومت کے زوال کے بعد انہیں افغانستان میں حکمرانی قائم کرنے کا موقع ملا، 1996ء میں سپریم کمانڈر اور امیرالمومنین بنے۔
افغانستان میں ملا عمر نے اسامہ بن لادن کی سرپرستی کی۔ نائن الیون سانحہ کے بعد امریکا نے افغانستان پر حملہ کر کے طالبان حکومت ختم کر دی۔ ملا عمر مختلف مقامات پر روپوش ہوتے رہے۔ انھوں نے کسی مغربی صحافی سے ملاقات نہیں کی۔ان کے بارے میں ماضی میں بھی متضاد اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں۔
امریکا نے ان کے سر کی قیمت 10 ملین (ایک کروڑ) ڈالر مقرر کی۔ بہر کیف طالبان شوریٰ کی جانب سے ملاعمر کے انتقال کے بعدنائن الیون کے بعد شروع ہونے والے معرکہ کے دو اہم ترین کردار اسامہ اور ملا عمر ختم ہو گئے۔
مگر اس حقیقت کو دنیا فراموش نہیں کر سکتی کہ ملا عمر نے روسی جارحیت، امریکی سامراج اور مغربی قوتوں کے خلاف غیر معمولی جدوجہد کی۔جب بھی افغانستان کی تاریخ لکھی جائے گی ملا عمر کا کردار اس کا لازمی حصہ ہوگا۔اب یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان جو مذاکراتی عمل شروع ہوا تھا 'وہ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
ملا عمر نے روسی جارحیت کے خلاف افغانستان میں لڑائی لڑی اور پھر طالبان کے ذریعے افغانستان کی حکومت حاصل کی' وہ افغان جنگ کا اہم کردار رہے۔ ان کی حیات و موت کی پراسراریت مغربی میڈیا سمیت ملکی اہل سیاست و صحافت کے لیے حیرت ناک ہے کیونکہ اطلاعات کے ناقابل یقین عصری انقلاب اور ذرائع ابلاغ کی غیر معمولی سرعت اور خبروں تک رسائی کے متعدد وسائل کے باوجود اسامہ بن لادن کے بعد اب ملا عمر کی موت بھی معمہ بن گئی ہے، افغان حکومت نے ملا عمر کی ہلاکت کی تصدیق ہے۔امریکا نے کہا ہے کہ ملا عمر کی موت کی اطلاعات قابل اعتبار ہیں۔ بی بی سی نے بدھ کو افغان حکومت میں موجود ذرائع کے حوالے سے ملا محمد عمر کے انتقال کا دعویٰ کیا ہے۔ کابل کے صدارتی محل سے بدھ کی شب جاری ہونیوالے بیان میں کہا گیا کہ افغان حکومت مصدقہ معلومات کی بنیاد پر تصدیق کر رہی ہے کہ ملا عمر اپریل 2013ء میں پاکستان میں انتقال کر گئے تھے۔پاکستان میں انتقال کی خبر دے کر دراصل افغان حکومت نے شرارت کی ہے۔
دوسری جانب پاکستانی سرکاری ذرائع نے ملا عمر کی کراچی میں موت کی خبر کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔1979-1989ء کے دوران ملاعمر اسامہ بن لادن سے منسلک رہے، روسی جارحیت کے خلاف دیگر متحارب قبائل کے ہمراہ لڑتے رہے۔ چار بار زخمی ہوئے، ایک حملہ میں ان کی دائیں آنکھ ضایع ہو گئی،1994ء میں افغان کمیونسٹ حکومت کے زوال کے بعد انہیں افغانستان میں حکمرانی قائم کرنے کا موقع ملا، 1996ء میں سپریم کمانڈر اور امیرالمومنین بنے۔
افغانستان میں ملا عمر نے اسامہ بن لادن کی سرپرستی کی۔ نائن الیون سانحہ کے بعد امریکا نے افغانستان پر حملہ کر کے طالبان حکومت ختم کر دی۔ ملا عمر مختلف مقامات پر روپوش ہوتے رہے۔ انھوں نے کسی مغربی صحافی سے ملاقات نہیں کی۔ان کے بارے میں ماضی میں بھی متضاد اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں۔
امریکا نے ان کے سر کی قیمت 10 ملین (ایک کروڑ) ڈالر مقرر کی۔ بہر کیف طالبان شوریٰ کی جانب سے ملاعمر کے انتقال کے بعدنائن الیون کے بعد شروع ہونے والے معرکہ کے دو اہم ترین کردار اسامہ اور ملا عمر ختم ہو گئے۔
مگر اس حقیقت کو دنیا فراموش نہیں کر سکتی کہ ملا عمر نے روسی جارحیت، امریکی سامراج اور مغربی قوتوں کے خلاف غیر معمولی جدوجہد کی۔جب بھی افغانستان کی تاریخ لکھی جائے گی ملا عمر کا کردار اس کا لازمی حصہ ہوگا۔اب یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان جو مذاکراتی عمل شروع ہوا تھا 'وہ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔