ایک پنتھ دو کاج
کسی ایک عمل سے دو فائدے اٹھانے کو اردو زبان میں ’ایک پنتھ دو کاج‘ کی اصطلاح تقریباً ایک سو برس سے رائج ہے،
کسی ایک عمل سے دو فائدے اٹھانے کو اردو زبان میں 'ایک پنتھ دو کاج' کی اصطلاح تقریباً ایک سو برس سے رائج ہے، جو ہندی زبان سے مستعار ہے۔ عام طور پر یہ اچھے معنی میں استعمال ہوتا ہے، مگر بعض اوقات چالاکی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ابھی مشرق وسطیٰ میں ایک بھیانک جنگ (ISIS) داعش اور ریاستوں کے مابین چل رہی ہے۔
خصوصاً عراق اور شام، دونوں ممالک بری طرح متاثر ہیں۔ حقیقت تو یہی تھی کہ یہ جنگ القاعدہ اور ان کے ہمنواؤں اور شام کے صدر بشار الاسد کے درمیان شروع ہوئی، یہ ایک طویل جنگ تھی۔ ایک طرف امریکا تھا جو بشار الاسد کے خلاف، جب کہ روس اس کی حمایت میں تھا۔ صورتِ حال اس قدر کشیدہ ہو چلی تھی کہ روس اور امریکا فریقین بن کر آمنے سامنے آ گئے کیوں کہ شام کے دوسرے بڑے اور اہم شہر الیپو (Allepo) پر حملے کے دوران شام پر مغربی ممالک اور امریکی اتحادیوں نے یہ الزام لگایا کہ شام اس شہر کو خالی کرانے کے لیے زہریلی گیس اور کیمیاوی اسلحہ استعمال کر رہا ہے۔
لہٰذا دونوں جانب کے اتحادی تصادم سے بچنے کے لیے ایک سمجھوتے پر متفق ہو گئے اور ایک بڑی جنگ سے مشرق وسطیٰ دوچار ہونے سے بچ گیا اور اب اس جنگ نے دوسرا رخ اختیار کر لیا ہے، بظاہر اسلام پسند اور امریکی پسندیدہ قوتیں تو رفتہ رفتہ شکست کھا کے پیچھے ہٹ گئیں اور آئی ایس آئی ایس المعروف داعش نے وہاں قدم جمائے اور شام کے کئی سرحدی شہروں پر قبضہ کر لیا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا نے اپنے ملک کی رائے عامہ سے بچنے کے لیے ایک پنتھ دو کاج والے فارمولے پر عمل درآمد شروع کر دیا۔
اس نے عراقی کردوں کو مسلح کرنا شروع کر دیا اور ان کو یہ عندیہ دیا کہ کردوں کو ایک تیسری اور بااختیار قوت کے طور پر تسلیم کر لیا جائے گا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شام کے جن علاقوں پر داعش (ISIS) کا قبضہ ہو گیا تھا، کردوں نے بڑی بے جگری سے مزاحمت کی۔
اس جنگ میں کرد جانباز خواتین رضاکار دستوں نے بھی حصہ لیا اور کئی شہروں کو خالی کروا لیا اور امریکا کا جانی اور مالی نقصان بھی نہ ہوا۔ مگر اپنے مقاصد حاصل کر لیے کہ دوسروں کی جنگ میں اپنے مقاصد کا حصول، یہ امریکا کا پرانا طریقہ کار ہے۔ ترکی اگرچہ امریکا کا پرانا اتحادی ہے اور مغربی دنیا کا ساتھ ہر طریقے سے دیتا رہاہے مگر مغربی دنیا نے اسے یورپی یونین میں شامل نہیں کیا، گو ترکی یونان کے مقابلے میں معاشی طور پر زیادہ مستحکم ہے اور اس کا ایک حصہ مغرب کی گزرگاہ ہے، دوئم وہ مسلمان ملک ہونے کے باوجود سیکولر اسٹیٹ ہے یعنی یورو (Euro Zone) کی ہر کڑی پر پورا اترتا رہا۔
مگر اس کو یورو زون میں محض اس لیے شامل نہ کیا گیا کہ ترکی میں بسنے والے زیادہ تر لوگ مسلمان ہیں۔ بہرحال امریکا نے تو ترکی کو استعمال کر لیا۔ اب ترکی داعش کے ٹھکانوں پر زبردست حملے کر رہا ہے اور نیٹو کے ممالک سے ترکی کی اپیل ہے کہ وہ اس کی امداد کریں، اسلیے کہ وہ ایسا کام سرانجام دے رہا ہے جو کہ نیٹو ممالک چاہتے ہیں۔
بعض ممالک کا خیال ہے کہ ترکی کا یہ عمل امریکا کے ایما پر ہو رہا ہے اور خاطر خواہ فوائد خفیہ طور پر امریکا سے حاصل ہو رہے ہیں ترکی کو جو سب سے اہم فائدہ ہو رہاہے، وہ یہ کہ (KPP) کردوں کی سیاسی اور عسکری قوت کے اثرات کا بڑھنا اور کردستان سے آگے نکل کر ان کی نقل و حرکت میں رکاوٹ میں کردوں کے زیر کنٹرول علاقے پر بمباری ہے، بظاہر وہ داعش پر حملے کر رہا ہے مگر وہ اس طرح اپنی سیاسی قوت کے ذریعے کردوں کو کمزور کر رہا ہے۔
مگر یہاں ترکی دنیا پر یہ ظاہر نہیں کر رہا ہے کہ وہ کردوں پر خصوصی طور پر حملہ آور ہے، کیوں کہ کردوں کو پسپا کرنا اور ان کو بظاہر ختم کرنا امریکا کے مفاد میں نہیں۔ امریکا چاہتا ہے کہ کردوں کی اکثریت والا ایک ملک اس کے سیاسی قبضے میں آ جائے جو نظریاتی طور پر کردوں کی حمایت کرتا رہے گا۔ اس طرح ترکی اور شام دونوں ممالک امریکا کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہوں گے۔
مانا کہ شام پر حملے سے امریکا کو 100 فیصد مقاصد حاصل نہ ہوئے مگر شام سیاسی طور پر نہایت کمزور ہو گیا اور اب بشار الاسد اس قابل نہ رہے کہ وہ امریکا کی بھرپور مخالفت کر سکیں اور اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکیں۔ اس مقصد میں تو امریکا کامیاب ہو گیا، شام کے شمالی علاقہ جات پر جہاں سے کردوں نے داعش کو پسپا کر دیا امریکا ان علاقوں کو بفرزون بنانا چاہتا تھا۔ وہاں ترکی کی بمباری جاری ہے۔ تا کہ وہ علاقہ کردوں کے پاس دائمی طور پر نہ چلا جائے، اگر پورے طور سے جائزہ لیا جائے تو ترکی حقیقتاً داعش کے ٹھکانوں پر مجموعی طور پر حملے نہیں کر رہا۔
بلکہ وہ کردوں کو کمزور کر رہا ہے اس لیے وہ زمینی فوج نہیں بھیج رہا ہے، اس طرح ترکی ایک پنتھ دو کاج کے راستے پر چل رہا ہے اور امریکا بھی اسی راہ پر گامزن ہے، امریکا نے جو حکمت عملی اختیار کی اس سے لیبیا سے لے کر عرب ممالک میں خلفشار پیدا ہوا۔
کرنل قذافی مغرب اور نیٹو کی حکمت عملی میں ہلاک ہوئے، اب ان کے بیٹے سیف الاسلام کو پھانسی کی سزا سنادی گئی، پورا عرب علاقہ خلفشار میں مبتلا ہو گیا لہٰذا اب اٹلی، فرانس اور برطانیہ میں لوگ پناہ کی غرض سے کشتیوں میں سوار مغربی ممالک میں داخل ہو رہے ہیں، نیٹو ممالک نے جس حکمت عملی پر بسیرا کیا اب وہ اس کے اثرات میں خود گرفتار ہو رہے ہیں، نتیجہ یہ ہوا کہ ہمہ وقت ہوشیاری اور چالبازی کام نہیں آتی، سیاست میں راست گوئی اور راست عمل ہی کامیابی کی ضمانت ہے، پورے عالم کو مخدوش بنانے والے خود بھی امن و آشتی میں نہیں رہ سکیں گے۔
خصوصاً عراق اور شام، دونوں ممالک بری طرح متاثر ہیں۔ حقیقت تو یہی تھی کہ یہ جنگ القاعدہ اور ان کے ہمنواؤں اور شام کے صدر بشار الاسد کے درمیان شروع ہوئی، یہ ایک طویل جنگ تھی۔ ایک طرف امریکا تھا جو بشار الاسد کے خلاف، جب کہ روس اس کی حمایت میں تھا۔ صورتِ حال اس قدر کشیدہ ہو چلی تھی کہ روس اور امریکا فریقین بن کر آمنے سامنے آ گئے کیوں کہ شام کے دوسرے بڑے اور اہم شہر الیپو (Allepo) پر حملے کے دوران شام پر مغربی ممالک اور امریکی اتحادیوں نے یہ الزام لگایا کہ شام اس شہر کو خالی کرانے کے لیے زہریلی گیس اور کیمیاوی اسلحہ استعمال کر رہا ہے۔
لہٰذا دونوں جانب کے اتحادی تصادم سے بچنے کے لیے ایک سمجھوتے پر متفق ہو گئے اور ایک بڑی جنگ سے مشرق وسطیٰ دوچار ہونے سے بچ گیا اور اب اس جنگ نے دوسرا رخ اختیار کر لیا ہے، بظاہر اسلام پسند اور امریکی پسندیدہ قوتیں تو رفتہ رفتہ شکست کھا کے پیچھے ہٹ گئیں اور آئی ایس آئی ایس المعروف داعش نے وہاں قدم جمائے اور شام کے کئی سرحدی شہروں پر قبضہ کر لیا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا نے اپنے ملک کی رائے عامہ سے بچنے کے لیے ایک پنتھ دو کاج والے فارمولے پر عمل درآمد شروع کر دیا۔
اس نے عراقی کردوں کو مسلح کرنا شروع کر دیا اور ان کو یہ عندیہ دیا کہ کردوں کو ایک تیسری اور بااختیار قوت کے طور پر تسلیم کر لیا جائے گا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شام کے جن علاقوں پر داعش (ISIS) کا قبضہ ہو گیا تھا، کردوں نے بڑی بے جگری سے مزاحمت کی۔
اس جنگ میں کرد جانباز خواتین رضاکار دستوں نے بھی حصہ لیا اور کئی شہروں کو خالی کروا لیا اور امریکا کا جانی اور مالی نقصان بھی نہ ہوا۔ مگر اپنے مقاصد حاصل کر لیے کہ دوسروں کی جنگ میں اپنے مقاصد کا حصول، یہ امریکا کا پرانا طریقہ کار ہے۔ ترکی اگرچہ امریکا کا پرانا اتحادی ہے اور مغربی دنیا کا ساتھ ہر طریقے سے دیتا رہاہے مگر مغربی دنیا نے اسے یورپی یونین میں شامل نہیں کیا، گو ترکی یونان کے مقابلے میں معاشی طور پر زیادہ مستحکم ہے اور اس کا ایک حصہ مغرب کی گزرگاہ ہے، دوئم وہ مسلمان ملک ہونے کے باوجود سیکولر اسٹیٹ ہے یعنی یورو (Euro Zone) کی ہر کڑی پر پورا اترتا رہا۔
مگر اس کو یورو زون میں محض اس لیے شامل نہ کیا گیا کہ ترکی میں بسنے والے زیادہ تر لوگ مسلمان ہیں۔ بہرحال امریکا نے تو ترکی کو استعمال کر لیا۔ اب ترکی داعش کے ٹھکانوں پر زبردست حملے کر رہا ہے اور نیٹو کے ممالک سے ترکی کی اپیل ہے کہ وہ اس کی امداد کریں، اسلیے کہ وہ ایسا کام سرانجام دے رہا ہے جو کہ نیٹو ممالک چاہتے ہیں۔
بعض ممالک کا خیال ہے کہ ترکی کا یہ عمل امریکا کے ایما پر ہو رہا ہے اور خاطر خواہ فوائد خفیہ طور پر امریکا سے حاصل ہو رہے ہیں ترکی کو جو سب سے اہم فائدہ ہو رہاہے، وہ یہ کہ (KPP) کردوں کی سیاسی اور عسکری قوت کے اثرات کا بڑھنا اور کردستان سے آگے نکل کر ان کی نقل و حرکت میں رکاوٹ میں کردوں کے زیر کنٹرول علاقے پر بمباری ہے، بظاہر وہ داعش پر حملے کر رہا ہے مگر وہ اس طرح اپنی سیاسی قوت کے ذریعے کردوں کو کمزور کر رہا ہے۔
مگر یہاں ترکی دنیا پر یہ ظاہر نہیں کر رہا ہے کہ وہ کردوں پر خصوصی طور پر حملہ آور ہے، کیوں کہ کردوں کو پسپا کرنا اور ان کو بظاہر ختم کرنا امریکا کے مفاد میں نہیں۔ امریکا چاہتا ہے کہ کردوں کی اکثریت والا ایک ملک اس کے سیاسی قبضے میں آ جائے جو نظریاتی طور پر کردوں کی حمایت کرتا رہے گا۔ اس طرح ترکی اور شام دونوں ممالک امریکا کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہوں گے۔
مانا کہ شام پر حملے سے امریکا کو 100 فیصد مقاصد حاصل نہ ہوئے مگر شام سیاسی طور پر نہایت کمزور ہو گیا اور اب بشار الاسد اس قابل نہ رہے کہ وہ امریکا کی بھرپور مخالفت کر سکیں اور اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکیں۔ اس مقصد میں تو امریکا کامیاب ہو گیا، شام کے شمالی علاقہ جات پر جہاں سے کردوں نے داعش کو پسپا کر دیا امریکا ان علاقوں کو بفرزون بنانا چاہتا تھا۔ وہاں ترکی کی بمباری جاری ہے۔ تا کہ وہ علاقہ کردوں کے پاس دائمی طور پر نہ چلا جائے، اگر پورے طور سے جائزہ لیا جائے تو ترکی حقیقتاً داعش کے ٹھکانوں پر مجموعی طور پر حملے نہیں کر رہا۔
بلکہ وہ کردوں کو کمزور کر رہا ہے اس لیے وہ زمینی فوج نہیں بھیج رہا ہے، اس طرح ترکی ایک پنتھ دو کاج کے راستے پر چل رہا ہے اور امریکا بھی اسی راہ پر گامزن ہے، امریکا نے جو حکمت عملی اختیار کی اس سے لیبیا سے لے کر عرب ممالک میں خلفشار پیدا ہوا۔
کرنل قذافی مغرب اور نیٹو کی حکمت عملی میں ہلاک ہوئے، اب ان کے بیٹے سیف الاسلام کو پھانسی کی سزا سنادی گئی، پورا عرب علاقہ خلفشار میں مبتلا ہو گیا لہٰذا اب اٹلی، فرانس اور برطانیہ میں لوگ پناہ کی غرض سے کشتیوں میں سوار مغربی ممالک میں داخل ہو رہے ہیں، نیٹو ممالک نے جس حکمت عملی پر بسیرا کیا اب وہ اس کے اثرات میں خود گرفتار ہو رہے ہیں، نتیجہ یہ ہوا کہ ہمہ وقت ہوشیاری اور چالبازی کام نہیں آتی، سیاست میں راست گوئی اور راست عمل ہی کامیابی کی ضمانت ہے، پورے عالم کو مخدوش بنانے والے خود بھی امن و آشتی میں نہیں رہ سکیں گے۔