عورتوں کے قدم اب بزنس میں

کراچی سمیت ملک کے بڑے بڑے شہروں میں عورتوں نے بزنس کے میدان میں اپنے آپ کو منوایا ہے۔

جب سے انسان اس کرہ ارض پر آیا ہے، عورت نے بچے پالنے، گھر چلانے، کھیتی باڑی سے لے کر ہر قدم پر مرد کا ساتھ دیا ہے۔ بلکہ ابتدائی دور میں تو قبیلے میں عورت ہی نظام کو چلاتی تھی اور اب بھی گھر کا کاروبار عورت ہی چلاتی ہے چاہے وہ خود کام کرے یا پھر گھر میں بیٹھی رہے ،گھر کا نظام اسے چلانا ہوتا ہے۔ کراچی سمیت ملک کے بڑے بڑے شہروں میں عورتوں نے بزنس کے میدان میں اپنے آپ کو منوایا ہے۔

اب لڑکیاں پڑھ لکھ رہی ہیں، نوکری بھی کر رہی ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی فیملی کی معاشی حالت بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے وومن ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ اور سوشل ویلفیئرنے محکمہ حکومت سندھ نے کئی ایسے تربیتی پروگرام منعقد کیے جس کا مقصد تھا کہ عورتیں بزنس میں شریک ہوسکیں جس کے لیے انھیں بغیر انٹرسٹ کے قرضے بھی فراہم کیے گئے جس کے اچھے نتائج نکلے کیونکہ اس سلسلے میں عورتوں کے مردوں نے بھی ان کا ساتھ دیا۔

اس کے علاوہ کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں عورتوں کو بزنس میں شرکت کو ترغیب دینے کے لیے قومی اور بین الاقوامی تنظیموں نے بڑا پروگرام منعقد کروایا تھا جس میں یو این وومن نیشنل کمیٹی کینیڈا، لیب نر فنڈ کی تارا عذرا داؤد، ترکی کے کونسل جنرل، برٹش گورنمنٹ اور قومی اور بین الاقوامی لیول کے تاجروں نے شرکت کی۔ اس پروگرام میں سندھ بھر سے لڑکیوں اور عورتوں کو بلوایا گیا تھا اور ان کے بنائی ہوئی اشیا کی نمائش کی گئی ۔

اس پروگرام سے میں نے یہ نتیجہ لگایا کہ واقعی عورتوں کے بغیر کوئی بھی کام اتنا کامیاب نہیں ہوسکتا ہے جتنا ہونا چاہیے۔ لڑکیوں اور عورتوں کی شمولیت کے لیے کچھ guideline دینا ضروری ہے۔ اس پروگرام میں ان بزنس Tycoons سے اپنے تجربے اور محنت کو share کیا اور ان میں یہ امید پیدا کی کہ وہ اپنا ٹیلنٹ استعمال کرکے بہت کچھ کرسکتی ہیں جس کا اثر نہ صرف ان کی ذات کو فائدہ دے گا بلکہ ملک کی معیشت بھی بہتر ہوگی اور کئی عورتوں اور مردوں کو روزگار ملے گا۔

میرا خیال ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ کوئی بزنس شروع کرنے کے لیے بڑے سرمائے کی ضرورت ہے، کوئی بھی کاروبار چلائیں اسے چھوٹے پیمانے سے شروع کریں اور کم ازکم ایک سال بھول جائیں کہ زیادہ فائدہ ہوگا اور اگر no loss no profit پر بھی کام چلتا ہے تو چلنے دو اور صبر سے کام لیں۔ بزنس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کوالٹی کو سرفہرست رکھیں اور وہ کام شروع کریں جس کی ڈیمانڈ ہو اور یہ نہ دیکھیں کہ اگر ایک جگہ بریانی بہت زیادہ چل رہی ہے تو یہی کام آپ بھی کریں۔ آج کل تو Beauty Parlour کا کاروبار چل نکلا ہے۔

بزنس میں کامیابی کے لیے صرف پیسہ ہی نہیں بلکہ اچھی سروس، گاہک کی عزت کرنا، غصہ نہ کرنا اور صبر کی بڑی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں لوگوں کی پسند، فیشن، جگہ، ڈیکوریشن اور صفائی کو بھی دیکھا جاتا ہے۔ ہر علاقے میں مختلف قسم کے لوگ رہتے ہیں۔ اگر آپ کلفٹن میں کوئی بزنس شروع کریں گی تو آپ کو اس Standard کی دکان اور ماحول پیدا کرنا ہوگا اور اگر آپ لالو کھیت میں بزنس کر رہی ہیں تو وہاں کی معاشی حالت اور Purchase Power بھی دیکھنا ضروری ہے۔ جیساکہ آج کل Show کا دور ہے اس لیے پراڈکٹ کی پیکنگ بھی خوبصورت اور پرکشش ہونی چاہیے۔ اگر بڑے پیمانے پر بزنس ہے تو اس کے لیے تشہیر ضروری ہے جس کے لیے پمفلٹ، اخباروں اور الیکٹرانک میڈیا کو استعمال کرنا ضروری ہے مگر میرے خیال میں mouth to mouth پبلسٹی زیادہ اہم ہے جس پر پیسے بھی خرچ نہیں ہوتے۔

مجھے یاد ہے کہ پی ٹی وی اور فلم کی اداکارہ شہزادی تھی جو شوبز کے علاوہ بزنس بھی کرتی تھیں اور وہ سندھی کلچر کے کپڑے اور موسم کے لحاظ سے کپڑے خرید کر مناسب دام پر گلشن کے اتوار بازار میں بیچا کرتی تھیں جس سے انھیں اچھی خاصی رقم مل جاتی تھی اور اس کا اچھا گزارا ہوجاتا تھا۔ اس دور میں آپ دیکھیں عورتیں بوتیک کا کاروبار کر رہی ہیں، جس میں بڑی نامور اداکارائیں بھی شامل ہیں۔


بزنس کو کامیاب بنانے میں دکان کا ڈسپلے بہت ہی اچھا اور شاندار ہونا چاہیے تاکہ وہاں سے گزرنے والی عورتوں کو اپنی طرف کھینچ لائے۔ کئی عورتوں نے میڈیا میں میگزین اور اخبارات بھی نکالے ہیں اور وہ اچھی کامیاب بزنس وومن کے طور پر ابھر کر سامنے آگئی ہیں۔ بزنس میں ایک چیز بہت اہم ہے کہ آپ کسٹمر کی سائیکالوجی کو مدنظر ضرور رکھیں اور پھر اس سے اس لحاظ سے ڈیل کریں اور کوشش کرکے منافع کم رکھیں اور اس میں ڈسکاؤنٹ ضرور شامل کریں کیونکہ عورتوں کی سائیکی ہے کہ وہ قیمت میں کمی ضرورکرواتی ہیں۔

بزنس کے حوالے سے صحت کا شعبہ بھی اہم ہے کیونکہ عورتیں خاص طور پر اپنی صحت کے بارے میں کافی محتاط رہتی ہیں جس سے اس بزنس میں کافی فائدہ موجود ہے، یہ تو طے ہے کہ عورتیں اپنے مسائل اور خریداری کے لیے مردوں کے مقابلے میں عورتوں کے ساتھ زیادہ کھل کر بات کرسکتی ہیں۔ آپ دیکھیں ملک کے اندر کئی بڑے بزنس مارٹ کھل گئے ہیں جہاں پر عورتیں بھی بزنس کر رہی ہیں مگر ہمیں زیادہ تر ان عورتوں کو اس طرف ان علاقوں کی عورتوں کو لانا ہے۔

جہاں تعلیم کم ہے اور وسائل بھی محدود ہیں اور ماحول بھی کچھ کچھ پیدا ہو رہا ہے۔ عورتوں کی شمولیت کے بارے میں یہ مثالیں دوں گا کہ شروع شروع میں لڑکیوں کو اسکول بھیجنا اور انھیں نوکری کروانے کا تصور بھی نہیں تھا اور اب جب کہ ماحول پیدا ہوگیا ہے تو لوگ اپنی لڑکیوں کو بطور نرس اور فیملی پلاننگ جیسے پروفیشن میں بھی بھیج رہے ہیں۔ اس کے علاوہ شوبز میں تو گاؤں کی لڑکیاں اور عورتیں سوچ بھی نہیں سکتی تھیں مگر اب سندھی الیکٹرانک چیلنز میں خاص طور پر سندھی میڈیا میں چھوٹے چھوٹے گاؤں سے لڑکیاں آکر کام کر رہی ہیں۔ جب کہ این جی اوز کے کاموں میں حصہ لے رہی ہیں جس کے لیے انھیں مختلف شہروں میں جانا پڑتا ہے۔

اب لڑکیوں اور لڑکوں کے رشتے کروانے کے لیے بھی Marriage bureau کھل گئے ہیں اور یہ بھی ایک بزنس ہے کیونکہ رشتے کروانے کے لیے عورتوں نے کئی جگہ پر اپنے دفتر کھول رکھے ہیں۔ بزنس کرنے کے لیے اب موبائل کا استعمال، سوشل میڈیا اور نیٹ کا استعمال کافی بڑھ گیا ہے جس سے آسانی پیدا ہوگئی ہے۔ بزنس کرنے کے لیے اب تو بینکس اور دوسرے مالیاتی اداروں کے ساتھ حکومت نے کئی Loan دینے کے پروگرام شروع کر رکھے ہیں جس سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے اور صحیح سمت میں کام کرکے اچھی خاصی رقم کمائی جا رہی ہے اور قرضہ بھی دیا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں مرد حضرات کو عورتوں اور لڑکیوں کو اعتماد دیں جس سے ان کی ہمت بندھے گی۔ بزنس کو فروغ دینے کے سلسلے میں خاص طور پر چھوٹے علاقوں سے مڈل مین کے رول کو ختم کرنے کے لیے حکومت اور این جی اوز کو مزید آگے آنا پڑے گا اور گاؤں گاؤں اور چھوٹے شہروں سے ہنر مند عورتوں کی بنائی ہوئی اشیا کو خود خرید کر مارکیٹ میں لائیں تاکہ جو مڈل مین پیسے ہضم کرلیتا ہے وہ بچ جائیں گے اور ہنرمند عورتوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ مل سکے گا۔ اس کے علاوہ گاؤں گاؤں جاکر عورتوں کو آگہی اور تربیت دینے کے لیے حکومت اور NGO's اپنا کردار ادا کریں اور ہنرمند عورتوں کی بنائی ہوئی چیزوں کی نمائش وہاں بھی لگائیں۔

جو عورتیں ٹیکسٹائل ملز سے کپڑوں کے ٹکڑے لے آتی ہیں انھیں صاف کرکے کم رقم میں مختلف بچت بازاروں میں بیچتی ہیں یہ ان سے دوسری چیزیں بناتی ہیں انھیں اچھے مواقع دیے جائیں اور اس کے ہاتھ کی بنائی ہوئی چیزوں کو بین الاقوامی نمائش میں بھی بھیجا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے عورتوں میں بڑی صلاحیت دی ہے جو مردوں کے مقابلے میں دگنا کام کر رہی ہیں۔

وہ گھر بھی سنبھالتی ہیں اور اس کے ساتھ نوکری اور بزنس کرتی ہیں لیکن ایسی عورتوں کی تعداد بہت کم ہے جنھیں مواقع فراہم کرکے ان کی مالی سوچ سے فائدہ اٹھایا جائے۔ میرے لیے کوہ پیما پہلی پاکستانی عورت ثمینہ بیگ کی مثال قابل رشک ہے جس نے ہمت کرکے K-2 کی چوٹی کو سر کرلیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر عورتوں کو اعتماد دیا جائے تو وہ بزنس کی دنیا میں بھی مردوں کے مقابلے میں اچھے نتائج دے سکتی ہیں۔ اس وقت بھی نہ صرف دنیا میں بلکہ پاکستان میں بھی کئی عورتوں نے مالی اداروں میں اور بزنس میں بڑا نام پیدا کیا ہے۔ سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ پہلی خاتون گورنر اسٹیٹ بینک شمشاد صاحبہ ہیں۔

اس وقت ملک میں لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد کامرس، ٹریڈ اور اکنامکس کے شعبوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں جس سے توقع اور امید کی جاتی ہے کہ آنیوالے وقت میں بزنس وومن کی تعداد آدھے تک پہنچ جائے گی۔
Load Next Story