اب دھرنوں سے آگے بڑھا جائے

ہماری حکومت جمہوری ہے مگر اکثر فیصلے اپیکس کمیٹیوں میں ہوتے ہیں

ayazkhan@express.com.pk

آپ سے پوچھا جائے کیا ملک میں توانائی کا بحران ہے؟ اس کا جواب ہاں کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔کوئی یہ دعویٰ کرے کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کم ہو گئی ہے تو آپ فوری بولیں گے یہ تو جھوٹ ہے۔ مسائل کی فہرست سامنے رکھ دی جائے تو شاید ہی کوئی ایسا مسئلہ ہو جس کی شدت میں کمی کا اعتراف آپ کر سکیں۔ مسلسل جمہوریت کا یہ آٹھواں سال ہے۔ آج بھی الزام یہی سننے کو ملتا ہے پچھلی حکومتوں نے بیٹرہ غرق کر دیا۔

اب تک اگر کہیں بہتری ہوئی ہے تو وہ دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی ہے۔ آئے روز ہونے والے خود کش دھماکوں میں ہزاروں پاکستانی شہید ہو چکے ہیں۔ اربوں ڈالر کا نقصان الگ سے ہوا۔ بدقسمتی سے اس بات کا کریڈٹ بھی جمہوری حکومت نہیں لے سکتی۔ انھوں نے تو آنے سے پہلے ہی دہشت گردی کا مسئلہ مذاکرات سے حل کرنے پر زور دیا تھا۔

آپریشن ضرب عضب کا آغاز فوج نے کیا اور پھر حکومت نے بھی اس کی ''منظوری'' دے دی۔ ہماری حکومت جمہوری ہے مگر اکثر فیصلے اپیکس کمیٹیوں میں ہوتے ہیں۔کراچی میں امن و امان کی ذمے داری رینجرز کے سپرد ہے۔ عدالتیں دہشت گردوں کو سزائیں نہیں دیتیں اس لیے پولیس مقابلے ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ مگر جمہوریت پسندوں کو مبارک ہو کہ ملک کا انتظام ایک جمہوری حکومت کے ہاتھ میں ہے۔

دہشتگردی کے خلاف جنگ اور خارجہ پالیسی میں فوج کا کردار مان لیا گیا اس لیے معاملات ٹھیک چل رہے ہیں۔ ہمارے جیسے کمزور ملکوں کی کیا بات کریں امریکا جیسی طاقت میں بھی پینٹا گون اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے زیادہ مضبوط ہے۔ بھارت میں فوج نے صرف اقتدار پر قبضہ نہیں کیا ورنہ وہ خارجہ اور داخلہ پالیسیوں میں کتنی دخیل ہے کون نہیں جانتا۔

حکومت پر تنقید کی جائے تو ہمارے کچھ دوست ناراض ہو جاتے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ حکومت پر تنقید، جمہوریت پر تنقید کے مترادف ہے جس کا مقصد کسی غیر آئینی اقدام کی راہ ہموار کرنا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہمیں جمہوریت چاہیے مگر ایسی جمہوریت نہیں جس میں لوگ دو وقت کی روٹی کو ترس جائیں۔

ہماری خواہش صرف یہ ہے کہ وفاقی اورصوبائی حکومتیں ترجیحات درست کر لیں۔ کسی کو پیاس لگے تو اسے پانی کی جگہ پٹرول نہیں پلایا جاتا۔ بھوک لگے تو کھانا دیا جاتا ہے ناکہ کسی آرام دہ بس میں سفر کا مشورہ۔ میٹرو بس اور اورینج ٹرین ضروری منصوبے ہیں۔ شہریوں کے لیے آرام دہ سفر کی سہولت حکومت کی بنیادی ذمے داریوں میں شامل ہے لیکن کب؟ یہ بنیادی سوال ہے۔ پہلے ان کے لیے دو وقت کی روٹی، صاف پانی اور علاج کا بندوبست کریں۔ بیروزگاری اور مہنگائی پر قابو پائیں، امن و امان یقینی بنائیں۔

توانائی بحران سے بات شروع ہوئی تھی اور کہاں نکل گئی۔ پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ جمہوریت میں اس بحران کو ختم کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ ان کا سارا فوکس رینٹل پاور منصوبوں پر تھا جسے افتخار چوہدری کی سپریم کورٹ نے اڑا کے رکھ دیا تھا۔


موجودہ حکومت نے آنے سے پہلے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے دعوے کیے تھے مگر ابھی تک اس میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ اس حکومت کا کریڈٹ البتہ یہ ہے کہ اس کے کرتا دھرتا پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں ہوئے۔ انھوں نے کام شروع کر دیا ہے۔

توانائی منصوبے مکمل کرنے کی دوڑ میں سب سے آگے شہباز شریف نظر آرہے ہیں۔ چند ماہ قبل وزیر اعلی پنجاب نے بہاولپور میں 300میگا واٹ سولر منصوبے کا افتتاح کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ رواں برس 25دسمبر تک مکمل ہو جائے گا۔ 50میگا واٹ کی پیداوار 14اگست سے شروع ہو جائے گی جب کہ آیندہ برس کے اختتام تک 600 میگا واٹ بجلی پیدا ہونے کی توقع ہے۔ جمعہ کی صبح ساہیوال میں قادر آباد کے مقام پر پاکستان میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے سب سے بڑے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے۔

اس کی تکمیل کا امکان دسمبر 2017ء میں ہے لیکن شہباز شریف کو امید ہے کہ یہ اپنی مقررہ مدت سے دوماہ قبل ہی یعنی ستمبر 2017 میں 1320میگا واٹ بجلی فراہم کرنے لگے گا۔ آیندہ تین سے 5برس کے دوران کوئلے سے 6000میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے ہیں۔ ان منصوبوں پر 10ارب ڈالر لاگت آئے گی۔ ساہیوال کے بعد ضلع شیخوپورہ میں بیخی، جھنگ میں حویلی بہادر شاہ، قصور میں بلوکی، رحیم یار خان میں ترنڈہ سوئیانوالہ اور ضلع مظفر گڑھ میں موضع کرم داد قریشی میں یہ پلانٹ قائم کیے جا رہے ہیں۔

چولستان میں 1000میگا واٹ کا سولرپاور پلانٹ ان منصوبوں سے الگ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بجلی پیدا کرنے کا کام شروع ہو گیا ہے۔ ان تمام منصوبوں کی نگرانی وزیر اعلی پنجاب کے ذمے ہے۔ شہباز شریف میں ایک خوبی ہے کہ وہ جس کام کے پیچھے پڑ جائیں اسے کر کے چھوڑتے ہیں۔

ان منصوبوں میں ایک چیز کامن ہے اور وہ پاک چین دوستی ہے۔ شہباز شریف چین کے تعاون سے شروع ہونے والے کسی بھی منصوبے کا افتتاح کرنے کے موقع پر پاکستانی سرمایہ داروں کو للکارنا نہیں بھولتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملکی سرمایہ کار بھی کسی منصوبے پر پیسہ لگائیں۔

پاور پلانٹس کے افتتاح اور قیام سے یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ ملک کا مستقبل روشن ہو گا۔ پاک چین اقتصادی راہداری بن گئی تو معاشی انقلاب کو بھی کوئی نہیں روک سکتا۔ اب ضرورت ہے کچھ اور کاموں کی طرف بھی توجہ دینے کی۔آرمی چیف کی پالیسی واضح ہے' دہشت گردی اور کرپشن کے حوالے سے زیرو ٹالرنس۔ یہ دونوں اقدام بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔کرپشن کی کمائی دہشت گردی کو بھی فروغ دیتی ہے۔

شہباز شریف فوری طور پر دو، تین کام کر سکتے ہیں۔ پولیس کو وہ کافی مراعات دے چکے، ان کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ ہو چکا ہے لیکن اس کے نتائج ابھی تک نہیں ملے۔ الزام ہے کہ پنجاب اور سندھ میں تھانے بکتے ہیں۔ ایس ایچ او بااثر شخصیات کی سفارش پر لگائے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ بند کرا دیں، آدھا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اس سے امن و امان پر کنٹرول کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ اسپتالوں میں دواؤں کی دستیابی یقینی بنائیں تاکہ غریب لوگوں کی سانسیں چل سکیں۔ ایک اور اہم کام یہ کہ کرپشن پر قابو پائیں۔

سب سے پہلے اپنے قریبی لوگوں پر نظر دوڑائیں ان میں سے کوئی کرپشن میں ملوث ہے تو کارروائی کا آغاز اس سے کریں۔ اس سے آپ کی گورننس کی دھاک بیٹھ جائے گی۔ یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ انٹی کرپشن کا محکمہ خود کرپشن کے الزامات کا سامنا کر رہا ہے۔ آپ قدم بڑھائیں۔ یقین کریں بدترین ناقد بھی آپ کی تعریف پر مجبور ہو جائیں گے۔ دھرنوں میں ہونے والے نقصان کا ذکر بھی کافی ہو چکا، بہتر ہے اب آگے بڑھا جائے۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ کپتان ڈاؤن ہوا ہے۔۔۔آؤٹ نہیں۔
Load Next Story