چین پاکستان… ادبی کاریڈور
چین وہ واحد ملک ہے جس کے ساتھ پاکستان کے ثقافتی تعلقات میں دوطرفہ گرمجوشی اور تسلسل پایا جاتا ہے
دنیا کے جن 26 ممالک کو مجھے ذاتی طور پر دیکھنے کا موقع ملا ہے ان میں سے صرف دو ملک ایسے ہیں جہاں آپ کا پاکستانی ہونا ''غیر مشروط طور پر عزت کا باعث بن جاتا ہے کہ ترکی اور چین دونوں ملکوں کے عوام دل و جان سے پاکستانیوں کو اپنا دوست سمجھتے ہیں۔
یوں تو پاک چین دوستی کی تاریخ دونوں ملکوں کی تاریخ جتنی ہی پرانی ہے کہ پاکستان 14 اگست 1947ء کو بنا اور عوامی جمہوریہ چین کا قیام یکم اکتوبر 1948ء کو عمل میں آیا اور تب سے اب تک ہر موڑ پر دونوں ملکوں نے ہر امتحان کی گھڑی میں ایک دوسرے کا کھل کر ساتھ دیا ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے اس رشتے پر جیسے بہار کا موسم آیا ہوا ہے کہ شاہراہ ریشم سے گوادر کی بندرگاہ تک پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط اور مستحکم کرنے کے لیے چین نے جس اکنامک کاریڈور کا ڈول ڈالا ہے اس سے پاکستان کو ہر سطح پر استحکام ملے گا اور چین کے لیے بھی دنیا کی دوسری سپرپاور بننے کی راہیں مزید کھل جائیں گی۔28 اور 29 جولائی کو اکادمی ادبیات پاکستان نے ادب کے حوالے سے چینی اہل قلم کی پذیرائی کے لیے خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا اور یوں دونوں ملکوں کے درمیان اکنامک کے ساتھ ایک ادبی کاریڈور بھی صورت پذیر ہوا جسے اگر اس گل دستے کی اس گیاہ سے تشبیہہ دی جائے جس کی اہمیت غالبؔ نے کچھ اس طرح سے آشکار کی تھی کہ
تھا میں گل دستۂ احباب کی بندش کی گیاہ
متفرق ہوئے میرے رفقا میرے بعد
تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ چین وہ واحد ملک ہے جس کے ساتھ پاکستان کے ثقافتی تعلقات میں دوطرفہ گرمجوشی اور تسلسل پایا جاتا ہے کہ اگرچہ ادبی اور ثقافتی وفود کے تبادلوں کے معاہدے تو ہم نے اور بھی کئی ملکوں سے کر رکھے ہیں لیکن ان کا حال ''مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں کبھی ہم نہیں'' سے ملتا جلتا ہی ہے جب کہ چین اور پاکستان میں ہر سال ان وفود کا تبادلہ ہوتا ہے۔ خود مجھے بھی 1992ء میں ایسے ہی ایک وفد کے ساتھ چین یاترا کا موقع ملا تھا جس کا احوال میں نے ''ریشم ریشم'' نامی ایک سفر نامے میں تفصیل سے قلم بند بھی کیا ہے۔
ہمارے وفد کے دیگر ارکان میں سندھ سے علی احمد بروہی اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری خیبرپختونخوا (اس وقت صوبہ سرحد) سے اجمل خٹک (جو وفد کے سربراہ بھی تھے) اور پروفیسر نواز طائر بلوچستان سے عزیز بگٹی اور پنجاب سے میرے علاوہ منیر نیازی اور حسن رضوی شامل تھے۔ اس دورے کی بہت سی خوشگوار یادوں میں ایک خاص بات میرے ڈرامہ سیریل ''وارث'' کے ویڈیو کیسٹ اور اس پر بنائی گئی ایک کامک بک کا تحفہ تھے جنھیں میں نے خاص طور پر سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔
اتفاق سے آج ہی اچانک ایک جگہ میری اس وقت کے چین میں پاکستان کے قائم مقام سفیر حسن سرمد سے اس دورے کے بعد پہلی بار ملاقات ہوئی ہے اور میں ایک بار پھر اس تحیّر کا شکار ہو گیا کہ کیسے کچھ چیزیں بغیر کسی کوشش اور ارادے کے کسی ایک ایسے لمحے میں جمع ہو جاتی ہیں جس کا کوئی منطقی جواز سمجھ میں نہیں آتا۔ تو بات ہو رہی تھی اس سیمینار کی جس کا اہتمام اکادمی ادبیات پاکستان نے لاہور کے ایک بڑے ہوٹل میں کیا اور جس کے لیے اکادمی کے چیئرمین ڈاکٹر قاسم بوگھیو اور ان کی پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے کہ انھوں نے بڑے مختصر وقت میں ایسی عمدہ تقریب کا انتہائی خوبصورت اور منظم انداز میں اہتمام کیا جس میں وطن عزیز کے ہر صوبے کے نمایندہ اہل قلم کو مدعو کیا گیا تھا۔
میں ایک اہم مصروفیت کی وجہ سے 28 جولائی کے ابتدائی سیشن میں تو شامل نہ ہو سکا لیکن 29 جولائی کا پورا دن وہیں گزارا۔ صبح کے سیشن میں آٹھ مقالہ نگار تھے، ان میں گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ کی تقریر کو بھی شامل کر لیا جائے جو کچھ دیر شریک محفل رہے تو مقالات کی تعداد اٹھارہ ہو جاتی ہے۔ اس ٹوٹل کو میری ریاضی دانی کی کمزوری سے تعبیر نہ کیجیے گا کیونکہ امر واقعہ یہی ہے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ چینی مہمانوں کے لیے ہر مقالے کا ملخص چینی زبان میں بھی پیش کیا جاتا تھا جس کے لیے دو پاکستانی چینی دان (Sugar Pots نہیں) خاص طور پر اسلام آباد سے تشریف لائے تھے۔ دوسرے سیشن میں مہمانوں اور منتخب میزبانوں کو آمنے سامنے بٹھایا گیا۔ جنھوں نے ان ھی دو ترجمانوں کے ذریعے مختلف ادبی موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ چینی وفد میں دو اردو دان بھی تھے جن کی بامحاورہ اردو (لہجے کے معمولی سے فرق کے باوجود) اجلاس میں موجود بہت سے لوگوں کے لیے باعث رشک تھی۔
آخری پروگرام رات کو ہونے والا مشاعرہ تھا جس میں دعوت تو صرف ان چند شاعروں کو دی گئی تھی جن کی تخلیقات کا چینی میں ترجمہ کروایا گیا تھا لیکن اس کی پابندی نہ ہو سکی۔ ہمارے چینی دوست چانگ شی شوانگ عرف انتخاب عالم نے چین کی نمائندگی کی۔ چانگ اردو کا صاحب دیوان شاعر ہے۔ اس سے چین اور پاکستان سمیت کئی ملکوں میں ملاقات ہوتی رہتی ہے کہ اسے دنیا بھر کے مشاعروں میں مدعو کیا جاتا ہے اور ہر جگہ اس کا کلام بڑی خوشگوار حیرت اور مسرت کے ساتھ سنا اور پسند کیا جاتا ہے۔ اس محفل میں اس نے اپنا وہ مطلع بھی سنایا جو مجھے بہت پسند ہے۔
بشر بس غم اٹھانے کے لیے دنیا میں آتا ہے
دم آمد وہ روتا ہے دم رخصت رُلاتا ہے
صدارت ظفر اقبال کی تھی جن کے دائیں بائیں کشور ناہید، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، چانگ شی شوانگ، عباس تابش، ڈاکٹر وحید احمد، بیرم غوری، محمد حنیف، فاطمہ حسن اور مجھے بٹھایا گیا تھا۔ نظامت صغریٰ صدف کے ذمے تھی جسے کشور ناہید بار بار ٹوک رہی تھیں کہ وہ دھڑا دھڑ ایسے شاعروں کو کیوں پڑھوائے جا رہی ہے جن کے نام کارڈ میں درج نہیں اور وہ بے چاری بار بار وضاحت کیے جا رہی تھی کہ یہ فہرست اس کو انتظامیہ کی طرف سے دی گئی ہے اور اس میں اضافے بھی ان ھی کی طرف سے ہو رہے ہیں۔ اس کھینچا تانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے غیر معروف اور نسبتاً ناپختہ شاعروں کو تو پڑھنے کا موقع مل گیا مگر ہال میں موجود کئی اچھے شعراء کو دعوت کلام نہ دی جا سکی۔
معلوم ہوا کہ جن منتخب شعراء کا کلام خاص طور پر منگوایا گیا تھا کہ چینی مہمانوں کے لیے اس کا ترجمہ پیش کیا جائے گا وہ کام بوجوہ مکمل نہیں ہو سکا۔ داد دینی چاہیے ان چینی دوستوں کی رواداری کو کہ وہ ان اشعار پر بھی داد کے انداز میں سر ہلاتے رہے جن میں سے بعض باقاعدہ جرمانے کے قابل تھے۔
میرا ارادہ دورۂ چین کے دوران وہاں کے تین شہروں بیجنگ، ہان چُو اور شنگھائی کے بارے میں لکھی گئی نظموں میں سے کچھ سنانے کا تھا مگر یہ ارادہ بھی چینی ترجمے کی عدم دستیابی کی وجہ سے درمیان میں ہی رہ گیا۔ سو اب آخر میں بیجنگ (پرانا نام پیکنگ) کے بارے میں لکھی گئی نظم نمونے کے طور پر درج کر رہا ہوں کہ یہ نسبتاً مختصر ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا ایک سرا علامہ اقبال کی مشہور نظم ''ہمالہ'' اور دوسرا آج کے چین سے مل رہا ہے۔
نگاہ شاعر مشرق کی پیش بینی نے
ہمالیہ کے جو چشمے ابلتے دیکھے تھے
نمو کے جوش نے دریا بنا دیا ہے انھیں
ہر اک آنکھ میں ٹھہرے تھے جتنے خواب گراں
نگار صبح کا چہرا بنا دیا ہے انھیں
ہر ایک شے سے نمایاں ہے لذت تعمیر
ہر ایک نقش ہے اک شاہکار محنت کا
بس ایک خواب ہی دیکھا تمام آنکھوں نے
''ہر ایک بو ے گا خوشیاں، ہر ایک کاٹے گا''
ہر ایک رشتۂ الفت میں استوار بھی ہیں
یہ لوگ ایک بھی ہیں اور بے شمار بھی ہیں
جہان نو کی حسیں صبح کا نکھار ہیں یہ
یہ شہر باغ ہے اور قاصدِ ملہار ہیں یہ
یوں تو پاک چین دوستی کی تاریخ دونوں ملکوں کی تاریخ جتنی ہی پرانی ہے کہ پاکستان 14 اگست 1947ء کو بنا اور عوامی جمہوریہ چین کا قیام یکم اکتوبر 1948ء کو عمل میں آیا اور تب سے اب تک ہر موڑ پر دونوں ملکوں نے ہر امتحان کی گھڑی میں ایک دوسرے کا کھل کر ساتھ دیا ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے اس رشتے پر جیسے بہار کا موسم آیا ہوا ہے کہ شاہراہ ریشم سے گوادر کی بندرگاہ تک پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط اور مستحکم کرنے کے لیے چین نے جس اکنامک کاریڈور کا ڈول ڈالا ہے اس سے پاکستان کو ہر سطح پر استحکام ملے گا اور چین کے لیے بھی دنیا کی دوسری سپرپاور بننے کی راہیں مزید کھل جائیں گی۔28 اور 29 جولائی کو اکادمی ادبیات پاکستان نے ادب کے حوالے سے چینی اہل قلم کی پذیرائی کے لیے خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا اور یوں دونوں ملکوں کے درمیان اکنامک کے ساتھ ایک ادبی کاریڈور بھی صورت پذیر ہوا جسے اگر اس گل دستے کی اس گیاہ سے تشبیہہ دی جائے جس کی اہمیت غالبؔ نے کچھ اس طرح سے آشکار کی تھی کہ
تھا میں گل دستۂ احباب کی بندش کی گیاہ
متفرق ہوئے میرے رفقا میرے بعد
تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ چین وہ واحد ملک ہے جس کے ساتھ پاکستان کے ثقافتی تعلقات میں دوطرفہ گرمجوشی اور تسلسل پایا جاتا ہے کہ اگرچہ ادبی اور ثقافتی وفود کے تبادلوں کے معاہدے تو ہم نے اور بھی کئی ملکوں سے کر رکھے ہیں لیکن ان کا حال ''مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں کبھی ہم نہیں'' سے ملتا جلتا ہی ہے جب کہ چین اور پاکستان میں ہر سال ان وفود کا تبادلہ ہوتا ہے۔ خود مجھے بھی 1992ء میں ایسے ہی ایک وفد کے ساتھ چین یاترا کا موقع ملا تھا جس کا احوال میں نے ''ریشم ریشم'' نامی ایک سفر نامے میں تفصیل سے قلم بند بھی کیا ہے۔
ہمارے وفد کے دیگر ارکان میں سندھ سے علی احمد بروہی اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری خیبرپختونخوا (اس وقت صوبہ سرحد) سے اجمل خٹک (جو وفد کے سربراہ بھی تھے) اور پروفیسر نواز طائر بلوچستان سے عزیز بگٹی اور پنجاب سے میرے علاوہ منیر نیازی اور حسن رضوی شامل تھے۔ اس دورے کی بہت سی خوشگوار یادوں میں ایک خاص بات میرے ڈرامہ سیریل ''وارث'' کے ویڈیو کیسٹ اور اس پر بنائی گئی ایک کامک بک کا تحفہ تھے جنھیں میں نے خاص طور پر سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔
اتفاق سے آج ہی اچانک ایک جگہ میری اس وقت کے چین میں پاکستان کے قائم مقام سفیر حسن سرمد سے اس دورے کے بعد پہلی بار ملاقات ہوئی ہے اور میں ایک بار پھر اس تحیّر کا شکار ہو گیا کہ کیسے کچھ چیزیں بغیر کسی کوشش اور ارادے کے کسی ایک ایسے لمحے میں جمع ہو جاتی ہیں جس کا کوئی منطقی جواز سمجھ میں نہیں آتا۔ تو بات ہو رہی تھی اس سیمینار کی جس کا اہتمام اکادمی ادبیات پاکستان نے لاہور کے ایک بڑے ہوٹل میں کیا اور جس کے لیے اکادمی کے چیئرمین ڈاکٹر قاسم بوگھیو اور ان کی پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے کہ انھوں نے بڑے مختصر وقت میں ایسی عمدہ تقریب کا انتہائی خوبصورت اور منظم انداز میں اہتمام کیا جس میں وطن عزیز کے ہر صوبے کے نمایندہ اہل قلم کو مدعو کیا گیا تھا۔
میں ایک اہم مصروفیت کی وجہ سے 28 جولائی کے ابتدائی سیشن میں تو شامل نہ ہو سکا لیکن 29 جولائی کا پورا دن وہیں گزارا۔ صبح کے سیشن میں آٹھ مقالہ نگار تھے، ان میں گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ کی تقریر کو بھی شامل کر لیا جائے جو کچھ دیر شریک محفل رہے تو مقالات کی تعداد اٹھارہ ہو جاتی ہے۔ اس ٹوٹل کو میری ریاضی دانی کی کمزوری سے تعبیر نہ کیجیے گا کیونکہ امر واقعہ یہی ہے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ چینی مہمانوں کے لیے ہر مقالے کا ملخص چینی زبان میں بھی پیش کیا جاتا تھا جس کے لیے دو پاکستانی چینی دان (Sugar Pots نہیں) خاص طور پر اسلام آباد سے تشریف لائے تھے۔ دوسرے سیشن میں مہمانوں اور منتخب میزبانوں کو آمنے سامنے بٹھایا گیا۔ جنھوں نے ان ھی دو ترجمانوں کے ذریعے مختلف ادبی موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ چینی وفد میں دو اردو دان بھی تھے جن کی بامحاورہ اردو (لہجے کے معمولی سے فرق کے باوجود) اجلاس میں موجود بہت سے لوگوں کے لیے باعث رشک تھی۔
آخری پروگرام رات کو ہونے والا مشاعرہ تھا جس میں دعوت تو صرف ان چند شاعروں کو دی گئی تھی جن کی تخلیقات کا چینی میں ترجمہ کروایا گیا تھا لیکن اس کی پابندی نہ ہو سکی۔ ہمارے چینی دوست چانگ شی شوانگ عرف انتخاب عالم نے چین کی نمائندگی کی۔ چانگ اردو کا صاحب دیوان شاعر ہے۔ اس سے چین اور پاکستان سمیت کئی ملکوں میں ملاقات ہوتی رہتی ہے کہ اسے دنیا بھر کے مشاعروں میں مدعو کیا جاتا ہے اور ہر جگہ اس کا کلام بڑی خوشگوار حیرت اور مسرت کے ساتھ سنا اور پسند کیا جاتا ہے۔ اس محفل میں اس نے اپنا وہ مطلع بھی سنایا جو مجھے بہت پسند ہے۔
بشر بس غم اٹھانے کے لیے دنیا میں آتا ہے
دم آمد وہ روتا ہے دم رخصت رُلاتا ہے
صدارت ظفر اقبال کی تھی جن کے دائیں بائیں کشور ناہید، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، چانگ شی شوانگ، عباس تابش، ڈاکٹر وحید احمد، بیرم غوری، محمد حنیف، فاطمہ حسن اور مجھے بٹھایا گیا تھا۔ نظامت صغریٰ صدف کے ذمے تھی جسے کشور ناہید بار بار ٹوک رہی تھیں کہ وہ دھڑا دھڑ ایسے شاعروں کو کیوں پڑھوائے جا رہی ہے جن کے نام کارڈ میں درج نہیں اور وہ بے چاری بار بار وضاحت کیے جا رہی تھی کہ یہ فہرست اس کو انتظامیہ کی طرف سے دی گئی ہے اور اس میں اضافے بھی ان ھی کی طرف سے ہو رہے ہیں۔ اس کھینچا تانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے غیر معروف اور نسبتاً ناپختہ شاعروں کو تو پڑھنے کا موقع مل گیا مگر ہال میں موجود کئی اچھے شعراء کو دعوت کلام نہ دی جا سکی۔
معلوم ہوا کہ جن منتخب شعراء کا کلام خاص طور پر منگوایا گیا تھا کہ چینی مہمانوں کے لیے اس کا ترجمہ پیش کیا جائے گا وہ کام بوجوہ مکمل نہیں ہو سکا۔ داد دینی چاہیے ان چینی دوستوں کی رواداری کو کہ وہ ان اشعار پر بھی داد کے انداز میں سر ہلاتے رہے جن میں سے بعض باقاعدہ جرمانے کے قابل تھے۔
میرا ارادہ دورۂ چین کے دوران وہاں کے تین شہروں بیجنگ، ہان چُو اور شنگھائی کے بارے میں لکھی گئی نظموں میں سے کچھ سنانے کا تھا مگر یہ ارادہ بھی چینی ترجمے کی عدم دستیابی کی وجہ سے درمیان میں ہی رہ گیا۔ سو اب آخر میں بیجنگ (پرانا نام پیکنگ) کے بارے میں لکھی گئی نظم نمونے کے طور پر درج کر رہا ہوں کہ یہ نسبتاً مختصر ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا ایک سرا علامہ اقبال کی مشہور نظم ''ہمالہ'' اور دوسرا آج کے چین سے مل رہا ہے۔
نگاہ شاعر مشرق کی پیش بینی نے
ہمالیہ کے جو چشمے ابلتے دیکھے تھے
نمو کے جوش نے دریا بنا دیا ہے انھیں
ہر اک آنکھ میں ٹھہرے تھے جتنے خواب گراں
نگار صبح کا چہرا بنا دیا ہے انھیں
ہر ایک شے سے نمایاں ہے لذت تعمیر
ہر ایک نقش ہے اک شاہکار محنت کا
بس ایک خواب ہی دیکھا تمام آنکھوں نے
''ہر ایک بو ے گا خوشیاں، ہر ایک کاٹے گا''
ہر ایک رشتۂ الفت میں استوار بھی ہیں
یہ لوگ ایک بھی ہیں اور بے شمار بھی ہیں
جہان نو کی حسیں صبح کا نکھار ہیں یہ
یہ شہر باغ ہے اور قاصدِ ملہار ہیں یہ