دوائی بڑے کام کی
بھارت سے برآمد کی جانے والی ادویات کی مالیت اندازاً پچیس بلین ڈالر ہے۔
اس خاتون کا تعلق ملتان سے تھا، اس کا بیٹا وہاں ایک بوتیک میں ملازم تھا، اس کی تنخواہ پر پورے گھر کا گزارہ تھا، بہنیں جوان شادی کے لائق ، لیکن اس کے سر پر گنج تھا۔
عین ماتھے سے ذرا اوپر یہ گنج خاصا واضح نظر آتا تھا، ٹی وی کے کسی چینل پر مارننگ شو میں ایک ڈاکٹر کی مہارت سے وہ لڑکی اتنا متاثر ہوئی کہ اس نے خاص طور پر ملتان سے فون کرکے اپنی رشتے دار کو اس ڈاکٹر کا پتہ معلوم کروایا اور پھر اس ڈاکٹر کے پاس اپنی والدہ کو ملتان سے کراچی بھیجا، پیسوں کی کمی کے باعث وہ اپنی والدہ کے ساتھ کراچی نہ آسکی، کیونکہ کرائے کے لیے اور دوائی کے اخراجات کے لیے ان کے پاس وسائل نہ تھے، ڈاکٹر نے اس خاتون سے تمام کہانی سنی اس لڑکی سے فون پر بات بھی کی اور ان کو ایک لمبا چوڑا نسخہ تھما دیا، چھ ہزار روپے کا (سامان) دوائیاں، شیمپو وغیرہ ان خاتون کو حیران کرکے دے رہے تھے۔
ہفتے میں دو بار ڈاکٹر صاحبہ بیٹھتی تھیں، لہٰذا دوسرے ہفتے خاتون سامان لے کر کلینک پہنچ گئی، ڈاکٹر سے بڑی منت سماجت کی کہ اتنے سارے پیسے اس کی حد سے باہر ہیں کچھ دوائیاں واپس کرلے کیونکہ اس کے بیٹے نے فون پر صاف کہہ دیا کہ میں اتنے ہزاروں کی دوائیاں برداشت نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹر نے کچھ دوائیاں واپس لے لیں اور کچھ نہیں۔ یہ کہانی نہیں حقیقت ہے ہمارے ملک میں اب مسیحاؤں نے دوائیوں کے کاروبار کا عجیب دھندہ شروع کر رکھا ہے جس کا فائدہ ان مہنگی مہنگی دوائیوں کی کمپنیوں اور ڈاکٹرز کو براہ راست ہو رہا ہے یہ دوائیاں جو زیادہ تر فوڈ سپلیمنٹ اور غیر معروف کمپنیوں کی دوائیاں ہوتی ہیں جن کی طاقت عام دوائیوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے ۔
جس کا فوری اثر ہوتا ہے اب یہ اثر مثبت ہے یا منفی اس کے نتائج تو بعد میں ہی ظاہر ہوتے ہیں جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس قسم کی تمام ادویات کے لیبارٹری ٹیسٹ لازماً ہونے چاہییں،ڈرگ انسپکٹر حضرات مارکیٹ کا جائزہ لیں، جانچ پڑتال ہونی چاہیے کہ دوائیں یا فوڈ سپلیمنٹس اصلی ،معیاری اور صحت بخش ہیں کہ نہیں۔ پاکستان جہاں کئی شعبوں میں صبر آزما چیلنجوں کا سامنا کررہا ہے وہاں اندھا دھند ملاوٹ اور غیر معیاری اشیاء اور دواؤں کی تیاری کی کھلی چھوٹ ہے،آپ کراچی کے صدر بازار میں راکھ کو سرمہ بنا کر بیچ سکتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چھ سو سے زائد فارماسوٹیکل کمپنیاں ہیں، ان کمپنیوں کی رجسٹر دوائیاں اندازاً چھیاسٹھ ہزار ہیں ان دوائیوں کی ترسیل اور فروخت کے لیے ڈاکٹرز کو راغب کرنے کے اب بہت سے انداز رائج ہوچکے ہیں یہ دوائیاں کراچی میں خاص بڑے میڈیکل اسٹورز پر دستیاب ہوتی ہیں جن کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں ان دوائیوں کو زیادہ تر حسن و تازگی، چھائیاں جھریاں، بالوں کی گروتھ وغیرہ وغیرہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ان دوائیوں کو غیر معروف کمپنیاں باہر سے درآمد کرتی ہیں اور ان پر من مانے ٹیگ لگا کر فروخت کیا جاتا ہے۔ 1960 میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی انوسٹمنٹ پاکستان میں 2.8بلین تھی جو اب کم ہوکر چالیس ملین ڈالر ہوگئی ہے، 1960 کے بعد سے ان کمپنیوں نے کوئی نئی سرمایہ کاری نہیں کی بلکہ یہ کمپنیاں فروخت کی جا رہی ہیں، جب کہ بھارت میں اکسٹھ ہزار دو سو چھپن (61,256) کمپنیاں دوائیاں بنا رہی ہیں جو نہ صرف بھارت کی ضرورت پوری کر رہی ہیں بلکہ امریکا میں بھی یہ ادویات ایکسپورٹ کی جا رہی ہیں، جن کی تعداد پورے یورپ سے درآمد کی جانے والی ادویات سے بھی زائد ہے۔
بھارت سے برآمد کی جانے والی ادویات کی مالیت اندازاً پچیس بلین ڈالر ہے۔ ہر سال 4282 برانڈ کی ادویات کی پروڈکشن ہو رہی ہے، جس سے بھارت میں ادویات سازی میں منافعے کی شرح کا گراف بلند ہو رہا ہے، جب کہ پاکستان میں باہر سے ادویات درآمد کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے یہ ادویات نہ صرف یورپ بلکہ بھارت اور دیگر ممالک سے بھی درآمد کی جا رہی ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ چند برسوں میں ہونے والے ڈرگ کیسز کی وجہ سے عوام الناس میں پاکستانی ادویات کے استعمال کے رجحان میں بھی کمی آئی ہے اس کے علاوہ جعلی ادویات کا بڑا کاروبار بھی اس رجحان کو تقویت دے رہا ہے، ایک بار یہ ہوا کہ پاکستان کے کسی وزیر صحت کو دل کا عارضہ ہوا تو لندن علاج کے لیے لے جائے گئے، وہاں ڈاکٹروں نے ان کی پاکستان میں استعمال شدہ ادویہ کی لسٹ دیکھی تو حیرت زدہ رہ گئے۔ کیونکہ یہ دوائیں دو نمبر کی تھیں۔ راوی مستند ہیں۔
حکومت نے اگرچہ اس سلسلے میں کارروائی کی ہے لیکن اس کارروائی کو اس وقت ہی کامیابی مل سکتی ہے جب پاکستان میں ادویہ سازی کی کمپنیوں کے قیام و استحکام پر توجہ دی جائے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے اس ملک میں ادویہ سازی کمپنیوں کی بڑی گنجائش ہے اس پر سرمایہ کاری کرنے والے اداروں کو بھی سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ سرمایہ کاری کے لیے راستے کھلیں، مقابلے اور مسابقت کے اس دور میں پاکستانی ادویہ سازی کی صنعت پیچھے کی جانب سفر کر رہی ہے اور دوسری صنعتوں کی طرح اس صنعت کو بھی نئے سرے سے آکسیجن کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیش بھی اس صنعت میں ہم سے آگے ہے، اگر اس دور میں بھی ہم نے اس صنعت پر توجہ نہ دی، چند نئے مینڈکوں کی ٹرٹراہٹ سے اپنے تالاب پر جمی کائی کی صفائی نہ کی تو اس جانب بھی ہم ناکام رہیں گے۔
حکومت کو دواؤں کے معیار اور خاص طور پر جعلی ادویہ کے کاروبار کے خاتمہ کے لیے ٹھوس اور موثر اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔
عین ماتھے سے ذرا اوپر یہ گنج خاصا واضح نظر آتا تھا، ٹی وی کے کسی چینل پر مارننگ شو میں ایک ڈاکٹر کی مہارت سے وہ لڑکی اتنا متاثر ہوئی کہ اس نے خاص طور پر ملتان سے فون کرکے اپنی رشتے دار کو اس ڈاکٹر کا پتہ معلوم کروایا اور پھر اس ڈاکٹر کے پاس اپنی والدہ کو ملتان سے کراچی بھیجا، پیسوں کی کمی کے باعث وہ اپنی والدہ کے ساتھ کراچی نہ آسکی، کیونکہ کرائے کے لیے اور دوائی کے اخراجات کے لیے ان کے پاس وسائل نہ تھے، ڈاکٹر نے اس خاتون سے تمام کہانی سنی اس لڑکی سے فون پر بات بھی کی اور ان کو ایک لمبا چوڑا نسخہ تھما دیا، چھ ہزار روپے کا (سامان) دوائیاں، شیمپو وغیرہ ان خاتون کو حیران کرکے دے رہے تھے۔
ہفتے میں دو بار ڈاکٹر صاحبہ بیٹھتی تھیں، لہٰذا دوسرے ہفتے خاتون سامان لے کر کلینک پہنچ گئی، ڈاکٹر سے بڑی منت سماجت کی کہ اتنے سارے پیسے اس کی حد سے باہر ہیں کچھ دوائیاں واپس کرلے کیونکہ اس کے بیٹے نے فون پر صاف کہہ دیا کہ میں اتنے ہزاروں کی دوائیاں برداشت نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹر نے کچھ دوائیاں واپس لے لیں اور کچھ نہیں۔ یہ کہانی نہیں حقیقت ہے ہمارے ملک میں اب مسیحاؤں نے دوائیوں کے کاروبار کا عجیب دھندہ شروع کر رکھا ہے جس کا فائدہ ان مہنگی مہنگی دوائیوں کی کمپنیوں اور ڈاکٹرز کو براہ راست ہو رہا ہے یہ دوائیاں جو زیادہ تر فوڈ سپلیمنٹ اور غیر معروف کمپنیوں کی دوائیاں ہوتی ہیں جن کی طاقت عام دوائیوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے ۔
جس کا فوری اثر ہوتا ہے اب یہ اثر مثبت ہے یا منفی اس کے نتائج تو بعد میں ہی ظاہر ہوتے ہیں جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس قسم کی تمام ادویات کے لیبارٹری ٹیسٹ لازماً ہونے چاہییں،ڈرگ انسپکٹر حضرات مارکیٹ کا جائزہ لیں، جانچ پڑتال ہونی چاہیے کہ دوائیں یا فوڈ سپلیمنٹس اصلی ،معیاری اور صحت بخش ہیں کہ نہیں۔ پاکستان جہاں کئی شعبوں میں صبر آزما چیلنجوں کا سامنا کررہا ہے وہاں اندھا دھند ملاوٹ اور غیر معیاری اشیاء اور دواؤں کی تیاری کی کھلی چھوٹ ہے،آپ کراچی کے صدر بازار میں راکھ کو سرمہ بنا کر بیچ سکتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چھ سو سے زائد فارماسوٹیکل کمپنیاں ہیں، ان کمپنیوں کی رجسٹر دوائیاں اندازاً چھیاسٹھ ہزار ہیں ان دوائیوں کی ترسیل اور فروخت کے لیے ڈاکٹرز کو راغب کرنے کے اب بہت سے انداز رائج ہوچکے ہیں یہ دوائیاں کراچی میں خاص بڑے میڈیکل اسٹورز پر دستیاب ہوتی ہیں جن کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں ان دوائیوں کو زیادہ تر حسن و تازگی، چھائیاں جھریاں، بالوں کی گروتھ وغیرہ وغیرہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ان دوائیوں کو غیر معروف کمپنیاں باہر سے درآمد کرتی ہیں اور ان پر من مانے ٹیگ لگا کر فروخت کیا جاتا ہے۔ 1960 میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی انوسٹمنٹ پاکستان میں 2.8بلین تھی جو اب کم ہوکر چالیس ملین ڈالر ہوگئی ہے، 1960 کے بعد سے ان کمپنیوں نے کوئی نئی سرمایہ کاری نہیں کی بلکہ یہ کمپنیاں فروخت کی جا رہی ہیں، جب کہ بھارت میں اکسٹھ ہزار دو سو چھپن (61,256) کمپنیاں دوائیاں بنا رہی ہیں جو نہ صرف بھارت کی ضرورت پوری کر رہی ہیں بلکہ امریکا میں بھی یہ ادویات ایکسپورٹ کی جا رہی ہیں، جن کی تعداد پورے یورپ سے درآمد کی جانے والی ادویات سے بھی زائد ہے۔
بھارت سے برآمد کی جانے والی ادویات کی مالیت اندازاً پچیس بلین ڈالر ہے۔ ہر سال 4282 برانڈ کی ادویات کی پروڈکشن ہو رہی ہے، جس سے بھارت میں ادویات سازی میں منافعے کی شرح کا گراف بلند ہو رہا ہے، جب کہ پاکستان میں باہر سے ادویات درآمد کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے یہ ادویات نہ صرف یورپ بلکہ بھارت اور دیگر ممالک سے بھی درآمد کی جا رہی ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ چند برسوں میں ہونے والے ڈرگ کیسز کی وجہ سے عوام الناس میں پاکستانی ادویات کے استعمال کے رجحان میں بھی کمی آئی ہے اس کے علاوہ جعلی ادویات کا بڑا کاروبار بھی اس رجحان کو تقویت دے رہا ہے، ایک بار یہ ہوا کہ پاکستان کے کسی وزیر صحت کو دل کا عارضہ ہوا تو لندن علاج کے لیے لے جائے گئے، وہاں ڈاکٹروں نے ان کی پاکستان میں استعمال شدہ ادویہ کی لسٹ دیکھی تو حیرت زدہ رہ گئے۔ کیونکہ یہ دوائیں دو نمبر کی تھیں۔ راوی مستند ہیں۔
حکومت نے اگرچہ اس سلسلے میں کارروائی کی ہے لیکن اس کارروائی کو اس وقت ہی کامیابی مل سکتی ہے جب پاکستان میں ادویہ سازی کی کمپنیوں کے قیام و استحکام پر توجہ دی جائے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے اس ملک میں ادویہ سازی کمپنیوں کی بڑی گنجائش ہے اس پر سرمایہ کاری کرنے والے اداروں کو بھی سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ سرمایہ کاری کے لیے راستے کھلیں، مقابلے اور مسابقت کے اس دور میں پاکستانی ادویہ سازی کی صنعت پیچھے کی جانب سفر کر رہی ہے اور دوسری صنعتوں کی طرح اس صنعت کو بھی نئے سرے سے آکسیجن کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیش بھی اس صنعت میں ہم سے آگے ہے، اگر اس دور میں بھی ہم نے اس صنعت پر توجہ نہ دی، چند نئے مینڈکوں کی ٹرٹراہٹ سے اپنے تالاب پر جمی کائی کی صفائی نہ کی تو اس جانب بھی ہم ناکام رہیں گے۔
حکومت کو دواؤں کے معیار اور خاص طور پر جعلی ادویہ کے کاروبار کے خاتمہ کے لیے ٹھوس اور موثر اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔