کراچی سے سوات تک
مڈغاسکر میں دنیا کے نایاب ترین، بے مثال اور خوبصورت جانور اور پرندے تو دنیا کے لیے عجوبہ ہیں
دنیا کی حسین ترین وادیوں، چشموں، ہرے بھرے جھومتے پھلوں کے درختوں اور برساتی جنگلوں کی کہانیاں نیشنل جیوگرافی کی دستاویزی فلموں میں دیکھی ہیں، جن میں سوئزر لینڈ، کشمیر، جمیکا، شملہ، ایما زون اور مڈغاسکر سرفہرست ہیں۔ لیکن وادی سوات کے علاقے ٹانگار، مانڈل ڈاگ، گوالیری، پشون نئی، لابٹ بکوڑ اور حسین ندی مارکٹ کٹ کی مثال نہیں ملتی۔ سوئیزرلینڈ کو سنوارا سجایا گیا ہے مگر وہاں اتنے پھلوں سے جھکے ہوئے درخت نہیں ملیں گے۔ ایمازون کا جنگل دنیا کا پھیپھڑا کہلانے والا ہے، مگر ہریالی میں پھلوں کی بھرمار نہیں نظر آتی۔
مڈغاسکر میں دنیا کے نایاب ترین، بے مثال اور خوبصورت جانور اور پرندے تو دنیا کے لیے عجوبہ ہیں لیکن سوات کی طرح پھلوں سے عاری ہے۔ میں تو اپنے چند محنت کش کامریڈوں کی دعوت پر وہاں پہنچا، ہاں مگر اس وقت کراچی میں گرمی بہت تھی مگر ہم گرمی سے بچنے کے لیے نہیں بلکہ ساتھیوں کے اجلاس میں شرکت اور جنت نما بے ریاستی دنیا کی تشکیل کی جدوجہد کے سلسلے میں گیا تھا۔
یہ الگ بات ہے کہ وہاں بھی بارہ ماہ میں نو ماہ برف پوش پہاڑ نظر آتے ہیں۔ یہاں منفی آٹھ درجے میں غریب عوام کا گھر سے نکلنا نہ صرف دو بھر ہو جاتا ہے بلکہ بہت سے محنت کش ٹھٹھر کر جان سے بھی جاتے رہتے ہیں۔ مگر آج تک کراچی یا سوات کا کوئی وزیر، سرمایہ دار یا جاگیردار گرمی کی شدت یا سردی کی لپیٹ میں آ کر نہیں مرا۔ بقول حبیب جالب 'کتنے اچھے لوگ مر گئے لیکن تم نہ مرے'۔
عظیم انقلابی ہیروئن کامریڈ ایما گولڈ مان نے ایک موقعے پرکہا تھا کہ 'انتخابات اگر مسئلے کا حل ہوتے تو حکمران کب کے انتخابات پر پابندی لگا چکے ہوتے'۔ یہاں حد نظر جنگلات، ہر جگہ آڑو، پرسیمون (لال اور کالا) سیب، آلوچہ، خوبانی، اخروٹ، شہتوت، انگور، ناشپاتی، کینو، لوکاٹ، انار، بادام کے درختوں اور جھاڑیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ہر گھر میں چشمے کا پانی استعمال ہوتا ہے، بعض گھروں میں کنوئیں بھی ہیں۔ میں جہاں حسین احمد کے توسط سے محمد رحیم خان کی رہائش گاہ میں رہائش پذیر تھا، وہاں کے باغات اور جنگلات میں ہر قسم کے پھل میسر تھے۔ اس علاقے کی مقامی اور قدیم آبادی گوجروں کی ہے، اسی لیے یہاں فانوس گوجر بہت مقبول ہیں۔
یوسف زئی پختون اس علاقے میں حملہ آور کے طور پر فاتح بن کر آئے اور سواتیوں (ہزارہ) نے مزاحمت کی اور سواتیوں کو شکست ہوئی۔ گوجر پہاڑیوں کی چو ٹیوں پہ چلے گئے۔ اس وقت اس علاقے میں پہاڑ کی نچلی سطح پہ یوسفزئی پشتون بستے ہیں اور پہاڑ کی چوٹی پرگوجر آباد ہیں۔ پختون اور گوجر پچاس پچاس فیصد ہیں۔ گوجر آلو، گندم، مکئی اور جوار کی کاشت کرتے ہیں اور نچلے حصے پہ پختون آڑو، خوبانی، املوک، سیب، آلوچہ، اخروٹ، بادام، انار اور انگور کاشت کرتے ہیں۔
گوجروں میں دس فیصد اور پشتونوں میں ساٹھ فیصد لوگ لکھے پڑھے ہیں۔ حکومت کی جانب سے اس علاقے میں بجلی ہے اور نہ گیس۔ کچھ لوگ شمسی توانائی کے ذریعے بجلی حاصل کرتے ہیں۔ عام طور پہ واپڈا کی بجلی موجود ہے لیکن اس کی وولٹیج دس سے اوپر نہیں جاتی، وہ بھی چوبیس گھنٹوں میں دو چار گھنٹے کے لیے۔ یہاں گیس نہ ہونے کی وجہ سے لوگ جنگل کی لکڑی کاٹ کر کھانا پکانے پر مجبور ہیں۔
اگر گیس آجائے تو جنگل کی کٹائی رک جائے گی اور درختوں میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ نتیجتاً سیلاب آنے پر درختوں کی بھرمار کی باعث، باغات اور مکانات کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ میں جہاں مقیم تھا، وہاں کے پہاڑ سطح سمندر سے تقریبا سات سے بارہ ہزار بلندی فٹ پر پچھتر ہزار سے زیادہ لوگ آباد ہیں۔ اور یہاں مشکل سے پانچ فیصد لوگ اپنے باغات، جنگلات اور کھیتوں سے سال کی ضروریات زندگی پوری کر پاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ سعودی عرب اور عرب امارات وغیرہ مزدوری کرنے کے لیے جانے پر مجبور ہیں۔ شاید اسی لیے کامریڈ ساحر لدھیانوی نے کہا تھا،
زمیں نے کیا اسی کارن اناج اگلا تھا
کہ نسل آدم و حوا بلک بلک کے مرے
اسی وادی میں چند سال قبل تباہ کن سیلاب آیا تھا جسکے نتیجے میں نہ جانے کتنے لوگ لقمہ اجل ہوئے اور اربوں روپے کی مالیت کے باغات، کھیتی اور جنگلات اجڑ گئے۔ میووں سے جھومتے علاقے کی بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں کے پہاڑوں کی چوٹیاں عوام کی مشترکہ ملکیت تھی جو کہ اب محدود پیمانے پر رہ گئی ہے اور باقی حصوں پر سرکار نے قبضہ جما کر اپنے پہرے دار مقرر کر دیے ہے۔ یہاں دو ہزار سات سے نو تک ان معصوم، پر خلوص، بااخلاق، محنتی اور آزاد خیال لوگوں پر امریکی سامراج کے ایما پر درندہ صفت طالبان کو مسلط کر دیا گیا تھا۔
وہ ان تین برسوں میں قمیض کے کالر، شلوارکے پائینچے، ماتھے پر لٹکتے ہوئے بالوں اور جنگلات کو ٹھیکیداروں سے کٹوا کر پیسے بٹور کر اسلام نافذ کرتے رہے۔ انھیں دنوں طالبان نے گوالیری پر جب جدید اسلحوںسے حملہ کیا تو شروع میں علی خان مسلسل بارہ گھنٹے لڑتا رہا، آخرکار جب اس کے پاس اسلحہ ختم ہو گیا تو طالبان نے اسے اور اس کے والد کبیر خان کو شہید کر دیا۔ پھر جب سارے گوالیری کے عوام نے اسلحہ اٹھا لیا تو طالبان نے صلح کے نام پہ سادہ شہریوں کو دھوکا دیکر مسجد میں بلایا۔ پھر ان پر اندھا دھند فائر کھول دیے، جسکے نتیجے میں مسجد میں ہی آٹھ اور مسجد کے باہر چھ افراد کو شہید کر دیا اور پینسٹھ شہریوں کو اغوا کر کے لے گئے۔
مسجد میں فائرنگ سے ایک کونسلر کامریڈ خیراللہ کو دو گولیاں لگیں۔ ایک ہاتھ پر اور ایک دل کے قریب ہوتی ہوئی پیٹھ سے نکل گئی۔ دوسرے کامریڈ باچہ زادہ نے مسجد کی کھڑکی سے چھلا نگ لگا کر جان بچائی۔ کئی لوگوں کو ذبح کر کے کھمبوں سے لٹکا دیا گیا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ طالبان کے پاس اتنے پیسے ڈالروں میں ہوتے تھے کہ چادروں میں باندھ کر کندھوں پہ لے جایا کرتے تھے اور یہ کہا کرتے تھے کہ 'یہ اسلام کے برکات ہیں'۔
طالبان کو شکست ہوئی تو یہ فوجی طالبان کارکنان کو مار دیا لیکن ان کے کمانڈروں جیسا کہ فضل اللہ اور امین جیسے کو مارنے کے بجائے نہ جانے کہاں غائب کر دیا۔ جب ہم سوات سے رخصت ہو رہے تھے تو رحیم خان کی اہلیہ میری بچی کو پیار کرکے رونے لگیں۔ ان کے یہ آنسو کوئی پشتون، مسلمان، پنجابی، عیسائی، یہودی یاسندھی کا آنسو نہیں تھے، یہ آنسو خلوص، محبت، یگانگت، بھائی چارگی اور نسل انسانی کے آنسو تھے۔ ہم انھیں انسانوں کے متلاشی ہیں۔
مڈغاسکر میں دنیا کے نایاب ترین، بے مثال اور خوبصورت جانور اور پرندے تو دنیا کے لیے عجوبہ ہیں لیکن سوات کی طرح پھلوں سے عاری ہے۔ میں تو اپنے چند محنت کش کامریڈوں کی دعوت پر وہاں پہنچا، ہاں مگر اس وقت کراچی میں گرمی بہت تھی مگر ہم گرمی سے بچنے کے لیے نہیں بلکہ ساتھیوں کے اجلاس میں شرکت اور جنت نما بے ریاستی دنیا کی تشکیل کی جدوجہد کے سلسلے میں گیا تھا۔
یہ الگ بات ہے کہ وہاں بھی بارہ ماہ میں نو ماہ برف پوش پہاڑ نظر آتے ہیں۔ یہاں منفی آٹھ درجے میں غریب عوام کا گھر سے نکلنا نہ صرف دو بھر ہو جاتا ہے بلکہ بہت سے محنت کش ٹھٹھر کر جان سے بھی جاتے رہتے ہیں۔ مگر آج تک کراچی یا سوات کا کوئی وزیر، سرمایہ دار یا جاگیردار گرمی کی شدت یا سردی کی لپیٹ میں آ کر نہیں مرا۔ بقول حبیب جالب 'کتنے اچھے لوگ مر گئے لیکن تم نہ مرے'۔
عظیم انقلابی ہیروئن کامریڈ ایما گولڈ مان نے ایک موقعے پرکہا تھا کہ 'انتخابات اگر مسئلے کا حل ہوتے تو حکمران کب کے انتخابات پر پابندی لگا چکے ہوتے'۔ یہاں حد نظر جنگلات، ہر جگہ آڑو، پرسیمون (لال اور کالا) سیب، آلوچہ، خوبانی، اخروٹ، شہتوت، انگور، ناشپاتی، کینو، لوکاٹ، انار، بادام کے درختوں اور جھاڑیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ہر گھر میں چشمے کا پانی استعمال ہوتا ہے، بعض گھروں میں کنوئیں بھی ہیں۔ میں جہاں حسین احمد کے توسط سے محمد رحیم خان کی رہائش گاہ میں رہائش پذیر تھا، وہاں کے باغات اور جنگلات میں ہر قسم کے پھل میسر تھے۔ اس علاقے کی مقامی اور قدیم آبادی گوجروں کی ہے، اسی لیے یہاں فانوس گوجر بہت مقبول ہیں۔
یوسف زئی پختون اس علاقے میں حملہ آور کے طور پر فاتح بن کر آئے اور سواتیوں (ہزارہ) نے مزاحمت کی اور سواتیوں کو شکست ہوئی۔ گوجر پہاڑیوں کی چو ٹیوں پہ چلے گئے۔ اس وقت اس علاقے میں پہاڑ کی نچلی سطح پہ یوسفزئی پشتون بستے ہیں اور پہاڑ کی چوٹی پرگوجر آباد ہیں۔ پختون اور گوجر پچاس پچاس فیصد ہیں۔ گوجر آلو، گندم، مکئی اور جوار کی کاشت کرتے ہیں اور نچلے حصے پہ پختون آڑو، خوبانی، املوک، سیب، آلوچہ، اخروٹ، بادام، انار اور انگور کاشت کرتے ہیں۔
گوجروں میں دس فیصد اور پشتونوں میں ساٹھ فیصد لوگ لکھے پڑھے ہیں۔ حکومت کی جانب سے اس علاقے میں بجلی ہے اور نہ گیس۔ کچھ لوگ شمسی توانائی کے ذریعے بجلی حاصل کرتے ہیں۔ عام طور پہ واپڈا کی بجلی موجود ہے لیکن اس کی وولٹیج دس سے اوپر نہیں جاتی، وہ بھی چوبیس گھنٹوں میں دو چار گھنٹے کے لیے۔ یہاں گیس نہ ہونے کی وجہ سے لوگ جنگل کی لکڑی کاٹ کر کھانا پکانے پر مجبور ہیں۔
اگر گیس آجائے تو جنگل کی کٹائی رک جائے گی اور درختوں میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ نتیجتاً سیلاب آنے پر درختوں کی بھرمار کی باعث، باغات اور مکانات کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ میں جہاں مقیم تھا، وہاں کے پہاڑ سطح سمندر سے تقریبا سات سے بارہ ہزار بلندی فٹ پر پچھتر ہزار سے زیادہ لوگ آباد ہیں۔ اور یہاں مشکل سے پانچ فیصد لوگ اپنے باغات، جنگلات اور کھیتوں سے سال کی ضروریات زندگی پوری کر پاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ سعودی عرب اور عرب امارات وغیرہ مزدوری کرنے کے لیے جانے پر مجبور ہیں۔ شاید اسی لیے کامریڈ ساحر لدھیانوی نے کہا تھا،
زمیں نے کیا اسی کارن اناج اگلا تھا
کہ نسل آدم و حوا بلک بلک کے مرے
اسی وادی میں چند سال قبل تباہ کن سیلاب آیا تھا جسکے نتیجے میں نہ جانے کتنے لوگ لقمہ اجل ہوئے اور اربوں روپے کی مالیت کے باغات، کھیتی اور جنگلات اجڑ گئے۔ میووں سے جھومتے علاقے کی بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں کے پہاڑوں کی چوٹیاں عوام کی مشترکہ ملکیت تھی جو کہ اب محدود پیمانے پر رہ گئی ہے اور باقی حصوں پر سرکار نے قبضہ جما کر اپنے پہرے دار مقرر کر دیے ہے۔ یہاں دو ہزار سات سے نو تک ان معصوم، پر خلوص، بااخلاق، محنتی اور آزاد خیال لوگوں پر امریکی سامراج کے ایما پر درندہ صفت طالبان کو مسلط کر دیا گیا تھا۔
وہ ان تین برسوں میں قمیض کے کالر، شلوارکے پائینچے، ماتھے پر لٹکتے ہوئے بالوں اور جنگلات کو ٹھیکیداروں سے کٹوا کر پیسے بٹور کر اسلام نافذ کرتے رہے۔ انھیں دنوں طالبان نے گوالیری پر جب جدید اسلحوںسے حملہ کیا تو شروع میں علی خان مسلسل بارہ گھنٹے لڑتا رہا، آخرکار جب اس کے پاس اسلحہ ختم ہو گیا تو طالبان نے اسے اور اس کے والد کبیر خان کو شہید کر دیا۔ پھر جب سارے گوالیری کے عوام نے اسلحہ اٹھا لیا تو طالبان نے صلح کے نام پہ سادہ شہریوں کو دھوکا دیکر مسجد میں بلایا۔ پھر ان پر اندھا دھند فائر کھول دیے، جسکے نتیجے میں مسجد میں ہی آٹھ اور مسجد کے باہر چھ افراد کو شہید کر دیا اور پینسٹھ شہریوں کو اغوا کر کے لے گئے۔
مسجد میں فائرنگ سے ایک کونسلر کامریڈ خیراللہ کو دو گولیاں لگیں۔ ایک ہاتھ پر اور ایک دل کے قریب ہوتی ہوئی پیٹھ سے نکل گئی۔ دوسرے کامریڈ باچہ زادہ نے مسجد کی کھڑکی سے چھلا نگ لگا کر جان بچائی۔ کئی لوگوں کو ذبح کر کے کھمبوں سے لٹکا دیا گیا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ طالبان کے پاس اتنے پیسے ڈالروں میں ہوتے تھے کہ چادروں میں باندھ کر کندھوں پہ لے جایا کرتے تھے اور یہ کہا کرتے تھے کہ 'یہ اسلام کے برکات ہیں'۔
طالبان کو شکست ہوئی تو یہ فوجی طالبان کارکنان کو مار دیا لیکن ان کے کمانڈروں جیسا کہ فضل اللہ اور امین جیسے کو مارنے کے بجائے نہ جانے کہاں غائب کر دیا۔ جب ہم سوات سے رخصت ہو رہے تھے تو رحیم خان کی اہلیہ میری بچی کو پیار کرکے رونے لگیں۔ ان کے یہ آنسو کوئی پشتون، مسلمان، پنجابی، عیسائی، یہودی یاسندھی کا آنسو نہیں تھے، یہ آنسو خلوص، محبت، یگانگت، بھائی چارگی اور نسل انسانی کے آنسو تھے۔ ہم انھیں انسانوں کے متلاشی ہیں۔