اکیڈمی آف لٹیرز نے پھر جھرجھری لی
کب سے سنتے چلے آ رہے تھے کہ زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔
کب سے سنتے چلے آ رہے تھے کہ زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔ ممکن ہے عہد مغلیہ کا کوئی دل زدہ اپنی بیچارگی کا اظہار کرتے ہوئے یہ کلمہ زبان پر لایا ہو۔ یا شاید سلاطین دہلی کے زمانے میں کہ ترکوں کا زور شور تو اس زمانے ہی میں زیادہ تھا۔ مگر اس سیدھے سچے اعتراف کی صداقت تو اس زمانے میں بھی ہمیں نظر آ رہی ہے۔ ابھی جو اکیڈمی آف لٹیرز کی طرف سے لاہور میں پاک چین ادبی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا اس میں کچھ اسی قسم کا نقشہ نظر آیا۔
چین سے ادیبوں کا ایک اچھا بھلا وفد آیا بیٹھا تھا۔ ادھر پاکستان کے ادیب بھی قطار اندر قطار نظر آ رہے تھے۔ صرف لاہور کے دانے نہیں' بلکہ اسلام آباد' کراچی' بہاولپور تک کے ادبا کھنچ کر یہاں آئے ہوئے تھے۔ مقالوں کا ایک رسمی سیشن تو ہونا ہی تھا۔ وہ اس رنگ سے ہوا کہ ہمارے کتنے نقادوں نے ایسے مقالات پیش کیے جن میں اپنے یہاں کے ادب سے تعارف کرایا گیا تھا۔ کئی ایک نے اپنے یہاں کے ادب میں چینی ادب کے اثر آثار بھی دریافت کرنے کی حتی المقدور کوشش کی۔ ادھر سے چینی ادیبوں نے بھی اسی طرز پر مقالے پیش کیے۔ ان دونوں گروہوں کے بیچ ایک ترجمان اپنا ہنر دکھا رہا تھا۔ مگر
زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے
تھوڑی بہت ان کی بات ہم تک پہنچی۔ ہماری بات تولہ ماشہ ان تک پہنچی۔ بہر حال رسم پوری ہو گئی۔
دلچسپ صورت حال اور چاہو تو اسے عبرت بھری صورت حال کہہ لو وہ اس وقت پیدا ہوئی جب ہماری اکیڈمی کے چیئرمین صاحب نے گھیر گھار کر پاکستانی اور چینی ادیبوں کو ایک میز کے گرد اکٹھا کیا اور دعوت کلام دی کہ ادب کے ذیل میں کچھ اپنی کہو' کچھ ان کی سنو اور مکالمہ کا سماں پیدا کرو۔ خیال اچھا تھا اور چیئرمین ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو کی نیت بھی نیک تھی۔ اور پھر آتش لکھنوی نے جو طنز کیا تھا کہ
پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
تو یہاں پیامبر بھی میسر تھا۔ ایک ایسے پاکستانی دانشور دونوں طرف کے بیانات کو فریقین کی زبان میں ترجمہ کر کے انھیں سمجھا رہے تھے۔ پھر بھی ہم میں سے ہر ایک دوسرے سے پوچھتا تھا کہ اس چینی دانشور نے کیا فرمایا۔
کشور ناہید نے چینی ادیبوں میں سے ڈھونڈ کر ایک ایسے ادیب کو ہمارے بیچ لا بٹھایا جو اردو میں کشور ناہید کے بیان کے مطابق رواں گفتگو کر سکتے تھے۔ لیکن وہ مسکراتے رہے۔ کشور کے ہر مطالبہ کا جواب انھوں نے مسکراہٹ سے دیا۔ زبان سے کچھ نہیں بولے۔ وہ بھی اپنی جگہ سچے تھے۔ ہماری طرح تھوڑا ہی کہ باہر جانے والے ادیبوں کے وفد کی تشکیل اس طرح ہوتی ہے کہ
بدھو میاں بھی حضرت گاندھی کے ساتھ ہیں
مگر نمایندہ ادیب اپنے تئیں تصور کر کے وہ بولنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ادھر سے آنے والے خاص طور پر چینی وفد میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں تو پہلے سے بتا دیا جاتا ہے کہ کسے بولنا ہے اور کسے صرف مسکرانا ہے۔
بہر حال یہ نقشہ دیکھ کر ہمیں اپنا سن65ء بہت یاد آیا۔ سیز فائر کے فوراً بعد چین کی طرف سے ادیبوں دانشوروں فنکاروں کے وفد باری باری آتے رہے۔ کس خوش اسلوبی سے وہ یہ ترانہ سناتے تھے
خطہ لاہور تیرے جانثاروں کو سلام
ان سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے ہمیں ایسی زیادہ دقت پیش نہیں ہوتی تھی۔ ان میں لازماً ایسے مندوب بھی ہوتے تھے جو فر فر اردو بولتے تھے۔ ان دنوں چین سے ہماری دوستی نے ایک جذباتی رنگ پکڑ لیا تھا۔ ہمارے اس وقت کے نمایاں دانشور ممتاز احمد خاں چینی رنگ میں رنگے نظر آتے تھے۔ یہ فقرہ شاید اس زمانے ہی میں کہا گیا تھا اور شاید پہلی مرتبہ ممتاز احمد خاں کی زبان ہی سے بڑے جذباتی رنگ میں ادا ہوا تھا کہ پاک چین دوستی سمندروں سے زیادہ گہری اور ہمالہ سے زیادہ بلند اور پختہ ہے۔
اس وقت سے آج کے زمانے تک آتے آتے یہ فرق کیسے پڑا کہ ہمیں یہ بیان یاد آ رہا ہے کہ زبان یارمن ترکی و من ترکی نمی دانم۔ ارے اس دوران تو اکیڈمی آف لٹیرز نے لمبے لمبے ادیبوں کے لمبے لمبے وفد بھی ترتیب دے کر ادھر روانہ کیے تھے۔ ہر چند کہ ان میں سے ایسے دانے بھی شامل ہوتے تھے کہ گو مشت خاک ہیں مگر ادیبوں میں رل مل کر جیسے ادیب ویسے وہ۔ پھر بھی ادیب بھی تو ان وفود میں ہوتے ہی تھے۔ اکیڈمی نے ان ادیبوں کے زور پر کچھ تو تیر مارا ہوتا۔ کچھ یونیورسٹیوں نے ہنر دکھایا ہوتا۔ اتنے عرصے میں چینی ادب و تہذیب کے کچھ اسکالر ہمیں اپنے ارد گرد نظر آتے۔ کچھ ان کے ادب کے مترجمین۔ کچھ اپنے ادب کو ان کی زبان میں ترجمہ کرنے والے۔ مگر اس حساب سے دیکھو تو معاملہ صفر نظر آئے گا۔ شاید یہی نقشہ دیکھ کر چینیوں نے بھی سوچا ہو کہ اقتصادی سیاسی رشتہ ہی پاکستان کے ساتھ وارا کھاتا ہے۔
خیر گزشتہ را صلوٰۃ۔ اب اگر اکیڈمی کو پاک چین ادبی کانفرنس کا خیال سوجھ ہی گیا ہے تو اس تقریب سے کچھ آگے کے پروگرام کے متعلق سوچیں۔ ارے لے ابکے اس ایک ہی ملک سے تو پاکستان کا ادب کی سطح پر برا بھلا تعلق قائم ہوا تھا۔ ورنہ پاکستان تو باہر کے ملکوں سے علمی ادبی ثقافتی تعلقات کا قائل ہی نہیں ہے۔ ہاں فارسی کی تقریب سے کچھ علمی تدریسی تعلق قائم ہوا تھا۔ وہ اورینٹل کالج والے جانیں۔ ادب کی حد تک ہمیں بس اتنا پتہ ہے کہ انقلاب کے بعد ایک دفعہ وہاں کے ادبی فیسٹیول میں شرکت کے لیے ایک چھوٹا سا وفد یہاں سے گیا تھا۔ یہ اس حساب سے ہمیں معلوم ہے کہ اس میں ہم بھی شامل تھے۔ مگر اکیڈمی آف لٹیرز کا اس بیچ قدم نہیں تھا۔
اب کتنے سالوں کے بعد اس بدنصیب ادارے کو ایک سربراہ میسر آیا ہے۔ جانے والے تو اسے پوری طرح اجاڑ کر گئے تھے۔ اب نئے چیئرمین صاحب اسے پھر سے آباد کرنے کے سلسلہ میں پر جوش نظر آتے ہیں۔ اچھا شگن ہے۔ بہر حال تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو۔
چین سے ادیبوں کا ایک اچھا بھلا وفد آیا بیٹھا تھا۔ ادھر پاکستان کے ادیب بھی قطار اندر قطار نظر آ رہے تھے۔ صرف لاہور کے دانے نہیں' بلکہ اسلام آباد' کراچی' بہاولپور تک کے ادبا کھنچ کر یہاں آئے ہوئے تھے۔ مقالوں کا ایک رسمی سیشن تو ہونا ہی تھا۔ وہ اس رنگ سے ہوا کہ ہمارے کتنے نقادوں نے ایسے مقالات پیش کیے جن میں اپنے یہاں کے ادب سے تعارف کرایا گیا تھا۔ کئی ایک نے اپنے یہاں کے ادب میں چینی ادب کے اثر آثار بھی دریافت کرنے کی حتی المقدور کوشش کی۔ ادھر سے چینی ادیبوں نے بھی اسی طرز پر مقالے پیش کیے۔ ان دونوں گروہوں کے بیچ ایک ترجمان اپنا ہنر دکھا رہا تھا۔ مگر
زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے
تھوڑی بہت ان کی بات ہم تک پہنچی۔ ہماری بات تولہ ماشہ ان تک پہنچی۔ بہر حال رسم پوری ہو گئی۔
دلچسپ صورت حال اور چاہو تو اسے عبرت بھری صورت حال کہہ لو وہ اس وقت پیدا ہوئی جب ہماری اکیڈمی کے چیئرمین صاحب نے گھیر گھار کر پاکستانی اور چینی ادیبوں کو ایک میز کے گرد اکٹھا کیا اور دعوت کلام دی کہ ادب کے ذیل میں کچھ اپنی کہو' کچھ ان کی سنو اور مکالمہ کا سماں پیدا کرو۔ خیال اچھا تھا اور چیئرمین ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو کی نیت بھی نیک تھی۔ اور پھر آتش لکھنوی نے جو طنز کیا تھا کہ
پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
تو یہاں پیامبر بھی میسر تھا۔ ایک ایسے پاکستانی دانشور دونوں طرف کے بیانات کو فریقین کی زبان میں ترجمہ کر کے انھیں سمجھا رہے تھے۔ پھر بھی ہم میں سے ہر ایک دوسرے سے پوچھتا تھا کہ اس چینی دانشور نے کیا فرمایا۔
کشور ناہید نے چینی ادیبوں میں سے ڈھونڈ کر ایک ایسے ادیب کو ہمارے بیچ لا بٹھایا جو اردو میں کشور ناہید کے بیان کے مطابق رواں گفتگو کر سکتے تھے۔ لیکن وہ مسکراتے رہے۔ کشور کے ہر مطالبہ کا جواب انھوں نے مسکراہٹ سے دیا۔ زبان سے کچھ نہیں بولے۔ وہ بھی اپنی جگہ سچے تھے۔ ہماری طرح تھوڑا ہی کہ باہر جانے والے ادیبوں کے وفد کی تشکیل اس طرح ہوتی ہے کہ
بدھو میاں بھی حضرت گاندھی کے ساتھ ہیں
مگر نمایندہ ادیب اپنے تئیں تصور کر کے وہ بولنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ادھر سے آنے والے خاص طور پر چینی وفد میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں تو پہلے سے بتا دیا جاتا ہے کہ کسے بولنا ہے اور کسے صرف مسکرانا ہے۔
بہر حال یہ نقشہ دیکھ کر ہمیں اپنا سن65ء بہت یاد آیا۔ سیز فائر کے فوراً بعد چین کی طرف سے ادیبوں دانشوروں فنکاروں کے وفد باری باری آتے رہے۔ کس خوش اسلوبی سے وہ یہ ترانہ سناتے تھے
خطہ لاہور تیرے جانثاروں کو سلام
ان سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے ہمیں ایسی زیادہ دقت پیش نہیں ہوتی تھی۔ ان میں لازماً ایسے مندوب بھی ہوتے تھے جو فر فر اردو بولتے تھے۔ ان دنوں چین سے ہماری دوستی نے ایک جذباتی رنگ پکڑ لیا تھا۔ ہمارے اس وقت کے نمایاں دانشور ممتاز احمد خاں چینی رنگ میں رنگے نظر آتے تھے۔ یہ فقرہ شاید اس زمانے ہی میں کہا گیا تھا اور شاید پہلی مرتبہ ممتاز احمد خاں کی زبان ہی سے بڑے جذباتی رنگ میں ادا ہوا تھا کہ پاک چین دوستی سمندروں سے زیادہ گہری اور ہمالہ سے زیادہ بلند اور پختہ ہے۔
اس وقت سے آج کے زمانے تک آتے آتے یہ فرق کیسے پڑا کہ ہمیں یہ بیان یاد آ رہا ہے کہ زبان یارمن ترکی و من ترکی نمی دانم۔ ارے اس دوران تو اکیڈمی آف لٹیرز نے لمبے لمبے ادیبوں کے لمبے لمبے وفد بھی ترتیب دے کر ادھر روانہ کیے تھے۔ ہر چند کہ ان میں سے ایسے دانے بھی شامل ہوتے تھے کہ گو مشت خاک ہیں مگر ادیبوں میں رل مل کر جیسے ادیب ویسے وہ۔ پھر بھی ادیب بھی تو ان وفود میں ہوتے ہی تھے۔ اکیڈمی نے ان ادیبوں کے زور پر کچھ تو تیر مارا ہوتا۔ کچھ یونیورسٹیوں نے ہنر دکھایا ہوتا۔ اتنے عرصے میں چینی ادب و تہذیب کے کچھ اسکالر ہمیں اپنے ارد گرد نظر آتے۔ کچھ ان کے ادب کے مترجمین۔ کچھ اپنے ادب کو ان کی زبان میں ترجمہ کرنے والے۔ مگر اس حساب سے دیکھو تو معاملہ صفر نظر آئے گا۔ شاید یہی نقشہ دیکھ کر چینیوں نے بھی سوچا ہو کہ اقتصادی سیاسی رشتہ ہی پاکستان کے ساتھ وارا کھاتا ہے۔
خیر گزشتہ را صلوٰۃ۔ اب اگر اکیڈمی کو پاک چین ادبی کانفرنس کا خیال سوجھ ہی گیا ہے تو اس تقریب سے کچھ آگے کے پروگرام کے متعلق سوچیں۔ ارے لے ابکے اس ایک ہی ملک سے تو پاکستان کا ادب کی سطح پر برا بھلا تعلق قائم ہوا تھا۔ ورنہ پاکستان تو باہر کے ملکوں سے علمی ادبی ثقافتی تعلقات کا قائل ہی نہیں ہے۔ ہاں فارسی کی تقریب سے کچھ علمی تدریسی تعلق قائم ہوا تھا۔ وہ اورینٹل کالج والے جانیں۔ ادب کی حد تک ہمیں بس اتنا پتہ ہے کہ انقلاب کے بعد ایک دفعہ وہاں کے ادبی فیسٹیول میں شرکت کے لیے ایک چھوٹا سا وفد یہاں سے گیا تھا۔ یہ اس حساب سے ہمیں معلوم ہے کہ اس میں ہم بھی شامل تھے۔ مگر اکیڈمی آف لٹیرز کا اس بیچ قدم نہیں تھا۔
اب کتنے سالوں کے بعد اس بدنصیب ادارے کو ایک سربراہ میسر آیا ہے۔ جانے والے تو اسے پوری طرح اجاڑ کر گئے تھے۔ اب نئے چیئرمین صاحب اسے پھر سے آباد کرنے کے سلسلہ میں پر جوش نظر آتے ہیں۔ اچھا شگن ہے۔ بہر حال تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو۔