بھارت کا سیکولر ازم اور مسلمان
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ کر تقریباً 18 کروڑ ہوگئی ہے
امریکی کانگریس کے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ عام انتخابات کے بعد سے بھارت میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہتک آمیز اور اشتعال انگیز بیانات دیتے رہے ہیں اور مودی کے آنے سے بھارت میں اقلیتوں پر حملے بڑھ گئے ہیں، اقلیتوں کے خلاف حملوں اور راشٹریہ سیوک سنگھ اور وشوا ہندو پریشد جیسی انتہاپسند تنظیموں کی طرف سے مذہب کی جبری تبدیلی کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ گزشتہ سال دسمبر میں ہندو گروہوں نے 4 ہزار مسیحی خاندانوں اور ایک ہزار مسلح گھرانوں کے افراد کو اتر پردیش میں ''گھر واپسی'' کے نام سے چلائی جانے والی مہم میں جبری ہندو بنانے کا اعلان کیا تھا، باوجود ایک سیکولر جمہوریت ہونے کے بھارت اقلیتوں کو تحفظ اور انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے، جس سے اقلیتوں کے خلاف جرائم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ کر تقریباً 18 کروڑ ہوگئی ہے جو مجموعی آبادی کا 14.2 فیصد ہے، جب کہ ہندوؤں کی آبادی 80 فیصد سے کم ہے۔ یوں تو بھارت میں مسلمان اقلیت کی زندگی ہمیشہ سے تنگ رہی ہے جو برصغیر کی تقسیم کا موجب بنا۔ لیکن انتہاپسند بھارتیہ جنتا پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد مسلمان اقلیت کے ساتھ انتہاپسند ہندو جو سلوک کرتے آرہے ہیں آیئے! ان کا طائرانہ جائزہ لیتے ہیں۔ بھارتی ریاست ناگالینڈ کے ضلع دیماپور میں جنونی ہندوؤں کے ہاتھوں بہیمانہ تشدد سے ہلاک ہونے والے مسلمان نوجوان سید فرید خان کو جیل حکام نے ہندو شرپسند گروہ کے حوالے کیا تھا۔ واضح رہے کہ فرید خان پر ایک لڑکی سے زیادتی کا جھوٹا الزام لگایا گیا تھا۔ اس حوالے سے آسام کے ریاستی میڈیا نے انکشاف کیا کہ ابتدائی تفتیشی رپورٹ میں سید فرید خان کے خلاف بوڈو قبائلی لڑکی سے زیادتی کا الزام غلط ثابت ہوا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق نئی دہلی کے علاقے ترکمان گیٹ پر شاہنواز نامی شخص اپنے اہل خانہ کے ساتھ جارہا تھا کہ اس کی موٹر سائیکل ایک کار کو جالگی جس پر گاڑی میں سوار افراد نے پہلے تو اسے تشدد کا نشانہ بنایا اور جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ یہ شخص مسلمان ہے تو اسے اپنی بربریت کا نشانہ بناکر شدید زخمی حالت میں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ شاہنواز کو وہاں موجود افراد نے اسپتال پہنچایا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ بھارت میں مسلمانوں سے ناانصافی اور من پسند انصاف کی فراہمی کا ایک اور مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب دارالحکومت دہلی کی ایک عدالت نے میرٹھ کے علاقے ہاشم پورہ میں 42 مسلمان نوجوانوں کے قتل کیس میں 16 پولیس والوں کو بری کردیا، اہلکاروں پر 1987 میں مذہبی فسادات کے دوران 42 مسلمان نوجوانوں کو اغوا کرکے قتل کرنے کا الزام تھا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق شیوسینا کے ترجمان اخبار ''سمانا'' میں تنظیم نے بھارتی مسلمانوں کے حق رائے دہی پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے حق رائے دہی کو ووٹ بینک کی سیاست کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جب کہ انتخابات کے موقع پر مسلمانوں کی تعلیمی اور صحت کی صورت حال پر سیاست کی جاتی ہے۔ ہندو انتہاپسند تنظیم شیوسینا کے ایک رہنما اور رکن پارلیمنٹ سنجے راؤت نے اخبار ''سمانا'' میں اپنے تحریر کردہ مضمون میں مسلمانوں کی تنظیم آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اور اس کے رہنماؤں اکبر الدین اویسی اور اسدالدین اویسی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انھیں زہریلے سانپ کہا اور ان پر مسلمانوں کو ورغلانے کا الزام عائد کیا ہے۔ اخبار کے مطابق سنجے راؤت نے مزید کہاکہ اگر مسلمان چاہتے ہیں کہ ان سے خاص سلوک کیا جائے تو بہتر ہوگا کہ وہ پاکستان چلے جائیں۔
انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق آل انڈیا ہندو مہاسبھا کی نائب صدر سادھوی دیوا ٹھاکر نے بھی ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہاہے کہ بھارت میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو پوری طاقت سے روکنا ہوگا اور زبردستی ان کی نس بندی کرنا ہوگی کیوں کہ وہ ہندوؤں کے لیے خطرے کا باعث ہیں، ہندوؤں کو اپنی آبادی بڑھانے کے لیے مزید بچے پیدا کرنا ہوںگے، مساجد اور چرچوں میں ہندو دیوی دیوتاؤں کے بتوں کو رکھا جانا چاہیے۔وزیراعظم نریندر مودی کے ''سیکولر'' بھارت کا اصل چہرہ ہر آنے والے دن کے ساتھ مزید بے نقاب ہورہاہے اور یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ بھارت میں نفرت اور تعصب کا عفریت مزید پھلتا پھولتا جا رہا ہے۔ ''انڈین ایکسپریس'' کے مطابق احمد آباد کے اسکول آج کے بھارت کی تشویش ناک صورت پیش کررہے ہیں۔ یہاں احمد آباد میونسپل کارپوریشن کے شاہ پور اسکول میں طلبا کی بھاری اکثریت ہندو ہے اور ان کے یونیفارم کا رنگ زعفرانی ہے۔
اس کے برعکس دانی محمدا سکول میں اکثریت طلبا مسلمان ہیں اور انھیں سبز رنگ کے یونیفارم پہنائے گئے ہیں۔ ہندو اور مسلمان بچوں میں تفریق کا یہ رویہ بھارت میں پائے جانے والے عمومی تعصب کا عکاس ہے اور اسے ماہرین تعلیم و سماجیات کی طرف سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بھارت میں مودی سرکار نے مسلمانوں کے جذبات پر ایک بار پھر اس وقت چھری چلادی جب مہاراشٹر میں مسلمانوں کا 5 فیصد کوٹا ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے ریاست مہاراشٹر میں گائے کے گوشت پر پابندی لگاکر مسلمانوں کے مذہبی جذبات پر چھری چلائی اور اب مسلمانوں کے تعلیم اور روزگار کے کوٹے پر چھری چلادی ہے۔ ماضی کی طرح ایک بار پھر بھارتی ہندو پسند تنظیم شیوسینا کی شاخ چترپٹ سینا نے اعلان کیا ہے کہ وہ کسی پاکستانی فنکار کو ہندوستان میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے نہیں دے گی۔
بھارتی سیاست دانوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک اور ہرزہ سرائی میں مساجد کو محض عمارتیں قرار دے کر کسی بھی وقت مسمار کیے جانے کی دھمکی دے رکھی ہے، اس طرح سیکولر بھارت کا چہرہ ایک بار پھر بے نقاب ہوگیا ہے، حکمران جماعت کے رہنما سبرامنیم سوامی کی جانب سے ایک اور اشتعال انگیز بیان سامنے آیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ مساجد عبادت گاہیں نہیں عمارتیں ہیں جسے کسی بھی وقت مسمار کیا جاسکتا ہے۔ بھارت میں رہنے والا ہر مسلمان صرف ہندوستانی ہے جسے کوئی نمایاں مقام نہیں دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائی اقلیت بھی انتہاپسند ہندوؤں کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہیں، بھارت میں مساجد اور چرچ غیر محفوظ ہیں جن پر حملے معمول ہیں۔ کیا یہی ہے بھارت کا سیکولر ازم؟
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ کر تقریباً 18 کروڑ ہوگئی ہے جو مجموعی آبادی کا 14.2 فیصد ہے، جب کہ ہندوؤں کی آبادی 80 فیصد سے کم ہے۔ یوں تو بھارت میں مسلمان اقلیت کی زندگی ہمیشہ سے تنگ رہی ہے جو برصغیر کی تقسیم کا موجب بنا۔ لیکن انتہاپسند بھارتیہ جنتا پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد مسلمان اقلیت کے ساتھ انتہاپسند ہندو جو سلوک کرتے آرہے ہیں آیئے! ان کا طائرانہ جائزہ لیتے ہیں۔ بھارتی ریاست ناگالینڈ کے ضلع دیماپور میں جنونی ہندوؤں کے ہاتھوں بہیمانہ تشدد سے ہلاک ہونے والے مسلمان نوجوان سید فرید خان کو جیل حکام نے ہندو شرپسند گروہ کے حوالے کیا تھا۔ واضح رہے کہ فرید خان پر ایک لڑکی سے زیادتی کا جھوٹا الزام لگایا گیا تھا۔ اس حوالے سے آسام کے ریاستی میڈیا نے انکشاف کیا کہ ابتدائی تفتیشی رپورٹ میں سید فرید خان کے خلاف بوڈو قبائلی لڑکی سے زیادتی کا الزام غلط ثابت ہوا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق نئی دہلی کے علاقے ترکمان گیٹ پر شاہنواز نامی شخص اپنے اہل خانہ کے ساتھ جارہا تھا کہ اس کی موٹر سائیکل ایک کار کو جالگی جس پر گاڑی میں سوار افراد نے پہلے تو اسے تشدد کا نشانہ بنایا اور جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ یہ شخص مسلمان ہے تو اسے اپنی بربریت کا نشانہ بناکر شدید زخمی حالت میں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ شاہنواز کو وہاں موجود افراد نے اسپتال پہنچایا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ بھارت میں مسلمانوں سے ناانصافی اور من پسند انصاف کی فراہمی کا ایک اور مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب دارالحکومت دہلی کی ایک عدالت نے میرٹھ کے علاقے ہاشم پورہ میں 42 مسلمان نوجوانوں کے قتل کیس میں 16 پولیس والوں کو بری کردیا، اہلکاروں پر 1987 میں مذہبی فسادات کے دوران 42 مسلمان نوجوانوں کو اغوا کرکے قتل کرنے کا الزام تھا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق شیوسینا کے ترجمان اخبار ''سمانا'' میں تنظیم نے بھارتی مسلمانوں کے حق رائے دہی پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے حق رائے دہی کو ووٹ بینک کی سیاست کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جب کہ انتخابات کے موقع پر مسلمانوں کی تعلیمی اور صحت کی صورت حال پر سیاست کی جاتی ہے۔ ہندو انتہاپسند تنظیم شیوسینا کے ایک رہنما اور رکن پارلیمنٹ سنجے راؤت نے اخبار ''سمانا'' میں اپنے تحریر کردہ مضمون میں مسلمانوں کی تنظیم آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اور اس کے رہنماؤں اکبر الدین اویسی اور اسدالدین اویسی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انھیں زہریلے سانپ کہا اور ان پر مسلمانوں کو ورغلانے کا الزام عائد کیا ہے۔ اخبار کے مطابق سنجے راؤت نے مزید کہاکہ اگر مسلمان چاہتے ہیں کہ ان سے خاص سلوک کیا جائے تو بہتر ہوگا کہ وہ پاکستان چلے جائیں۔
انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق آل انڈیا ہندو مہاسبھا کی نائب صدر سادھوی دیوا ٹھاکر نے بھی ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہاہے کہ بھارت میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو پوری طاقت سے روکنا ہوگا اور زبردستی ان کی نس بندی کرنا ہوگی کیوں کہ وہ ہندوؤں کے لیے خطرے کا باعث ہیں، ہندوؤں کو اپنی آبادی بڑھانے کے لیے مزید بچے پیدا کرنا ہوںگے، مساجد اور چرچوں میں ہندو دیوی دیوتاؤں کے بتوں کو رکھا جانا چاہیے۔وزیراعظم نریندر مودی کے ''سیکولر'' بھارت کا اصل چہرہ ہر آنے والے دن کے ساتھ مزید بے نقاب ہورہاہے اور یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ بھارت میں نفرت اور تعصب کا عفریت مزید پھلتا پھولتا جا رہا ہے۔ ''انڈین ایکسپریس'' کے مطابق احمد آباد کے اسکول آج کے بھارت کی تشویش ناک صورت پیش کررہے ہیں۔ یہاں احمد آباد میونسپل کارپوریشن کے شاہ پور اسکول میں طلبا کی بھاری اکثریت ہندو ہے اور ان کے یونیفارم کا رنگ زعفرانی ہے۔
اس کے برعکس دانی محمدا سکول میں اکثریت طلبا مسلمان ہیں اور انھیں سبز رنگ کے یونیفارم پہنائے گئے ہیں۔ ہندو اور مسلمان بچوں میں تفریق کا یہ رویہ بھارت میں پائے جانے والے عمومی تعصب کا عکاس ہے اور اسے ماہرین تعلیم و سماجیات کی طرف سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بھارت میں مودی سرکار نے مسلمانوں کے جذبات پر ایک بار پھر اس وقت چھری چلادی جب مہاراشٹر میں مسلمانوں کا 5 فیصد کوٹا ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے ریاست مہاراشٹر میں گائے کے گوشت پر پابندی لگاکر مسلمانوں کے مذہبی جذبات پر چھری چلائی اور اب مسلمانوں کے تعلیم اور روزگار کے کوٹے پر چھری چلادی ہے۔ ماضی کی طرح ایک بار پھر بھارتی ہندو پسند تنظیم شیوسینا کی شاخ چترپٹ سینا نے اعلان کیا ہے کہ وہ کسی پاکستانی فنکار کو ہندوستان میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے نہیں دے گی۔
بھارتی سیاست دانوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک اور ہرزہ سرائی میں مساجد کو محض عمارتیں قرار دے کر کسی بھی وقت مسمار کیے جانے کی دھمکی دے رکھی ہے، اس طرح سیکولر بھارت کا چہرہ ایک بار پھر بے نقاب ہوگیا ہے، حکمران جماعت کے رہنما سبرامنیم سوامی کی جانب سے ایک اور اشتعال انگیز بیان سامنے آیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ مساجد عبادت گاہیں نہیں عمارتیں ہیں جسے کسی بھی وقت مسمار کیا جاسکتا ہے۔ بھارت میں رہنے والا ہر مسلمان صرف ہندوستانی ہے جسے کوئی نمایاں مقام نہیں دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائی اقلیت بھی انتہاپسند ہندوؤں کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہیں، بھارت میں مساجد اور چرچ غیر محفوظ ہیں جن پر حملے معمول ہیں۔ کیا یہی ہے بھارت کا سیکولر ازم؟