پاکستانی خواتین میں شدت پسندی…
بلوچستان سے تعلق رکھنے والی اور انٹرمیڈیٹ درجے تک تعلیم حاصل کرنے والی خواتین میں اس ضمن میں شدت پسندی کی واضح لہر دیکھی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ 40.7 فیصد خواتین، جن کا تعلق بلوچستان سے ہے، وہ کہتی ہیں کہ عسکری جہاد جارحانہ طرز کا ہونا چاہیے۔ انٹرمیڈیٹ کے درجے تک تعلیم حاصل کرنے والی نصف سے زائد خواتین 55.6 فیصد کا بھی یہی خیال ہے کہ عسکری جہاد جارحانہ نوعیت کا ہونا چاہیے، جب کہ مدارس سے تعلق حاصل کرنے والی خواتین میں یہ تناسب کم تھا۔ ڈاکٹر روبینہ سہگل کے مطابق؛ ''فگر 9'' ''سرکاری اسکولوں میں پڑھایا جانے والا نصاب فوجی حکمران جنرل ایوب خان کے دور میں ترتیب دی جانے والی تعلیمی پالیسی کے تحت مرتب کیا گیا اور اسے جنرل ضیاء الحق نے فروغ دیا۔ یہ عسکریت پسند نظریات کو فروغ دیتا ہے اور اس ضمن میں معاشرتی علوم کا نصاب خاص طور سے جہاد اور عسکریت پسندی پر مبنی ہے۔''
ایک سوال کے جواب میں کہ کیا بھارت کے زیرتسلط جموں و کشمیر میں لڑنے والے عسکریت پسند جہاد کر رہے ہیں؟ 62.2 فیصد نے تائید کی کہ وہ جہاد کررہے ہیں، جب کہ 16.8 فیصد کا خیال اس سے متضاد تھا۔ صوبوں سے حاصل ہونے والی رائے کے موازنے سے یہ اَمر واضح ہوا کہ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والی خواتین کی بڑی تعداد 89.5 فیصد نے اسے ایک جہاد قرار دیا۔ کشمیری خواتین کی جانب سے اس نوعیت کی رائے کا اظہار حیران کن نہیں ہے، کیونکہ یہ تصور کہ بھارت کے زیرِتسلط کشمیر میں عسکریت پسندوں کی لڑائی جہاد ہے، دیگر صوبوں اور خطوں میں بھی اسی طرح مقبول ہے۔ لیکن حیران کن طور پر گلگت و بلتستان میں اس رائے کی تائید نہیں کی گئی، جیسا کہ سروے میں شریک گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی صرف 5.6 فیصد خواتین ہی کشمیر میں ہونے والی عسکرت پسندی کو جہاد سے تعبیر کرتی ہیں۔
اس کی ایک وجہ عامر رانا اور مجتبیٰ راٹھور نے اپنی کتاب میں واضح کی ہے۔ گلگت اور بلتستان کے لوگ اپنے علاقے کے مستقبل سے مطمئن نہیں ہیں، کیونکہ اس علاقے کو کشمیر سے جوڑا جاتا ہے اور ایک صوبے کا درجہ دیا جاتا ہے، جب کہ گلگت اور بلتستان کے لوگ بالکل اسی طرح کے حقوق کے متقاضی ہیں، جو کہ پاکستان کے دوسرے صوبوں کے لوگوں کو حاصل ہیں۔ گلگت اور بلتستان کے باسیوں کا کہنا ہے کہ ان کی ایک اپنی تاریخی شناخت ہے، جو کہ جموں و کشمیر سے یکسر مختلف ہے۔ اور ان کے علاقے کو طاقت کے زور پر برمیش دور میں کشمیر کا حصہ بنایا گیا تھا۔
الغرض خواتین کی زیادہ تر تعداد کشمیر میں ہونے والی عسکریت پسندی کو جہاد سے تعبیر کرتی ہیں، اس کے ساتھ ہی 59.6 فیصد خواتین سمجھتی ہیں کہ افغانستان میں ہونے والی لڑائی کے سیاسی مقاصد ہیں۔ افغان جنگ کو سیاسی جنگ تصور کیے جانے کی کئی ایک وجوہات ہوسکتی ہیں۔ اول؛ طالبان یہ جنگ مذہب کے نام پر لڑ رہے ہیں مگر ان کے مقاصد سیاسی ہیں۔ دوسرا پاکستان کے تاریخی تعلقات افغانستان سے اس نوعیت کے نہیں ہیں، جیسا کہ کشمیر کے بارے میں حساسیت پائی جاتی ہے۔ تیسرا کشمیر میں ہونے والی عسکریت پسندی آزادی کے لیے ہے اور پاکستان، تقسیم کے بعد سے اب تک انڈیا سے تین جنگیں لڑچکا ہے۔
ایسی صورت حال افغانستان کے ساتھ درپیش نہیں ہے۔ سوات میں طالبان نے اپنی کارروائیاں مذہب کے نام پر شروع کیں اور جلد ہی لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرلیں۔ ایک مرحلے پر خواتین نے اپنے زیورات تک طالبان کے رہنما فضل اللہ کو دے دیے تاکہ وہ شریعت کا نفاذ عمل میں لاسکے مگر آہستہ آہستہ طالبان مقامی لوگوں کی ہمدردیاں کھونے لگے اور خوفناک تشدد، قتل اور کوڑے مارے جانے کے واقعات نے لوگوں کو خوف میں مبتلا کردیا۔ خواتین سے طالبان کے کردار سے متعلق بہت سارے سوالات پوچھے گئے تاکہ ان پر طالبانائزیشن کے اثرات کا اندازہ لگایا جاسکے اور شدت پسندی کے تناسب کو دیکھا جائے۔
خواتین کی نصف سے ذرا کم 43.9 فیصد تعداد یہ خیال کرتی ہے کہ طالبان اسلام کے لیے نہیں لڑ رہے، جب کہ 28.3 فیصد کا خیال ہے کہ وہ اسلام کی جنگ لڑ رہے ہیں اور بقیہ 27.8 فیصد خواتین کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے میں باخبر نہیں ہیں۔ مختلف صوبوں سے حاصل ہونے والی رائے کا موازنہ کرنے سے واضح ہوا کہ 50 فیصد خواتین، جن کا تعلق بلوچستان سے تھا، وہ یہ خیال کرتی ہیں کہ طالبان اسلام کے لیے لڑ رہے ہیں۔ بلوچستان کی خواتین کی رائے کا یہ تناسب دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہے۔ ان نتائج پر رائے کا اظہار کرتے ہوئے صفدر سیال کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی خواتین کی اس رائے کی تشکیل کے پسِ پردہ کئی ایک وجوہات کارفرما ہوسکتی ہے، جن میں تعلیم کی کمی، معاشرتی روایات اور مردوں کی حاکمیت پسندی کے ذہنوں پر اثرات شامل ہیں۔
صفدر سیال کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلوچستان کی خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ طالبان اسلام کے لیے لڑ رہے ہیں، چونکہ یہ خواتین براہ راست طالبانائزیشن سے متاثر نہیں ہوئی ہیں، جیسا کہ خیبرپختونخوا کی خواتین ہوئی ہیں، چنانچہ ان کی رائے کی تشکیل کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے۔ سوات کی خواتین میں اب طالبان سے ہمدردی ختم ہوچکی ہے۔ وہ خواتین جنھوں نے کبھی اپنے زیورات فضل اللہ کو دیے تھے، اپنے اس عمل پر نادم ہیں اور طالبان کے بارے میں مثبت رائے نہیں رکھتی ہیں۔ تاہم بلوچستان کی بیش تر خواتین سمجھتی ہیں کہ طالبان اسلام کے لیے لڑ رہے ہیں، مگر ان میں سے 46.3 فیصد خواتین یہ بھی خیال کرتی ہیں کہ طالبان کے دیگر اقدامات جیسا کہ اسکولوں، حجاموں، سی ڈی کی دکانوں اور سینما گھروں پر حملے صحیح نہیں ہیں۔
پاکستان میں پالیسی سازی اور فیصلہ سازی کے عمل میں قومی و عالمی سطح پر خواتین کا کوئی واضح کردار سامنے نہیں آیا ہے، لیکن خواتین کی سماجی عمل میں بڑھتی ہوئی شمولیت نے خواتین کی سیاسی عمل میں شرکت کی اہمیت کو بھی بڑھا دیا ہے۔ سروے میں خواتین سے مختلف سوالات کے ذریعے سیاسی نظام اور وہ عناصر جو کہ ان کی ووٹ دینے کی مرضی پر اثرات مرتب کرتے ہیں، ان کو جانچا گیا تاکہ سیاسی سطح پر ایسے عناصر کا تعین کیا جائے جو اس مرحلے پر شدت پسندی کو فروغ دیتے ہیں۔ ووٹ دینے کی مرضی سے متعلق 34.5 فیصد رائے دہندگان کا کہنا تھا کہ وہ ووٹ دیتے وقت امیدوار کی تعلیمی قابلیت اور صلاحیتوں کو دیکھتی ہیں۔
25.5 فیصد خواتین امیدوار کو مذہب کی بنیاد پر ووٹ دیتی ہیں، 17.4 فیصد سیاسی جماعتوں سے تعلق کو اہمیت دیتی ہیں کہ وہ کس سیاسی جماعت سے منسلک ہے، 12.7 فیصد برادری کی بنا پر ووٹ دیتی ہیں۔ ان نتائج سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ تعلیم اور فرد کی قابلیت وہ بنیادی عناصر ہیں جو حکومت چلانے کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ مذہب تاحال ووٹ کے انتخاب میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ یہ اندازہ اس لیے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ خواتین طویل عرصہ تک سیاسی عمل سے دور رہی ہیں، خاص کر 1985 میں جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں۔ خواتین نظام میں تبدیلی کی خواہاں ہیں اور پراثر کردار ادا کرنا چاہتی ہیں، جنھیں مذہب، ثقافت، خاندانی روایات، اور ان کے مخصوص سماجی کردار کے باعث سیاست سے دور کیا گیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں کہ کیا بھارت کے زیرتسلط جموں و کشمیر میں لڑنے والے عسکریت پسند جہاد کر رہے ہیں؟ 62.2 فیصد نے تائید کی کہ وہ جہاد کررہے ہیں، جب کہ 16.8 فیصد کا خیال اس سے متضاد تھا۔ صوبوں سے حاصل ہونے والی رائے کے موازنے سے یہ اَمر واضح ہوا کہ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والی خواتین کی بڑی تعداد 89.5 فیصد نے اسے ایک جہاد قرار دیا۔ کشمیری خواتین کی جانب سے اس نوعیت کی رائے کا اظہار حیران کن نہیں ہے، کیونکہ یہ تصور کہ بھارت کے زیرِتسلط کشمیر میں عسکریت پسندوں کی لڑائی جہاد ہے، دیگر صوبوں اور خطوں میں بھی اسی طرح مقبول ہے۔ لیکن حیران کن طور پر گلگت و بلتستان میں اس رائے کی تائید نہیں کی گئی، جیسا کہ سروے میں شریک گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی صرف 5.6 فیصد خواتین ہی کشمیر میں ہونے والی عسکرت پسندی کو جہاد سے تعبیر کرتی ہیں۔
اس کی ایک وجہ عامر رانا اور مجتبیٰ راٹھور نے اپنی کتاب میں واضح کی ہے۔ گلگت اور بلتستان کے لوگ اپنے علاقے کے مستقبل سے مطمئن نہیں ہیں، کیونکہ اس علاقے کو کشمیر سے جوڑا جاتا ہے اور ایک صوبے کا درجہ دیا جاتا ہے، جب کہ گلگت اور بلتستان کے لوگ بالکل اسی طرح کے حقوق کے متقاضی ہیں، جو کہ پاکستان کے دوسرے صوبوں کے لوگوں کو حاصل ہیں۔ گلگت اور بلتستان کے باسیوں کا کہنا ہے کہ ان کی ایک اپنی تاریخی شناخت ہے، جو کہ جموں و کشمیر سے یکسر مختلف ہے۔ اور ان کے علاقے کو طاقت کے زور پر برمیش دور میں کشمیر کا حصہ بنایا گیا تھا۔
الغرض خواتین کی زیادہ تر تعداد کشمیر میں ہونے والی عسکریت پسندی کو جہاد سے تعبیر کرتی ہیں، اس کے ساتھ ہی 59.6 فیصد خواتین سمجھتی ہیں کہ افغانستان میں ہونے والی لڑائی کے سیاسی مقاصد ہیں۔ افغان جنگ کو سیاسی جنگ تصور کیے جانے کی کئی ایک وجوہات ہوسکتی ہیں۔ اول؛ طالبان یہ جنگ مذہب کے نام پر لڑ رہے ہیں مگر ان کے مقاصد سیاسی ہیں۔ دوسرا پاکستان کے تاریخی تعلقات افغانستان سے اس نوعیت کے نہیں ہیں، جیسا کہ کشمیر کے بارے میں حساسیت پائی جاتی ہے۔ تیسرا کشمیر میں ہونے والی عسکریت پسندی آزادی کے لیے ہے اور پاکستان، تقسیم کے بعد سے اب تک انڈیا سے تین جنگیں لڑچکا ہے۔
ایسی صورت حال افغانستان کے ساتھ درپیش نہیں ہے۔ سوات میں طالبان نے اپنی کارروائیاں مذہب کے نام پر شروع کیں اور جلد ہی لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرلیں۔ ایک مرحلے پر خواتین نے اپنے زیورات تک طالبان کے رہنما فضل اللہ کو دے دیے تاکہ وہ شریعت کا نفاذ عمل میں لاسکے مگر آہستہ آہستہ طالبان مقامی لوگوں کی ہمدردیاں کھونے لگے اور خوفناک تشدد، قتل اور کوڑے مارے جانے کے واقعات نے لوگوں کو خوف میں مبتلا کردیا۔ خواتین سے طالبان کے کردار سے متعلق بہت سارے سوالات پوچھے گئے تاکہ ان پر طالبانائزیشن کے اثرات کا اندازہ لگایا جاسکے اور شدت پسندی کے تناسب کو دیکھا جائے۔
خواتین کی نصف سے ذرا کم 43.9 فیصد تعداد یہ خیال کرتی ہے کہ طالبان اسلام کے لیے نہیں لڑ رہے، جب کہ 28.3 فیصد کا خیال ہے کہ وہ اسلام کی جنگ لڑ رہے ہیں اور بقیہ 27.8 فیصد خواتین کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے میں باخبر نہیں ہیں۔ مختلف صوبوں سے حاصل ہونے والی رائے کا موازنہ کرنے سے واضح ہوا کہ 50 فیصد خواتین، جن کا تعلق بلوچستان سے تھا، وہ یہ خیال کرتی ہیں کہ طالبان اسلام کے لیے لڑ رہے ہیں۔ بلوچستان کی خواتین کی رائے کا یہ تناسب دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہے۔ ان نتائج پر رائے کا اظہار کرتے ہوئے صفدر سیال کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی خواتین کی اس رائے کی تشکیل کے پسِ پردہ کئی ایک وجوہات کارفرما ہوسکتی ہے، جن میں تعلیم کی کمی، معاشرتی روایات اور مردوں کی حاکمیت پسندی کے ذہنوں پر اثرات شامل ہیں۔
صفدر سیال کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلوچستان کی خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ طالبان اسلام کے لیے لڑ رہے ہیں، چونکہ یہ خواتین براہ راست طالبانائزیشن سے متاثر نہیں ہوئی ہیں، جیسا کہ خیبرپختونخوا کی خواتین ہوئی ہیں، چنانچہ ان کی رائے کی تشکیل کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے۔ سوات کی خواتین میں اب طالبان سے ہمدردی ختم ہوچکی ہے۔ وہ خواتین جنھوں نے کبھی اپنے زیورات فضل اللہ کو دیے تھے، اپنے اس عمل پر نادم ہیں اور طالبان کے بارے میں مثبت رائے نہیں رکھتی ہیں۔ تاہم بلوچستان کی بیش تر خواتین سمجھتی ہیں کہ طالبان اسلام کے لیے لڑ رہے ہیں، مگر ان میں سے 46.3 فیصد خواتین یہ بھی خیال کرتی ہیں کہ طالبان کے دیگر اقدامات جیسا کہ اسکولوں، حجاموں، سی ڈی کی دکانوں اور سینما گھروں پر حملے صحیح نہیں ہیں۔
پاکستان میں پالیسی سازی اور فیصلہ سازی کے عمل میں قومی و عالمی سطح پر خواتین کا کوئی واضح کردار سامنے نہیں آیا ہے، لیکن خواتین کی سماجی عمل میں بڑھتی ہوئی شمولیت نے خواتین کی سیاسی عمل میں شرکت کی اہمیت کو بھی بڑھا دیا ہے۔ سروے میں خواتین سے مختلف سوالات کے ذریعے سیاسی نظام اور وہ عناصر جو کہ ان کی ووٹ دینے کی مرضی پر اثرات مرتب کرتے ہیں، ان کو جانچا گیا تاکہ سیاسی سطح پر ایسے عناصر کا تعین کیا جائے جو اس مرحلے پر شدت پسندی کو فروغ دیتے ہیں۔ ووٹ دینے کی مرضی سے متعلق 34.5 فیصد رائے دہندگان کا کہنا تھا کہ وہ ووٹ دیتے وقت امیدوار کی تعلیمی قابلیت اور صلاحیتوں کو دیکھتی ہیں۔
25.5 فیصد خواتین امیدوار کو مذہب کی بنیاد پر ووٹ دیتی ہیں، 17.4 فیصد سیاسی جماعتوں سے تعلق کو اہمیت دیتی ہیں کہ وہ کس سیاسی جماعت سے منسلک ہے، 12.7 فیصد برادری کی بنا پر ووٹ دیتی ہیں۔ ان نتائج سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ تعلیم اور فرد کی قابلیت وہ بنیادی عناصر ہیں جو حکومت چلانے کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ مذہب تاحال ووٹ کے انتخاب میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ یہ اندازہ اس لیے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ خواتین طویل عرصہ تک سیاسی عمل سے دور رہی ہیں، خاص کر 1985 میں جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں۔ خواتین نظام میں تبدیلی کی خواہاں ہیں اور پراثر کردار ادا کرنا چاہتی ہیں، جنھیں مذہب، ثقافت، خاندانی روایات، اور ان کے مخصوص سماجی کردار کے باعث سیاست سے دور کیا گیا ہے۔