مرکزی داخلہ پالیسی سے میرٹ کے قتل عام تک کا سفر

چودہ سال بعد ایک بار پھر سرکاری کالج میں داخلہ لینا ایک مشکل، کٹھن اور صبرآزما مرحلہ بنادیا گیا ہے۔

کیا سائیں قائم علی شاہ ایک بار پھر کالجوں میں داخلوں کے لئے چور دروازے کھولنا اور میرٹ کا قتل عام کرنا چاہتے ہیں۔

اگر آپ نے 80 یا 90 کی دہائی میں انٹرمیڈیٹ کیا ہے تو آپکو اچھی طرح یاد ہوگا کہ میڑک کے بعد کسی سرکاری کالج میں داخلہ لینا کس قدر مشکل، کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہوا کرتا تھا جس سے نا صرف طلبہ و طالبات بلکہ ان کے والدین بھی گزرتے تھے۔ میٹرک کا نتیجہ آتے ہی ایک عجیب و غریب ہلچل اور طوفان بدتمیزی شروع ہوجاتی جو نئے تعلیمی سال کے باقائدہ آغاز تک جاری رہتی۔

اثر و رسوخ کا استعمال، رشوت کا کاروبار اور طلبہ تنظیموں کی مداخلت عام تھی۔ بغیر سفارش اور رشوت کے کسی کالج میں داخلہ حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ امتیازی نمبروں سے کامیاب ہونے والے طلبہ و طالبات بھی نامی گرامی کالج میں پڑھنے کے خواب کو انہی ناجائز راستوں سے گزرنے کے بعد شرمندہ تعبیر کر پاتے تھے ورنہ کالجوں کی خاک چھانتے اور دھکے کھاتے پھرتے، یہاں تک کے نئے تعلیمی سال کے باقائدہ آغاز ہونے تک ایک بے یقینی کی کیفیت کا شکار رہتے۔

ان تمام مشکلات کو دیکھتے ہوئے سال 2001 میں اس وقت کے صوبائی سیکرٹری تعلیم سندھ نذر حسین مہر اور نو منتخب شہری حکومت کے ناظم نعمت اللہ خان نے سپلا کے مرحوم رہنما ریاض احسن کی معاونت سے کراچی کی شہری حکومت کے زیر انتظام چلنے والے 88 سرکاری کالجوں میں داخلوں کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کے لئے ''مرکزی داخلہ پالیسی'' کا انقلابی نظام متعارف کرایا۔ اس کمپیوٹرائزڈ مرکزی نظام میں جہاں طلبہ و طالبات کی آسانی اور سہولت کا خیال رکھا گیا وہیں میرٹ اور شفافیت کو یقینی بنانے پر بھی خصوصی توجہ دی گئی۔ تمام کالجوں کی صوابدیدی اختیارات، کوٹے، سیلف فنانس اور اضافی نشستوں کو ختم کردیا گیا۔ جبکہ شکایت کی وصولی، ان کے ازالے اور پالیسی کی مکمل عملداری اور پابندی کے لئے بھی مختلف کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئیں۔

اس نظام کے تحت ایک مرکزی داخلہ فارم اور خصوصی ہدایت نامہ ترتیب دیا گیا جو شہر بھر میں مختلف بینکوں کی شاخوں میں انتہائی ارزاں قیمت پر دستیاب تھا۔ فارم کو سادہ اور آسان رکھا گیا اور واپس جمع کراتے وقت بے شمار اضافی دستاویزات طلب کرنے کے عمومی رحجان کے برخلاف صرف ایڈمٹ کارڈ کی ایک کاپی مانگی گئی۔ طلبہ و طالبات کو یہ سہولت دی گئی کہ وہ کالج کے پتے اور سابقہ میرٹ لسٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی پسند کے چار کالجوں کی ترجیح تحریر کردیں۔ اس ترجیح کے لئے ہدایت نامے میں شہر کے تمام کالجوں کے نام، پتے اور پچھلے سال کی میرٹ لسٹ بھی تفصیل سے شائع کردی گئی۔ فارم کی وصولی کے بعد جانچ پڑتال اور داخلوں کے اجراء میں شفافیت کے لئے ایک خصوصی سافٹ وئیر استعمال کیا گیا اور صرف 15 یوم کے اندر اندر میرٹ لسٹ بذریعہ اخبار اور انٹرنیٹ جاری کردی جاتی تھیں جبکہ بعد از اجراء کسی بھی قسم کی شکایت کے ازالے کے لئے متعدد کلیم سینٹرز بھی قائم کئے گئے۔ اس تجربے کے نتیجے میں اکتوبر 2001 میں پہلی بار انتہائی سہل انداز میں 80 ہزار سے زائد طلبہ و طالبات نے اپنا نیا تعلیمی سال شروع کیا جسے تعلیمی ماہرین، طالبہ و طالبات اور والدین نے یکساں طور پر سراہا۔


کوئی بھی انسانی نظام مکمل طور پر حتمی اور دائمی نہیں ہوتا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مزید بہتری پیدا کرنے کی گنجائش برقرار رہتی ہے۔ مرکزی داخلہ پالیسی میں بھی مزید بہتری پیدا کرنے اور نقائص کےدور کرنے کی ضرورت کو ہمیشہ محسوس کیا گیا۔ لیکن ان معمولی نقائص اور بہتری کی مزید گنجائش کے باوجود یہ نظام پچھلے 14 سال سے تمام اسٹیک ہولڈرز کے مکمل اعتماد کی بدولت کامیابی کے ساتھ جاری و ساری تھا۔ لیکن بد قسمتی سے سندھ کی موجودہ حکومت نے اپنی تعلیم کشی پر مبنی پالیسیوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے رواں سال سے اس نظام کو پچھلے سال کے ایک تلخ تجربے کا بہانہ بنا کر مکمل طور پر ختم کردیا ہے اور 15 سال پرانا فرسودہ نظام دوباربحال کردیا ہے۔

دراصل پچھلے سال سیکنڈری تعلیم نے اس نظام کو مکمل طور پر آن لائن کرنے کے کا تجربہ کیا تھا جو تمام طلبہ و طالبات کی انٹرنیٹ تک رسائی نہ ہونے اور فارم کے ایک دفعہ اپلوڈ ہوجانے کے بعد کسی ترمیم کی سہولت موجود نہ ہونے کے پیش نظر بہت سی پریشانیوں کا سبب بنا تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت سندھ اس تجربے سے سیکھتی اور اسے بہتر بنانے کی کوشش کرتی لیکن اسکے برخلاف انہوں نے اپنی ہی کی ہوئی غلطی کو جواز بناکر ایک کامیاب اور تسلیم شدہ نظام کی بساط لپیٹ دی۔ سمجھ نہیں آتا کہ اس فیصلے کے پیچھے حکومت سندھ کے آخر کیا مقاصد ہیں۔ کیا سائیں قائم علی شاہ ایک بار پھر کالجوں میں داخلوں کے لئے چور دروازے کھولنا اور میرٹ کا قتل عام کرنا چاہتے ہیں یا پھر ان کے وزراء نجی کالجوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے سرگرم ہیں۔ وجہ کچھ بھی ہو لیکن یہ ضرور یقین سے کہا جاسکتا ہے 14 سال بعد ایک بار پھر سرکاری کالج میں داخلہ لینا ایک مشکل، کٹھن اور صبرآزما مرحلہ بنادیا گیا ہے۔ جس سے ناصرف سفارش اور رشوت کا بازار گرم ہوگا بلکہ نجی کالجوں کی بھی مفت میں چاندی ہوجائے گی۔

[poll id="579"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
Load Next Story