حضرت مریم ؑکا مزار

اس روشن زمانہ میں بھی بے شمار عیسائی قدیمی اوہام پر قائم ہیں

مظہر منہاس

17 جولائی 1911ء: علی الصباح شیخ التکیہ کے ہمراہ سب جماعت سیدہ مریم کے مزار پر حاضر ہوئی۔

یہ حرم کے قریب پہاڑ کے دامن میں واقع ہے۔ عمارت نہایت بوسیدہ اور پرانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت مریم کے زمانہ کی ہے۔ عجب نہیں کہ درست ہو۔ کواڑوں پر آثار قدامت کے بالکل نمایاں ہیں۔ جب اس دروازہ میں داخل ہوں تو گمان ہوتا ہے کہ کسی ویران کھنڈر میں گھستے ہیں۔ گو یہ مقام تمام یورپ اور تمام اسلامی و عیسائی دنیا کا ادب گاہ ہے لیکن پادریوں نے دانستہ اس کو ایسا خراب کر رکھا ہے ورنہ ساری عمارت سونے اور جواہرات کی بن سکتی تھی۔ یروشلم یعنی بیت المقدس عیسائیوں کی جہالت' توہم پرستی اور شیطنت کا ایک مجسم نمونہ ہے۔

ہم اپنے ملک میں جب انگریزوں اور دیگر ممالک کے شائستہ عیسائیوں کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اگلے زمانہ میں یہ لوگ بھی ہماری طرح وحشی' جاہل اور غیر مہذب تھے لیکن یروشلم میں آ کر نظر آتا ہے کہ اس روشن زمانہ میں بھی بے شمار عیسائی قدیمی اوہام پر قائم ہیں اور ان کی حالت ہم لوگوں سے ہزار درجہ گئی گزری ہے۔ سوائے دو ایک مخصوص گرجاؤں کے یروشلم میں جس گرجا کو دیکھنے گیا وہاں بت پرست ہندئوں کے مندروں سے زیادہ خرافات نظر آئے۔ سیکڑوں عورت مرد مسیح و مریم کی تصاویر کے آگے سجدے کرتے ہیں۔ مندروں کی مثل ہر وقت یعنی رات دن ان بتوں کے سامنے چراغ روشن رہتے ہیں۔

راہبوں کی صورتیں ہندو جوگیوں کی سی ہیں۔ لمبے لمبے بال رکھتے ہیں اور گدی پر ان کا چوٹا باندھتے ہیں۔ دن کے وقت ان سب گرجائوں میں اس قدر اندھیرا ہوتا ہے کہ باوجود متعدد چراغوں اور شمعوں کی روشنی کے راستہ دکھائی نہیں دیتا اور لوگ ٹھوکریں کھا کر گرتے ہیں۔ زیتون کا تیل عموماً یہاں جلایا جاتا ہے جس کی ٹمٹماتی ہوئی روشنی کا عدم وجود برابر ہے۔ پوچھو کہ یورپ ہر جگہ بجلی کی روشنی جاری کرنے اور تمدن پھیلانے کے بہانے سے خونریزیاں کرتا اور ملک فتح کر رہا ہے۔ اپنے قبلہ کی تاریکی کا علاج کیوں نہیں کرتا تو جواب دیں گے: بولو مت' یہ مذہبی معاملہ ہے۔

القصہ جب ہم غار کے اندر گئے تو پوجا ہو رہی تھی۔ گھنٹے بج رہے تھے۔ پادری اشلوک پڑھ رہا تھا اور عورت مرد خشوع و خضوع سے بتوں کو سجدے کر رہے تھے۔ جب تک یہ پوجا ہوتی رہی ہم کو ٹھہرنا پڑا۔ فراغت کے بعد مریم دیبی کے پجاریوں نے شمعوں کی آرتی کی اور شعاع پر ہاتھ وار کے چہروں پر ملا۔ پھر یہ لوگ بڑے پادری کے پاس گئے اور اس کے ہاتھوں کو بوسے دیے۔ پادری نے ان کو مٹھائی کا تبرک عنایت کیا جس کو ا ن سفید احمقوں نے ایک دم منہ میں رکھ کر نگل لیا۔

مزار ایک تنگ غار میں ہے جہاں تین آدمی بمشکل سما سکتے ہیں۔ ہم نے مراقبہ کیا تو پادریوں کو عجیب معلوم ہوا اور حیرت سے دیکھنے لگے۔ فاتحہ پڑھ کر دعا مانگی۔

مزار کے پاس سے اوپر پہاڑ پر راستہ گیا ہے جہاں سنتے ہیں حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ نامور اصحاب مدفون ہیں۔

واپسی کے وقت فرانسیسی گرجا کے پاس سے گزرے۔ پہلے یہ سلطان صلاح الدین کا مدرسہ تھا جس کا کتبہ اب تک صدر دروازہ پر موجود ہے۔ بعد میں ویران و خراب ہو گیا۔ عیسائی تو تاک میں لگے ہوئے تھے۔ استنبول میں جا کر عرضی دی کہ ایک ویران جگہ پڑی ہے' ہم کو مل جائے تا کہ وہاں شفاخانہ بنا لیں۔ استنبول سے گورنر قدس کے نام حکم آیا کہ تحقیق کرے کہ آیا یہ مقام حرم کے قریب تو نہیں ہے اور اس کے فروخت کرنے میں کچھ نقصان تو نہیں ہو گا۔ گورنر پہلے ہی سنہرے سکے جیب میں ڈال کر تحقیقات کر چکا تھا۔ رپورٹ کی گئی کہ یہ جگہ حرم سے بہت دور ہے۔ فرانس کو دینے میں کچھ حرج نہیں۔ چنانچہ مدرستہ صلاحیہ کفار نے لے کر گرجا بنایا۔ مدرسہ کی عمارت جوں کی توں موجود ہے' یہاں تک کہ کتبہ بھی باقی رکھا گیا تا کہ مسلمان دیکھیں اور جلیں کہ ان کے فاتح کی یادگار کو اپنے مکر و تدبیر سے ہم یوں پامال کر سکتے ہیں۔

کتبہ عربی میں ہے جس کا ترجمہ یہ ہے: اس مبارک مدرسہ کو ملک الناصر سلطان صلاح الدین نے جو دولتہ امیر المومنین کا زندہ کرنے والا ہے' ان فقہاء کے لیے وقف کیا جو امام شافعی کے اصحاب ہیں۔ 558ھ۔

پولٹیکل پیش بندی کے خیال سے اس مدرسہ کے ایک گوشہ میں حضرت مریم کا مولد بنا دیا گیا ہے' یعنی کہتے ہیں کہ حضرت مریم اس جگہ پیدا ہوئی تھیں۔ چنانچہ پادری ہم کو بھی غار کے اندر لے گیا۔ دیکھا کہ پہاڑ کی کھوہ میں حضرت مریمؒ ایک بچہ کی صورت میں سنہری مہد میں لیٹی ہیں۔

ظہر کے بعد گورنر سے ملنے گئے۔ بہت اخلاق و تپاک سے پیش آیا۔ جودت بے نام ہے۔ بہت ہی لاغر اندام ہے۔ ہندی مسلمانوں اور مشائخ کا دیر تک تذکرہ رہا۔ میری خواہش پر اس نے وعدہ کیا کہ پرسوں خود اس مقام پر لے چلوں گا جہاں نقب لگی ہے تا کہ اصل حقیقت سے آگاہی ہو۔ گورنر سے مل کر فیض اللہ آفندی' رئیس البلدیہ (سیکریٹری میونسپل کمیٹی) سے ملاقات کی۔ بہت ذی علم اور گہرا آدمی ہے۔

آج رات کو مشائخ حرم نے اپنے ایک خانگی جھگڑے کے تصفیہ کے لیے بلایا۔ ہر چند انکار و عذر کیا گیا مگر وہ نہ مانے۔ قصہ بس وہی تھا جو ہندوستان کی درگاہوں میں جگہ جگہ موجود ہے یعنی زوار کی نذر نیاز۔

(سفرنامہ خواجہ حسن نظامی''مصر' فلسطین' شام و حجاز'' مطبوعہ آتش فشاں پبلیکیشنز، سے اقتباس)
Load Next Story