بھارت کی ریشہ دوانیاں
یہاں زندگی اپنی پوری قوت سے جی رہی تھی صنعت و حرفت کا جال بچھا ہوا تھا۔
LOS ANGELES:
میرا کراچی شہر جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا، عروس البلاد کہلاتا تھا ، زندگی کے تمام رنگ اپنی پوری آب و تاب سے دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرتے تھے کہ ملک کے چاروں کونوں اور بیرون ملک سے لوگ کھنچے چلے آتے تھے۔
یہاں زندگی اپنی پوری قوت سے جی رہی تھی صنعت و حرفت کا جال بچھا ہوا تھا۔ روزی روزگار کے سلسلے میں جو لوگ یہاں آتے ان کو اپنے دامن میں اس طرح سمیٹ لیتا جس طرح ایک ماں اپنے دکھی بچوں کو اپنے کلیجے سے لگاتی ہے مگر ہوا کیا؟ آہستہ آہستہ نفرتوں کی آگ نے سب کچھ بھسم کردیا گلیوں میں ماتم برپا ہو گیا تو کارخانوں کا چلتا پہیہ رک گیا۔ دہشت نے چہار سو اپنا ڈیرہ ڈال لیا اپنے سایے سے بھی انسان خوفزدہ ہونے لگا۔
رہی سہی کسر سیاستدانوں نے پوری کردی اپنی سیاسی دکان چمکانے کی غرض سے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ نے یہاں کے رہنے والوں کو بھی متاثر کیا جو لوگ مل جل کر رہتے وہ ایک دوسرے کی شکل سے بیزار ہوگئے ۔ نفرت کی کالی آندھی نے سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے لیا بھروسہ، اعتماد ختم ہوگیا اپنی ڈفلی اپنا راگ صرف یہی رہ گیا ہے۔
اس پر ستم ظریفی کی حد ہوگئی کہ جب انسان بدلے تو گلی کوچے بھی اپنا حسن کھو بیٹھے جہاں کبھی بہشتی سر شام اپنے مشکیزوں سے کراچی کی سڑکوں کو ٹھنڈا کرتے اور جھاڑو لگا کر تنکا شنکا اٹھا لیتے اب گندگی کے جگہ جگہ ڈھیر اور غلاظت سے لگتا ہے یہ کراچی بین الاقوامی شہر نہیں بلکہ کوئی دور افتادہ گاؤں دیہات ہے جہاں تہذیب و تمدن کی ہلکی سی روشنی بھی ابھی نہیں پہنچ سکی ہے۔
تعلیمی شعبے کو الگ برباد کردیا گیا اساتذہ کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں ،طلبا کے مستقبل کا دارومدار ان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے مگر ہوا کیا مختلف نظام تعلیم نے اور سرکاری اسکولوں کی بدحالی نے قوم کے بچوں کا مستقبل تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ لاکھوں روپے دے کر جو ملازمت حاصل کریگا وہ ایمانداری سے اپنے فرائض کیسے انجام دیگا اسی لیے آج اس مقدس پیشے میں بھی کرپشن نے اپنے پنجے گاڑ دیے ہیں۔
ہر شعبہ روبہ زوال ہے پانی نہیں، بجلی نہیں، روزگار ختم ہو رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ کراچی کو جان بوجھ کر تباہ کیا جا رہا ہے کیونکہ پاکستان کے ڈھانچے میں کراچی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اگر ریڑھ کی ہڈی میں خرابی پیدا ہوجائے تو سارا ڈھانچہ ہی زمین بوس ہوجاتا ہے۔
برصغیر کی تقسیم کو انڈیا نے کبھی بھی دل سے تسلیم نہیں کیا اس لیے قیام پاکستان کے وقت سے ہی سازشی بہو کی طرح پاکستان کی تباہی کے لیے جو بن پڑ رہا ہے وہ کردار ادا کر رہا ہے اور ہم ہیں کہ دشمن کو دوست سمجھ کر ہر وقت گلے سے لگانے کو تیار بیٹھے ہیں کبھی ہمیں اپنا کاروبار عزیز ہوتا ہے تو کبھی امن کی آشا کے نام پر ان کی دل بستگی کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی ایسا لگتا ہے کہ سارے قصور ہی اپنے نام کروا لیں گے کہیں کوئی برائی ان میں نظر نہیں آتی اسی لیے کبھی دانستہ تو کبھی غیر دانستہ بھارت کی ریشہ دوانیوں میں آلہ کار بنے بیٹھے ہیں۔
ہماری آپس کی لڑائیوں نے بھی بھارت کو بہتیرے مواقعے فراہم کیے ہیں کہ پاکستان کو تباہ و برباد کردیا جائے کراچی ہو یا بلوچستان کی تباہ کاری ''را'' کے کردار کو تو اب طشت ازبام کردیا گیا ہے کراچی کے حالات کے ذمے داروں کے تو دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں جوکہ کچھ مصلحتوں کے تحت عوام کے سامنے نہیں لائے جاسکتے مگر اب تو بھارت کے مفکرین ہوں، دفاعی ذمے دار ہوں یا بھارتی ہائی کمیشن کے لوگ سب ہی برملا فخریہ اظہار کر رہے ہیں کہ ان حالات کے ذمے دار ہم ہیں کیونکہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے ادھر ہم ہیں کہ کارگل کی پیش قدمی پر بھی صفائی دیتے نہیں تھکتے۔ ایک سابق سفارتکار مانی شنکر نے جو کہ کراچی میں بھارتی قونصل جنرل رہ چکے ہیں۔
ایک کتاب پاکستان پیپرز کے نام سے تحریر کی تھی جوکہ 1993-94 میں شایع ہوچکی ہے۔ اس کتاب میں موصوف نے پاکستان کے اندرونی بیرونی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارتی حکومت کو کچھ تجاویز پیش کی تھیں جس میں وہ واضح طور پر کہتے ہیں کہ پاکستان کو تباہ کرنے کا جنگ کے علاوہ ایک دوسرا راستہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم پاکستان میں موجود ان قوتوں کی مدد کریں جو پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتی ہیں جوکہ احساس محرومی کا شکار ہیں۔
اس لیے تھوڑی سی کوشش سے وہ علیحدگی کے لیے تیار ہوسکتے ہیں کیونکہ 1970 کی دہائی میں سندھ کے منتخب وزیراعظم کو پھانسی دے دی گئی اس میں پنجابی اسٹیبلشمنٹ ملوث ہے بقول مانی شنکرائز کے ایسے حالات میں سندھ میں علیحدگی پسند تحریکوں کا فروغ ممکن ہوسکتا ہے کہ سندھ کے عوام اس تناظر کی روشنی میں علیحدگی حاصل کرلیں جس طرح بنگالیوں نے حاصل کی تھی۔
موصوف اپنی گھناؤنی تجاویز کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ جی ایم سید نے کہا ہے کہ نئے اور پرانے سندھیوں کو ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر پاکستان کی دیگر قوموں کے ساتھ مل کر پنجابی حکمرانوں کو بے دخل کرنے کے بعد کراچی سے قراقرم تک متعدد ریاستیں تشکیل دینی چاہئیں اس کنفڈریشن میں بھارت کو بھی شامل کیا جانا چاہیے اس کے بعد لکھتے ہیں کہ جب پاکستان کو اپنے ہی لوگ ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں تو بھارت کو خاموش رہ کر تماشا نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ اس ناگزیر اور تاریخی عمل کی راہ میں اپناکردار ادا کرے اور ہر ممکن طریقے سے ایسے لوگوں کی دامے درمے سخنے مدد فراہم کرے۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کی بنیاد پر ایک عام شہری بھی کہہ سکتا ہے کہ کراچی کو تباہ و برباد کرنے میں بھارت براہ راست ملوث ہے جس طرح مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں بھارت ملوث تھا اور اس کا اظہار وہ برملا کرچکا ہے۔ اسی طرح کراچی کو تباہ کرکے پاکستان کو ٹکڑے کرنے کے منصوبے پر عمل دہائیوں سے جاری ہے، ''را'' کے تربیت یافتہ لوگوں نے اپنی جڑیں مضبوط کرلی ہیں سازشوں کا سلسلہ جاری ہے اور یہی وجہ ہے کہ مختلف قومیتوں کے درمیان اعتماد کی فضا کا فقدان ہے ۔
پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنے والے منصوبوں پر سب سے پہلے ہمارے لوگوں کے پیٹ میں ہی مروڑ اٹھتا ہے۔ کالا باغ ڈیم کا معاملہ ہی لے لیں اس پر سیاسی ماہرین کی آرا اور سیاستدانوں کی رائے بہت مختلف ہے۔ آج تک ہم ڈیم نہیں بنا سکے جب کہ بھارت ڈیم پر ڈیم بناکر پاکستان کو مکمل تھر بنانا چاہتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی اور معاشرتی تنظیمیں مل کر کراچی کے لوگوں کے احساس محرومی کو دور کرنے کے لیے لائحہ عمل تیار کریں کیونکہ بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام قومیتوں کو ایک ہونا پڑیگا قومی تصور کو ابھارنا پڑیگا ۔ خدانخواستہ اگر پاکستان نہیں تو ہم بھی نہیں اس لیے بھارت کی سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے تو کچھ کرنا پڑے گا ۔
میرا کراچی شہر جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا، عروس البلاد کہلاتا تھا ، زندگی کے تمام رنگ اپنی پوری آب و تاب سے دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرتے تھے کہ ملک کے چاروں کونوں اور بیرون ملک سے لوگ کھنچے چلے آتے تھے۔
یہاں زندگی اپنی پوری قوت سے جی رہی تھی صنعت و حرفت کا جال بچھا ہوا تھا۔ روزی روزگار کے سلسلے میں جو لوگ یہاں آتے ان کو اپنے دامن میں اس طرح سمیٹ لیتا جس طرح ایک ماں اپنے دکھی بچوں کو اپنے کلیجے سے لگاتی ہے مگر ہوا کیا؟ آہستہ آہستہ نفرتوں کی آگ نے سب کچھ بھسم کردیا گلیوں میں ماتم برپا ہو گیا تو کارخانوں کا چلتا پہیہ رک گیا۔ دہشت نے چہار سو اپنا ڈیرہ ڈال لیا اپنے سایے سے بھی انسان خوفزدہ ہونے لگا۔
رہی سہی کسر سیاستدانوں نے پوری کردی اپنی سیاسی دکان چمکانے کی غرض سے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ نے یہاں کے رہنے والوں کو بھی متاثر کیا جو لوگ مل جل کر رہتے وہ ایک دوسرے کی شکل سے بیزار ہوگئے ۔ نفرت کی کالی آندھی نے سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے لیا بھروسہ، اعتماد ختم ہوگیا اپنی ڈفلی اپنا راگ صرف یہی رہ گیا ہے۔
اس پر ستم ظریفی کی حد ہوگئی کہ جب انسان بدلے تو گلی کوچے بھی اپنا حسن کھو بیٹھے جہاں کبھی بہشتی سر شام اپنے مشکیزوں سے کراچی کی سڑکوں کو ٹھنڈا کرتے اور جھاڑو لگا کر تنکا شنکا اٹھا لیتے اب گندگی کے جگہ جگہ ڈھیر اور غلاظت سے لگتا ہے یہ کراچی بین الاقوامی شہر نہیں بلکہ کوئی دور افتادہ گاؤں دیہات ہے جہاں تہذیب و تمدن کی ہلکی سی روشنی بھی ابھی نہیں پہنچ سکی ہے۔
تعلیمی شعبے کو الگ برباد کردیا گیا اساتذہ کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں ،طلبا کے مستقبل کا دارومدار ان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے مگر ہوا کیا مختلف نظام تعلیم نے اور سرکاری اسکولوں کی بدحالی نے قوم کے بچوں کا مستقبل تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ لاکھوں روپے دے کر جو ملازمت حاصل کریگا وہ ایمانداری سے اپنے فرائض کیسے انجام دیگا اسی لیے آج اس مقدس پیشے میں بھی کرپشن نے اپنے پنجے گاڑ دیے ہیں۔
ہر شعبہ روبہ زوال ہے پانی نہیں، بجلی نہیں، روزگار ختم ہو رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ کراچی کو جان بوجھ کر تباہ کیا جا رہا ہے کیونکہ پاکستان کے ڈھانچے میں کراچی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اگر ریڑھ کی ہڈی میں خرابی پیدا ہوجائے تو سارا ڈھانچہ ہی زمین بوس ہوجاتا ہے۔
برصغیر کی تقسیم کو انڈیا نے کبھی بھی دل سے تسلیم نہیں کیا اس لیے قیام پاکستان کے وقت سے ہی سازشی بہو کی طرح پاکستان کی تباہی کے لیے جو بن پڑ رہا ہے وہ کردار ادا کر رہا ہے اور ہم ہیں کہ دشمن کو دوست سمجھ کر ہر وقت گلے سے لگانے کو تیار بیٹھے ہیں کبھی ہمیں اپنا کاروبار عزیز ہوتا ہے تو کبھی امن کی آشا کے نام پر ان کی دل بستگی کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی ایسا لگتا ہے کہ سارے قصور ہی اپنے نام کروا لیں گے کہیں کوئی برائی ان میں نظر نہیں آتی اسی لیے کبھی دانستہ تو کبھی غیر دانستہ بھارت کی ریشہ دوانیوں میں آلہ کار بنے بیٹھے ہیں۔
ہماری آپس کی لڑائیوں نے بھی بھارت کو بہتیرے مواقعے فراہم کیے ہیں کہ پاکستان کو تباہ و برباد کردیا جائے کراچی ہو یا بلوچستان کی تباہ کاری ''را'' کے کردار کو تو اب طشت ازبام کردیا گیا ہے کراچی کے حالات کے ذمے داروں کے تو دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں جوکہ کچھ مصلحتوں کے تحت عوام کے سامنے نہیں لائے جاسکتے مگر اب تو بھارت کے مفکرین ہوں، دفاعی ذمے دار ہوں یا بھارتی ہائی کمیشن کے لوگ سب ہی برملا فخریہ اظہار کر رہے ہیں کہ ان حالات کے ذمے دار ہم ہیں کیونکہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے ادھر ہم ہیں کہ کارگل کی پیش قدمی پر بھی صفائی دیتے نہیں تھکتے۔ ایک سابق سفارتکار مانی شنکر نے جو کہ کراچی میں بھارتی قونصل جنرل رہ چکے ہیں۔
ایک کتاب پاکستان پیپرز کے نام سے تحریر کی تھی جوکہ 1993-94 میں شایع ہوچکی ہے۔ اس کتاب میں موصوف نے پاکستان کے اندرونی بیرونی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارتی حکومت کو کچھ تجاویز پیش کی تھیں جس میں وہ واضح طور پر کہتے ہیں کہ پاکستان کو تباہ کرنے کا جنگ کے علاوہ ایک دوسرا راستہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم پاکستان میں موجود ان قوتوں کی مدد کریں جو پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتی ہیں جوکہ احساس محرومی کا شکار ہیں۔
اس لیے تھوڑی سی کوشش سے وہ علیحدگی کے لیے تیار ہوسکتے ہیں کیونکہ 1970 کی دہائی میں سندھ کے منتخب وزیراعظم کو پھانسی دے دی گئی اس میں پنجابی اسٹیبلشمنٹ ملوث ہے بقول مانی شنکرائز کے ایسے حالات میں سندھ میں علیحدگی پسند تحریکوں کا فروغ ممکن ہوسکتا ہے کہ سندھ کے عوام اس تناظر کی روشنی میں علیحدگی حاصل کرلیں جس طرح بنگالیوں نے حاصل کی تھی۔
موصوف اپنی گھناؤنی تجاویز کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ جی ایم سید نے کہا ہے کہ نئے اور پرانے سندھیوں کو ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر پاکستان کی دیگر قوموں کے ساتھ مل کر پنجابی حکمرانوں کو بے دخل کرنے کے بعد کراچی سے قراقرم تک متعدد ریاستیں تشکیل دینی چاہئیں اس کنفڈریشن میں بھارت کو بھی شامل کیا جانا چاہیے اس کے بعد لکھتے ہیں کہ جب پاکستان کو اپنے ہی لوگ ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں تو بھارت کو خاموش رہ کر تماشا نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ اس ناگزیر اور تاریخی عمل کی راہ میں اپناکردار ادا کرے اور ہر ممکن طریقے سے ایسے لوگوں کی دامے درمے سخنے مدد فراہم کرے۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کی بنیاد پر ایک عام شہری بھی کہہ سکتا ہے کہ کراچی کو تباہ و برباد کرنے میں بھارت براہ راست ملوث ہے جس طرح مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں بھارت ملوث تھا اور اس کا اظہار وہ برملا کرچکا ہے۔ اسی طرح کراچی کو تباہ کرکے پاکستان کو ٹکڑے کرنے کے منصوبے پر عمل دہائیوں سے جاری ہے، ''را'' کے تربیت یافتہ لوگوں نے اپنی جڑیں مضبوط کرلی ہیں سازشوں کا سلسلہ جاری ہے اور یہی وجہ ہے کہ مختلف قومیتوں کے درمیان اعتماد کی فضا کا فقدان ہے ۔
پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنے والے منصوبوں پر سب سے پہلے ہمارے لوگوں کے پیٹ میں ہی مروڑ اٹھتا ہے۔ کالا باغ ڈیم کا معاملہ ہی لے لیں اس پر سیاسی ماہرین کی آرا اور سیاستدانوں کی رائے بہت مختلف ہے۔ آج تک ہم ڈیم نہیں بنا سکے جب کہ بھارت ڈیم پر ڈیم بناکر پاکستان کو مکمل تھر بنانا چاہتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی اور معاشرتی تنظیمیں مل کر کراچی کے لوگوں کے احساس محرومی کو دور کرنے کے لیے لائحہ عمل تیار کریں کیونکہ بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام قومیتوں کو ایک ہونا پڑیگا قومی تصور کو ابھارنا پڑیگا ۔ خدانخواستہ اگر پاکستان نہیں تو ہم بھی نہیں اس لیے بھارت کی سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے تو کچھ کرنا پڑے گا ۔