تلخ داستان پانی کی
انسان ہمیشہ سے ان آفتوں کا مقابلہ کرتا رہا مگر قدرت کے آگے ہمیشہ بے بس و لاچار نظر آیا۔
قدرتی آفات ہمیشہ سے انسانوں کا تعاقب کرتی رہی ہیں، انسان ہمیشہ سے ان آفتوں کا مقابلہ کرتا رہا مگر قدرت کے آگے ہمیشہ بے بس و لاچار نظر آیا۔ ہم ایک ایسے خطے میں جی رہے ہیں جہاں موسمی تغیر و تبدل اپنا رنگ بطریق احسن دکھارہا ہے۔ ہم نے ماحول کے ساتھ وہ کیا کہ آج ماحولیاتی تبدیلی ہمیں آنکھیں دکھا رہی ہے۔
مہذب دنیا نے سائنسی ترقی کے نام پر ایسی خوفناک ایجادات کیں اور پھر ایسی ضرر رساں گیسوں کا اخراج ہوا کہ آسمان پر بھی سوراخ کردیا۔ آج اوزون سورج سے زمین کی طرف آنیوالی بالائے بنفشی شعاعوں کو روکنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ ہمارے پڑوسی بھارت نے تو نرالی منطق نکالی، زمین کا بٹوارہ تو ہوا لیکن ساتھ ہی ساتھ اس نے آبی وسائل کا بھی ایسا بٹوارہ کیا کہ الامان والحفیظ۔ ستلج، بیاس، راوی سب سمیٹ لیے، جو دریا ہمارے نصیب میں آئے وہ بھی بھارت سے ہی نکلتے ہیں اور وہ ہمہ وقت ان پر نئے ڈیم اور نہریں نکالنے کی سوچ و بچار میں مصروف رہتا ہے، جب بارشوں کی زیادتی ہو، دریا لبالب بھر جائیں تو سیلابی پانی کا رخ پاکستان کی جانب کردیا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں جب بھی کوئی آفت آتی یا حادثہ ہوتا ہے تو غریب کی غربت کا بھرم کھل کر سامنے آجاتا ہے۔
ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی سیلاب نے لوگوں کی چھتیں چھین لی ہیں، غریبوں کے مویشی بہا لے گیا ہے، سیلاب کی تباہ کاریاں انسانی جانوں، گھروں، مال و اسباب، زمینوں، فصلوں اور ان کی عمر بھر کی کمائیوں کو نگل رہی ہیں۔ سیل بلا کی بپھری ہوئی موجیں چار سو دندنا رہی ہیں، بستیاں غرق ہورہی ہیں، پل بہہ رہے ہیں، سڑکیں ٹوٹ رہی ہیں، مواصلات کا نظام درہم برہم ہے، پانی میں گھرے ہوئے لوگ دہائی دے رہے ہیں۔
دنیا بھر میں قدرتی آفات آتی ہیں مگر قوموں نے ان کا جائزہ لے کر حساب کتاب کرکے قدرتی آفات کی تباہ کاریوں کو کم کرنے کے اقدامات کیے۔ سابقہ مشرقی پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے جب تک یہ متحدہ پاکستان کا حصہ تھا، ہر سال وہاں بدترین سمندری طوفان آتے تھے، لاکھوں افراد کا لقمہ اجل بن جانا ایک عام سی بات تھی لیکن پاکستان سے علیحدگی کے بعد بنگلہ دیش نے بڑی جاں فشانی سے ان عوامل پر قابو پانے کی کوششیں شروع کیں جن کی وجہ سے زیادہ ہلاکتیں ہوتی تھیں تو صورتحال رفتہ رفتہ تبدیل ہوتی چلی گئی۔
بنگلہ دیش میں اب بھی سمندری طوفان آتے ہیں لیکن ان میں مرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں کیا ہزاروں میں بھی نہیں ہوتی۔ اسی طرح جاپان میں زلزلے ایک معمول کی بات ہے مگر جاپانیوں نے اپنے تجربات سے یہ بات سیکھ لی کہ زلزلہ تو روکا نہیں جاسکتا، مگر اس سے ہونیوالے نقصان کم کیے جاسکتے ہیں۔ اس لیے وہ ایسے مٹیریل سے مکان بناتے ہیں کہ اگر زلزلے میں وہ گرجائیں تو جانی نقصان کا احتمال کم سے کم ہو۔
مگر ہم سانحات سے نہ تو کوئی سبق سیکھتے ہیں اور نہ ہمارے تجربے میں کوئی اضافہ ہوتا ہے۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ پاکستان میں کوئی بھی حکومت 68 سال گزرنے کے باوجود بارشوں سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کرسکی اور اب تک کھوکھلی پالیسیوں پر انحصار کیا جارہا ہے۔ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ حکومت کی ترجیحات میں قدرتی آفات اور حادثات سے بچاؤ کی کوئی مستقل حکمت عملی شامل ہی نہیں ہے۔
متعلقہ محکمے عارضی نوعیت کی پالیسیاں بناتے ہیں اور ہر محکمہ فیصلہ سازی میں خود کو آزاد سمجھتا ہے۔ دوسرے محکموں کے اشتراک سے مربوط اور موثر منصوبہ بندی سے گریز کیا جاتا ہے۔ ہر سال بارشوں اور سیلاب سے تباہی کے مناظر اب معمول بنتے جارہے ہیں۔ اگر صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس وقت ملک میں جو سیلاب ہے یا بارشیں ہورہی ہیں یہ غیر معمولی نہیں ہے اور نہ ہی انھیں ناگہانی آفت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
اس وقت بارشوں یا سیلاب سے جو نقصان ہورہا ہے ان سے بہتر انتظامات کرکے بچا جاسکتا ہے لیکن ہمارے یہاں غریب کو سیلاب میں ڈبو کر اپنی تجوریوں کو بھرنے کا رواج پڑ چکا ہے۔ اس وقت بھی ہمارے لیڈر خوشی سے پھولے نہیں سمارہے ہیں کیونکہ سیلاب کے نام پر اربوں روپے کی کرپشن کا دروازہ کھل گیا ہے۔
اگر انسانوں کے لیے یہ سیلاب عذاب بن کر آیا ہے تو بہت سارے طاقتور لوگوں کے لیے یہ رحمت بن کر آیا ہے۔ 2010 میں آنیوالے سیلاب کے بعد اگر ہم نے کبھی کوئی سبق سیکھا ہوتا تو آج ہم اتنے پریشان نہ ہوتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کے سیلابی منظر نامے اور 2010ء کی سیلابی تباہ کاریوں کو سامنے رکھ کر ان سے بچاؤ کی تدابیریں کی جائیں۔
پالیسی سازوں سے التجا ہے کہ جب سب کچھ معلوم ہے کہ ہر سال بپھرے ہوئے دریاؤں کے بند کھول دیے جاتے ہیں یا ٹوٹ جاتے ہیں اور پانی کے طوفان میں ہر شے بہہ جاتی ہے تو اس حوالے سے ٹھوس منصوبہ بندی کی شروعات کریں۔ ہر سال معیشت کا نقصان اور قیمتی جانوں کا ضیاع کب تک برداشت کیا جاتا رہے گا؟ دنیا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں شدید بارشیں ہوتی ہیں لیکن سیلاب نہیں آتے کیونکہ وہاں پر پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم بنائے گئے ہیں۔
اپنے کل کو محفوظ بنانے کے لیے ہمیں ابھی سے لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا۔ پاکستان میں ایک نہیں لا تعداد چھوٹے و بڑے ڈیمز کی اشد ضرورت ہے۔ اگر حکومت عزم کرلے اور بروقت اقدامات کرے تو نہ صرف تباہی سے بچا جاسکتا بلکہ اس پانی کو ڈیموں میں ذخیرہ کرکے سستی بجلی بنانے کے ساتھ زمینوں کو بھی سیراب کیا جاسکتا ہے۔ ضرورت صرف خلوص نیت کی ہے اور اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو پھر یہی بہتے ہوئے مال مویشی، گرتے ہوئے کچے مکان، تباہ حال بستیاں، اجڑی ہوئی فصلیں، پانی کے روندے ہوئے قصبے ہمارا مستقبل ہونگے، پھر ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہوگی۔
کیونکہ سیلاب تو ہر سال آتا رہے گا، غریبوں کے گھر اجڑتے رہیں گے، فصلیں برباد ہوتی رہیں گی، انسان اور مویشی بھی مرتے رہیں گے۔ بنجرز زمینیں نوحے پڑھتی رہیں گی، خشک سالی ہمارا مقدر بنے گی، یہ تلخ داستانِ پانی کبھی ختم نہ ہوگی اور نہ ہی اس کی آڑ میں بالا دست طبقوں کی موج مستیاں، غریب ڈوبتے ہیں تو ڈوبتے رہیں۔
مہذب دنیا نے سائنسی ترقی کے نام پر ایسی خوفناک ایجادات کیں اور پھر ایسی ضرر رساں گیسوں کا اخراج ہوا کہ آسمان پر بھی سوراخ کردیا۔ آج اوزون سورج سے زمین کی طرف آنیوالی بالائے بنفشی شعاعوں کو روکنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ ہمارے پڑوسی بھارت نے تو نرالی منطق نکالی، زمین کا بٹوارہ تو ہوا لیکن ساتھ ہی ساتھ اس نے آبی وسائل کا بھی ایسا بٹوارہ کیا کہ الامان والحفیظ۔ ستلج، بیاس، راوی سب سمیٹ لیے، جو دریا ہمارے نصیب میں آئے وہ بھی بھارت سے ہی نکلتے ہیں اور وہ ہمہ وقت ان پر نئے ڈیم اور نہریں نکالنے کی سوچ و بچار میں مصروف رہتا ہے، جب بارشوں کی زیادتی ہو، دریا لبالب بھر جائیں تو سیلابی پانی کا رخ پاکستان کی جانب کردیا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں جب بھی کوئی آفت آتی یا حادثہ ہوتا ہے تو غریب کی غربت کا بھرم کھل کر سامنے آجاتا ہے۔
ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی سیلاب نے لوگوں کی چھتیں چھین لی ہیں، غریبوں کے مویشی بہا لے گیا ہے، سیلاب کی تباہ کاریاں انسانی جانوں، گھروں، مال و اسباب، زمینوں، فصلوں اور ان کی عمر بھر کی کمائیوں کو نگل رہی ہیں۔ سیل بلا کی بپھری ہوئی موجیں چار سو دندنا رہی ہیں، بستیاں غرق ہورہی ہیں، پل بہہ رہے ہیں، سڑکیں ٹوٹ رہی ہیں، مواصلات کا نظام درہم برہم ہے، پانی میں گھرے ہوئے لوگ دہائی دے رہے ہیں۔
دنیا بھر میں قدرتی آفات آتی ہیں مگر قوموں نے ان کا جائزہ لے کر حساب کتاب کرکے قدرتی آفات کی تباہ کاریوں کو کم کرنے کے اقدامات کیے۔ سابقہ مشرقی پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے جب تک یہ متحدہ پاکستان کا حصہ تھا، ہر سال وہاں بدترین سمندری طوفان آتے تھے، لاکھوں افراد کا لقمہ اجل بن جانا ایک عام سی بات تھی لیکن پاکستان سے علیحدگی کے بعد بنگلہ دیش نے بڑی جاں فشانی سے ان عوامل پر قابو پانے کی کوششیں شروع کیں جن کی وجہ سے زیادہ ہلاکتیں ہوتی تھیں تو صورتحال رفتہ رفتہ تبدیل ہوتی چلی گئی۔
بنگلہ دیش میں اب بھی سمندری طوفان آتے ہیں لیکن ان میں مرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں کیا ہزاروں میں بھی نہیں ہوتی۔ اسی طرح جاپان میں زلزلے ایک معمول کی بات ہے مگر جاپانیوں نے اپنے تجربات سے یہ بات سیکھ لی کہ زلزلہ تو روکا نہیں جاسکتا، مگر اس سے ہونیوالے نقصان کم کیے جاسکتے ہیں۔ اس لیے وہ ایسے مٹیریل سے مکان بناتے ہیں کہ اگر زلزلے میں وہ گرجائیں تو جانی نقصان کا احتمال کم سے کم ہو۔
مگر ہم سانحات سے نہ تو کوئی سبق سیکھتے ہیں اور نہ ہمارے تجربے میں کوئی اضافہ ہوتا ہے۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ پاکستان میں کوئی بھی حکومت 68 سال گزرنے کے باوجود بارشوں سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کرسکی اور اب تک کھوکھلی پالیسیوں پر انحصار کیا جارہا ہے۔ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ حکومت کی ترجیحات میں قدرتی آفات اور حادثات سے بچاؤ کی کوئی مستقل حکمت عملی شامل ہی نہیں ہے۔
متعلقہ محکمے عارضی نوعیت کی پالیسیاں بناتے ہیں اور ہر محکمہ فیصلہ سازی میں خود کو آزاد سمجھتا ہے۔ دوسرے محکموں کے اشتراک سے مربوط اور موثر منصوبہ بندی سے گریز کیا جاتا ہے۔ ہر سال بارشوں اور سیلاب سے تباہی کے مناظر اب معمول بنتے جارہے ہیں۔ اگر صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس وقت ملک میں جو سیلاب ہے یا بارشیں ہورہی ہیں یہ غیر معمولی نہیں ہے اور نہ ہی انھیں ناگہانی آفت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
اس وقت بارشوں یا سیلاب سے جو نقصان ہورہا ہے ان سے بہتر انتظامات کرکے بچا جاسکتا ہے لیکن ہمارے یہاں غریب کو سیلاب میں ڈبو کر اپنی تجوریوں کو بھرنے کا رواج پڑ چکا ہے۔ اس وقت بھی ہمارے لیڈر خوشی سے پھولے نہیں سمارہے ہیں کیونکہ سیلاب کے نام پر اربوں روپے کی کرپشن کا دروازہ کھل گیا ہے۔
اگر انسانوں کے لیے یہ سیلاب عذاب بن کر آیا ہے تو بہت سارے طاقتور لوگوں کے لیے یہ رحمت بن کر آیا ہے۔ 2010 میں آنیوالے سیلاب کے بعد اگر ہم نے کبھی کوئی سبق سیکھا ہوتا تو آج ہم اتنے پریشان نہ ہوتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کے سیلابی منظر نامے اور 2010ء کی سیلابی تباہ کاریوں کو سامنے رکھ کر ان سے بچاؤ کی تدابیریں کی جائیں۔
پالیسی سازوں سے التجا ہے کہ جب سب کچھ معلوم ہے کہ ہر سال بپھرے ہوئے دریاؤں کے بند کھول دیے جاتے ہیں یا ٹوٹ جاتے ہیں اور پانی کے طوفان میں ہر شے بہہ جاتی ہے تو اس حوالے سے ٹھوس منصوبہ بندی کی شروعات کریں۔ ہر سال معیشت کا نقصان اور قیمتی جانوں کا ضیاع کب تک برداشت کیا جاتا رہے گا؟ دنیا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں شدید بارشیں ہوتی ہیں لیکن سیلاب نہیں آتے کیونکہ وہاں پر پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم بنائے گئے ہیں۔
اپنے کل کو محفوظ بنانے کے لیے ہمیں ابھی سے لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا۔ پاکستان میں ایک نہیں لا تعداد چھوٹے و بڑے ڈیمز کی اشد ضرورت ہے۔ اگر حکومت عزم کرلے اور بروقت اقدامات کرے تو نہ صرف تباہی سے بچا جاسکتا بلکہ اس پانی کو ڈیموں میں ذخیرہ کرکے سستی بجلی بنانے کے ساتھ زمینوں کو بھی سیراب کیا جاسکتا ہے۔ ضرورت صرف خلوص نیت کی ہے اور اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو پھر یہی بہتے ہوئے مال مویشی، گرتے ہوئے کچے مکان، تباہ حال بستیاں، اجڑی ہوئی فصلیں، پانی کے روندے ہوئے قصبے ہمارا مستقبل ہونگے، پھر ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہوگی۔
کیونکہ سیلاب تو ہر سال آتا رہے گا، غریبوں کے گھر اجڑتے رہیں گے، فصلیں برباد ہوتی رہیں گی، انسان اور مویشی بھی مرتے رہیں گے۔ بنجرز زمینیں نوحے پڑھتی رہیں گی، خشک سالی ہمارا مقدر بنے گی، یہ تلخ داستانِ پانی کبھی ختم نہ ہوگی اور نہ ہی اس کی آڑ میں بالا دست طبقوں کی موج مستیاں، غریب ڈوبتے ہیں تو ڈوبتے رہیں۔