انڈونیشیا کے ساحلی دیہات میں ریت پرسونے کی روایت

کمروں کے اندر مسہری کے بجائے ’ خاکی‘ بستر بچھا ہوتا ہے

کمروں کے اندر مسہری کے بجائے ’ خاکی‘ بستر بچھا ہوتا ہے:فوٹو : فائل

باتنگ انڈونیشیا کا ساحلی علاقہ ہے۔ ساحل کے ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی بستیاں اورگاؤں آباد ہیں۔ ماہی گیری ان بستیوں کے باسیوں کا آبائی پیشہ ہے۔ ماہی گیری کے علاوہ کھیتی باڑی اورگلہ بانی بھی اس علاقے کے لوگوں کے اہم ذرائع معاش ہیں۔ یہاں زندگی اپنی مخصوص رفتار سے رواں رہتی ہے۔

مرد حضرات کشتیوں میں بیٹھ کر مچھلیاں پکڑنے سمندرمیں چلے جاتے ہیں یا پھر کھیتوں کا رخ کرتے ہیں۔ دن بھر کے تھکے ہارے جب شام کو گھر آکر وہ ریت پر لیٹتے ہیں تو ساری تھکن دور ہوجاتی ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ ریت پر ہی کیوں آرام کرتے ہیں، کیا ان کے گھروں میں چارپائیاں اور بستر نہیں ہوتے؟ دراصل ان دیہات میں ریت کے بستر پر سونے کی قدیم روایت پائی جاتی ہے۔یہاں گھروں کے کمروں اور بیٹھکوں میں چارپائیوں کے بجائے ریت بچھی ہوتی ہے جس پر اہل خانہ آرام کرتے اور سوتے ہیں۔ گھر آنے والے مہمانوں کو بھی سوفوں اور کرسیوں کے بجائے ریت پر ہی بٹھایا جاتا ہے۔ استراحت کے لیے بھی انھیں ' خاکی' بستر پیش کیا جاتا ہے۔


ریت کے بستر پر سونے کی روایت پر علاقے کے کھاتے پیتے گھرانے بھی عمل کرتے ہیں۔ ان گھروں میں موٹرسائیکل، ریفریجریٹر ، ٹیلی ویژن جیسی سہولیات دیکھی جاسکتی ہیں مگر کمروں میں میز کرسیوں، سوفے اور مسہری کے بجائے ریت بچھی نظر آتی ہے۔ کچھ گھروں میں روایتی پلنگ وغیرہ ضرور موجود ہیں مگر یہ صرف آرائشی مقاصد کے لیے رکھے گئے ہیں۔

ریت سے اس قدر ' محبت' کی وجہ علاقے کے باسی یہ بیان کرتے ہیں کہ ' خاکی' بستر پر سونے کے بہت سے طبی فوائد ہیں۔ مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ریت پر سونے سے خارش اور گٹھیا سمیت کئی عوارض سے نجات مل جاتی ہے۔ تاہم اس دعوے کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں ملتا۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ ریت گرمیوں میں ٹھنڈی اور سردیوں میں گرم ہوجاتی ہے۔ یوں ساحلی علاقوں کے باشندوں کو دونوں موسموں میں ریت، راحت پہنچاتی ہے۔مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ یہ قدیم روایت دم توڑتی جارہی ہے کیوں کہ نوجوان نسل روزگار کے سلسلے میں شہروں کا رخ کررہی ہے۔
Load Next Story