پلان اے بی سی اور نڈھال صاحب
احتساب بیورو کی اب تک کی کارکردگی بھی تقریباً وہی ہے جو ہاکی فیڈریشن آف پاکستان کی ہے
سیلاب کی تباہ کاریاں تو آپ ہر سال ہی دیکھتے ہیں، اس سال ان شاء اللہ آپ احتساب کی تباہ کاریاں بھی دیکھیں گے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کی عمومی آب و ہوا دیکھ کر دو چار موٹی موٹی باتیں تو ہم جیسے ناقص العقل کو بھی سمجھ آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ دہشتگردی کی اینٹ کا جواب چھترول کے پتھر سے ہی دیا جائے گا خواہ اس کی کتنی ہی بھاری قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔ اس کے علاوہ یہ کہ جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بہر صورت بچانا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ بد حکومتی اور بدعنوانی کے بدبودار ریچھ کو بہرحال نکیل ڈالنی ہے خواہ اس کیلئے کتنے ہی بڑے مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالنا پڑے۔
توجناب یہی وجہ ہے کہ پچھلے چند ہفتوں سے احتساب کے بازار میں ٹھیک ٹھاک گرمی نظر آنے لگی ہے۔ جہاں تک صوبہ سندھ کا تعلق ہے ما سوائے ایک بڑی مچھلی کے، کسی کو بھی معاف نہیں کیا جا رہا اور بڑی مچھلی کو بھی صرف سیاسی مصلحت کی وجہ سے ہی امان ہے، جونہی مصلحت کوشی کے بادل چھٹنے لگتے ہیں اس بیچاری کے ساتھ بھی وہی کچھ ہونے لگے گا جو آجکل اس کے ساتھیوں اور بہنوئیوں کے ساتھ ہوتا نظر آتا ہے۔
پنجاب کا ایک سابق اعلی افسر جو مبینہ طور پر تقریباً دس ایک ارب روپے کما کر اپنے درجات دنیا اور دوزخ دونوں میں ہی بلند کر چکا ہے، عنقریب احتساب کے لپیٹے میں آنے والا ہے۔ سنا ہے کہ 70کے عشرے میں یہ شخص خاصا خوش شکل اور سمارٹ ہوا کرتا تھا مگر آج یہ چربی اور گوشت کا پہاڑ بن چکا ہے۔ لگتا ہے اس نے 10ارب روپے کے عوض اپنی روح ہی نہیں، خوبصورتی بھی شیطان کے ہاتھ بیچ ڈالی ہے۔ بہر حال، اگر وہ خود اس ڈیل سے خوش اور مطمئن ہے تو پھر ہم بھلا کون ہوتے ہیں اس کے رنگ میں بھنگ ڈالنے والے، ہیں جی؟
احتساب بیورو کی اب تک کی کارکردگی بھی تقریباً وہی ہے جو ہاکی فیڈریشن آف پاکستان کی ہے۔ جس طرح چودھری شجاعت کی سرگوشی ہماری سمجھ میں نہیں آتی (ویسے وہ تو خود چودھری صاحب کی اپنی سمجھ میں بھی نہیں آتی ہو گی) بالکل اسی طرح ہمیں کبھی یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ احتساب بیورو کی منشائے پیدائش آخر ہے کیا۔ پورے ملک میں کرپٹ افسران کا میلہ مویشیاں لگا ہوا ہے مگرہم ہیں کہ آج تک کسی ایک کو بھی عبرت کا نشانہ نہیں بنا سکے۔ یعنی اس مفلس اور بدحال ملک کو اربوں ڈالر کی ''تھُک'' لگا کر بیرونی بینک بھرنے والے تقریباً اب تک ساڑھے چار سو افسران اور انکے شامل جرم برادران آج بھی دندناتے اور پاکستان کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں مگر ہمارا احتساب بیورو ان کی ہوا کو نہیں چھو سکا۔
ہماری اپنی اطلاع کے مطابق ایک صوبے کے چند وزیروں اورمشیروں نے اپنے گھروں اور خفیہ ٹھکانوں پر کئی کئی ملین ڈالرچھپا رکھے ہیں۔ بعض کیسوں میں یہ ملین نہیں بلکہ بلین ہیں۔ پچھلے چند ماہ کے دوران پاکستان سے اس زرِ حرام کے بڑے ذخائر بیرون ملک منتقل کرنے کے قبیح عمل میں خاصی تیزی آ گئی ہے۔ کبھی کھلے سمندر سے ڈالروں، ریالوں اور درہموں سے بھری لانچیں پکڑی گئیں تو کبھی اربوں مالیت سونے سے لدی کشتیاں قابو کی گئیں۔
دو وزیروں اور دو اہم شخصیات کے تالے توڑ کر روپے برآمد کئے گئے تو ایک مشہور ماڈل کی اٹیچی پھاڑ کر ڈالر نکالے گئے۔ حماقت اور معصومیت میں لتھڑی بیچاری یہ نیم پڑھی لکھی ماڈل اپنے اور ایک نہایت اہم سیاسی شخصیت بارے ایسے ایسے رونگٹے خیز بیان ریکارڈ کروا چکی ہے کہ جب طشت ازبام ہوئے تو یہ قصے بڑوں بڑوں کی بے پناہ ایمبرسمنٹ کا باعث بنیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ اہم شخصیت چند ہفتے قبل بوکھلاہٹ میں بات کرتے کرتے بھول ہی گئی کہ غصے میں کس حد تک پھنکارنا ہے!!
ہمارے دوست نڈھال صاحب دیکھنے میں تو ہٹے کٹے ہیں مگر تخلص نڈھال رکھا ہوا ہے۔ آپ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ موسیقار اور گائیک بھی ہیں۔ اپنے آپ کو پنجاب کا جون ایلیا کہتے ذرا نہیں شرماتے۔ افسو س کہ جون ایلیا آج ہم میں نہیں ہیں کیونکہ اگروہ ہوتے تو آج نڈھال صاحب کو ہم میں نہ رہنے دیتے۔
اپنے آپ کو گائیک بھی بڑا سمجھتے ہیں حالانکہ آواز آپکی مار خور بکرے جیسی ہے اور یہ بات ہم مار خور سے پیشگی معذرت کے ساتھ کہہ رہے ہیں۔ سنتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے آپ نے ایک مشہور مغنیہ عذرا جہاں کے ساتھ دو گانا گایا تھا۔ عذرا جہاں بیچاری اس کے بعد گانے سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے تائب ہو گئی جبکہ اس کے تمام سازندے اب کمانیوں کا کام کرتے ہیں۔
نڈھال صاحب کے بد شکل ہونے میں انکی ننھی منی آنکھوں کا بڑا دخل ہے۔ مگر آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اس قدر چھوٹی آنکھوں کے ساتھ بھی آپ بہت دور تک دیکھتے ہیں۔ قسمت کا حال اور ستاروں کی چال ایک موضوع ہے کہ جس پر بلا مبالغہ بارہ گھنٹے لگا تار بکواس کر سکتے ہیں۔ اسلام آباد کے سارے بے توکلے افسر اور سیاسی مچھندر ہمارے نڈھال صاحب کا پانی بھرتے ہیں۔ ہمیں انکی سیاسی پیش گوئیوں سے بھی اتنی ہی چڑ ہے جتنی کہ انکی شاعری اور موسیقی سے، مگر یہ بات ہمیں ہمیشہ ورطہ حیرت میں ڈالے رکھتی ہے کہ انکی یہ پیش گوئیاں عام طور پر ٹھیک ثابت ہوتی ہیں۔
موصوف آج کل اٹھتے بیٹھتے کسی پر اسرار سے پلان اے، بی اور سی کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ چونکہ بقول انکے، ان تمام پلانوں کا تعلق احتساب سے ہے، اسی لئے ہم نے برمحل جانتے ہوئے نڈھال صاحب پر اتنے صفحے کالے کر ڈالے ہیں حالانکہ عام حالات میں تو ہم سہواً بھی ان کا ذکر نہیں کرتے۔ انکا کہنا ہے کہ اس وقت پلان سی کارفرما ہے۔ اس کے تحت پاکستان کو لوٹنے والے تمام سیاسی اکابر کے فرنٹ مین یعنی گماشتوں کے گماشتوں کو احتساب کے پھندے میں پھانسا جا رہا ہے۔
پھر پلان بی پر عمل درآمد ہو گا جس کے تحت سارے فرنٹ مین دھر لیے جائیں گے۔ یہ درمیانے اور بڑے درجے کی وہ گندی مچھلیاں ہیں کہ جنہوں نے جل کو گندا ہی نہیں، خالی بھی کیا ہے۔ پھر آخر میں پلان اے حرکت میں آئے گا جس میں تمام سیاسی و سرکاری مگر مچھوں کو بقول نڈھال صاحب ''پوشلوں''(یعنی دُموں) سے پکڑ کر الٹا لٹکایا جائے گا۔ یہ وہ دور ہو گا جب سوئٹزر لینڈ، برطانیہ، امریکہ، چین، سپین، جنوبی افریقہ اور دبئی میں تعینات سفیر صبح، دوپہر شام انتہائی مصروف رہا کریں گے!
توجناب یہی وجہ ہے کہ پچھلے چند ہفتوں سے احتساب کے بازار میں ٹھیک ٹھاک گرمی نظر آنے لگی ہے۔ جہاں تک صوبہ سندھ کا تعلق ہے ما سوائے ایک بڑی مچھلی کے، کسی کو بھی معاف نہیں کیا جا رہا اور بڑی مچھلی کو بھی صرف سیاسی مصلحت کی وجہ سے ہی امان ہے، جونہی مصلحت کوشی کے بادل چھٹنے لگتے ہیں اس بیچاری کے ساتھ بھی وہی کچھ ہونے لگے گا جو آجکل اس کے ساتھیوں اور بہنوئیوں کے ساتھ ہوتا نظر آتا ہے۔
پنجاب کا ایک سابق اعلی افسر جو مبینہ طور پر تقریباً دس ایک ارب روپے کما کر اپنے درجات دنیا اور دوزخ دونوں میں ہی بلند کر چکا ہے، عنقریب احتساب کے لپیٹے میں آنے والا ہے۔ سنا ہے کہ 70کے عشرے میں یہ شخص خاصا خوش شکل اور سمارٹ ہوا کرتا تھا مگر آج یہ چربی اور گوشت کا پہاڑ بن چکا ہے۔ لگتا ہے اس نے 10ارب روپے کے عوض اپنی روح ہی نہیں، خوبصورتی بھی شیطان کے ہاتھ بیچ ڈالی ہے۔ بہر حال، اگر وہ خود اس ڈیل سے خوش اور مطمئن ہے تو پھر ہم بھلا کون ہوتے ہیں اس کے رنگ میں بھنگ ڈالنے والے، ہیں جی؟
احتساب بیورو کی اب تک کی کارکردگی بھی تقریباً وہی ہے جو ہاکی فیڈریشن آف پاکستان کی ہے۔ جس طرح چودھری شجاعت کی سرگوشی ہماری سمجھ میں نہیں آتی (ویسے وہ تو خود چودھری صاحب کی اپنی سمجھ میں بھی نہیں آتی ہو گی) بالکل اسی طرح ہمیں کبھی یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ احتساب بیورو کی منشائے پیدائش آخر ہے کیا۔ پورے ملک میں کرپٹ افسران کا میلہ مویشیاں لگا ہوا ہے مگرہم ہیں کہ آج تک کسی ایک کو بھی عبرت کا نشانہ نہیں بنا سکے۔ یعنی اس مفلس اور بدحال ملک کو اربوں ڈالر کی ''تھُک'' لگا کر بیرونی بینک بھرنے والے تقریباً اب تک ساڑھے چار سو افسران اور انکے شامل جرم برادران آج بھی دندناتے اور پاکستان کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں مگر ہمارا احتساب بیورو ان کی ہوا کو نہیں چھو سکا۔
ہماری اپنی اطلاع کے مطابق ایک صوبے کے چند وزیروں اورمشیروں نے اپنے گھروں اور خفیہ ٹھکانوں پر کئی کئی ملین ڈالرچھپا رکھے ہیں۔ بعض کیسوں میں یہ ملین نہیں بلکہ بلین ہیں۔ پچھلے چند ماہ کے دوران پاکستان سے اس زرِ حرام کے بڑے ذخائر بیرون ملک منتقل کرنے کے قبیح عمل میں خاصی تیزی آ گئی ہے۔ کبھی کھلے سمندر سے ڈالروں، ریالوں اور درہموں سے بھری لانچیں پکڑی گئیں تو کبھی اربوں مالیت سونے سے لدی کشتیاں قابو کی گئیں۔
دو وزیروں اور دو اہم شخصیات کے تالے توڑ کر روپے برآمد کئے گئے تو ایک مشہور ماڈل کی اٹیچی پھاڑ کر ڈالر نکالے گئے۔ حماقت اور معصومیت میں لتھڑی بیچاری یہ نیم پڑھی لکھی ماڈل اپنے اور ایک نہایت اہم سیاسی شخصیت بارے ایسے ایسے رونگٹے خیز بیان ریکارڈ کروا چکی ہے کہ جب طشت ازبام ہوئے تو یہ قصے بڑوں بڑوں کی بے پناہ ایمبرسمنٹ کا باعث بنیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ اہم شخصیت چند ہفتے قبل بوکھلاہٹ میں بات کرتے کرتے بھول ہی گئی کہ غصے میں کس حد تک پھنکارنا ہے!!
ہمارے دوست نڈھال صاحب دیکھنے میں تو ہٹے کٹے ہیں مگر تخلص نڈھال رکھا ہوا ہے۔ آپ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ موسیقار اور گائیک بھی ہیں۔ اپنے آپ کو پنجاب کا جون ایلیا کہتے ذرا نہیں شرماتے۔ افسو س کہ جون ایلیا آج ہم میں نہیں ہیں کیونکہ اگروہ ہوتے تو آج نڈھال صاحب کو ہم میں نہ رہنے دیتے۔
اپنے آپ کو گائیک بھی بڑا سمجھتے ہیں حالانکہ آواز آپکی مار خور بکرے جیسی ہے اور یہ بات ہم مار خور سے پیشگی معذرت کے ساتھ کہہ رہے ہیں۔ سنتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے آپ نے ایک مشہور مغنیہ عذرا جہاں کے ساتھ دو گانا گایا تھا۔ عذرا جہاں بیچاری اس کے بعد گانے سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے تائب ہو گئی جبکہ اس کے تمام سازندے اب کمانیوں کا کام کرتے ہیں۔
نڈھال صاحب کے بد شکل ہونے میں انکی ننھی منی آنکھوں کا بڑا دخل ہے۔ مگر آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اس قدر چھوٹی آنکھوں کے ساتھ بھی آپ بہت دور تک دیکھتے ہیں۔ قسمت کا حال اور ستاروں کی چال ایک موضوع ہے کہ جس پر بلا مبالغہ بارہ گھنٹے لگا تار بکواس کر سکتے ہیں۔ اسلام آباد کے سارے بے توکلے افسر اور سیاسی مچھندر ہمارے نڈھال صاحب کا پانی بھرتے ہیں۔ ہمیں انکی سیاسی پیش گوئیوں سے بھی اتنی ہی چڑ ہے جتنی کہ انکی شاعری اور موسیقی سے، مگر یہ بات ہمیں ہمیشہ ورطہ حیرت میں ڈالے رکھتی ہے کہ انکی یہ پیش گوئیاں عام طور پر ٹھیک ثابت ہوتی ہیں۔
موصوف آج کل اٹھتے بیٹھتے کسی پر اسرار سے پلان اے، بی اور سی کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ چونکہ بقول انکے، ان تمام پلانوں کا تعلق احتساب سے ہے، اسی لئے ہم نے برمحل جانتے ہوئے نڈھال صاحب پر اتنے صفحے کالے کر ڈالے ہیں حالانکہ عام حالات میں تو ہم سہواً بھی ان کا ذکر نہیں کرتے۔ انکا کہنا ہے کہ اس وقت پلان سی کارفرما ہے۔ اس کے تحت پاکستان کو لوٹنے والے تمام سیاسی اکابر کے فرنٹ مین یعنی گماشتوں کے گماشتوں کو احتساب کے پھندے میں پھانسا جا رہا ہے۔
پھر پلان بی پر عمل درآمد ہو گا جس کے تحت سارے فرنٹ مین دھر لیے جائیں گے۔ یہ درمیانے اور بڑے درجے کی وہ گندی مچھلیاں ہیں کہ جنہوں نے جل کو گندا ہی نہیں، خالی بھی کیا ہے۔ پھر آخر میں پلان اے حرکت میں آئے گا جس میں تمام سیاسی و سرکاری مگر مچھوں کو بقول نڈھال صاحب ''پوشلوں''(یعنی دُموں) سے پکڑ کر الٹا لٹکایا جائے گا۔ یہ وہ دور ہو گا جب سوئٹزر لینڈ، برطانیہ، امریکہ، چین، سپین، جنوبی افریقہ اور دبئی میں تعینات سفیر صبح، دوپہر شام انتہائی مصروف رہا کریں گے!