پولیس سروس کا پہلا پڑاؤ … سبی
بہت سے قارئین میل اور میسج کے ذریعے اصرار کرتے ہیں کہ کالم میں اپنی سروس کے واقعات لکھوں۔
بہت سے قارئین میل اور میسج کے ذریعے اصرار کرتے ہیں کہ کالم میں اپنی سروس کے واقعات لکھوں۔ لہٰذا ان کی خواہش کے آگے سر تسلیمِ خم کرتے ہوئے بتیس سالہ پولیس سروس کے کچھ واقعات اور یادیں گاہے بہ گاہے قارئین کے ساتھ شیئر کرتا رہونگا۔
فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے زیرِاہتمام CSS کے امتحان کے بعد پولیس اور ڈی ایم جی کے لیے منتخب ہونے والے افسران کی خدمات مختلف صوبوں کے سپرد کردی جاتی ہیں۔ ہماری دفعہ مقابلے کے امتحان کے ذریعے مجھ سمیت صرف پانچ لوگ پولیس سروس کے لیے منتخب ہوئے ۔
جنرل ضیاالحق نے دیہی سندھ، بلوچستان اور فاٹا کے لیے ایک اسپیشل امتحان منعقد کراکے انھیں سپیرئر سروسز میں ڈیڑھ دو سوکے قریب مزید اسامیاں دے دیں ۔ اس اسپیشل امتحان کے ذریعے سات لوگ مزید پولیس میں آئے اور اسطرح گیارہویں کامن میں پولیس گروپ بارہ افراد پرمشتمل تھا(اسپیشل امتحان کے ذریعے آنے والے زیادہ تر لوگ خاصے عمر رسیدہ تھے اکثر پانچ پانچ سات سات بچوں کے باپ تھے اس لیے ٹریننگ اکیڈیمی میں بھی وہ خانگی اور دیگر نفسیاتی مسائل میں گھرے رہتے تھے)۔
جن میں سے پانچ کی خدمات بلوچستان کے سپرد کردی گئیں۔ صوبہ بلوچستان جانے والے اُن پانچ زیرِتربیت افسروں (Probationers)کو 'مظلومین کا ٹولہ' قرار دیا گیا۔ ان مظلومین میں ایک راقم بھی تھا۔ یہ جان کر کہ اب پولیس کپتانی اُس دور دراز علاقے میں ہوگی جہاں کسی عزیزرشتے داریا دوست کا آنا جانامحال ہے، سارے ارمانوں پر ٹھنڈا یخ پانی پڑگیا۔
سول سروسز اکیڈیمی اور پولیس کالج سہالہ کی ٹریننگ کے بعد عملی تربیّت کے لیے بلوچستان جانے کا وقت آیا تو مورال قدرے ڈاؤن تھا ماموں جان (جسٹس محمد افضل چیمہ مرحوم) مجھے اسلام آباد ایئرپورٹ پر چھوڑنے آئے اورراستے اورلاؤنج میں سارا وقت Morale boostingکرتے رہے۔ کوئٹہ ایئرپورٹ پر پولیس کے ایک بڑے اسمارٹ افسر نے استقبال کیا، باہر چمکتی ہوئی جیپ کھڑی تھی وہاں پہنچے تو ڈرائیور اور گن مین نے ایسا زبردست سیلیوٹ کیا کہ لطف آگیا اور پولیس سروس میں شامل ہونے پر کچھ فخربھی محسوس ہونے لگا ۔
کوئٹہ میں پہلی call onمیٹنگ ایس ایس پی کوئٹہ ملک محمد اشرف (مرحوم) کے ساتھ تھی، وہ نوجوان افسروں کو بددل کرناغالباً اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے تھے۔لہٰذا اس سلسلے میں انھوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پہلی ملاقات میںہی فرمانے لگے کہ "پولیس میں ترقّی کا عمل بہت سست ہے، اس لیے آپ لوگ شاید ایس پی کے طور پرہی ریٹائر ہوجائیں" کچھ کولیگ بہت مایوس ہوئے مگر میں نے بزرگوں کی حوصلہ افزاء باتوں کے بعد مایوس ہونا چھوڑ دیا تھا بلکہ دوسروں کو حوصلہ دینے کا فریضہ سنبھال لیا تھا۔
فروری 1985 کے یہ چند روز (جب کہ کوئٹہ کا موسم بھی بہت خوشگوار تھا) خوب گزرے ۔ مختلف سروسز کے بہت سے دوست کوئٹہ میں تعینات تھے یا ٹریننگ کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے، ہر روزکسی نہ کسی دوست کی طرف سے کھانے کی دعوت ہوتی۔شام کو جناح روڈ پر ونڈو شاپنگ ہوتی جہاں ایک اسٹور پر نواب اکبربگٹی مرحوم بیٹھے ہوتے۔ کبھی کبھار ان سے بھی گپ شپ ہو جاتی۔ چند روز بعد ہمیںصوبے کے آئی جی سعادت علی شاہ (مرحوم) سے ملایا گیا۔
بڑے اعلیٰ پائے کے افسر تھے، ہم سن چکے تھے کہ چندروزپہلے گورنر بلوچستان جنرل رحیم الدین (مارشل لاء کے دور میں صوبوں کے چیف ایگزیکٹیو گورنر ہوتے تھے)نے کسی تقریب میں پولیس کے بارے میں توہین آمیز کلمات کہے تو آئی جی صاحب احتجاجاً اٹھ کر چلے گئے اور جاکر اپنا استعفٰی بھجوادیا۔بعد میں گورنر نے معذرت کی۔ بدقسمتی سے اب بڑے افسروں کو اپنی اور فورس کی عزّت سے زیادہ نوکریوں اور عہدوں سے پیار ہے اس لیے اب اصولوں پر اختلاف کرنے کی روایت دم توڑ رہی ہے۔
آئی جی صاحب سے ملاقات بڑی اچھی رہی، انھوں نے سروس کے بارے میں بڑی اچھی نصیحتیں کیں اور پرچیوں کے ذریعے ہم پانچوں کو عملی تربیّت(on the job Training) کے لیے مختلف ضلعے الاٹ کردیے۔ قسمت نے یہاں بھی ساتھ نہ دیا اور کسی ٹھنڈی جگہ کے بجائے مجھے ضلع سبی الاٹ ہوایا میں سبی کو الاٹ ہوگیا۔ ایک دوسرے کولیگ کو نصیرآباد مل گیا۔ کوئٹہ سے سبی اور نصیرآباد کیطرف چلے تو دور دور تک کوئی انسانی بستی یا ذی روح نظر نہ آیا۔
بے آب وگیاہ کے معنی اس سفر میں سمجھ آئے۔ فروری کا اوائل تھا کوئٹہ میںموسم ٹھنڈا اور خوشگوار تھا سبی کے قریب پہنچے تو سبی پولیس کی گاڑی لینے آئی ہوئی تھی جس میںبیٹھنے کے لیے میں نیچے اترا تو چند لمحوں میں ہی گرمی نے اپنا آپ محسوس کرادیا۔سبی میں فروری کی وہ تپش مجھے آج بھی یاد ہے۔ ڈرائیور نے بتایا کہ سب سے پہلے پولیس ریسٹ ہاؤس چلیں گے۔ کچھ دیر بعد پلستر سے بے نیاز دو کمروں کی ایک چھوٹی سی عمارت کے صحن میں گاڑی ایک دھچکے کے ساتھ کھڑی ہوگئی تو ڈرائیورنے کہا "صاحب اتریں ریسٹ ہاؤس آگیا ہے "گاڑی سے زیادہ دل کو دھچکا لگا، نیچے اتر کر دیکھا تو دو افراد صحن میں لگی بیریوں کے بیر چُن رہے تھے۔
ڈرائیور نے انھیں 'مہمان' کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ اپنے کام میں مگن رہے کچھ دیر بعد وہ اٹھے اور ایک نے ہاتھ آگے کیا میں نے مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو اس نے کہا "بیر کھائیے میں یہاں ڈی ایس پی ہیڈکواٹر ہوں۔ ایس پی صاحب بھی یہیں تھے"۔" یعنی وہ بھی بیر چننے آئے تھے؟ " میرے استفسار پر انھوں نے اثبات میں سرہلاتے ہوئے کہا "بیرخوری کے وہ بھی شوقین ہیں کیونکہ یہاں کابیر بڑا لذیذ اور میٹھاہے" گفتگوزیادہ تر بیر اور بیری کے گرد گومتی رہی ۔
ان کی رخصتی کے بعد میں کمرے میں آگیا۔ نہانے کے لیے باتھ روم گیا، ٹونٹی کھولی تو جلتے ہوئے پانی نے ہاتھ اسطرح جلادیے کہ تاثیر روح تک سرایت کر گئی(وہ جلن بھی آج تک یاد ہے) میں تڑپ کر پیچھے ہٹا اور صحن میں بیری کی چھاؤں تلے آگیا ریسٹ ہاؤس کا ملازم بھی آپہنچاجس نے پہلے ایک شعر سنایا اور پھر ایک مشورہ دیا ۔ مجھے دونوں آجتک نہیں بھول سکے۔ علاقے کی گرمی کے بارے میں کسی شاعر کا یہ مشہورشعرسب سے پہلے سبی کے پولیس ریسٹ ہاؤس میں ہی سنا تھا کہ سبی و ڈاڈر ساختی۔۔ دوزخ چرا پر داختی(اے اﷲ سبی اور ڈاڈر (سبی کا ہمسایہ شہر) جو بنادیے توپھردوزخ بنانے کی کیا ضرورت تھی )۔ وہاں رہ کر اس کے مشورے پر ہمیشہ عمل کیا اور مٹی کا مٹکا باتھ روم میں رکھوا دیا۔
اسے پانی سے بھر دیا جاتا تھا اور اسی پانی سے میں نہایا کرتا تھا۔ ٹونٹی کے پانی کو ہاتھ لگانے کی پھرکبھی ہمت نہ کرسکا۔ کمرے یا دفتر میں اے سی کا کوئی تصوّر نہیں تھا۔ رات کو لوڈشیڈنگ بھی ہوتی تھی۔ پنکھا بندہوتا تو میں لُو کی دعا مانگتے ہوئے پک اپ (جو مجھے الاٹ کی گئی تھی) لے کر سڑک پر نکل جاتااور گرم ہوا سے پسینہ سکھاتا۔ ایس پی صاحب رینکر تھے اور شریف آدمی تھے، صرف ان کی جیپ میں اے سی تھا وہ گشت کے وقت ٹھنڈی گاڑی میں کبھی مجھے بھی ساتھ بٹھالیتے تو ٹھنڈک کے باعث وقت اچھا گزر جاتا۔ چند روز بعد سبی کا تاریخی میلہ منعقد ہونا تھا۔ پہلے روز گورنر اور آخری روز صدر ضیاالحق مہمانِ خصوصی تھے۔
سیکیورٹی کے انتظامات میں میں بھی پوری طرحinvolve رہا۔ اس لیے VVIPکی سیکیورٹی کے بارے میں بڑی اچھی ٹریننگ ہوئی۔یہ تاریخی میلہ ایک بہت بڑی ثقافتی تقریب کے علاوہ کاروباری اور اقتصادی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ میلے میںبہت رونق ہوتی ہے اور غریب اور پسماندہ علاقے کے لوگ بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔
امن وامان اور سیکیورٹی کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ میں ہر روز سبی کے اکلوتے پولیس اسٹیشن بھی جاتااور وہاں جاکر تھانے کا کام سیکھتا۔ ایک مہینے کے بعد شہر کے ڈی ایس پی کا تبادلہ ہوگیا تو اس کا چارج مجھے دے دیا گیادوسرے لفظوں میںمیری ٹریننگ ختم ہوگئی اور میںباقاعدہ سب ڈویژنل پولیس آفیسر کے تمام فرائض انجام دینے لگا۔ سبی ڈویژنل ہیڈکواٹر تھا ضلع سبی کے ایس پی صاحب واجبی تعلیم کے باعث محدود ویژن کے مالک تھے مگرڈی آئی جی کرنل (ر) راجہ محمد اسلم بڑے قابل، بااصول اور بہت پڑھے لکھے آدمی تھے میرا زیادہ وقت انھی کے ساتھ گزرنے لگا اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔
ایک روز مجھے "خفیہ ذرایع" سے اطلاع ملی کہ ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین نے سرکاری ریسٹ ہاؤس کو غیرقانونی اور غیراخلاقی سرگرمیوں کا اڈہ بنا لیا ہے۔ چناچہ رات کو میں نے ریڈ کیا اور غیرقانونی سرگرمیوں میں مصروف چیئرمین کوگرفتارکر لیا،ہر طرف شور مچ گیا ایس پی صاحب کا فون آیاکہ "چیئرمین صاحب معزّز آدمی ہیں اور گورنر صاحب کے بھی قریب ہیںانھیں گرفتار کرنا مناسب نہیںانھیں فوراً چھوڑ دیں "۔
میں نے کہا" سر!اسی جرم میں ہم عام آدمیوں کو ہر روز گرفتار کرتے ہیں اور یہی جرم کرتے ہوئے با اثر شخص پکڑا جائے تو اسے چھوڑ دیں میرا ضمیر اس کی اجازت نہیں دیتا" ایس پی صاحب تجربہ کار تھے جذبات میں آئے بغیرکہنے لگے" خیر ہے اس کی اجازت آپ کا ضمیر نہیں میرا ضمیر دے رہا ہے"۔ میں نے ملزم کو تھانے بھیج کر ڈی آئی جی صاحب سے بات کی تو انھوں نے کہا "آپ نے اپنا فرض ادا کردیا ہے اب آپ کو ایس پی کے ساتھ الجھنے کی ضرورت نہیں"۔ اسطرح پولیسنگ اور انتظامی امور کی "عملی حقیقتوں"یا مجبوریوں کاتجربہ بھی ہونے لگا۔تجربے کا واقعی کوئی نعم البدل نہیں۔
ملک کے دوسرے شہروں کی طرح سبی کے نوجوان بھی منشیات جیسی لعنت کا شکار ہوچکے تھے، معلوم ہوا کہ نئی نسل کو موت کی دلدل میں دھکیلنے والے گلیوں اور محلّوں میں منشیات کی پڑُیاں اور گولیاں بیچتے ہیں اور وہ یہ مال منشیات کے گرو کالو سے لیتے ہیں جو شہر کا سب سے بڑا منشیات فروش ہے۔
اسے اس لیے نہیں پکڑا جاتا کہ وہ نوجوانوں کو ھیروئن اور پولیس کورشوت دیتا ہے، ایک دوبار میں نے ماہانہ کرائم میٹنگ میں ایس پی صاحب سے اس کا ذکرکیامگر نتیجہ کچھ نہ نکلا اور شہر میں منشیات فروشی کا دھندہ چلتا رہا۔ اس پر میں نے اپنے اردلی کے ذریعے کالو کی ریکی کرائی اور عین اسوقت اسے جا پکڑا جب وہ اپنے گاہکوں کو ھیروئن فروخت کررہا تھا۔ اس کی دکان سے کافی مقدار میں منشیات برآمد ہوئیں۔ ہتھکڑیاں لگاکر بدنام منشیات فروش کو لے کر میں ایس پی صاحب کے دفتر میںداخل ہوا تو وہاں دیگر پولیس افسر بھی بیٹھے ہوئے تھے۔
میں نے سلیوٹ کیا اور کہا کہ" سر! یہ رہا کالو جسے پولیس پکڑنے سے کتراتی تھی"۔ تمام پولیس افسروں کو سانپ سونگھ گیا پھر ایس پی صاحب نے سب کو (جھوٹ موٹ) لعن طعن کی۔ گزشتہ روز میں ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹربرگیڈیئر ظفر حیات صاحب سے جاکر ملا۔ برگیڈیئر صاحب شام کو اسی کلب میںٹینس کھیلنے آتے تھے جہاں میں کھیلتا تھا۔
میں نے کالو کے جرائم کی فہرست پیش کی تو کہنے لگے، "I know you and I trust you. Don't worry he will be sorted out" (میں تمہیں جانتا ہوں اور مجھے تم پر اعتماد ہے فکر نہ کرو اس کا موثّر علاج کیا جائے گا) چند روز بعد ا سکا ٹرائل ہوگیا اور ٹھیک ایک مہینے بعد ہائی اسکول کی گراؤنڈ میں سبی کے ہزاروں لوگوں نے علاقے کے سب سے بڑے منشیات فروش کو کوڑے لگتے ہوئے دیکھاجسکے بعد کئی سال تک سبی میں منشیات بکنی بند ہوگئی۔
فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے زیرِاہتمام CSS کے امتحان کے بعد پولیس اور ڈی ایم جی کے لیے منتخب ہونے والے افسران کی خدمات مختلف صوبوں کے سپرد کردی جاتی ہیں۔ ہماری دفعہ مقابلے کے امتحان کے ذریعے مجھ سمیت صرف پانچ لوگ پولیس سروس کے لیے منتخب ہوئے ۔
جنرل ضیاالحق نے دیہی سندھ، بلوچستان اور فاٹا کے لیے ایک اسپیشل امتحان منعقد کراکے انھیں سپیرئر سروسز میں ڈیڑھ دو سوکے قریب مزید اسامیاں دے دیں ۔ اس اسپیشل امتحان کے ذریعے سات لوگ مزید پولیس میں آئے اور اسطرح گیارہویں کامن میں پولیس گروپ بارہ افراد پرمشتمل تھا(اسپیشل امتحان کے ذریعے آنے والے زیادہ تر لوگ خاصے عمر رسیدہ تھے اکثر پانچ پانچ سات سات بچوں کے باپ تھے اس لیے ٹریننگ اکیڈیمی میں بھی وہ خانگی اور دیگر نفسیاتی مسائل میں گھرے رہتے تھے)۔
جن میں سے پانچ کی خدمات بلوچستان کے سپرد کردی گئیں۔ صوبہ بلوچستان جانے والے اُن پانچ زیرِتربیت افسروں (Probationers)کو 'مظلومین کا ٹولہ' قرار دیا گیا۔ ان مظلومین میں ایک راقم بھی تھا۔ یہ جان کر کہ اب پولیس کپتانی اُس دور دراز علاقے میں ہوگی جہاں کسی عزیزرشتے داریا دوست کا آنا جانامحال ہے، سارے ارمانوں پر ٹھنڈا یخ پانی پڑگیا۔
سول سروسز اکیڈیمی اور پولیس کالج سہالہ کی ٹریننگ کے بعد عملی تربیّت کے لیے بلوچستان جانے کا وقت آیا تو مورال قدرے ڈاؤن تھا ماموں جان (جسٹس محمد افضل چیمہ مرحوم) مجھے اسلام آباد ایئرپورٹ پر چھوڑنے آئے اورراستے اورلاؤنج میں سارا وقت Morale boostingکرتے رہے۔ کوئٹہ ایئرپورٹ پر پولیس کے ایک بڑے اسمارٹ افسر نے استقبال کیا، باہر چمکتی ہوئی جیپ کھڑی تھی وہاں پہنچے تو ڈرائیور اور گن مین نے ایسا زبردست سیلیوٹ کیا کہ لطف آگیا اور پولیس سروس میں شامل ہونے پر کچھ فخربھی محسوس ہونے لگا ۔
کوئٹہ میں پہلی call onمیٹنگ ایس ایس پی کوئٹہ ملک محمد اشرف (مرحوم) کے ساتھ تھی، وہ نوجوان افسروں کو بددل کرناغالباً اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے تھے۔لہٰذا اس سلسلے میں انھوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پہلی ملاقات میںہی فرمانے لگے کہ "پولیس میں ترقّی کا عمل بہت سست ہے، اس لیے آپ لوگ شاید ایس پی کے طور پرہی ریٹائر ہوجائیں" کچھ کولیگ بہت مایوس ہوئے مگر میں نے بزرگوں کی حوصلہ افزاء باتوں کے بعد مایوس ہونا چھوڑ دیا تھا بلکہ دوسروں کو حوصلہ دینے کا فریضہ سنبھال لیا تھا۔
فروری 1985 کے یہ چند روز (جب کہ کوئٹہ کا موسم بھی بہت خوشگوار تھا) خوب گزرے ۔ مختلف سروسز کے بہت سے دوست کوئٹہ میں تعینات تھے یا ٹریننگ کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے، ہر روزکسی نہ کسی دوست کی طرف سے کھانے کی دعوت ہوتی۔شام کو جناح روڈ پر ونڈو شاپنگ ہوتی جہاں ایک اسٹور پر نواب اکبربگٹی مرحوم بیٹھے ہوتے۔ کبھی کبھار ان سے بھی گپ شپ ہو جاتی۔ چند روز بعد ہمیںصوبے کے آئی جی سعادت علی شاہ (مرحوم) سے ملایا گیا۔
بڑے اعلیٰ پائے کے افسر تھے، ہم سن چکے تھے کہ چندروزپہلے گورنر بلوچستان جنرل رحیم الدین (مارشل لاء کے دور میں صوبوں کے چیف ایگزیکٹیو گورنر ہوتے تھے)نے کسی تقریب میں پولیس کے بارے میں توہین آمیز کلمات کہے تو آئی جی صاحب احتجاجاً اٹھ کر چلے گئے اور جاکر اپنا استعفٰی بھجوادیا۔بعد میں گورنر نے معذرت کی۔ بدقسمتی سے اب بڑے افسروں کو اپنی اور فورس کی عزّت سے زیادہ نوکریوں اور عہدوں سے پیار ہے اس لیے اب اصولوں پر اختلاف کرنے کی روایت دم توڑ رہی ہے۔
آئی جی صاحب سے ملاقات بڑی اچھی رہی، انھوں نے سروس کے بارے میں بڑی اچھی نصیحتیں کیں اور پرچیوں کے ذریعے ہم پانچوں کو عملی تربیّت(on the job Training) کے لیے مختلف ضلعے الاٹ کردیے۔ قسمت نے یہاں بھی ساتھ نہ دیا اور کسی ٹھنڈی جگہ کے بجائے مجھے ضلع سبی الاٹ ہوایا میں سبی کو الاٹ ہوگیا۔ ایک دوسرے کولیگ کو نصیرآباد مل گیا۔ کوئٹہ سے سبی اور نصیرآباد کیطرف چلے تو دور دور تک کوئی انسانی بستی یا ذی روح نظر نہ آیا۔
بے آب وگیاہ کے معنی اس سفر میں سمجھ آئے۔ فروری کا اوائل تھا کوئٹہ میںموسم ٹھنڈا اور خوشگوار تھا سبی کے قریب پہنچے تو سبی پولیس کی گاڑی لینے آئی ہوئی تھی جس میںبیٹھنے کے لیے میں نیچے اترا تو چند لمحوں میں ہی گرمی نے اپنا آپ محسوس کرادیا۔سبی میں فروری کی وہ تپش مجھے آج بھی یاد ہے۔ ڈرائیور نے بتایا کہ سب سے پہلے پولیس ریسٹ ہاؤس چلیں گے۔ کچھ دیر بعد پلستر سے بے نیاز دو کمروں کی ایک چھوٹی سی عمارت کے صحن میں گاڑی ایک دھچکے کے ساتھ کھڑی ہوگئی تو ڈرائیورنے کہا "صاحب اتریں ریسٹ ہاؤس آگیا ہے "گاڑی سے زیادہ دل کو دھچکا لگا، نیچے اتر کر دیکھا تو دو افراد صحن میں لگی بیریوں کے بیر چُن رہے تھے۔
ڈرائیور نے انھیں 'مہمان' کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ اپنے کام میں مگن رہے کچھ دیر بعد وہ اٹھے اور ایک نے ہاتھ آگے کیا میں نے مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو اس نے کہا "بیر کھائیے میں یہاں ڈی ایس پی ہیڈکواٹر ہوں۔ ایس پی صاحب بھی یہیں تھے"۔" یعنی وہ بھی بیر چننے آئے تھے؟ " میرے استفسار پر انھوں نے اثبات میں سرہلاتے ہوئے کہا "بیرخوری کے وہ بھی شوقین ہیں کیونکہ یہاں کابیر بڑا لذیذ اور میٹھاہے" گفتگوزیادہ تر بیر اور بیری کے گرد گومتی رہی ۔
ان کی رخصتی کے بعد میں کمرے میں آگیا۔ نہانے کے لیے باتھ روم گیا، ٹونٹی کھولی تو جلتے ہوئے پانی نے ہاتھ اسطرح جلادیے کہ تاثیر روح تک سرایت کر گئی(وہ جلن بھی آج تک یاد ہے) میں تڑپ کر پیچھے ہٹا اور صحن میں بیری کی چھاؤں تلے آگیا ریسٹ ہاؤس کا ملازم بھی آپہنچاجس نے پہلے ایک شعر سنایا اور پھر ایک مشورہ دیا ۔ مجھے دونوں آجتک نہیں بھول سکے۔ علاقے کی گرمی کے بارے میں کسی شاعر کا یہ مشہورشعرسب سے پہلے سبی کے پولیس ریسٹ ہاؤس میں ہی سنا تھا کہ سبی و ڈاڈر ساختی۔۔ دوزخ چرا پر داختی(اے اﷲ سبی اور ڈاڈر (سبی کا ہمسایہ شہر) جو بنادیے توپھردوزخ بنانے کی کیا ضرورت تھی )۔ وہاں رہ کر اس کے مشورے پر ہمیشہ عمل کیا اور مٹی کا مٹکا باتھ روم میں رکھوا دیا۔
اسے پانی سے بھر دیا جاتا تھا اور اسی پانی سے میں نہایا کرتا تھا۔ ٹونٹی کے پانی کو ہاتھ لگانے کی پھرکبھی ہمت نہ کرسکا۔ کمرے یا دفتر میں اے سی کا کوئی تصوّر نہیں تھا۔ رات کو لوڈشیڈنگ بھی ہوتی تھی۔ پنکھا بندہوتا تو میں لُو کی دعا مانگتے ہوئے پک اپ (جو مجھے الاٹ کی گئی تھی) لے کر سڑک پر نکل جاتااور گرم ہوا سے پسینہ سکھاتا۔ ایس پی صاحب رینکر تھے اور شریف آدمی تھے، صرف ان کی جیپ میں اے سی تھا وہ گشت کے وقت ٹھنڈی گاڑی میں کبھی مجھے بھی ساتھ بٹھالیتے تو ٹھنڈک کے باعث وقت اچھا گزر جاتا۔ چند روز بعد سبی کا تاریخی میلہ منعقد ہونا تھا۔ پہلے روز گورنر اور آخری روز صدر ضیاالحق مہمانِ خصوصی تھے۔
سیکیورٹی کے انتظامات میں میں بھی پوری طرحinvolve رہا۔ اس لیے VVIPکی سیکیورٹی کے بارے میں بڑی اچھی ٹریننگ ہوئی۔یہ تاریخی میلہ ایک بہت بڑی ثقافتی تقریب کے علاوہ کاروباری اور اقتصادی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ میلے میںبہت رونق ہوتی ہے اور غریب اور پسماندہ علاقے کے لوگ بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔
امن وامان اور سیکیورٹی کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ میں ہر روز سبی کے اکلوتے پولیس اسٹیشن بھی جاتااور وہاں جاکر تھانے کا کام سیکھتا۔ ایک مہینے کے بعد شہر کے ڈی ایس پی کا تبادلہ ہوگیا تو اس کا چارج مجھے دے دیا گیادوسرے لفظوں میںمیری ٹریننگ ختم ہوگئی اور میںباقاعدہ سب ڈویژنل پولیس آفیسر کے تمام فرائض انجام دینے لگا۔ سبی ڈویژنل ہیڈکواٹر تھا ضلع سبی کے ایس پی صاحب واجبی تعلیم کے باعث محدود ویژن کے مالک تھے مگرڈی آئی جی کرنل (ر) راجہ محمد اسلم بڑے قابل، بااصول اور بہت پڑھے لکھے آدمی تھے میرا زیادہ وقت انھی کے ساتھ گزرنے لگا اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔
ایک روز مجھے "خفیہ ذرایع" سے اطلاع ملی کہ ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین نے سرکاری ریسٹ ہاؤس کو غیرقانونی اور غیراخلاقی سرگرمیوں کا اڈہ بنا لیا ہے۔ چناچہ رات کو میں نے ریڈ کیا اور غیرقانونی سرگرمیوں میں مصروف چیئرمین کوگرفتارکر لیا،ہر طرف شور مچ گیا ایس پی صاحب کا فون آیاکہ "چیئرمین صاحب معزّز آدمی ہیں اور گورنر صاحب کے بھی قریب ہیںانھیں گرفتار کرنا مناسب نہیںانھیں فوراً چھوڑ دیں "۔
میں نے کہا" سر!اسی جرم میں ہم عام آدمیوں کو ہر روز گرفتار کرتے ہیں اور یہی جرم کرتے ہوئے با اثر شخص پکڑا جائے تو اسے چھوڑ دیں میرا ضمیر اس کی اجازت نہیں دیتا" ایس پی صاحب تجربہ کار تھے جذبات میں آئے بغیرکہنے لگے" خیر ہے اس کی اجازت آپ کا ضمیر نہیں میرا ضمیر دے رہا ہے"۔ میں نے ملزم کو تھانے بھیج کر ڈی آئی جی صاحب سے بات کی تو انھوں نے کہا "آپ نے اپنا فرض ادا کردیا ہے اب آپ کو ایس پی کے ساتھ الجھنے کی ضرورت نہیں"۔ اسطرح پولیسنگ اور انتظامی امور کی "عملی حقیقتوں"یا مجبوریوں کاتجربہ بھی ہونے لگا۔تجربے کا واقعی کوئی نعم البدل نہیں۔
ملک کے دوسرے شہروں کی طرح سبی کے نوجوان بھی منشیات جیسی لعنت کا شکار ہوچکے تھے، معلوم ہوا کہ نئی نسل کو موت کی دلدل میں دھکیلنے والے گلیوں اور محلّوں میں منشیات کی پڑُیاں اور گولیاں بیچتے ہیں اور وہ یہ مال منشیات کے گرو کالو سے لیتے ہیں جو شہر کا سب سے بڑا منشیات فروش ہے۔
اسے اس لیے نہیں پکڑا جاتا کہ وہ نوجوانوں کو ھیروئن اور پولیس کورشوت دیتا ہے، ایک دوبار میں نے ماہانہ کرائم میٹنگ میں ایس پی صاحب سے اس کا ذکرکیامگر نتیجہ کچھ نہ نکلا اور شہر میں منشیات فروشی کا دھندہ چلتا رہا۔ اس پر میں نے اپنے اردلی کے ذریعے کالو کی ریکی کرائی اور عین اسوقت اسے جا پکڑا جب وہ اپنے گاہکوں کو ھیروئن فروخت کررہا تھا۔ اس کی دکان سے کافی مقدار میں منشیات برآمد ہوئیں۔ ہتھکڑیاں لگاکر بدنام منشیات فروش کو لے کر میں ایس پی صاحب کے دفتر میںداخل ہوا تو وہاں دیگر پولیس افسر بھی بیٹھے ہوئے تھے۔
میں نے سلیوٹ کیا اور کہا کہ" سر! یہ رہا کالو جسے پولیس پکڑنے سے کتراتی تھی"۔ تمام پولیس افسروں کو سانپ سونگھ گیا پھر ایس پی صاحب نے سب کو (جھوٹ موٹ) لعن طعن کی۔ گزشتہ روز میں ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹربرگیڈیئر ظفر حیات صاحب سے جاکر ملا۔ برگیڈیئر صاحب شام کو اسی کلب میںٹینس کھیلنے آتے تھے جہاں میں کھیلتا تھا۔
میں نے کالو کے جرائم کی فہرست پیش کی تو کہنے لگے، "I know you and I trust you. Don't worry he will be sorted out" (میں تمہیں جانتا ہوں اور مجھے تم پر اعتماد ہے فکر نہ کرو اس کا موثّر علاج کیا جائے گا) چند روز بعد ا سکا ٹرائل ہوگیا اور ٹھیک ایک مہینے بعد ہائی اسکول کی گراؤنڈ میں سبی کے ہزاروں لوگوں نے علاقے کے سب سے بڑے منشیات فروش کو کوڑے لگتے ہوئے دیکھاجسکے بعد کئی سال تک سبی میں منشیات بکنی بند ہوگئی۔