’’راجہ گدھ‘‘ پر تازہ نظر…… پہلا حصہ
ایک اچھا ناول اپنے عہد کے سماج کا نہ صرف عکاس ہوتا ہے بلکہ معمار بھی ہوتا ہے
بانو قدسیہ کا ناول ''راجہ گدھ'' محبت میں ناکامی کا المیہ اور انسان کی ناآسودہ آرزوں کے نتیجے میں جنم لینے والی کیفیات کا خوبصورت موضوعاتی اظہار بھی ہے اور انسانی نفسیات پر خواہشات کے حصول میں ناکامی سے پیدا ہونے والی دیوانگی پر ایک مباحثہ بھی ہے، جس کی بنیاد میں شاید فرائڈ کی 'ان بیاہی خواہشات' کے نظریات کی گونج بھی سنائی دیتی ہے اور لاکاں کے بچوں کے حوالے سے 'دو لخت موضوع' کا تصور بھی پیوست دکھائی دیتا ہے، مگر ان نظریات کی بنیاد پر تعمیر ہونے والی بالائی عمارت مصنفہ کے اپنے سماج و ثقافت میں مروجہ مذہبی نظریات و عقائد پر مبنی ہے۔
ایک اچھا ناول اپنے عہد کے سماج کا نہ صرف عکاس ہوتا ہے بلکہ معمار بھی ہوتا ہے۔ راجہ گدھ کا مرکزی خیال اپنے سماج کی غالب فکر کا عکاس ہے۔ اس ناول کی پاکستان میں وسیع سطح پر پذیرائی ہوئی جس کی وجہ ایک طرف تو اس میں پائے جانے والے ان انسانی جذبات و احساسات کا اظہار ہے جو کسی کو چاہنے اور چاہے جانے کی خواہشات کے نتیجے میں اس عہد کے لوگوں کے دلوں میں پیدا ضرور تھے مگر جن کو کھل کر بیان کرنا اس عہد میں خصوصاََ خواتین کے لیے حقیقی زندگی میں شاید ممکن نہیں تھا، مگر ان کا بیان باعث کشش ضرور تھا، تو دوسری طرف مصنفہ کا اسلوب ہے جو نہ صرف جمالیات سے بھرپور ہے، بلکہ ذو معنی جملے مصنفہ کی لسان پر گرفت کا اظہار ہیں۔
اس ناول کا جمالیاتی پہلو بہت مضبوط ہے بہت سے اقتباسات اور فقرے ایسے ہیں جن کو قاری اس ناول کی قرات کے دوران بے ساختہ اپنی ڈائری میں نوٹ کرنے پر مجبور ہو جائے تا کہ کہیں ان کو کوٹ کر سکے۔ اس ناول کا مرکزی کردار ایک مرد ہے جس کے سہارے تمام خیالات کو ترسیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت کے سماج کا مصنفہ کے شعور پر دباؤ تھا کہ وہ اپنے سماج کے مروجہ قوانین کے خلاف ایک خاتون ہو کر مذہبی عقائد، محبت، مرد اور عورت کے جنسی تعلقات جیسے موضوعات کو بیان کرنے کے لیے تانیثی صیغہ استعمال کرتیں، مگر یہ بحث کرداروں کے ذریعے ناول میں مستحکم نہیں ہو سکی۔
جو کسی ناول کا مضبوط پہلو ہوتا ہے کہ ہر کردار عمل آراء ہو، بلکہ بہت سے واقعات اور انسانی تجربات ایک ہی کردار کے ذریعے اس طرح سے بیان کیے گئے ہیں کہ ناول میں پائے جانے والے باقی کردار فعال دکھائی نہیں دیتے۔ ناول کا مرکزی کردار قیوم دوسرے کرداروں کی کیفیات و احساسات کی ترجمانی اپنے حوالے سے ہی کرتا دکھائی دیتا ہے جو اس کردار کی موضوعی سوچ کا نتیجہ ہیں جو ایک بیانیہ رنگ لیے ہوئے ہے، دوسرے کردار اپنے آپ میں کیا ہیں۔
اس ناول میں یہ نہیں جانا جا سکتا کیونکہ یہ ناول اپنے اندرونی رشتوں کے تحت آگئے نہیں بڑھتا بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ناول کا مرکزی کردار جو درحقیقت مصنفہ کے خیالات کی ترسیل کا ذریعہ بھی ہے باقی تمام کرداروں کو اپنے کنٹرول میں رکھے ہوئے ہے اور باقی کرداروں پر اپنی سوچ کو مسلط کر کے ان کی فعالیت کو ناممکن بنا رہا ہے۔
اس طرح مصنفہ شاید ناول کو اپنی منطق کے تحت آگے بڑھنے نہیں دینا چاہتی، یعنی خود کولا مرکز نہیں ہونے دینا چاہتی، اسی لیے پورے ناول پر اپنی گرفت کو مضبوط رکھنے کی کوشش اس طرح سے کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ ناول ایک سوچ کے تحت آغاز ہوتا ہے اور اسی سوچ کے تحت انجام پاتا ہے۔
کہا یہ جاتا ہے کہ ایک اچھا ناول اپنے آپ میں آگئے بڑھتا ہوا مصنف کی گرفت سے باہر ہو جاتا ہے، مگر مصنف کی سوچ اور فکر اگر واضح ہو تو وہ اپنی گرفت کرداروں پر مضبوط رکھتا ہے اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ بانو قدسیہ نے اس ناول میں جو بیان کرنا چاہا تھا وہی بیان کیا ہے۔
اس ناول میں انسانی کرداروں کے ساتھ ساتھ بہت بامعنی کردار پرندوں کے ہیں جن کے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے مصنفہ خود کو ان پرندوں کے کرداروں میں ڈھالتی ہیں، ان کی سوچوں کو سوچتی ہیں اور ان کے انسانوں کے حوالے سے ممکنہ خیالات کو اس طرح پیش کرتی ہیں کہ کوئی منظر اسرار سے نہیں بھرتیں، بلکہ بیان کرتی ہیں ایک ایسی آواز بن کر جو سب کچھ بیان کر دینا چاہتی ہو۔
اس ناول کے ذریعے جو مرکزی خیال یا سوال بانو قدسیہ نے قارئین اور شارحین کے سامنے رکھا ہے وہ سرشت سے جڑا ہوا ہے، سرشت سے متعلق بحث یہ جاننے کی کوشش ہے کہ انسان کس حد تک کوئی اچھا یا برا عمل کرنے میں مختار ہے یا مجبور ہے، جیسا کہ بدنی یا روحانی حرام کا تصور اس میں پیش کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے بانو قدسیہ نے کھل کر انسانوں کے کردار پر بحث کرنے کی بجائے پرندوں کی دنیا کا سہارا لیا ہے جو گدھ کے دیوانے پن کو اس کے مردار کھانے کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور انسانوں کے مماثل قرار دیتے ہوئے، جنگل سے اس لیے نکال دینا چاہتے ہیں کہ گدھ کے مردار کھانے کا عمل درحقیقت محنت سے جی چرانے کا نتیجہ اور رزق کے حصول کا ایسا آسان ذریعہ ہے جو انسانوں ہی کی طرح گدھ نے شعوری طور پر اپنایا ہے۔
لہذا گدھ کا دیوانہ پن اس کی شعوری سرگرمی کے نتیجے میں مردار کھانے کی وجہ سے ہے اور یہ بھی انسانوں ہی کی طرح ان کی اپنی جنگل کی دنیا کے لیے تباہی کا باعث بنے گا بالکل اسی طرح جس طرح انسان عالمی جنگیں برپا کر کے اپنی دنیا کو تباہ کر ڈالا۔ اس طرح سے اس ناول کی مصنفہ شعور کی بھر پور مذمت کرتی دکھائی دیتی ہیں، کیونکہ راجہ گدھ دعوی کرتا ہے کہ کیسے اسے موت کا شعور ہوا اور موت کے شعور نے اس میں ایسا خوف پیدا کیا ۔
جس کے نتیجے میں وہ اونچی اُڑانیں بھر کر اپنا رزق تلاش کرنے کی بجائے شعور کو استعمال کرتے ہوئے رزق کے حصول کے آسان اور ناجائز ذرایع تلاش کرنے لگا۔ دیوانے پن یا پاگل پن کی اصل وجہ کبھی موت کے خوف کو گردانتی ہیں تو کبھی انسانی شعور کو استعمال کرتے ہوئے انسان کے اپنی خواہشات کے ناجائز ذرایع کو بروئے کار لانے والے عمل کو گردانتی ہیں۔
اس ناول میں ایک موضوعی نظریے کو پیش کیا گیا ہے اور شعور جس کی ہمارے سماج کو شاید اس لیے بہت ضرورت تھی کہ انسانی زندگی اور ہمارے سماج کی ترقی میں ایک معیاری جست لگ سکے۔
اس کی مذمت کی گئی ہے، مگر اس ناول میں عقل کو انسانی زندگی اور کائنات کی تباہی کی وجہ بنایا گیا ہے اور روحانیت یا مابعد الطبیعاتی فلسفوں کی حمایت کی گئی ہے۔، شعور اور دیوانگی ایک دوسرے کی ضد ہیں مگر مصنفہ انسانی تباہی میں کبھی شعوری فلسفوں کو موردِ الزام ٹھہراتی ہیں تو کبھی انسان کے اس دیوانے پن کو جو رزق حرام کا نتیجہ ہے، بالکل ان مغربی شارحین کی طرح جو سرد جنگ اور اسی کے تسلسل میں ہونے والی دہشت گردی کی جنگ کو امریکا اور روس کے تاریخی جنگی تعلقات کی شرح نفسیاتی تھیوریوں سے کرتے ہوئے امریکا کے بربریت بھرے اقدامات کو نفسیات کے مسائل سے جواز فراہم کرتے ہیں۔
(جاری ہے۔)
ایک اچھا ناول اپنے عہد کے سماج کا نہ صرف عکاس ہوتا ہے بلکہ معمار بھی ہوتا ہے۔ راجہ گدھ کا مرکزی خیال اپنے سماج کی غالب فکر کا عکاس ہے۔ اس ناول کی پاکستان میں وسیع سطح پر پذیرائی ہوئی جس کی وجہ ایک طرف تو اس میں پائے جانے والے ان انسانی جذبات و احساسات کا اظہار ہے جو کسی کو چاہنے اور چاہے جانے کی خواہشات کے نتیجے میں اس عہد کے لوگوں کے دلوں میں پیدا ضرور تھے مگر جن کو کھل کر بیان کرنا اس عہد میں خصوصاََ خواتین کے لیے حقیقی زندگی میں شاید ممکن نہیں تھا، مگر ان کا بیان باعث کشش ضرور تھا، تو دوسری طرف مصنفہ کا اسلوب ہے جو نہ صرف جمالیات سے بھرپور ہے، بلکہ ذو معنی جملے مصنفہ کی لسان پر گرفت کا اظہار ہیں۔
اس ناول کا جمالیاتی پہلو بہت مضبوط ہے بہت سے اقتباسات اور فقرے ایسے ہیں جن کو قاری اس ناول کی قرات کے دوران بے ساختہ اپنی ڈائری میں نوٹ کرنے پر مجبور ہو جائے تا کہ کہیں ان کو کوٹ کر سکے۔ اس ناول کا مرکزی کردار ایک مرد ہے جس کے سہارے تمام خیالات کو ترسیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت کے سماج کا مصنفہ کے شعور پر دباؤ تھا کہ وہ اپنے سماج کے مروجہ قوانین کے خلاف ایک خاتون ہو کر مذہبی عقائد، محبت، مرد اور عورت کے جنسی تعلقات جیسے موضوعات کو بیان کرنے کے لیے تانیثی صیغہ استعمال کرتیں، مگر یہ بحث کرداروں کے ذریعے ناول میں مستحکم نہیں ہو سکی۔
جو کسی ناول کا مضبوط پہلو ہوتا ہے کہ ہر کردار عمل آراء ہو، بلکہ بہت سے واقعات اور انسانی تجربات ایک ہی کردار کے ذریعے اس طرح سے بیان کیے گئے ہیں کہ ناول میں پائے جانے والے باقی کردار فعال دکھائی نہیں دیتے۔ ناول کا مرکزی کردار قیوم دوسرے کرداروں کی کیفیات و احساسات کی ترجمانی اپنے حوالے سے ہی کرتا دکھائی دیتا ہے جو اس کردار کی موضوعی سوچ کا نتیجہ ہیں جو ایک بیانیہ رنگ لیے ہوئے ہے، دوسرے کردار اپنے آپ میں کیا ہیں۔
اس ناول میں یہ نہیں جانا جا سکتا کیونکہ یہ ناول اپنے اندرونی رشتوں کے تحت آگئے نہیں بڑھتا بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ناول کا مرکزی کردار جو درحقیقت مصنفہ کے خیالات کی ترسیل کا ذریعہ بھی ہے باقی تمام کرداروں کو اپنے کنٹرول میں رکھے ہوئے ہے اور باقی کرداروں پر اپنی سوچ کو مسلط کر کے ان کی فعالیت کو ناممکن بنا رہا ہے۔
اس طرح مصنفہ شاید ناول کو اپنی منطق کے تحت آگے بڑھنے نہیں دینا چاہتی، یعنی خود کولا مرکز نہیں ہونے دینا چاہتی، اسی لیے پورے ناول پر اپنی گرفت کو مضبوط رکھنے کی کوشش اس طرح سے کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ ناول ایک سوچ کے تحت آغاز ہوتا ہے اور اسی سوچ کے تحت انجام پاتا ہے۔
کہا یہ جاتا ہے کہ ایک اچھا ناول اپنے آپ میں آگئے بڑھتا ہوا مصنف کی گرفت سے باہر ہو جاتا ہے، مگر مصنف کی سوچ اور فکر اگر واضح ہو تو وہ اپنی گرفت کرداروں پر مضبوط رکھتا ہے اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ بانو قدسیہ نے اس ناول میں جو بیان کرنا چاہا تھا وہی بیان کیا ہے۔
اس ناول میں انسانی کرداروں کے ساتھ ساتھ بہت بامعنی کردار پرندوں کے ہیں جن کے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے مصنفہ خود کو ان پرندوں کے کرداروں میں ڈھالتی ہیں، ان کی سوچوں کو سوچتی ہیں اور ان کے انسانوں کے حوالے سے ممکنہ خیالات کو اس طرح پیش کرتی ہیں کہ کوئی منظر اسرار سے نہیں بھرتیں، بلکہ بیان کرتی ہیں ایک ایسی آواز بن کر جو سب کچھ بیان کر دینا چاہتی ہو۔
اس ناول کے ذریعے جو مرکزی خیال یا سوال بانو قدسیہ نے قارئین اور شارحین کے سامنے رکھا ہے وہ سرشت سے جڑا ہوا ہے، سرشت سے متعلق بحث یہ جاننے کی کوشش ہے کہ انسان کس حد تک کوئی اچھا یا برا عمل کرنے میں مختار ہے یا مجبور ہے، جیسا کہ بدنی یا روحانی حرام کا تصور اس میں پیش کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے بانو قدسیہ نے کھل کر انسانوں کے کردار پر بحث کرنے کی بجائے پرندوں کی دنیا کا سہارا لیا ہے جو گدھ کے دیوانے پن کو اس کے مردار کھانے کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور انسانوں کے مماثل قرار دیتے ہوئے، جنگل سے اس لیے نکال دینا چاہتے ہیں کہ گدھ کے مردار کھانے کا عمل درحقیقت محنت سے جی چرانے کا نتیجہ اور رزق کے حصول کا ایسا آسان ذریعہ ہے جو انسانوں ہی کی طرح گدھ نے شعوری طور پر اپنایا ہے۔
لہذا گدھ کا دیوانہ پن اس کی شعوری سرگرمی کے نتیجے میں مردار کھانے کی وجہ سے ہے اور یہ بھی انسانوں ہی کی طرح ان کی اپنی جنگل کی دنیا کے لیے تباہی کا باعث بنے گا بالکل اسی طرح جس طرح انسان عالمی جنگیں برپا کر کے اپنی دنیا کو تباہ کر ڈالا۔ اس طرح سے اس ناول کی مصنفہ شعور کی بھر پور مذمت کرتی دکھائی دیتی ہیں، کیونکہ راجہ گدھ دعوی کرتا ہے کہ کیسے اسے موت کا شعور ہوا اور موت کے شعور نے اس میں ایسا خوف پیدا کیا ۔
جس کے نتیجے میں وہ اونچی اُڑانیں بھر کر اپنا رزق تلاش کرنے کی بجائے شعور کو استعمال کرتے ہوئے رزق کے حصول کے آسان اور ناجائز ذرایع تلاش کرنے لگا۔ دیوانے پن یا پاگل پن کی اصل وجہ کبھی موت کے خوف کو گردانتی ہیں تو کبھی انسانی شعور کو استعمال کرتے ہوئے انسان کے اپنی خواہشات کے ناجائز ذرایع کو بروئے کار لانے والے عمل کو گردانتی ہیں۔
اس ناول میں ایک موضوعی نظریے کو پیش کیا گیا ہے اور شعور جس کی ہمارے سماج کو شاید اس لیے بہت ضرورت تھی کہ انسانی زندگی اور ہمارے سماج کی ترقی میں ایک معیاری جست لگ سکے۔
اس کی مذمت کی گئی ہے، مگر اس ناول میں عقل کو انسانی زندگی اور کائنات کی تباہی کی وجہ بنایا گیا ہے اور روحانیت یا مابعد الطبیعاتی فلسفوں کی حمایت کی گئی ہے۔، شعور اور دیوانگی ایک دوسرے کی ضد ہیں مگر مصنفہ انسانی تباہی میں کبھی شعوری فلسفوں کو موردِ الزام ٹھہراتی ہیں تو کبھی انسان کے اس دیوانے پن کو جو رزق حرام کا نتیجہ ہے، بالکل ان مغربی شارحین کی طرح جو سرد جنگ اور اسی کے تسلسل میں ہونے والی دہشت گردی کی جنگ کو امریکا اور روس کے تاریخی جنگی تعلقات کی شرح نفسیاتی تھیوریوں سے کرتے ہوئے امریکا کے بربریت بھرے اقدامات کو نفسیات کے مسائل سے جواز فراہم کرتے ہیں۔
(جاری ہے۔)