کتوں نے جب دوڑ لگائی
اس ملک کے ہر صوبے کی گلیوں، محلوں اور گھروں کی کہانی ایک جیسی ہے
اس ملک کے ہر صوبے کی گلیوں، محلوں اور گھروں کی کہانی ایک جیسی ہے۔ یہاں ہر گھر کے دروازے پر غربت اور جہالت دستک نہیں دیتی بلکہ صدیوں سے ان کے دلوں میں آباد ہیں۔ یہ اپنے دشمن خود ہیں جنھوں نے اپنی عقل پر تالے لگا دیے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ان سے بڑا ہوشیار، عقلمند اور دانا کوئی بھی نہیں ہے۔ آئیے آپ کو پورے ملک کی سیر کراتا ہوں۔ دیکھیے، سندھ ہو یا پنجاب، خیبر پختونخوا ہو یا پھر بلوچستان، وہاں کی ہر گلی اور ہر محلے میں ایک جیسی کہانیاں ملے گی۔ پھر فیصلہ کیجیے کہ ہم سیاست اور سماج کے حوالے سے دنیا میں کہاں کھڑے ہیں۔
یہ کہانی ایک معصوم سی عائشہ کی ہے۔ جس نے اپنی زندگی کی سات بہاریں دیکھی تھی۔ ماں باپ کو اپنی جان سے زیادہ عزیز تھی۔ اور اپنی بھولی بھالی باتوں کی وجہ سے پورے محلے کی آنکھوں کا تارا تھی۔ محلے کے سب لوگ اسے پیار کرتے تھے۔ جب سے اس نے بولنا شروع کیا تھا تو اپنی توتلی زبان میں اس کی میٹھی میٹھی باتیں سب کا دل جیت لیتی تھیں۔
اسد کی یہ بیٹی، اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھی۔ اپنی ماں سے جب ناراض ہو جاتی تو چھوٹی چھوٹی باتوں کی شکایت اپنے ابو سے کرتی۔ زندگی کا پہیہ آہستہ آہستہ اپنی منزل کی طرف جا رہا تھا۔ ابھی چھوٹی سی تھی لیکن اسد اور اس کی بیوی کو یہ فکر رہتی کہ ابھی دیکھتے ہی دیکھتے یہ بڑی ہو جائے گی اور پھر ہمیں اس کی شادی کی فکر کرنا ہو گی۔ ماں ابھی سے اٹھنے بیٹھنے میں تمیز سکھاتی رہتی اور باپ، عائشہ کی شرارتوں کو دیکھ کر مسکراتا رہتا۔
یہ مارچ کی 18 تاریخ تھی۔ نہ تو سورج مغرب سے نکلا تھا اور نہ ہی موسم میں ایسی کوئی بات تھی کہ کسی کو یہ شبہ ہو کہ دنیا بدلنے والی ہے۔ اسد اپنے معمول کے مطابق روزگار کی تلاش میں تھا اور اس کی بیوی اپنے کاموں میں مصروف تھی۔ ہمارے یہاں عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ بچے جب کھیلنے میں مصروف ہوتے ہیں تو گھر کی عورتیں کوشش کرتی ہیں کہ جلد سے جلد اپنا کام ختم کر لیں۔ عائشہ کی ماں یہ سمجھ رہی تھی کہ وہ کھیلنے میں مصروف ہے اس لیے جلد سے جلد کھانا بھی بنا لیا جائے۔
کھانا تیار ہو چکا تو عائشہ کو آواز دی گئی لیکن عائشہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ ماں نے پورا گھر دیکھ لیا تو اس نے سوچا کہ گلی میں کھیل رہی ہوگی۔ لیکن وہ گلی میں بھی نظر نہ آئی۔ اکثر عائشہ پڑوس میں کھیلنے چلی جاتی تھی۔ ماں فوراً بھاگ کر سب کے گھروں کی تلاشی لینے لگی۔ اب وہ پریشان ہونا شروع ہو گئی۔
اس نے سب سے پوچھا لیکن کسی کو نہیں معلوم تھا کہ عائشہ کہاں گئی۔ فوراً اسد سے رابطہ کیا گیا۔ باپ یہ سن کر الٹے قدموں سے واپس آتا ہے۔ سب جگہ تلاش کے بعد پولیس کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے۔ ہماری روایتی پولیس اسی طرح سے سرد مہری کا مظاہرہ کرتی ہے۔ پہلے یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ کسی رشتہ دار کے گھر پر ہو گی، پھر کہا جاتا ہے کہ کسی کے ساتھ گھومنے چلی گئی ہو گی۔ مگر محلے والوں کے اصرار پر پولیس صرف اتنا کرتی ہے کہ روزنامچے میں اندراج ہو جاتا ہے۔
ہماری پولیس کتنی متحرک ہے اس کا اندازہ ہم سب کو ہے۔ اسد اور اس کے رشتہ دار اپنا سب کچھ چھوڑ کر تھانے کے چکر لگاتے رہتے ہیں مگر پولیس انھیں بس دلاسوں پر ٹالتی رہتی ہے۔
ماں کی حالت خراب ہو جاتی ہے۔ کئی بار ڈاکٹر کے پاس لے جایا جاتا ہے۔ عاملوں اور بابا کے دروازے پر بھی دستک دی جاتی ہے۔ لیکن کسی طرف سے بھی ماںکی فریاد پوری نہیں ہوتی۔ جب کسی کے جگر کا گوشہ غائب ہو تو نیند کیسے آ سکتی ہے۔ عائشہ جیسی کلی لاپتہ ہو اور پولیس کی سردمہری سامنے ہو تو کون ان پر اعتبار کرے گا۔
تین دن گزر چکے تھے۔ عائشہ کا کوئی پتہ نہ تھا۔ تین دن کے رت جگے کے بعد گھر والوں کی آنکھ لگ گئی۔ صبح ایک شور سے سب کی آنکھ کھل گئی۔ باہر شور کی آواز تھی۔ ایک محلے والے نے ہمت کر کے بتایا کہ گھر کے سامنے ایک بوری میں مشکوک چیز ہے۔ سب کے پیروں سے زمین نکل گئی۔
پولیس کو بلایا گیا اور پھر سب دیکھنے والوں کی آنکھیں جم گئی۔ باپ کا حوصلہ جواب دے گیا۔ ہر آنکھ سے آنسو بہنے لگے۔ اس بوری میں معصوم عائشہ تھی۔ جس کی سانسیں نا جانے کب ختم ہو چکی تھیں۔ کس ظالم نے اس کا یہ حال کیا تھا۔ محلے والے غصے سے پاگل ہو رہے تھے۔ ان کے سینوں میں عائشہ کی محبت اب اس کے قاتل کے لیے جہنم کی آگ میں تبدیل ہو چکی تھی۔ لاچار ماں کو سنبھالنا مشکل ہو چکا تھا۔ وہ کبھی ہوش میں آتی تو روتی ہوئی اپنی بیٹی کو پکارتی اور پھر بے ہوش ہو جاتی۔ پولیس اس سارے معاملے کا بس تماشہ دیکھ رہی تھی۔
یک دم لوگوں نے اپنے ہاتھوں میں پتھر اٹھا لیے انھوں نے پولیس کے خلاف نعرے لگانا شروع کر دیے اور پتھراؤ شروع کر دیا۔ علاقے کی تمام دکانیں بند ہو گئیں۔ کسی نے خالی بوتلیں اٹھا کر برسانا شروع کر دیں تو کسی نے ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھا لیے۔ قصور کا نیشنل بینک چوک میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا تھا۔
پولیس سے مایوس لوگوں نے خود ہی قاتل کو ڈھونڈھنے کا فیصلہ کر لیا۔ ان کے پاس نہ ہی اتنے جدید آلات ہیں کہ وہ کوئی فرانزک کرا سکتے اور نہ ہی ان کے پاس اتنی نفری تھی کہ وہ کوئی جاسوسی کا نیٹ ورک بنا سکتے۔ کسی نے مشورہ دیا کہ جاسوسی کتوں کی مدد لی جائے۔ ایک صاحب نے کہا کہ ان کے جاننے والے کے پاس ایسے کتے موجود ہیں۔
کتے لائے گئے اور کتوں کو اس منحوس بوری کے پاس لایا گیا جس میں عائشہ تھی۔ کتوں نے اسے سونگھنے کے بعد ایک طرف دوڑ لگانا شروع کر دیا۔ کتے دوڑتے دوڑتے گلہ منڈی تک پہنچ گئے جہاں ایک طرف انھوں نے زور زور سے بھوکنا شروع کر دیا۔ اس جگہ ایک مزدور جاوید موجود تھا۔
کتے اس پر بھونکنے لگے۔ مشتعل ہجوم میں سے کسی نے آواز لگائی کہ یہ ہی ہے قاتل اور پھر ہر طرف سے جاوید پر ہاتھ لگنے لگے۔ بڑی مشکل سے وہاں پولیس پہنچی تو مظاہرین نے پولیس کو بھی نہیں چھوڑا۔ کافی کوشش کے بعد پولیس جاوید کو اپنے قبضے میں لینے میں کامیاب ہو گئی۔ انتہائی نازک حالت میں اسے تھانے منتقل کیا گیا۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی جاوید نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ اس نے عائشہ کو قتل کیا ہے۔
جاوید پولیس کی تحویل میں تھا۔ سب کا خیال تھا کہ عائشہ کو اسی نے قتل کیا تھا۔ ہماری پولیس نے ہر ممکن کوشش کی مگر جاوید نے یہ ماننے سے انکار کر دیا۔ دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں بدلنے لگے پانچ ماہ ہو چکے اور پھر ایک دن اسد کی زندگی میں نئی تبدیلی آئی۔ اسد کا قریبی بھائی صفت الہی اس کے گھر آ کر یہ کہتا ہے کہ تم میری جائیداد کا حصہ لے لو۔ اسد کو کچھ شک ہوتا ہے۔ وہ پولیس سے رابطہ کرتا ہے تو پوری کہانی ہی بدل جاتی ہے۔ صفت الہی ایسے بیان دیتا ہے کہ سب کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل جاتی ہے۔
پولیس کے مطابق صفت الٰہی کرکٹ پر سٹہ لگاتا تھا۔ اس کی خواہش یہ تھی کہ ایک بار اس کا بڑا سٹہ لگ جائے تو اس کی قسمت کی بدل جائے گی۔ جس کے لیے اس نے مختلف عاملوں سے بھی رابطہ کیا۔ ایک عامل نے کہا کہ اگر وہ کسی سات سال کی لڑکی کو مار کر اس پر ایک عمل کرے گا تو اس کی تقدیر بدل جائے گی۔ اس کام کے لیے اس منحوس آدمی نے اپنی بیوی کی مدد لی اور اپنے ناپاک منصوبے کے لیے معصوم عائشہ کا انتخاب کیا۔
آپ کو اس میں ہمارا پورا سماج سمجھ آ جائے گا۔ کس طرح سے ہم اپنے بچوں سے لاپرواہ ہوتے ہیں اور وہ کن کے ہاتھوں لگ جاتے ہیں۔ کیسے ہماری پولیس ہر کیس کو معمولی سمجھ کر ہمیں چلتا کر دیتی ہے۔ کیسے مشتعل ہجوم کے آگے ہماری پولیس بے بس ہوتی ہے اور کس طرح ہم ایک کتے کے بھونکنے پر یقین کر لیتے ہیں۔ کرکٹ جہاں ہمارا جنون ہے وہاں اس سے کیسے دولت کمائی جاتی ہے۔ لیکن پھر بھی ہم سب سے اچھے ہیں۔
یہ کہانی ایک معصوم سی عائشہ کی ہے۔ جس نے اپنی زندگی کی سات بہاریں دیکھی تھی۔ ماں باپ کو اپنی جان سے زیادہ عزیز تھی۔ اور اپنی بھولی بھالی باتوں کی وجہ سے پورے محلے کی آنکھوں کا تارا تھی۔ محلے کے سب لوگ اسے پیار کرتے تھے۔ جب سے اس نے بولنا شروع کیا تھا تو اپنی توتلی زبان میں اس کی میٹھی میٹھی باتیں سب کا دل جیت لیتی تھیں۔
اسد کی یہ بیٹی، اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھی۔ اپنی ماں سے جب ناراض ہو جاتی تو چھوٹی چھوٹی باتوں کی شکایت اپنے ابو سے کرتی۔ زندگی کا پہیہ آہستہ آہستہ اپنی منزل کی طرف جا رہا تھا۔ ابھی چھوٹی سی تھی لیکن اسد اور اس کی بیوی کو یہ فکر رہتی کہ ابھی دیکھتے ہی دیکھتے یہ بڑی ہو جائے گی اور پھر ہمیں اس کی شادی کی فکر کرنا ہو گی۔ ماں ابھی سے اٹھنے بیٹھنے میں تمیز سکھاتی رہتی اور باپ، عائشہ کی شرارتوں کو دیکھ کر مسکراتا رہتا۔
یہ مارچ کی 18 تاریخ تھی۔ نہ تو سورج مغرب سے نکلا تھا اور نہ ہی موسم میں ایسی کوئی بات تھی کہ کسی کو یہ شبہ ہو کہ دنیا بدلنے والی ہے۔ اسد اپنے معمول کے مطابق روزگار کی تلاش میں تھا اور اس کی بیوی اپنے کاموں میں مصروف تھی۔ ہمارے یہاں عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ بچے جب کھیلنے میں مصروف ہوتے ہیں تو گھر کی عورتیں کوشش کرتی ہیں کہ جلد سے جلد اپنا کام ختم کر لیں۔ عائشہ کی ماں یہ سمجھ رہی تھی کہ وہ کھیلنے میں مصروف ہے اس لیے جلد سے جلد کھانا بھی بنا لیا جائے۔
کھانا تیار ہو چکا تو عائشہ کو آواز دی گئی لیکن عائشہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ ماں نے پورا گھر دیکھ لیا تو اس نے سوچا کہ گلی میں کھیل رہی ہوگی۔ لیکن وہ گلی میں بھی نظر نہ آئی۔ اکثر عائشہ پڑوس میں کھیلنے چلی جاتی تھی۔ ماں فوراً بھاگ کر سب کے گھروں کی تلاشی لینے لگی۔ اب وہ پریشان ہونا شروع ہو گئی۔
اس نے سب سے پوچھا لیکن کسی کو نہیں معلوم تھا کہ عائشہ کہاں گئی۔ فوراً اسد سے رابطہ کیا گیا۔ باپ یہ سن کر الٹے قدموں سے واپس آتا ہے۔ سب جگہ تلاش کے بعد پولیس کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے۔ ہماری روایتی پولیس اسی طرح سے سرد مہری کا مظاہرہ کرتی ہے۔ پہلے یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ کسی رشتہ دار کے گھر پر ہو گی، پھر کہا جاتا ہے کہ کسی کے ساتھ گھومنے چلی گئی ہو گی۔ مگر محلے والوں کے اصرار پر پولیس صرف اتنا کرتی ہے کہ روزنامچے میں اندراج ہو جاتا ہے۔
ہماری پولیس کتنی متحرک ہے اس کا اندازہ ہم سب کو ہے۔ اسد اور اس کے رشتہ دار اپنا سب کچھ چھوڑ کر تھانے کے چکر لگاتے رہتے ہیں مگر پولیس انھیں بس دلاسوں پر ٹالتی رہتی ہے۔
ماں کی حالت خراب ہو جاتی ہے۔ کئی بار ڈاکٹر کے پاس لے جایا جاتا ہے۔ عاملوں اور بابا کے دروازے پر بھی دستک دی جاتی ہے۔ لیکن کسی طرف سے بھی ماںکی فریاد پوری نہیں ہوتی۔ جب کسی کے جگر کا گوشہ غائب ہو تو نیند کیسے آ سکتی ہے۔ عائشہ جیسی کلی لاپتہ ہو اور پولیس کی سردمہری سامنے ہو تو کون ان پر اعتبار کرے گا۔
تین دن گزر چکے تھے۔ عائشہ کا کوئی پتہ نہ تھا۔ تین دن کے رت جگے کے بعد گھر والوں کی آنکھ لگ گئی۔ صبح ایک شور سے سب کی آنکھ کھل گئی۔ باہر شور کی آواز تھی۔ ایک محلے والے نے ہمت کر کے بتایا کہ گھر کے سامنے ایک بوری میں مشکوک چیز ہے۔ سب کے پیروں سے زمین نکل گئی۔
پولیس کو بلایا گیا اور پھر سب دیکھنے والوں کی آنکھیں جم گئی۔ باپ کا حوصلہ جواب دے گیا۔ ہر آنکھ سے آنسو بہنے لگے۔ اس بوری میں معصوم عائشہ تھی۔ جس کی سانسیں نا جانے کب ختم ہو چکی تھیں۔ کس ظالم نے اس کا یہ حال کیا تھا۔ محلے والے غصے سے پاگل ہو رہے تھے۔ ان کے سینوں میں عائشہ کی محبت اب اس کے قاتل کے لیے جہنم کی آگ میں تبدیل ہو چکی تھی۔ لاچار ماں کو سنبھالنا مشکل ہو چکا تھا۔ وہ کبھی ہوش میں آتی تو روتی ہوئی اپنی بیٹی کو پکارتی اور پھر بے ہوش ہو جاتی۔ پولیس اس سارے معاملے کا بس تماشہ دیکھ رہی تھی۔
یک دم لوگوں نے اپنے ہاتھوں میں پتھر اٹھا لیے انھوں نے پولیس کے خلاف نعرے لگانا شروع کر دیے اور پتھراؤ شروع کر دیا۔ علاقے کی تمام دکانیں بند ہو گئیں۔ کسی نے خالی بوتلیں اٹھا کر برسانا شروع کر دیں تو کسی نے ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھا لیے۔ قصور کا نیشنل بینک چوک میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا تھا۔
پولیس سے مایوس لوگوں نے خود ہی قاتل کو ڈھونڈھنے کا فیصلہ کر لیا۔ ان کے پاس نہ ہی اتنے جدید آلات ہیں کہ وہ کوئی فرانزک کرا سکتے اور نہ ہی ان کے پاس اتنی نفری تھی کہ وہ کوئی جاسوسی کا نیٹ ورک بنا سکتے۔ کسی نے مشورہ دیا کہ جاسوسی کتوں کی مدد لی جائے۔ ایک صاحب نے کہا کہ ان کے جاننے والے کے پاس ایسے کتے موجود ہیں۔
کتے لائے گئے اور کتوں کو اس منحوس بوری کے پاس لایا گیا جس میں عائشہ تھی۔ کتوں نے اسے سونگھنے کے بعد ایک طرف دوڑ لگانا شروع کر دیا۔ کتے دوڑتے دوڑتے گلہ منڈی تک پہنچ گئے جہاں ایک طرف انھوں نے زور زور سے بھوکنا شروع کر دیا۔ اس جگہ ایک مزدور جاوید موجود تھا۔
کتے اس پر بھونکنے لگے۔ مشتعل ہجوم میں سے کسی نے آواز لگائی کہ یہ ہی ہے قاتل اور پھر ہر طرف سے جاوید پر ہاتھ لگنے لگے۔ بڑی مشکل سے وہاں پولیس پہنچی تو مظاہرین نے پولیس کو بھی نہیں چھوڑا۔ کافی کوشش کے بعد پولیس جاوید کو اپنے قبضے میں لینے میں کامیاب ہو گئی۔ انتہائی نازک حالت میں اسے تھانے منتقل کیا گیا۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی جاوید نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ اس نے عائشہ کو قتل کیا ہے۔
جاوید پولیس کی تحویل میں تھا۔ سب کا خیال تھا کہ عائشہ کو اسی نے قتل کیا تھا۔ ہماری پولیس نے ہر ممکن کوشش کی مگر جاوید نے یہ ماننے سے انکار کر دیا۔ دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں بدلنے لگے پانچ ماہ ہو چکے اور پھر ایک دن اسد کی زندگی میں نئی تبدیلی آئی۔ اسد کا قریبی بھائی صفت الہی اس کے گھر آ کر یہ کہتا ہے کہ تم میری جائیداد کا حصہ لے لو۔ اسد کو کچھ شک ہوتا ہے۔ وہ پولیس سے رابطہ کرتا ہے تو پوری کہانی ہی بدل جاتی ہے۔ صفت الہی ایسے بیان دیتا ہے کہ سب کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل جاتی ہے۔
پولیس کے مطابق صفت الٰہی کرکٹ پر سٹہ لگاتا تھا۔ اس کی خواہش یہ تھی کہ ایک بار اس کا بڑا سٹہ لگ جائے تو اس کی قسمت کی بدل جائے گی۔ جس کے لیے اس نے مختلف عاملوں سے بھی رابطہ کیا۔ ایک عامل نے کہا کہ اگر وہ کسی سات سال کی لڑکی کو مار کر اس پر ایک عمل کرے گا تو اس کی تقدیر بدل جائے گی۔ اس کام کے لیے اس منحوس آدمی نے اپنی بیوی کی مدد لی اور اپنے ناپاک منصوبے کے لیے معصوم عائشہ کا انتخاب کیا۔
آپ کو اس میں ہمارا پورا سماج سمجھ آ جائے گا۔ کس طرح سے ہم اپنے بچوں سے لاپرواہ ہوتے ہیں اور وہ کن کے ہاتھوں لگ جاتے ہیں۔ کیسے ہماری پولیس ہر کیس کو معمولی سمجھ کر ہمیں چلتا کر دیتی ہے۔ کیسے مشتعل ہجوم کے آگے ہماری پولیس بے بس ہوتی ہے اور کس طرح ہم ایک کتے کے بھونکنے پر یقین کر لیتے ہیں۔ کرکٹ جہاں ہمارا جنون ہے وہاں اس سے کیسے دولت کمائی جاتی ہے۔ لیکن پھر بھی ہم سب سے اچھے ہیں۔