وال چاکنگ اور اصلی سرطان
بچپن میں ہمیں ذوالفقار علی بھٹو سے ملنے کا شوق تھا۔
بچپن میں ہمیں ذوالفقار علی بھٹو سے ملنے کا شوق تھا۔ اسکول کے زمانے میں یہ شوق پورا تو ہوا مگر تشنگی یہ رہ گئی کہ ملنا محض ہاتھ ملانا ہی نہیں ہوتا۔ کچھ بات چیت بھی ضروری ہوتی ہے مگر ساتویں جماعت کا طالب علم بھٹو صاحب کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کیا بات کرتا۔ سوچا کالج میں جا کر اپنے آپ کو خوب تیار کریں گے اور پھر بھٹو صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر بزعم خویش تقریباً برابری کی بنیاد پر ان کے ساتھ گپ شپ کریں گے مگر ضیا الحق نے انھیں پھانسی پر لٹکا کر ہمیں ایک خوشگوار ملاقات سے محروم رکھا۔
اسی طرح کی خواہش فیض، فراز اور منیر نیازی سے ملنے کی تھی اور خوب پوری ہوئی۔ پھر ایک زمانے میں جارج بش اور باراک اوباما سے ملنے کا شوق چرایا، اتفاق سے یہ بھی پورا ہوا۔ اگر پورا نہیں ہوا تو تین اہم قومی شخصیات کے ساتھ ملاقات کا شوق تھا جسے دل ہی دل میں لیے لگتا ہے ہم ایک دن اس جہانِ فانی سے ہی کوچ کر جائیں گے۔ ان میں سر فہرست مولوی لہولہان صاحب ہیں کہ جن کا اسم گرامی ہم نے ازمنہ طالب علمی میں کائنات کی تقریباً ہر ویگن پر لکھا دیکھ رکھا ہے۔
کئی مرتبہ کوشش کی مگر نہ تو حضرت صاحب کی وجہ تسمیہ معلوم ہو سکی اور نہ ہی وجہ تخلیق۔ پھر ایک ہستی کفیل بھائی ہوا کرتے تھے۔ ان صاحب کا نام نامی ویگنوں پر تونہیں البتہ ٹرکوں پر ضرور پایا جاتا تھا۔ ہمارے ذوقِ آوارگی نے چونکہ عمر بھر ہمیں سڑکوں اور شاہراہوں پر ہی خجل کیے رکھا۔
اس لیے کفیل بھائی سے غائبانہ ملاقات بھی سڑکیں ناپتے ہی ہوئی۔ ہمیں یاد ہے کہ آج سے کوئی بیس بائیس سال اُدھر، اس کرہ ارض پر چلنے والا شاید ہی کوئی ٹرک ایسا ہو گا جس کی پشت پر کفیل بھائی کی مہر نہ لگی ہو۔ نہ صرف ان کا نام بلکہ چند دیگر خواص بھی درج ہوتے، مثلاً کفیل بھائی آف گھوٹکی، رائٹ آرم، لیفٹ آرم، لیگ سپنر'' وغیرہ۔ ان صاحب سے ملاقات کی وجہ اشتیاق صرف یہی تھی کہ ہم معلوم کر سکتے کہ ایسا نابغہ روزگار باولر جو دونوں ہاتھوں یعنی لیفٹ آرم بھی اور رائٹ آرم سے بھی موثر ہو، آخر ٹرکوں کے پیچھے ہی کیوں خوار ہو رہا ہے، اسے تو گنیز بک آف ریکارڈز کی زینت بننا چاہیے تھا۔
خیر یہ تو تھی ایام رفتہ کی بات مگر اب جس ''اہم شخصیت'' کا تذکرہ ہم کرنے جا رہے ہیں وہ قدرے جدید اور ماڈرن ہیںکہ ویگنیں اور ٹرک نہیں بلکہ لاہور کے پوش علاقوں کی دیواریں خراب کرتے پھرتے ہیں۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی، ہم ان سے کچھ اور بھی پوچھنا چاہیں گے۔
یہ کوئی محترم ظفر اقبال بارا صاحب ہیں جو پچھلے چند سالوں سے مونس الٰہی کی زلف گِرہ گیر کے اسیر چلے آرہے ہیں۔ ظہور الہی روڈ کے آس پاس دیواریں خراب کرنے کا کام شکست خوردہ ق لیگ نے شاید انھیں سونپ رکھا ہے۔ آپ یہ کام برش یا قلم کی بجائے اسپرے کین سے لیتے ہیں اور تقریباً ہر روز مٹائے جانے کے باوجود تازہ تحریر چھوڑ آتے ہیں۔ عموماً آپ کے فقرے کچھ اس قماش کے ہوتے ہیں، ''آئی لو مونس الہی''، یا ''مونس الٰہی زندہ باد'' اور ہر مرتبہ آپ فقرے کے نیچے ظفر اقبال بارا ضرور لکھتے ہیں۔ لگتا ہے مونس الہی ہمارے بارا صاحب کی بچپن کی محبت ہیں۔ اب ہمیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ ان دونوں احباب میں سے ہم ہمدردی کس کے ساتھ کریں۔
اہل نظر جانتے ہیں کہ وال چاکنگ کے حوالے سے وطنِ عزیز کا شمار دنیا کے چند غلیظ ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ حالانکہ اس کا نام پاکستان ہے۔
کہتے ہیں اوسطاً ہماری ہر دوسری دیوار کچھ نہ کچھ لکھ کر خراب کر دی جاتی ہے۔ دیواریں لکھنا ہمارے ہاں باقاعدہ ایک پیشہ ہے حالانکہ وال چاکنگ پر پابندی کا قانون کئی سالوں سے موجود ہے مگر دیگر لاتعداد ''بے ضرر قوانین'' کی طرح یہ بھی سنہ 1995 سے ہی یونہی لاغر اور بیکار پڑا کتابوں کی حد تک محدود تھا تاہم پچھلے سال جب یہ دیکھا گیا کہ داعش والوں نے وال چاکنگ کو ''وسیلہ تبلیغ'' بنا لیا ہے تو پھر اس قانون میں ترمیم کر کے اسے قدرے سخت کیا گیا۔
اب یہ جرم پہلے کی طرح قابلِ ضمانت نہیں ہے اور اس پر 6 ماہ سے ایک سال قید اور جرمانہ بھی ہے۔ اس لیے ہمارا مشورہ ہے کہ ظفر اقبال بارا صاحب اب اپنا پراسرار سا اظہار محبت بذریعہ ایس ایم ایس ہی کریں تو بہتر ہے کیونکہ اگر وال چاکنگ کرتے کسی دن دھر لیے گئے تو پولیس شاید آپ کو چھوڑ دے، چوہدری شجاعت ہرگز نہیں چھوڑیں گے! گزشتہ ماہ ہمارا ایک دوست طویل عرصے بعد امریکا سے وطن واپس آیا تو گردو پیش کا بغور جائزہ لینے کے بعد بولا، ''افسوس صد افسوس کہ یہ ملک آج بھی مردانہ کمزوری اور بواسیر وغیرہ کی لپیٹ میں ہے''۔
حالانکہ اگر آپ قریب سے دیکھیں تو یہ ملک صرف اور صرف ایک ہی چیز کی لپیٹ میں ہے اور وہ ہے اخلاقی گراوٹ، یہ کرپشن، لاقانونیت، بدانتظامی، بد حکومتی اور بدزبانی یہ سب کی سب علامتیں ہیں، اصل بیماری اخلاقی گراوٹ ہے مگر اس کی نشاندہی درودیوار سے نہیں ہماری عادات و اطوار سے ہوتی ہے۔ زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس اصلی سرطان کی نشاندہی کوئی نہیں کر رہا، بواسیر کی باتیں سب کیے جا رہے ہیں۔
اسی طرح کی خواہش فیض، فراز اور منیر نیازی سے ملنے کی تھی اور خوب پوری ہوئی۔ پھر ایک زمانے میں جارج بش اور باراک اوباما سے ملنے کا شوق چرایا، اتفاق سے یہ بھی پورا ہوا۔ اگر پورا نہیں ہوا تو تین اہم قومی شخصیات کے ساتھ ملاقات کا شوق تھا جسے دل ہی دل میں لیے لگتا ہے ہم ایک دن اس جہانِ فانی سے ہی کوچ کر جائیں گے۔ ان میں سر فہرست مولوی لہولہان صاحب ہیں کہ جن کا اسم گرامی ہم نے ازمنہ طالب علمی میں کائنات کی تقریباً ہر ویگن پر لکھا دیکھ رکھا ہے۔
کئی مرتبہ کوشش کی مگر نہ تو حضرت صاحب کی وجہ تسمیہ معلوم ہو سکی اور نہ ہی وجہ تخلیق۔ پھر ایک ہستی کفیل بھائی ہوا کرتے تھے۔ ان صاحب کا نام نامی ویگنوں پر تونہیں البتہ ٹرکوں پر ضرور پایا جاتا تھا۔ ہمارے ذوقِ آوارگی نے چونکہ عمر بھر ہمیں سڑکوں اور شاہراہوں پر ہی خجل کیے رکھا۔
اس لیے کفیل بھائی سے غائبانہ ملاقات بھی سڑکیں ناپتے ہی ہوئی۔ ہمیں یاد ہے کہ آج سے کوئی بیس بائیس سال اُدھر، اس کرہ ارض پر چلنے والا شاید ہی کوئی ٹرک ایسا ہو گا جس کی پشت پر کفیل بھائی کی مہر نہ لگی ہو۔ نہ صرف ان کا نام بلکہ چند دیگر خواص بھی درج ہوتے، مثلاً کفیل بھائی آف گھوٹکی، رائٹ آرم، لیفٹ آرم، لیگ سپنر'' وغیرہ۔ ان صاحب سے ملاقات کی وجہ اشتیاق صرف یہی تھی کہ ہم معلوم کر سکتے کہ ایسا نابغہ روزگار باولر جو دونوں ہاتھوں یعنی لیفٹ آرم بھی اور رائٹ آرم سے بھی موثر ہو، آخر ٹرکوں کے پیچھے ہی کیوں خوار ہو رہا ہے، اسے تو گنیز بک آف ریکارڈز کی زینت بننا چاہیے تھا۔
خیر یہ تو تھی ایام رفتہ کی بات مگر اب جس ''اہم شخصیت'' کا تذکرہ ہم کرنے جا رہے ہیں وہ قدرے جدید اور ماڈرن ہیںکہ ویگنیں اور ٹرک نہیں بلکہ لاہور کے پوش علاقوں کی دیواریں خراب کرتے پھرتے ہیں۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی، ہم ان سے کچھ اور بھی پوچھنا چاہیں گے۔
یہ کوئی محترم ظفر اقبال بارا صاحب ہیں جو پچھلے چند سالوں سے مونس الٰہی کی زلف گِرہ گیر کے اسیر چلے آرہے ہیں۔ ظہور الہی روڈ کے آس پاس دیواریں خراب کرنے کا کام شکست خوردہ ق لیگ نے شاید انھیں سونپ رکھا ہے۔ آپ یہ کام برش یا قلم کی بجائے اسپرے کین سے لیتے ہیں اور تقریباً ہر روز مٹائے جانے کے باوجود تازہ تحریر چھوڑ آتے ہیں۔ عموماً آپ کے فقرے کچھ اس قماش کے ہوتے ہیں، ''آئی لو مونس الہی''، یا ''مونس الٰہی زندہ باد'' اور ہر مرتبہ آپ فقرے کے نیچے ظفر اقبال بارا ضرور لکھتے ہیں۔ لگتا ہے مونس الہی ہمارے بارا صاحب کی بچپن کی محبت ہیں۔ اب ہمیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ ان دونوں احباب میں سے ہم ہمدردی کس کے ساتھ کریں۔
اہل نظر جانتے ہیں کہ وال چاکنگ کے حوالے سے وطنِ عزیز کا شمار دنیا کے چند غلیظ ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ حالانکہ اس کا نام پاکستان ہے۔
کہتے ہیں اوسطاً ہماری ہر دوسری دیوار کچھ نہ کچھ لکھ کر خراب کر دی جاتی ہے۔ دیواریں لکھنا ہمارے ہاں باقاعدہ ایک پیشہ ہے حالانکہ وال چاکنگ پر پابندی کا قانون کئی سالوں سے موجود ہے مگر دیگر لاتعداد ''بے ضرر قوانین'' کی طرح یہ بھی سنہ 1995 سے ہی یونہی لاغر اور بیکار پڑا کتابوں کی حد تک محدود تھا تاہم پچھلے سال جب یہ دیکھا گیا کہ داعش والوں نے وال چاکنگ کو ''وسیلہ تبلیغ'' بنا لیا ہے تو پھر اس قانون میں ترمیم کر کے اسے قدرے سخت کیا گیا۔
اب یہ جرم پہلے کی طرح قابلِ ضمانت نہیں ہے اور اس پر 6 ماہ سے ایک سال قید اور جرمانہ بھی ہے۔ اس لیے ہمارا مشورہ ہے کہ ظفر اقبال بارا صاحب اب اپنا پراسرار سا اظہار محبت بذریعہ ایس ایم ایس ہی کریں تو بہتر ہے کیونکہ اگر وال چاکنگ کرتے کسی دن دھر لیے گئے تو پولیس شاید آپ کو چھوڑ دے، چوہدری شجاعت ہرگز نہیں چھوڑیں گے! گزشتہ ماہ ہمارا ایک دوست طویل عرصے بعد امریکا سے وطن واپس آیا تو گردو پیش کا بغور جائزہ لینے کے بعد بولا، ''افسوس صد افسوس کہ یہ ملک آج بھی مردانہ کمزوری اور بواسیر وغیرہ کی لپیٹ میں ہے''۔
حالانکہ اگر آپ قریب سے دیکھیں تو یہ ملک صرف اور صرف ایک ہی چیز کی لپیٹ میں ہے اور وہ ہے اخلاقی گراوٹ، یہ کرپشن، لاقانونیت، بدانتظامی، بد حکومتی اور بدزبانی یہ سب کی سب علامتیں ہیں، اصل بیماری اخلاقی گراوٹ ہے مگر اس کی نشاندہی درودیوار سے نہیں ہماری عادات و اطوار سے ہوتی ہے۔ زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس اصلی سرطان کی نشاندہی کوئی نہیں کر رہا، بواسیر کی باتیں سب کیے جا رہے ہیں۔