سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو آئینی قرار دے دیا
چیف جسٹس ناصر الملک نے 18 اور 21 ویں آنینی ترامیم کے خلاف درخواستوں کا فیصلہ سنایا۔
سپریم كورٹ نے كثرت رائے سے سویلین كے ٹرائل كے لئے فوجی عدالتوں كے قیام كو درست قرار دیتے ہوئے اكیسویں آئینی ترمیم كے خلاف دائر درخواستیں مسترد كردی ہیں جب كہ اٹھارویں آئینی ترمیم كے خلاف درخواستیں بھی كثرت رائے سے مسترد كردی ہیں۔
سپریم كورٹ كے 17 ركنی فل كورٹ میں شامل 11ججوں نے فوجی عدالتوں كے قیام كو درست اور6 ججوں نے اسے غیر آئینی قرار دیا جب كہ اٹھارویں ترمیم كو 14ججوں نے درست اور 4 نے آئین كے بنیادی ڈھانچے سے متصادم قرار دیا ہے۔ بینچ میں شامل 14 ججوں نے آئین كے بنیادی خدو خال كا نظریہ تسلیم كرتے ہوئے قرار دیا ہے كہ پارلیمنٹ جمہوریت، پارلیمانی نظام حكومت اورعدلیہ كی آزادی سے متصادم آئین میں ترمیم نہیں كرسكتی اور سپریم كورٹ كو آئین میں ترمیم كا عدالتی جائزہ لینے كا اختیار حاصل ہے۔ 902 صفحات پر مشتمل فیصلے میں 7 ججوں نے اپنی الگ رائے دی ہے، چیف جسٹس ناصر الملك، جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس ثاقب نثار، جسٹس سرمد جلال عثمانی، جسٹس امیر ہانی مسلم، جسٹس گلزار احمد، جسٹس مشیر عالم، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اقبال حمیدا لرحمٰن، جسٹس عمر عطاءبندیال اور جسٹس مقبول باقر نے فوجی عدالتوں كے قیام درست قرار دیتے ہوئے اكیسویں اور اٹھارویں آئینی ترمیم كے خلاف درخواستیں خارج كی ہیں تاہم فیصلے میں قرار دیا گیا ہے كہ فوجی عدالتوں كے فیصلوں كے خلاف اعلٰی عدلیہ كو عدالتی جائزے كا اختیار حاصل ہے۔
چیف جسٹس كے لكھے ہوئے فیصلے كے ساتھ صرف جسٹس ثاقب نثار اور اقبال حمیدالرحمٰن نے اتفاق كیا ہے جس میں آئین كے بنیادی ڈھانچے كے تصور كو مسترد كردیا گیا ہے اور قرار دیا گیا ہے كہ پارلیمنٹ كو آئین میں ہر قسم كی ترمیم كااختیار حاصل ہے تاہم جسٹس ثاقب نثار نے اس ضمن میں اپنا الگ نوٹ بھی لكھا ہے جب كہ جسٹس شیخ عظمت سعید كی رائے سے 7 ججوں ،جسٹس انور ظہیر جمالی ،جسٹس سرمد جلال عثمانی ،جسٹس امیر ہانی مسلم ،جسٹس گلزار احمد، جسٹس مشیر عالم ،جسٹس عمر عطاءبندیال اور جسٹس مقبول باقر نے اتفاق كیا ہے تاہم جسٹس سرمد اور جسٹس عمر عطاءبندیال نے اپنا اپنا الگ نوٹ بھی لكھا ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے اپنی رائے میں جسے ان سمیت 8 ججوں كی حمایت حاصل ہے میں آئین كا بنیادی ڈھانچہ تسلیم كیا گیا ہے اور كہا ہے كہ جمہوریت،پارلیمانی نظام حكومت اور عدلیہ كی آزادی كی منافی آئین میں ترمیم نہیں ہوسكتی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ، جسٹس آصف سعید خان كھوسہ، جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس اعجاز احمد چوہدری، جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے فوجی عدالتوں كے قیام كو غیر آئینی،امتیازی اور بنیادی ڈھانچے سے متصاد قرار دیا ہے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں كے قیام كے حوالے سے جسٹس عیسٰی كی رائے سے اتفاق كیا ہے تاہم اپنے الگ نوٹ میں انھوں نے پارٹی سربراہ كو پارلیمنٹرین كے خلاف كارروائی كا اختیار دینے اور اقلیتوں كی نمائندگی كا طریقہ كار تبدیل كرنے كی ترامیم كو غیر آئین قرار دیا ہے۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے جسٹس اعجاز افضل خان كی رائے سے اتفاق كیا ہے جب كہ جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس فائز عیسٰی نے اپنی الگ الگ رائے دی ہے۔ بدھ كوجسٹس ناصر الملک نے 18 ویں اور 21 ویں آئینی ترامیم كے خلاف درخواستوں كا فیصلہ كورٹ روم نمبرایک میں پڑھ كر سنایا اس موقع پر ان كے ساتھ جسٹس دوست محمد خان بینچ میں شامل تھے۔ عدالتی فیصلہ كے بعد فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے ملزمان كی سزاؤں پر بھی عملدرآمد شروع ہوجائے گا۔
چیف جسٹس نے اپنی رائے میں قرار دیا ہے كہ آئینی ترمیم كو كالعدم نہیں كیا جا سكتا تاہم سویلین كے بارے فوجی عدالتوں كے فیصلوں كے خلاف اعلیٰ عدلیہ كو عدالتی جائزے كا اختیار حاصل ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے نوٹ میں كہا ہے كہ وہ جسٹس قاضی فائزعیسی كی بات سے متفق ہوں كہ 21ویں ترمیم كو كالعدم ہونا لازمی ہے، ہمارے فیصلوں كا آئین سے مطابقت ركھنا ضروری ہے نہ كہ اجنبی فلسفوں اورسوچ سے، ضروری نہیں كہ پارلیمنٹ كے تمام قوانین عوامی خواہشات كے مطابق ہوں، پارلیمنٹ مقتدر اعلیٰ نہیں، پارلیمنٹ كو اختیار آئین نے دیا ہے اس لئے جن ممالک میں تحریری آئین موجود ہے وہاں آئین ہی مقدم ہے۔ ان كا مزید كہنا ہے كہ قوانین بناتے وقت اسلامی اور ثقافتی نظریات كو مدنظر ركھنا ضروری ہے، انھوں نے اٹھاریوں ترمیم كو جزوی جب كہ اكیسویں ترمیم كو كمل طور پر كالعدم قرار دیا ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید كی رائے كو اكثریتی ججوں كی حمایت حاصل ہے جس میں كہا گیا ہے كہ پارلیمنٹ كو اس آئین كا بنیادی ڈھانچہ تبدیل كرنے كا اختیار حاصل نہیں۔
جسٹس شیخ عظمت نے قرار دیا ہے كہ چونكہ فوجی عدالتیں ایک عارضی انتظام ہے اس لئے اسے بنیادی ڈھانچے سے متصادم نہیں كہا جا سكتا تاہم اس عارضی بندوبست كو عدالتی جائزے سے مشروط كیا گیا ہے اور قرار دیا ہے كہ نہ صرف سویلین كے خلاف فوجی عدالتوں كے فیصلے اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج ہوسكیں گے بلكہ مقدمات كو فوجی عدالتوں كو منتقل كرنے كے وفاقی حكومت كے فیصلے كا بھی عدالتی جائزہ لیا جاسكے گا۔ آصف سعید خان كھوسہ نے اپنی الگ رائے میں آئین كے بنایدی ڈھانچے كے تصور كو مسترد كرتے ہوئے اٹھارویں ترمیم كے خلاف درخواستیں خارج كی ہیں تاہم ملٹری ایكٹ میں ترمیم كو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے كہا ہے كہ اس قانون كے تحت بنی عدالتوں كے فیصلوں كی قانونی حثیت نہیں۔ انہوں نے مزید كہا كہ ملٹری ایكٹ میں ترمیم غیر قانونی ہونے كے باعث اكیسویں آئینی ترمیم كی حثیت طے كرنے كی ضرورت نہیں۔ اعجاز افضل خان نے اپنی الگ رائے میں متعدد قرانی آیات كا حوالہ دیا ہے اور اٹھارویں و اكیسویں آئینی ترامیم كو آئین كے بنیادی ڈھانچے سے متصادم قرار دیتے ہوئے انھیں كالعدم كردیا ہے ان كی رائے كو اعجاز چوہدری كی حمایت بھی حاصل ہے۔ جسٹس فائز عیسٰی نے فوجی عدالتوں میں زیر التوا تمام مقدمات فوری طور پر انسداد دہشت گردی كی عدالتوں كو منتقل كرنے كا حكم دیا ہے اور سویلین كے متعلق فوجی عدالتوں كے اب تک ہونے والے فیصلوں كو كالعدم قرار دیتے ہوئے انسداد دہشت گردی كی عدالتوں میں ازسرنو ٹرائل كی ہدایت كی ہے۔
سپریم كورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے ملزمان كی سزاؤں پر اس فیصلہ كے آنے تک حكم امتناعی جاری كیا تھا جو اس فیصلہ كے بعد ختم ہوگیا ہے، 17ركنی فل كورٹ بینچ نے 26جون 2015 كو 18 اور 21ویں آنینی ترامیم كے خلاف درخواستوں پر محفوظ كیا تھا۔
سپریم كورٹ كے 17 ركنی فل كورٹ میں شامل 11ججوں نے فوجی عدالتوں كے قیام كو درست اور6 ججوں نے اسے غیر آئینی قرار دیا جب كہ اٹھارویں ترمیم كو 14ججوں نے درست اور 4 نے آئین كے بنیادی ڈھانچے سے متصادم قرار دیا ہے۔ بینچ میں شامل 14 ججوں نے آئین كے بنیادی خدو خال كا نظریہ تسلیم كرتے ہوئے قرار دیا ہے كہ پارلیمنٹ جمہوریت، پارلیمانی نظام حكومت اورعدلیہ كی آزادی سے متصادم آئین میں ترمیم نہیں كرسكتی اور سپریم كورٹ كو آئین میں ترمیم كا عدالتی جائزہ لینے كا اختیار حاصل ہے۔ 902 صفحات پر مشتمل فیصلے میں 7 ججوں نے اپنی الگ رائے دی ہے، چیف جسٹس ناصر الملك، جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس ثاقب نثار، جسٹس سرمد جلال عثمانی، جسٹس امیر ہانی مسلم، جسٹس گلزار احمد، جسٹس مشیر عالم، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اقبال حمیدا لرحمٰن، جسٹس عمر عطاءبندیال اور جسٹس مقبول باقر نے فوجی عدالتوں كے قیام درست قرار دیتے ہوئے اكیسویں اور اٹھارویں آئینی ترمیم كے خلاف درخواستیں خارج كی ہیں تاہم فیصلے میں قرار دیا گیا ہے كہ فوجی عدالتوں كے فیصلوں كے خلاف اعلٰی عدلیہ كو عدالتی جائزے كا اختیار حاصل ہے۔
چیف جسٹس كے لكھے ہوئے فیصلے كے ساتھ صرف جسٹس ثاقب نثار اور اقبال حمیدالرحمٰن نے اتفاق كیا ہے جس میں آئین كے بنیادی ڈھانچے كے تصور كو مسترد كردیا گیا ہے اور قرار دیا گیا ہے كہ پارلیمنٹ كو آئین میں ہر قسم كی ترمیم كااختیار حاصل ہے تاہم جسٹس ثاقب نثار نے اس ضمن میں اپنا الگ نوٹ بھی لكھا ہے جب كہ جسٹس شیخ عظمت سعید كی رائے سے 7 ججوں ،جسٹس انور ظہیر جمالی ،جسٹس سرمد جلال عثمانی ،جسٹس امیر ہانی مسلم ،جسٹس گلزار احمد، جسٹس مشیر عالم ،جسٹس عمر عطاءبندیال اور جسٹس مقبول باقر نے اتفاق كیا ہے تاہم جسٹس سرمد اور جسٹس عمر عطاءبندیال نے اپنا اپنا الگ نوٹ بھی لكھا ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے اپنی رائے میں جسے ان سمیت 8 ججوں كی حمایت حاصل ہے میں آئین كا بنیادی ڈھانچہ تسلیم كیا گیا ہے اور كہا ہے كہ جمہوریت،پارلیمانی نظام حكومت اور عدلیہ كی آزادی كی منافی آئین میں ترمیم نہیں ہوسكتی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ، جسٹس آصف سعید خان كھوسہ، جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس اعجاز احمد چوہدری، جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے فوجی عدالتوں كے قیام كو غیر آئینی،امتیازی اور بنیادی ڈھانچے سے متصاد قرار دیا ہے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں كے قیام كے حوالے سے جسٹس عیسٰی كی رائے سے اتفاق كیا ہے تاہم اپنے الگ نوٹ میں انھوں نے پارٹی سربراہ كو پارلیمنٹرین كے خلاف كارروائی كا اختیار دینے اور اقلیتوں كی نمائندگی كا طریقہ كار تبدیل كرنے كی ترامیم كو غیر آئین قرار دیا ہے۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے جسٹس اعجاز افضل خان كی رائے سے اتفاق كیا ہے جب كہ جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس فائز عیسٰی نے اپنی الگ الگ رائے دی ہے۔ بدھ كوجسٹس ناصر الملک نے 18 ویں اور 21 ویں آئینی ترامیم كے خلاف درخواستوں كا فیصلہ كورٹ روم نمبرایک میں پڑھ كر سنایا اس موقع پر ان كے ساتھ جسٹس دوست محمد خان بینچ میں شامل تھے۔ عدالتی فیصلہ كے بعد فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے ملزمان كی سزاؤں پر بھی عملدرآمد شروع ہوجائے گا۔
چیف جسٹس نے اپنی رائے میں قرار دیا ہے كہ آئینی ترمیم كو كالعدم نہیں كیا جا سكتا تاہم سویلین كے بارے فوجی عدالتوں كے فیصلوں كے خلاف اعلیٰ عدلیہ كو عدالتی جائزے كا اختیار حاصل ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے نوٹ میں كہا ہے كہ وہ جسٹس قاضی فائزعیسی كی بات سے متفق ہوں كہ 21ویں ترمیم كو كالعدم ہونا لازمی ہے، ہمارے فیصلوں كا آئین سے مطابقت ركھنا ضروری ہے نہ كہ اجنبی فلسفوں اورسوچ سے، ضروری نہیں كہ پارلیمنٹ كے تمام قوانین عوامی خواہشات كے مطابق ہوں، پارلیمنٹ مقتدر اعلیٰ نہیں، پارلیمنٹ كو اختیار آئین نے دیا ہے اس لئے جن ممالک میں تحریری آئین موجود ہے وہاں آئین ہی مقدم ہے۔ ان كا مزید كہنا ہے كہ قوانین بناتے وقت اسلامی اور ثقافتی نظریات كو مدنظر ركھنا ضروری ہے، انھوں نے اٹھاریوں ترمیم كو جزوی جب كہ اكیسویں ترمیم كو كمل طور پر كالعدم قرار دیا ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید كی رائے كو اكثریتی ججوں كی حمایت حاصل ہے جس میں كہا گیا ہے كہ پارلیمنٹ كو اس آئین كا بنیادی ڈھانچہ تبدیل كرنے كا اختیار حاصل نہیں۔
جسٹس شیخ عظمت نے قرار دیا ہے كہ چونكہ فوجی عدالتیں ایک عارضی انتظام ہے اس لئے اسے بنیادی ڈھانچے سے متصادم نہیں كہا جا سكتا تاہم اس عارضی بندوبست كو عدالتی جائزے سے مشروط كیا گیا ہے اور قرار دیا ہے كہ نہ صرف سویلین كے خلاف فوجی عدالتوں كے فیصلے اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج ہوسكیں گے بلكہ مقدمات كو فوجی عدالتوں كو منتقل كرنے كے وفاقی حكومت كے فیصلے كا بھی عدالتی جائزہ لیا جاسكے گا۔ آصف سعید خان كھوسہ نے اپنی الگ رائے میں آئین كے بنایدی ڈھانچے كے تصور كو مسترد كرتے ہوئے اٹھارویں ترمیم كے خلاف درخواستیں خارج كی ہیں تاہم ملٹری ایكٹ میں ترمیم كو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے كہا ہے كہ اس قانون كے تحت بنی عدالتوں كے فیصلوں كی قانونی حثیت نہیں۔ انہوں نے مزید كہا كہ ملٹری ایكٹ میں ترمیم غیر قانونی ہونے كے باعث اكیسویں آئینی ترمیم كی حثیت طے كرنے كی ضرورت نہیں۔ اعجاز افضل خان نے اپنی الگ رائے میں متعدد قرانی آیات كا حوالہ دیا ہے اور اٹھارویں و اكیسویں آئینی ترامیم كو آئین كے بنیادی ڈھانچے سے متصادم قرار دیتے ہوئے انھیں كالعدم كردیا ہے ان كی رائے كو اعجاز چوہدری كی حمایت بھی حاصل ہے۔ جسٹس فائز عیسٰی نے فوجی عدالتوں میں زیر التوا تمام مقدمات فوری طور پر انسداد دہشت گردی كی عدالتوں كو منتقل كرنے كا حكم دیا ہے اور سویلین كے متعلق فوجی عدالتوں كے اب تک ہونے والے فیصلوں كو كالعدم قرار دیتے ہوئے انسداد دہشت گردی كی عدالتوں میں ازسرنو ٹرائل كی ہدایت كی ہے۔
سپریم كورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے ملزمان كی سزاؤں پر اس فیصلہ كے آنے تک حكم امتناعی جاری كیا تھا جو اس فیصلہ كے بعد ختم ہوگیا ہے، 17ركنی فل كورٹ بینچ نے 26جون 2015 كو 18 اور 21ویں آنینی ترامیم كے خلاف درخواستوں پر محفوظ كیا تھا۔