سارے جہاں کا درد
تھوڑا بہت امیر مینائی تو ہر کالم نگار ہوتا ہے لیکن ہم ویسے بھی کچھ زیادہ امیر مینائی تھے
PESHAWAR:
آپ کو تو پتہ ہے کہ ہم اپنے وقت کے امیر مینائی ہیں جن کے ''جگر'' میں سارے جہاں کا درد مستقل طور پر رہتا تھا چاہے ''برچھی'' کسی پر بھی چلی ہو بلکہ کبھی کبھی تو ہم سوچتے ہیں کہ ''امیر مینائی'' کو دنیا کا پہلا کالم نگار کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، فرق صرف یہ ہے کہ امیر صاحب اپنے ''کالم'' نظم میں لکھتے تھے اور ہم نثر میں کالم نگاری کرتے ہیں۔
تھوڑا بہت امیر مینائی تو ہر کالم نگار ہوتا ہے لیکن ہم ویسے بھی کچھ زیادہ امیر مینائی تھے اور آج کل تو بہت زیادہ امیر مینائی ہو رہے ہیں بلکہ ہمارا شاید اس شخص سے بھی کوئی نہ کوئی رشتہ ہے جس نے کام پر جانا اس وجہ سے ملتوی کر دیا تھا کہ خان کی گھوڑی نے ایک ایسا بچہ دیا تھا جس کے کان بھی نہیں تھے اور دم بھی، اور اس شخص کو یہ فکر لگی تھی کہ بڑا ہو کر اگر گھوڑی کا بچہ کسی دلدل میں پھنس جائے تو لوگ اسے کہاں سے پکڑ کر نکالیں گے کیوں کہ قابل گرفت آلات یعنی دم اور کان تو اس کے ہیں نہیں۔
ہمارے امیر مینائی ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ ہمیں ابھی سے یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ امریکا کے صدارتی الیکشن میں محترمہ ہیلری کلنٹن جیت گئی تو ٹھیک ہے لیکن اگر تیسرا ''بش'' جیت گیا جو پہلے والے دو ''بشوں'' سے مختلف ہو اگر مختلف ہوا تو ٹھیک ہے دنیا آرام کا سانس لے گی لیکن اگر وہ پہلے والے بشوں جیسا ہی نکلا تو اس میں سے کون سا ''بٹیر'' نکلے گا پہلے والے ایک ''بش'' سے تو عراق کا بٹیر نکلا تھا اور دوسرے سے افغانستان، اگر بٹیر نہیں نکلا تو ٹھیک ہے لیکن اگر اس ''جھاڑی'' میں سے بھی بٹیر نکلا تو وہ ایشیائی ہو گا افریقی ہو گا یا یورپی۔اگر ایشیائی یا افریقی ہوا تو ٹھیک ہے کیوں کہ ایشیا میں ویسے بھی ''بٹیر'' بہت پیدا ہوتے ہیں لیکن اگر یورپی ہوا تو ... مطلب یہ کہ امیر مینائی کا کام تو ہو ہی گیا نا۔
اور اگر بات کسی ایک ''درد'' کی ہوتی یا صرف جگر میں ''درد'' ہوتا تو ہم کچھ نہ کچھ گزارہ کر لیتے لیکن ہمارے تو جگر کے ساتھ ساتھ دل پھیپھڑوں اور گردوں میں بھی درد ہو جاتا ہے اور بہت زیادہ ہو جاتا ہے جو کسی بھی پین کلر سے نہیں رکتا، مثال کے طور پر یہ جو محترمہ ایان علی یا عیاں یا بیاں علی ہیں اس نے میڈیا کے پنجے سے رہائی کے بعد کیا کہا ہو گا یا یوں کہئے کہ میڈیا سے کیا کہا ہو گا کچھ نہ کچھ تو ضرور ہی کہا ہو گا اور وہ یقیناً ایسا نہیں ہو گا جو بنتا سنگھ نے سنتا سنگھ کے کان میں کہا تھا جسے سن کر سنتا سنگھ اسی وقت گرا، لوٹ پوٹ ہوا اور مر گیا، یہ دیکھ کر بنتا سنگھ مڑ کر بھاگا تو ایک ٹرک کے نیچے آکر چپلی کباب ہو گیا۔
اس کے بعد ... جھمکا گرا بریلی کے بازار میں ... ویسے اگر اس کی جگہ ہم ہوتے ... خیر اپنی اتنی قسمت کہاں ... کہ اتنی زیادہ کرنسی کے ساتھ پکڑے جائیں لیکن پھر بھی فرض تو کر سکتے ہیں کہ اگر محترمہ عیاں یا بیان جو کوئی بھی علی ہے کی جگہ ہم ہوتے تو کم از کم ''میڈیا'' کو یہ ضرور کہتے
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار گئے
یہ کہنا تو خیر غلط ہو گا کہ میڈیا کے چکنے گھڑے پر کچھ اثر ہوتا کیوں کہ میڈیا اب اس مقام سے بہت اونچا ہو چکا ہے جہاں شرمندگی کے ہاتھ تو کیا نظر بھی پہنچ نہ پائے گی لیکن یہ سوال ضرور پیدا ہو جاتا ہے کہ پس چہ بائد کرد اے اقوام شرق، یعنی
آئے ہے بے کسی میڈیا پہ رونا غالب
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
لیکن یہ سوال بھی شاید آج کل پیدا نہ ہو کیوں کہ شکر خورے کو خدا کسی نہ کسی طرح شکر دے ہی دیتا ہے ویسے بھی دو پیسے افیون بھی میڈیا کے لیے کافی ہوتی ہے کیوں کہ ''نشہ'' اس میں سر سے پیر تک بھرا ہوا ہے اس میں اتنی صلاحیت بلکہ آج کل ''ہنر'' ہے کہ ایک پاؤ پتھر سے بھی ایک کلو تیل نچوڑ لے اور کچھ بھی نہ ملے تو وہ ''انہماک'' والی خاتون یا خریداری کرتی ہوئی، جلسہ سنتی ہوئی، میچ دیکھتی ہوئی خواتین تو کہیں نہیں گئی ہیں۔
فقیر کے لیے ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو سو اور کھل جاتے ہیں کیوں کہ ''ملک خدا تنگ نیست اور پائے میڈلنگ نیست، کہیں نہ کہیں سے کوئی نہ کوئی عیاں کوئی بیان ہاتھ لگ ہی جائے گا اور پھر وہی ... اب یہاں ہماری سمجھ میں بالکل نہیں آرہا ہے کہ کیا ہو گا لیکن غالب گمان ہے کہ پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ پڑھیں گے ... روز ''خبر'' بنے گی ہر وقت ''تصویر'' چھپے گی، کم از کم محترمہ یہ تو نہیں کہہ سکے گی کہ لو میں چلی اپنا مرغا لے کر اب ڈھونڈتے رہ جاؤ گے صبح کو ... یا یہ کہ بارے آرام سے ہے اہل میڈیا میرے بعد ... کیوں کہ یک گو نہ رسوائی اسے ہر وقت چاہیے ہوتی ہے چاہے وہ کسی کی بھی ہو ... اخوند کے لیے تو دودھ چاہیے وہ کسی بھی جانور کا ہو
کون ہوتا ہے حریف مئے مرد افگن ''میڈیا''
ہے مکرر لب ''ساقی'' پہ صلا میرے بعد
اگرچہ دور کا سہی بہت کم زور سہی لیکن میڈیا سے ہمارا بھی کچھ نہ کچھ تعلق تو بنتا ہے بلکہ بنتا تھا جو تقریباً ویسا ہی تعلق ہے جو کسی امیر یا وزیر رشتہ دار سے کسی غریب رشتہ دار کا ہوتا ہے غریب رشتہ دار تو ہر جگہ یہ کہتے پھرتا ہے کہ فلاں صاحب میرا سگا بھائی ہے لیکن امیر یا وزیر بھائی سے کوئی پوچھے تو ... کون ہے یہ آدمی ... نام کچھ سنا ہوا سا لگتا ہے ... مگر وہ تو آپ کو اپنا بھائی بتاتا ہے اچھا اچھا وہ ہاں وہ میرا دور کا بھائی لگتا ہے کیوں کہ اس کے اور میرے درمیان دو بھائیوں اور دو بہنوں کا فاصلہ ہے لیکن پھر بھی رشتہ تو رشتہ ہوتا ہے چاہے کمزور ہی کیوں نہ ہو مطلب یہ کہ
گو واں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
میڈیا سے اس فقیر کو نسبت ہے دور کی
اس لیے جب میڈیا کی ''بے پناہ ترقی'' اور آزادی دیکھتے ہیں خود پر ''فخر'' ہونے لگتا ہے کہ کتنی زبردست ترقی ہم کر چکے ہیں، جابر سلطانوں سے، مطلق العنان آمروں سے اور ہر قسم کے سامراج سے تو ایک طرف کہ ہم تمام انسانی ''اخلاقیات'' اور اشرافیات سے بھی ماورا ہو گئے ہیں مجال ہے جو کوئی حکومت کوئی آئین کوئی قانون یا کوئی مذہب یا ضابطہ اخلاق ہمارا بال بھی بیکا کر سکے، ''گویا میڈیا جس سے ہمیں بھی نسبت تھی کبھی دور کی'' پا چکی ہے، ویسے شاید یہ بھی اس بے پناہ آزادی اور حق گوئی و بے باکی کا پھل ہے کہ معاشرہ بھی اس آزادی سے شرابور ہو چکا ہے چنانچہ اس بدنامی و رسوائی کو بھی کیش کرنے کے سامان نکل آئے ہیں، میڈیا کی طرف سے تمغے اور ایوارڈ حاصل کرنے والے لوگ بھی
چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی
پر عمل پیرا ہونے لگے ہیں چنانچہ ایسے ''رسوا'' لوگ اپنی رسوائی سے بھی میٹھا پھل حاصل کر لیتے ہیں ان پر کتابیں لکھی جاتی ہیں، ٹی وی پروگرام ہوتے ہیں حتیٰ کہ ایک ''رومانی ہالے'' میں پہنچ کر دام و درم بھی حاصل کرنے لگتے ہیں یوں کہئے کہ وہ ڈریکولا والی بات ہو گئی کہ ویمپائر کا ڈسا ہوا بھی ویمپائر بن کر نکلتا ہے اور دوسروں کو ویمپائر بنانے لگتا ہے، خربوزہ خربوزے سے رنگ پکڑتا ہے اور رسوائیاں دودھیل گائے بن کر دودھ دینے لگتی ہیں، چنانچہ اب کوئی بھی عیاں ایک بیان بن کر جہاں کو فتح کر سکتا ہے
قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے
کام اچھا ہے وہ جس کا کہ ''مآل'' اچھا ہے
اور یہاں تو صرف مآل ہی نہیں ''مال'' بھی اچھا ہوتا ہے۔
آپ کو تو پتہ ہے کہ ہم اپنے وقت کے امیر مینائی ہیں جن کے ''جگر'' میں سارے جہاں کا درد مستقل طور پر رہتا تھا چاہے ''برچھی'' کسی پر بھی چلی ہو بلکہ کبھی کبھی تو ہم سوچتے ہیں کہ ''امیر مینائی'' کو دنیا کا پہلا کالم نگار کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، فرق صرف یہ ہے کہ امیر صاحب اپنے ''کالم'' نظم میں لکھتے تھے اور ہم نثر میں کالم نگاری کرتے ہیں۔
تھوڑا بہت امیر مینائی تو ہر کالم نگار ہوتا ہے لیکن ہم ویسے بھی کچھ زیادہ امیر مینائی تھے اور آج کل تو بہت زیادہ امیر مینائی ہو رہے ہیں بلکہ ہمارا شاید اس شخص سے بھی کوئی نہ کوئی رشتہ ہے جس نے کام پر جانا اس وجہ سے ملتوی کر دیا تھا کہ خان کی گھوڑی نے ایک ایسا بچہ دیا تھا جس کے کان بھی نہیں تھے اور دم بھی، اور اس شخص کو یہ فکر لگی تھی کہ بڑا ہو کر اگر گھوڑی کا بچہ کسی دلدل میں پھنس جائے تو لوگ اسے کہاں سے پکڑ کر نکالیں گے کیوں کہ قابل گرفت آلات یعنی دم اور کان تو اس کے ہیں نہیں۔
ہمارے امیر مینائی ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ ہمیں ابھی سے یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ امریکا کے صدارتی الیکشن میں محترمہ ہیلری کلنٹن جیت گئی تو ٹھیک ہے لیکن اگر تیسرا ''بش'' جیت گیا جو پہلے والے دو ''بشوں'' سے مختلف ہو اگر مختلف ہوا تو ٹھیک ہے دنیا آرام کا سانس لے گی لیکن اگر وہ پہلے والے بشوں جیسا ہی نکلا تو اس میں سے کون سا ''بٹیر'' نکلے گا پہلے والے ایک ''بش'' سے تو عراق کا بٹیر نکلا تھا اور دوسرے سے افغانستان، اگر بٹیر نہیں نکلا تو ٹھیک ہے لیکن اگر اس ''جھاڑی'' میں سے بھی بٹیر نکلا تو وہ ایشیائی ہو گا افریقی ہو گا یا یورپی۔اگر ایشیائی یا افریقی ہوا تو ٹھیک ہے کیوں کہ ایشیا میں ویسے بھی ''بٹیر'' بہت پیدا ہوتے ہیں لیکن اگر یورپی ہوا تو ... مطلب یہ کہ امیر مینائی کا کام تو ہو ہی گیا نا۔
اور اگر بات کسی ایک ''درد'' کی ہوتی یا صرف جگر میں ''درد'' ہوتا تو ہم کچھ نہ کچھ گزارہ کر لیتے لیکن ہمارے تو جگر کے ساتھ ساتھ دل پھیپھڑوں اور گردوں میں بھی درد ہو جاتا ہے اور بہت زیادہ ہو جاتا ہے جو کسی بھی پین کلر سے نہیں رکتا، مثال کے طور پر یہ جو محترمہ ایان علی یا عیاں یا بیاں علی ہیں اس نے میڈیا کے پنجے سے رہائی کے بعد کیا کہا ہو گا یا یوں کہئے کہ میڈیا سے کیا کہا ہو گا کچھ نہ کچھ تو ضرور ہی کہا ہو گا اور وہ یقیناً ایسا نہیں ہو گا جو بنتا سنگھ نے سنتا سنگھ کے کان میں کہا تھا جسے سن کر سنتا سنگھ اسی وقت گرا، لوٹ پوٹ ہوا اور مر گیا، یہ دیکھ کر بنتا سنگھ مڑ کر بھاگا تو ایک ٹرک کے نیچے آکر چپلی کباب ہو گیا۔
اس کے بعد ... جھمکا گرا بریلی کے بازار میں ... ویسے اگر اس کی جگہ ہم ہوتے ... خیر اپنی اتنی قسمت کہاں ... کہ اتنی زیادہ کرنسی کے ساتھ پکڑے جائیں لیکن پھر بھی فرض تو کر سکتے ہیں کہ اگر محترمہ عیاں یا بیان جو کوئی بھی علی ہے کی جگہ ہم ہوتے تو کم از کم ''میڈیا'' کو یہ ضرور کہتے
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار گئے
یہ کہنا تو خیر غلط ہو گا کہ میڈیا کے چکنے گھڑے پر کچھ اثر ہوتا کیوں کہ میڈیا اب اس مقام سے بہت اونچا ہو چکا ہے جہاں شرمندگی کے ہاتھ تو کیا نظر بھی پہنچ نہ پائے گی لیکن یہ سوال ضرور پیدا ہو جاتا ہے کہ پس چہ بائد کرد اے اقوام شرق، یعنی
آئے ہے بے کسی میڈیا پہ رونا غالب
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
لیکن یہ سوال بھی شاید آج کل پیدا نہ ہو کیوں کہ شکر خورے کو خدا کسی نہ کسی طرح شکر دے ہی دیتا ہے ویسے بھی دو پیسے افیون بھی میڈیا کے لیے کافی ہوتی ہے کیوں کہ ''نشہ'' اس میں سر سے پیر تک بھرا ہوا ہے اس میں اتنی صلاحیت بلکہ آج کل ''ہنر'' ہے کہ ایک پاؤ پتھر سے بھی ایک کلو تیل نچوڑ لے اور کچھ بھی نہ ملے تو وہ ''انہماک'' والی خاتون یا خریداری کرتی ہوئی، جلسہ سنتی ہوئی، میچ دیکھتی ہوئی خواتین تو کہیں نہیں گئی ہیں۔
فقیر کے لیے ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو سو اور کھل جاتے ہیں کیوں کہ ''ملک خدا تنگ نیست اور پائے میڈلنگ نیست، کہیں نہ کہیں سے کوئی نہ کوئی عیاں کوئی بیان ہاتھ لگ ہی جائے گا اور پھر وہی ... اب یہاں ہماری سمجھ میں بالکل نہیں آرہا ہے کہ کیا ہو گا لیکن غالب گمان ہے کہ پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ پڑھیں گے ... روز ''خبر'' بنے گی ہر وقت ''تصویر'' چھپے گی، کم از کم محترمہ یہ تو نہیں کہہ سکے گی کہ لو میں چلی اپنا مرغا لے کر اب ڈھونڈتے رہ جاؤ گے صبح کو ... یا یہ کہ بارے آرام سے ہے اہل میڈیا میرے بعد ... کیوں کہ یک گو نہ رسوائی اسے ہر وقت چاہیے ہوتی ہے چاہے وہ کسی کی بھی ہو ... اخوند کے لیے تو دودھ چاہیے وہ کسی بھی جانور کا ہو
کون ہوتا ہے حریف مئے مرد افگن ''میڈیا''
ہے مکرر لب ''ساقی'' پہ صلا میرے بعد
اگرچہ دور کا سہی بہت کم زور سہی لیکن میڈیا سے ہمارا بھی کچھ نہ کچھ تعلق تو بنتا ہے بلکہ بنتا تھا جو تقریباً ویسا ہی تعلق ہے جو کسی امیر یا وزیر رشتہ دار سے کسی غریب رشتہ دار کا ہوتا ہے غریب رشتہ دار تو ہر جگہ یہ کہتے پھرتا ہے کہ فلاں صاحب میرا سگا بھائی ہے لیکن امیر یا وزیر بھائی سے کوئی پوچھے تو ... کون ہے یہ آدمی ... نام کچھ سنا ہوا سا لگتا ہے ... مگر وہ تو آپ کو اپنا بھائی بتاتا ہے اچھا اچھا وہ ہاں وہ میرا دور کا بھائی لگتا ہے کیوں کہ اس کے اور میرے درمیان دو بھائیوں اور دو بہنوں کا فاصلہ ہے لیکن پھر بھی رشتہ تو رشتہ ہوتا ہے چاہے کمزور ہی کیوں نہ ہو مطلب یہ کہ
گو واں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
میڈیا سے اس فقیر کو نسبت ہے دور کی
اس لیے جب میڈیا کی ''بے پناہ ترقی'' اور آزادی دیکھتے ہیں خود پر ''فخر'' ہونے لگتا ہے کہ کتنی زبردست ترقی ہم کر چکے ہیں، جابر سلطانوں سے، مطلق العنان آمروں سے اور ہر قسم کے سامراج سے تو ایک طرف کہ ہم تمام انسانی ''اخلاقیات'' اور اشرافیات سے بھی ماورا ہو گئے ہیں مجال ہے جو کوئی حکومت کوئی آئین کوئی قانون یا کوئی مذہب یا ضابطہ اخلاق ہمارا بال بھی بیکا کر سکے، ''گویا میڈیا جس سے ہمیں بھی نسبت تھی کبھی دور کی'' پا چکی ہے، ویسے شاید یہ بھی اس بے پناہ آزادی اور حق گوئی و بے باکی کا پھل ہے کہ معاشرہ بھی اس آزادی سے شرابور ہو چکا ہے چنانچہ اس بدنامی و رسوائی کو بھی کیش کرنے کے سامان نکل آئے ہیں، میڈیا کی طرف سے تمغے اور ایوارڈ حاصل کرنے والے لوگ بھی
چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی
پر عمل پیرا ہونے لگے ہیں چنانچہ ایسے ''رسوا'' لوگ اپنی رسوائی سے بھی میٹھا پھل حاصل کر لیتے ہیں ان پر کتابیں لکھی جاتی ہیں، ٹی وی پروگرام ہوتے ہیں حتیٰ کہ ایک ''رومانی ہالے'' میں پہنچ کر دام و درم بھی حاصل کرنے لگتے ہیں یوں کہئے کہ وہ ڈریکولا والی بات ہو گئی کہ ویمپائر کا ڈسا ہوا بھی ویمپائر بن کر نکلتا ہے اور دوسروں کو ویمپائر بنانے لگتا ہے، خربوزہ خربوزے سے رنگ پکڑتا ہے اور رسوائیاں دودھیل گائے بن کر دودھ دینے لگتی ہیں، چنانچہ اب کوئی بھی عیاں ایک بیان بن کر جہاں کو فتح کر سکتا ہے
قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے
کام اچھا ہے وہ جس کا کہ ''مآل'' اچھا ہے
اور یہاں تو صرف مآل ہی نہیں ''مال'' بھی اچھا ہوتا ہے۔