بولنے والوں کے شور میں خاموشی کی آواز
آئی اے رحمن صاحب نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں دوستی کے باب میں کچھ باتیں کی ہیں۔
آئی اے رحمن صاحب نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں دوستی کے باب میں کچھ باتیں کی ہیں۔ ہم شوق سے یہ تحریر پڑھتے چلے گئے۔ ایک مقام پر آ کر ہم چونکے اور جس دوستی کا ذکر کیا گیا تھا اسے پڑھا دل ہی دل میں دونوں دوستوں کو بہت داد دی۔ اور داد کیوں دی' وہ بھی بتائیں گے۔ پہلے اس دوستی کا احوال سن لیجیے۔ رحمن صاحب نے فیض صاحب اور سید سجاد ظہیر عرف بنے بھائی کی دوستی کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ دونوں دوست جب اکٹھے بیٹھتے تھے تو دو دو تین گھنٹے تک چپ بیٹھے رہتے تھے۔
دوستوں کا عام شیوہ تو یہی ہے کہ جب سر جوڑ کر بیٹھے تو بس رواں ہو گئے۔ بات سے بات نکلتی چلی جا رہی ہے اور بولتے چلے جا رہے ہیں ۔ مگر ان دو دوستوں نے اپنی دوستی سے یہ ثابت کیا کہ دوستی کلام کی محتاج نہیں ہے۔ کوئی لازم نہیں کہ جب دو دو ست اکٹھے ہوں تو باتیں بھی ضرور کریں۔ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو کیا ضرور ہے کہ جب مل بیٹھیں تو بات چیت بھی کریں۔ خاموشی بھی تو اپنی جگہ ایک زبان ہے۔ اس زبان میں بھی گفتگو ہو سکتی ہے۔
باقی رہا ان دو دوستوں کا معاملہ تو ہم نے اس رنگ دوستی پر فیض صاحب کو کم اور سجاد ظہیر مرحوم کو زیادہ داد دی۔ بات یہ ہے کہ فیض صاحب کی تو مرغوب غذا ہی خاموشی تھی۔ مگر سجاد ظہیر تو ایک تحریک کی قیادت کر رہے تھے۔ اور تحریک بھی کونسی' انقلابی تحریک انقلاب اور خاموشی' یہ تو اجتماع ضدین ہو گا فیض صاحب کے فیض صحبت سے دوست نے یہ سیکھا کہ ایک مقام بولنے کا ہوتا ہے اور ایک مقام چپ رہنے کا ہوتا ہے۔ کامریڈوں کے اجتماع میں بیشک بولو' تقریر کرو' نعرہ لگاؤ ۔ مگر جب دوست کے ساتھ مل کر بیٹھو تو بولنا چنداں ضروری نہیں۔ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے ۔ وہ خود خاموشی کی زبان میں مکالمہ کی صورت پیدا کر لیں گے۔
مگر ہم ایک ایسے زمانے میں سانس لے رہے ہیں جب سیاستدانوں اور خطیبوں کے علاوہ بھی ہر مخلوق بے تکان بول رہی ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو تو ایک سہولت میسر ہے۔ تردیدی بیان کی سہولت۔ ان کے کسی بیان پر مخالفوں نے انگشت نمائی کی تو دوسرے دن ایک اور بیان جاری کر دیا اور اپنے کہے ہوئے کی یہ کہہ کر تردید کر دی کہ میرے بیان کو اخبار نے تو ڑ مروڑ کر شایع کیا ہے میں نے یوں نہیں بلکہ یوں کہا تھا۔
مگر بولنے والے ادیبوں کو یہ سہولت میسر نہیں ہے۔ اس کا تو بیان ہی اخبار میں مشکل سے چھپتا ہے۔ پھر وہ تردید بھی کرے تو نیوز ایڈیٹر اسے شایع کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔ شاید کچھ ایسا ہی واقعہ ڈاکٹر وحید قریشی کے ساتھ گزرا تھا۔ اخبار نے تو ان کا تردیدی بیان شایع نہیں کیا۔ مگر انجم رومانی نے جو اس بہانے ان کی ہجو لکھی اسے پر لگ گئے ۔ اس ہجو کا ایک شعر ہمیں یاد رہ گیا ہے جو یوں ہے ؎
بات کو تول وحید قریشی
پھر بھی نہ بول وحید قریشی
مگر ایسا مشورہ سیاستداں کو نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے پاس تو تردید کا نسخہ موجود ہے۔ اعتراض کر کے دیکھو۔ ادھر سے تردیدی بیان آ جائے گا۔ الطاف حسین صاحب جب زبان کھولتے ہیں تو کسی نہ کسی مقام پر پکڑے جاتے ہیں۔ مگر دوسرے دن وہ بلا تکلف دوسرا بیان جاری کر دیتے ہیں کہ میرے بیان کو سیاق و سباق سے الگ کر کے چھاپا گیا تھا۔ میں نے یہ بات یوں نہیں کہی تھی۔ یار تردیدی بیان میں بھی کسی نہ کسی فقرے پر انھیں پکڑ لیتے ہیں۔ ادھر سے مزید ایک تردیدی بیان آ جاتا ہے تو پلہ تو انھیں کا بھاری رہتا ہے۔ اعتراض کرنے والے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
خیر سیاستدانوں کا ذکر ہم نے بلاوجہ چھیڑا۔ ان کا اپنا ایک کلچر ہے۔ بیان بازی اس کلچر کا حصہ ہے۔ سیاستدان کی طرف سے دیر تک کوئی بیان نہ آئے تو اغیار یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ سیاستداں کی جو گڈی چڑھی تھی وہ
اتر گئی تو اس کے لیے بولنا' تقریر کرنا' بیاں جاری کرتے رہنا ضروری امر ہے یہ اس کی موت اور زندگی کا مسئلہ ہے۔
مگر شاعروں ادیبوں کو تقریریں کرنا' بیان جاری کرنا کچھ زیب نہیں دیتا۔ مگر ہمارا زمانہ ہی ایسا ہے کہ ادیبوں کو یہ دھندا بھی کرنا پڑتا ہے۔ مگر دیکھئے فیض صاحب کی ایک ادا یہ بھی تھی کہ ان پر اعتراض ہو رہے ہیں۔ ا ور ادھر یہ عالم کہ ایک چپ سو کو ہرائے۔ پھر ایک وقت وہ آیا کہ ان کے معترضین بھی ان کے مداح بن گئے۔ خاموشی کا اجر مل گیا۔
لیجیے ہمیں اس زمانے کا ایک اہل فن اور یاد آ گیا۔ یہ شاکر علی تھے۔ ان کے اردگرد بیٹھے یار چہکتے رہتے تھے۔ وہ چپ' نہ منہ سے بولتے تھے نہ سر سے کھیلتے تھے۔ اور بول کر کرتے بھی کیا۔ زبان کھولتے بھی تھے تو فقرہ ادھورا رہ جاتا تھا۔ ادھر وہ یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتے تھے کہ بات تو میں نے کہہ ہی دی ہے۔ فقرہ ادھورا رہ گیا تو کیا سننے والے میں اتنی سمجھ ہونی چاہیے کہ ادھورے فقرے کو خود مکمل کر لے۔
مگر ادھر کافی ہاؤس میں ریاض قادر صبح آ کر بیٹھتے تھے اور رات کو کافی ہاؤس کے بند ہونے تک اپنے گوشے میں بیٹھے رہتے تھے اور بولتے رہتے تھے۔ جو بھی موضوع زیر بحث آ جاتا' تجریدی مصوری کا' نئی شاعری کا' پاکستانی سیاست کا وہ جاری ہو جاتے تھے۔ جب بیان لمبا ہو جاتا اور وہ تھمنے میں نہ آتے تو سامعین میں سے کوئی کوئی اپنی کافی کی پیالی سے انصاف کر کے اٹھنے لگتا تو وہ برہم ہو جاتے اور کہتے کہ صاحب فقرہ تو مکمل ہو جانے دیجیے۔ مگر اپنے ہوش میں ریاض قادر کا فقرہ مکمل ہوتے نہیں دیکھا۔
ہاں جب بھٹو صاحب نئے نئے نمودار ہوئے تھے تو سیاست کا بازار بہت گرم تھا۔ بیان بازی اپنے عروج پر تھی۔ ادیبوں کی بھی بن آئی تھی۔ آئے دن ان کی طرف سے بیان جاری ہوتے تھے۔ ایک شام ٹی ہاؤس میں بیٹھے بیٹھے ناصر کاظمی نے کہا کہ آج میں بھی ایک بیان دینا چا ہتا ہوں۔ اخبار میں چھپے گا؟
ہم نے کہا کہ کیوں نہیں۔ یہ بیانات کا موسم ہے۔ ایک بیان برنگ ناصر کاظمی بھی سہی۔
کہا کہ لکھو' ناصر کا بیان' شاعر کہتا ہے کہ آج میں اداس ہوں۔
ہم نے پوچھا کہ آگے۔ بولے کہ یہ بیان اپنی جگہ مکمل ہے۔ ہم نے کہا کہ اخباری نقطۂ نظر سے یہ کوئی بیان نہیں ہے۔ سو اخبار میں تو نہیں چھپ سکتا۔ ہاں ہمارے کالم کی زینت بن سکتا ہے۔
دوستوں کا عام شیوہ تو یہی ہے کہ جب سر جوڑ کر بیٹھے تو بس رواں ہو گئے۔ بات سے بات نکلتی چلی جا رہی ہے اور بولتے چلے جا رہے ہیں ۔ مگر ان دو دوستوں نے اپنی دوستی سے یہ ثابت کیا کہ دوستی کلام کی محتاج نہیں ہے۔ کوئی لازم نہیں کہ جب دو دو ست اکٹھے ہوں تو باتیں بھی ضرور کریں۔ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو کیا ضرور ہے کہ جب مل بیٹھیں تو بات چیت بھی کریں۔ خاموشی بھی تو اپنی جگہ ایک زبان ہے۔ اس زبان میں بھی گفتگو ہو سکتی ہے۔
باقی رہا ان دو دوستوں کا معاملہ تو ہم نے اس رنگ دوستی پر فیض صاحب کو کم اور سجاد ظہیر مرحوم کو زیادہ داد دی۔ بات یہ ہے کہ فیض صاحب کی تو مرغوب غذا ہی خاموشی تھی۔ مگر سجاد ظہیر تو ایک تحریک کی قیادت کر رہے تھے۔ اور تحریک بھی کونسی' انقلابی تحریک انقلاب اور خاموشی' یہ تو اجتماع ضدین ہو گا فیض صاحب کے فیض صحبت سے دوست نے یہ سیکھا کہ ایک مقام بولنے کا ہوتا ہے اور ایک مقام چپ رہنے کا ہوتا ہے۔ کامریڈوں کے اجتماع میں بیشک بولو' تقریر کرو' نعرہ لگاؤ ۔ مگر جب دوست کے ساتھ مل کر بیٹھو تو بولنا چنداں ضروری نہیں۔ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے ۔ وہ خود خاموشی کی زبان میں مکالمہ کی صورت پیدا کر لیں گے۔
مگر ہم ایک ایسے زمانے میں سانس لے رہے ہیں جب سیاستدانوں اور خطیبوں کے علاوہ بھی ہر مخلوق بے تکان بول رہی ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو تو ایک سہولت میسر ہے۔ تردیدی بیان کی سہولت۔ ان کے کسی بیان پر مخالفوں نے انگشت نمائی کی تو دوسرے دن ایک اور بیان جاری کر دیا اور اپنے کہے ہوئے کی یہ کہہ کر تردید کر دی کہ میرے بیان کو اخبار نے تو ڑ مروڑ کر شایع کیا ہے میں نے یوں نہیں بلکہ یوں کہا تھا۔
مگر بولنے والے ادیبوں کو یہ سہولت میسر نہیں ہے۔ اس کا تو بیان ہی اخبار میں مشکل سے چھپتا ہے۔ پھر وہ تردید بھی کرے تو نیوز ایڈیٹر اسے شایع کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔ شاید کچھ ایسا ہی واقعہ ڈاکٹر وحید قریشی کے ساتھ گزرا تھا۔ اخبار نے تو ان کا تردیدی بیان شایع نہیں کیا۔ مگر انجم رومانی نے جو اس بہانے ان کی ہجو لکھی اسے پر لگ گئے ۔ اس ہجو کا ایک شعر ہمیں یاد رہ گیا ہے جو یوں ہے ؎
بات کو تول وحید قریشی
پھر بھی نہ بول وحید قریشی
مگر ایسا مشورہ سیاستداں کو نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے پاس تو تردید کا نسخہ موجود ہے۔ اعتراض کر کے دیکھو۔ ادھر سے تردیدی بیان آ جائے گا۔ الطاف حسین صاحب جب زبان کھولتے ہیں تو کسی نہ کسی مقام پر پکڑے جاتے ہیں۔ مگر دوسرے دن وہ بلا تکلف دوسرا بیان جاری کر دیتے ہیں کہ میرے بیان کو سیاق و سباق سے الگ کر کے چھاپا گیا تھا۔ میں نے یہ بات یوں نہیں کہی تھی۔ یار تردیدی بیان میں بھی کسی نہ کسی فقرے پر انھیں پکڑ لیتے ہیں۔ ادھر سے مزید ایک تردیدی بیان آ جاتا ہے تو پلہ تو انھیں کا بھاری رہتا ہے۔ اعتراض کرنے والے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
خیر سیاستدانوں کا ذکر ہم نے بلاوجہ چھیڑا۔ ان کا اپنا ایک کلچر ہے۔ بیان بازی اس کلچر کا حصہ ہے۔ سیاستدان کی طرف سے دیر تک کوئی بیان نہ آئے تو اغیار یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ سیاستداں کی جو گڈی چڑھی تھی وہ
اتر گئی تو اس کے لیے بولنا' تقریر کرنا' بیاں جاری کرتے رہنا ضروری امر ہے یہ اس کی موت اور زندگی کا مسئلہ ہے۔
مگر شاعروں ادیبوں کو تقریریں کرنا' بیان جاری کرنا کچھ زیب نہیں دیتا۔ مگر ہمارا زمانہ ہی ایسا ہے کہ ادیبوں کو یہ دھندا بھی کرنا پڑتا ہے۔ مگر دیکھئے فیض صاحب کی ایک ادا یہ بھی تھی کہ ان پر اعتراض ہو رہے ہیں۔ ا ور ادھر یہ عالم کہ ایک چپ سو کو ہرائے۔ پھر ایک وقت وہ آیا کہ ان کے معترضین بھی ان کے مداح بن گئے۔ خاموشی کا اجر مل گیا۔
لیجیے ہمیں اس زمانے کا ایک اہل فن اور یاد آ گیا۔ یہ شاکر علی تھے۔ ان کے اردگرد بیٹھے یار چہکتے رہتے تھے۔ وہ چپ' نہ منہ سے بولتے تھے نہ سر سے کھیلتے تھے۔ اور بول کر کرتے بھی کیا۔ زبان کھولتے بھی تھے تو فقرہ ادھورا رہ جاتا تھا۔ ادھر وہ یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتے تھے کہ بات تو میں نے کہہ ہی دی ہے۔ فقرہ ادھورا رہ گیا تو کیا سننے والے میں اتنی سمجھ ہونی چاہیے کہ ادھورے فقرے کو خود مکمل کر لے۔
مگر ادھر کافی ہاؤس میں ریاض قادر صبح آ کر بیٹھتے تھے اور رات کو کافی ہاؤس کے بند ہونے تک اپنے گوشے میں بیٹھے رہتے تھے اور بولتے رہتے تھے۔ جو بھی موضوع زیر بحث آ جاتا' تجریدی مصوری کا' نئی شاعری کا' پاکستانی سیاست کا وہ جاری ہو جاتے تھے۔ جب بیان لمبا ہو جاتا اور وہ تھمنے میں نہ آتے تو سامعین میں سے کوئی کوئی اپنی کافی کی پیالی سے انصاف کر کے اٹھنے لگتا تو وہ برہم ہو جاتے اور کہتے کہ صاحب فقرہ تو مکمل ہو جانے دیجیے۔ مگر اپنے ہوش میں ریاض قادر کا فقرہ مکمل ہوتے نہیں دیکھا۔
ہاں جب بھٹو صاحب نئے نئے نمودار ہوئے تھے تو سیاست کا بازار بہت گرم تھا۔ بیان بازی اپنے عروج پر تھی۔ ادیبوں کی بھی بن آئی تھی۔ آئے دن ان کی طرف سے بیان جاری ہوتے تھے۔ ایک شام ٹی ہاؤس میں بیٹھے بیٹھے ناصر کاظمی نے کہا کہ آج میں بھی ایک بیان دینا چا ہتا ہوں۔ اخبار میں چھپے گا؟
ہم نے کہا کہ کیوں نہیں۔ یہ بیانات کا موسم ہے۔ ایک بیان برنگ ناصر کاظمی بھی سہی۔
کہا کہ لکھو' ناصر کا بیان' شاعر کہتا ہے کہ آج میں اداس ہوں۔
ہم نے پوچھا کہ آگے۔ بولے کہ یہ بیان اپنی جگہ مکمل ہے۔ ہم نے کہا کہ اخباری نقطۂ نظر سے یہ کوئی بیان نہیں ہے۔ سو اخبار میں تو نہیں چھپ سکتا۔ ہاں ہمارے کالم کی زینت بن سکتا ہے۔