منزل انھیں ملی
عمران خان آج کل دو قسم کے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ پہلی بات ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمن کی مخالفت ہے۔
عمران خان آج کل دو قسم کے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ پہلی بات ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمن کی مخالفت ہے۔ وہ تحریک انصاف کے استعفوں کی منظوری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دھرنوں کے دوران قومی اسمبلی کو خیر باد کہنے کی کوشش سے دونوں پارٹیاں فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
عمران خان نے الطاف حسین اور مولانا فضل الرحمن کے بارے میں جو انتہائی سخت زبان استعمال کی تھی، وہ اس کا بدلہ چکانا چاہتے ہیں۔ نواز شریف اور ان کی پارٹی کے سلجھے ہوئے لوگوں کی خواہش ہے کہ تحریک انصاف کو اسمبلیوں کے اندر رکھا جائے۔ اگر انھیں نکال باہر کیا گیا تو وہ حکومت کو نکال باہر کرنے کے لیے سڑکوں پر آجائیں گے۔ جمعیت اور ایم کیو ایم کا اس حوالے سے اسٹیک کم تر ہے۔
متحدہ تو کسی حکومت میں شامل ہی نہیں۔ نواز شریف کے حکومت میں رہنے یا جانے میں ان کا فائدہ رخصتی میں زیادہ ہے۔ یوں وہ ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو وفاقی حکومت میں غیر اہم وزارتیں پسند ہیں۔وہ خیبر پختونخوا میں اپنے لیے سرکتی زمین سے زیادہ خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ فضل الرحمن کے چاہنے والے بھی عمران کو پسند نہیں کرتے۔ کسی نے مولانا پر کبھی تنقید ہی نہیں کی۔
آصف زرداری ہوں یا نواز شریف، قاضی حسین ہو یا سراج الحق، چوہدری شجاعت ہوں یا الطاف حسین، یہ تمام مولانا سے تمام تر اختلافات کے باوجود حفظ مراتب کا خیال رکھتے ہیں۔ عمران نے فضل الرحمن پر الزامات کی بوچھاڑ کرکے ان کے سیاسی معتقدین کے دل میں اپنے لیے تلخی پیدا کردی۔ یوں مولانا کو اپنے حساب چکانے کے لیے استعفوں کی منظوری کی تحریک کا ایک اچھا موقع ملا ہے۔ یہی صورتحال متحدہ کی ہے۔ کسی نے الطاف حسین پر اس انداز سے تنقید نہیں کی جو عمران نے دو تین سال قبل کی تھی۔ الیکشن میں ووٹوں کے لحاظ سے دوسری بڑی پارٹی بننے کے عمل نے عمران میں اعتماد پیدا کیا۔
کراچی سے آٹھ لاکھ ووٹوں نے تحریک انصاف کو ایم کیو ایم کا حریف بنادیا۔ یوں یہ دونوں پارٹیاں تحریک انصاف سے بدلہ لینے کے لیے اسے ڈی سیٹ کروانا چاہتی ہیں۔ عمران کے لیے یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اسمبلی سے باہر آکر وہ مظلوم بن جائیں گے۔ پیپلز پارٹی کے استعفے مڈٹرم الیکشن کی صورتحال پیدا کریں گے۔ یوں عمران اس بات سے بے نیاز ہیں کہ وہ اسمبلی میں رہتے ہیں یا نہیں۔ ان کے لیے دوسرا مسئلہ بڑا اہم ہے۔تحریک انصاف نے پارٹی میں الیکشن کروا کر اپنے لیے مصیبت مول لی۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسی کوئی روایت نہیں۔
آئین میں ایک آرٹیکل تھا کہ سیاسی پارٹیاں اپنے اندرونی نظام کو بہتر بنانے کے لیے انتخاب کروائیں گی۔ اٹھارویں ترمیم میں 17(4) ختم کرکے پارٹیوں نے اپنے آپ کو آزاد کرلیا۔ اس رعایت کے باوجود بھی عمران کی خواہش تھی کہ پارٹی میں جمہوری روایات پروان چڑھیں۔ وہ اس بات کو نہ سمجھ سکے کہ یہ کلچر پاکستان سیاست میں موجود ہی نہیں۔ صرف جماعت اسلامی میں انتخابات ہوتے ہیں۔ اس میں بھی نہ کوئی امیدوار ہوتا ہے اور نہ کوئی انتخابی مہم۔ نہ کوئی ووٹر سے رابطہ کرتا ہے اور نہ اشارے کنایوں میں اپنے لیے ووٹ مانگتا ہے۔ تربیت کا اعلیٰ نظام اور لٹریچر کا مطالعہ انھیں اس قابل بناتا ہے۔ عمران اس بات کو نہ سمجھ سکے؟انتخابات میں جب دو امیدوار آمنے سامنے ہوتے ہیں تو ان میں تلخی پیدا ہونا لازمی ہے۔
شیخ رشید کہتے ہیں کہ کالج کے زمانے میں انھوں نے جس طالبعلم کو شکست دی تھی، وہ اسے ابھی تک فراموش نہیں کرسکا۔ اسٹوڈنٹس یونین کے الیکشن میں شکست کا بدلہ وہ اس طرح لیتا ہے کہ قومی اسمبلی کے ہر الیکشن میں میرے مخالف کا حامی بن کر سامنے آجاتا ہے۔ جمعیت علما اسلام کے پارٹی انتخابات میں جنرل سیکریٹری کے عہدے پر حافظ حسین احمد فائز تھے۔ غفور حیدری ان کے مقابل آگئے۔ فضل الرحمن کی حمایت غفور حیدری کو حاصل تھی۔ پھر کس طرح تلخیوں نے جنم لیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ یوں جب ایک ہی پارٹی کے اندر دو گروہ آمنے سامنے آجائیں یا دو امیدوار مقابل ہوں تو ایک مقصد کے لیے کام کرنیوالے اپنے درمیان خلیج محسوس کرتے ہیں۔ یورپ اور امریکا کے دو تین صدیوں پر مشتمل سیاسی نظام کو پاکستان میں لاگو کرنا خطرناک ثابت ہوا۔یہ 2013 کا ابتدائی زمانہ تھا۔ یہ طے تھا کہ یہ انتخابات کا سال ہے۔
تحریک انصاف نے اپنے اندر انتخابی ڈول ڈالا۔ تین چار مہینے میں طے ہوجانے والا معاملہ گیارہ ماہ تک طول پکڑ گیا۔ اتنی تاخیر ہوئی کہ قومی انتخاب کا اعلان ہوگیا اور پارٹی اپنے انتخابات میں الجھی ہوئی تھی۔ اس کا اثر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں ہوا۔ دو گروہ میں بٹی پارٹی کس طرح مخالف سیاسی پارٹیوں کا مقابلہ کرسکتی ہے؟ ہارنیوالا امیدوار کس طرح اپنے مخالف کی اسمبلی تک رسائی میں مدد کرسکتا تھا۔ یوں کارکنان کی تربیت کے بغیر اس طرح کے خطرناک انتخابی معرکے نے تحریک انصاف کو الجھن میں ڈال دیا۔ ایک نیا مسئلہ تب پیدا ہوا جب جسٹس وجیہہ الدین نے پارٹی انتخابات کے حوالے سے اپنی سفارشات چیئرمین کو پیش کیں۔
یہ کیا مسئلہ تھا اور کیا بن گیا۔مسئلہ تھا کہ پارٹی انتخابات میں کن لوگوں نے غیر اخلاقی حربہ اختیار کیا؟ آگے چل کر یہ مسئلہ کس جانب بڑھ گیا؟ جسٹس وجیہہ نے رپورٹ دی کہ جہانگیر ترین، پرویز خٹک، عبدالعلیم خان اور نادر لغاری اپنے آپ کو منتخب کروانے کے لیے درست کام نہیں کیے۔ ان کی سفارش تھی کہ ان کی بنیادی رکنیت ختم کردی جائے۔ پارٹی کے مرکزی جنرل سیکریٹری، خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ اور لاہور اور سندھ کے صدور کو پارٹی سے خارج کرنے کا کہا گیا۔ یہ کوئی آسان فیصلہ نہ تھا۔ یوں عمران اور جسٹس وجیہہ کے درمیان دوری نظر آنے لگی۔
یہ مسئلہ کیا رخ اختیار کرگیا؟ محسوس ہوا کہ یہ تینوں اور ان جیسے لوگ تحریک انصاف میں اکتوبر 2011 کے بعد آئے ہیں، جب پارٹی کے کئی لاکھ کے جلسے نے عمران کی سیاسی حیثیت پر مہر لگادی تھی۔ اس سے قبل پندرہ سال تک پارٹی کے لیے جدوجہد کرنیوالے اب پیچھے نظر آرہے ہیں۔ اس مسئلے نے پارٹی میں نئے اور پرانے کا مسئلہ پیدا کردیا ہے۔ عمران سے توازن کا تقاضا کیا جا رہا ہے۔
جب چیئرمین کے دائیں بائیں ''فتح'' کے بعد شامل ہونیوالے ہوں گے تو برے وقت کے اچھے ساتھی ضرور آواز اٹھائیں گے۔ کیا عمران اس مسئلے کو حل کر پائیں گے؟ ''سَابِقُوْن الاَوَلُوْن'' کا مسئلہ ہر تحریک میں پیدا ہوتا ہے۔ ایک طرف پندرہ بیس سال کی قربانیوں کے دعوے دار ہیں تو دوسری طرف چار یا پانچ سال میں کہیں زیادہ آگے بڑھ کر کام کرنے کے دعوے دار ہیں۔ تحریک انصاف کو ابھی منزل نہیں ملی۔ پرانے لوگ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ''منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔'' دونوں طرف قربانیوں کی تاریخ ہے جو نظروں میں ہے۔ عمران کو اپنے انتہائی برے وقت کے اچھے سیاسی ساتھیوں کی زبان پر اس مصرعے کا ادھورا حصہ بھی نہیں آنے دینا چاہیے کہ وہ شکوے کے انداز میں کہیں کہ ''منزل انھیں ملی...''۔
عمران خان نے الطاف حسین اور مولانا فضل الرحمن کے بارے میں جو انتہائی سخت زبان استعمال کی تھی، وہ اس کا بدلہ چکانا چاہتے ہیں۔ نواز شریف اور ان کی پارٹی کے سلجھے ہوئے لوگوں کی خواہش ہے کہ تحریک انصاف کو اسمبلیوں کے اندر رکھا جائے۔ اگر انھیں نکال باہر کیا گیا تو وہ حکومت کو نکال باہر کرنے کے لیے سڑکوں پر آجائیں گے۔ جمعیت اور ایم کیو ایم کا اس حوالے سے اسٹیک کم تر ہے۔
متحدہ تو کسی حکومت میں شامل ہی نہیں۔ نواز شریف کے حکومت میں رہنے یا جانے میں ان کا فائدہ رخصتی میں زیادہ ہے۔ یوں وہ ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو وفاقی حکومت میں غیر اہم وزارتیں پسند ہیں۔وہ خیبر پختونخوا میں اپنے لیے سرکتی زمین سے زیادہ خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ فضل الرحمن کے چاہنے والے بھی عمران کو پسند نہیں کرتے۔ کسی نے مولانا پر کبھی تنقید ہی نہیں کی۔
آصف زرداری ہوں یا نواز شریف، قاضی حسین ہو یا سراج الحق، چوہدری شجاعت ہوں یا الطاف حسین، یہ تمام مولانا سے تمام تر اختلافات کے باوجود حفظ مراتب کا خیال رکھتے ہیں۔ عمران نے فضل الرحمن پر الزامات کی بوچھاڑ کرکے ان کے سیاسی معتقدین کے دل میں اپنے لیے تلخی پیدا کردی۔ یوں مولانا کو اپنے حساب چکانے کے لیے استعفوں کی منظوری کی تحریک کا ایک اچھا موقع ملا ہے۔ یہی صورتحال متحدہ کی ہے۔ کسی نے الطاف حسین پر اس انداز سے تنقید نہیں کی جو عمران نے دو تین سال قبل کی تھی۔ الیکشن میں ووٹوں کے لحاظ سے دوسری بڑی پارٹی بننے کے عمل نے عمران میں اعتماد پیدا کیا۔
کراچی سے آٹھ لاکھ ووٹوں نے تحریک انصاف کو ایم کیو ایم کا حریف بنادیا۔ یوں یہ دونوں پارٹیاں تحریک انصاف سے بدلہ لینے کے لیے اسے ڈی سیٹ کروانا چاہتی ہیں۔ عمران کے لیے یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اسمبلی سے باہر آکر وہ مظلوم بن جائیں گے۔ پیپلز پارٹی کے استعفے مڈٹرم الیکشن کی صورتحال پیدا کریں گے۔ یوں عمران اس بات سے بے نیاز ہیں کہ وہ اسمبلی میں رہتے ہیں یا نہیں۔ ان کے لیے دوسرا مسئلہ بڑا اہم ہے۔تحریک انصاف نے پارٹی میں الیکشن کروا کر اپنے لیے مصیبت مول لی۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسی کوئی روایت نہیں۔
آئین میں ایک آرٹیکل تھا کہ سیاسی پارٹیاں اپنے اندرونی نظام کو بہتر بنانے کے لیے انتخاب کروائیں گی۔ اٹھارویں ترمیم میں 17(4) ختم کرکے پارٹیوں نے اپنے آپ کو آزاد کرلیا۔ اس رعایت کے باوجود بھی عمران کی خواہش تھی کہ پارٹی میں جمہوری روایات پروان چڑھیں۔ وہ اس بات کو نہ سمجھ سکے کہ یہ کلچر پاکستان سیاست میں موجود ہی نہیں۔ صرف جماعت اسلامی میں انتخابات ہوتے ہیں۔ اس میں بھی نہ کوئی امیدوار ہوتا ہے اور نہ کوئی انتخابی مہم۔ نہ کوئی ووٹر سے رابطہ کرتا ہے اور نہ اشارے کنایوں میں اپنے لیے ووٹ مانگتا ہے۔ تربیت کا اعلیٰ نظام اور لٹریچر کا مطالعہ انھیں اس قابل بناتا ہے۔ عمران اس بات کو نہ سمجھ سکے؟انتخابات میں جب دو امیدوار آمنے سامنے ہوتے ہیں تو ان میں تلخی پیدا ہونا لازمی ہے۔
شیخ رشید کہتے ہیں کہ کالج کے زمانے میں انھوں نے جس طالبعلم کو شکست دی تھی، وہ اسے ابھی تک فراموش نہیں کرسکا۔ اسٹوڈنٹس یونین کے الیکشن میں شکست کا بدلہ وہ اس طرح لیتا ہے کہ قومی اسمبلی کے ہر الیکشن میں میرے مخالف کا حامی بن کر سامنے آجاتا ہے۔ جمعیت علما اسلام کے پارٹی انتخابات میں جنرل سیکریٹری کے عہدے پر حافظ حسین احمد فائز تھے۔ غفور حیدری ان کے مقابل آگئے۔ فضل الرحمن کی حمایت غفور حیدری کو حاصل تھی۔ پھر کس طرح تلخیوں نے جنم لیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ یوں جب ایک ہی پارٹی کے اندر دو گروہ آمنے سامنے آجائیں یا دو امیدوار مقابل ہوں تو ایک مقصد کے لیے کام کرنیوالے اپنے درمیان خلیج محسوس کرتے ہیں۔ یورپ اور امریکا کے دو تین صدیوں پر مشتمل سیاسی نظام کو پاکستان میں لاگو کرنا خطرناک ثابت ہوا۔یہ 2013 کا ابتدائی زمانہ تھا۔ یہ طے تھا کہ یہ انتخابات کا سال ہے۔
تحریک انصاف نے اپنے اندر انتخابی ڈول ڈالا۔ تین چار مہینے میں طے ہوجانے والا معاملہ گیارہ ماہ تک طول پکڑ گیا۔ اتنی تاخیر ہوئی کہ قومی انتخاب کا اعلان ہوگیا اور پارٹی اپنے انتخابات میں الجھی ہوئی تھی۔ اس کا اثر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں ہوا۔ دو گروہ میں بٹی پارٹی کس طرح مخالف سیاسی پارٹیوں کا مقابلہ کرسکتی ہے؟ ہارنیوالا امیدوار کس طرح اپنے مخالف کی اسمبلی تک رسائی میں مدد کرسکتا تھا۔ یوں کارکنان کی تربیت کے بغیر اس طرح کے خطرناک انتخابی معرکے نے تحریک انصاف کو الجھن میں ڈال دیا۔ ایک نیا مسئلہ تب پیدا ہوا جب جسٹس وجیہہ الدین نے پارٹی انتخابات کے حوالے سے اپنی سفارشات چیئرمین کو پیش کیں۔
یہ کیا مسئلہ تھا اور کیا بن گیا۔مسئلہ تھا کہ پارٹی انتخابات میں کن لوگوں نے غیر اخلاقی حربہ اختیار کیا؟ آگے چل کر یہ مسئلہ کس جانب بڑھ گیا؟ جسٹس وجیہہ نے رپورٹ دی کہ جہانگیر ترین، پرویز خٹک، عبدالعلیم خان اور نادر لغاری اپنے آپ کو منتخب کروانے کے لیے درست کام نہیں کیے۔ ان کی سفارش تھی کہ ان کی بنیادی رکنیت ختم کردی جائے۔ پارٹی کے مرکزی جنرل سیکریٹری، خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ اور لاہور اور سندھ کے صدور کو پارٹی سے خارج کرنے کا کہا گیا۔ یہ کوئی آسان فیصلہ نہ تھا۔ یوں عمران اور جسٹس وجیہہ کے درمیان دوری نظر آنے لگی۔
یہ مسئلہ کیا رخ اختیار کرگیا؟ محسوس ہوا کہ یہ تینوں اور ان جیسے لوگ تحریک انصاف میں اکتوبر 2011 کے بعد آئے ہیں، جب پارٹی کے کئی لاکھ کے جلسے نے عمران کی سیاسی حیثیت پر مہر لگادی تھی۔ اس سے قبل پندرہ سال تک پارٹی کے لیے جدوجہد کرنیوالے اب پیچھے نظر آرہے ہیں۔ اس مسئلے نے پارٹی میں نئے اور پرانے کا مسئلہ پیدا کردیا ہے۔ عمران سے توازن کا تقاضا کیا جا رہا ہے۔
جب چیئرمین کے دائیں بائیں ''فتح'' کے بعد شامل ہونیوالے ہوں گے تو برے وقت کے اچھے ساتھی ضرور آواز اٹھائیں گے۔ کیا عمران اس مسئلے کو حل کر پائیں گے؟ ''سَابِقُوْن الاَوَلُوْن'' کا مسئلہ ہر تحریک میں پیدا ہوتا ہے۔ ایک طرف پندرہ بیس سال کی قربانیوں کے دعوے دار ہیں تو دوسری طرف چار یا پانچ سال میں کہیں زیادہ آگے بڑھ کر کام کرنے کے دعوے دار ہیں۔ تحریک انصاف کو ابھی منزل نہیں ملی۔ پرانے لوگ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ''منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔'' دونوں طرف قربانیوں کی تاریخ ہے جو نظروں میں ہے۔ عمران کو اپنے انتہائی برے وقت کے اچھے سیاسی ساتھیوں کی زبان پر اس مصرعے کا ادھورا حصہ بھی نہیں آنے دینا چاہیے کہ وہ شکوے کے انداز میں کہیں کہ ''منزل انھیں ملی...''۔