ایک مسافر چار ملک
یہاں کے شب و روز کا احوال بتاتے ہوئے اپنی سوچ اپنے دکھ اور اپنی خوشی کا بھی برملا اظہار کرتے ہیں۔
''ایک مسافر چار ملک'' مسافر حکیم محمد سعید اور ملک، آسٹریلیا، فرانس، سوئٹزرلینڈ اور انگلستان۔ یہ سفر نامہ بھی ہے اور حکیم صاحب کی ڈائری بھی۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں مسعود احمد برکاتی لکھتے ہیں۔ ''حکیم صاحب محترم تفریح اور تبدیلی آب و ہوا کے لیے سفر نہیں کرتے قومی مقاصد اور علمی جستجو کے لیے کرتے ہیں۔
اس لیے ان کا زیادہ وقت اہل علم سے ملاقاتوں اور مشوروں میں صرف ہوتا ہے۔ تاہم وہ دوسرے پہلوؤں سے بھی یکسر آنکھیں بند نہیں کرتے۔'' چنانچہ حکیم صاحب جہاں جاتے ہیں وہاں جانے کا مقصد بتاتے ہیں۔ اس جگہ کی تاریخ، اہم مقامات اور وہاں کی شخصیتوں کا تعارف بھی کراتے ہیں۔ یہاں کے شب و روز کا احوال بتاتے ہوئے اپنی سوچ اپنے دکھ اور اپنی خوشی کا بھی برملا اظہار کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ان کے ان سفرناموں کو جمع کرلیا جائے تو ان کی خودنوشت سرگزشت زندگی بن جائے۔ وہ ماضی کو کھنگالتے ہیں، حال سے اس کا مقابلہ کرتے ہیں اور مستقبل کی پیش گوئی کرتے ہیں مشورے دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جو کھو دیا ہے اس کا غم ضرور کرو مگر جو پاسکتے ہو اس کی تو کوشش کرو۔
حکیم محمد سعید 31 اگست 1979 کو کراچی سے بنکاک اور سنگاپور ہوتے ہوئے سڈنی پہنچے۔ یہاں دو دن بعد انھیں کینبرا جانا تھا جہاں وہ طب ایشیائی قدیمی کی عالمی کانفرنس میں پاکستان کی نمایندگی کرنے کے لیے آئے تھے۔ اس زمانے میں وہ حکومت کے مشیر طب تھے اور ان کا عہدہ وفاقی وزیر مملکت کا تھا۔ اس عالمی کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ''جس کام کو پاکستان میں ہونا چاہیے تھا، ماشاء اللہ وہ آسٹریلیا میں ہو رہا ہے۔
مجھے یاد آتا ہے کہ 1965 میں، میں نے اس تحریک کا آغاز کیا تھا کہ طب پر پاکستان میں ایک عالمی کانفرنس ہونی چاہیے اور اس میدان میں خشت اول رکھنے کا اعزاز حاصل کرلینا چاہیے مگر پاکستان کے اہل نظر نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔'' افسوس کہ یہ عدم اتفاق بار بار ہوا۔ آسٹریلیا میں جس عالمی کانفرنس میں حکیم صاحب طب یونانی کی نمایندگی کر رہے تھے اس میں طب چین اور طب ہند (آیورویدک) کی نمایندگی کے لیے چین اور ہندوستان کے لیے چین اور ہندوستان سے نمایندے آئے تھے۔ اس کانفرنس میں طب ایشیائی قدیم کے مطالعہ کے لیے ایک انٹرنیشنل ایسوسی ایشن بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ حکیم محمد سعید اس کے نائب صدر منتخب ہوئے، دوسرے دو نائب صدر چین اور ہندوستان کے نمایندے تھے، ڈاکٹر ہامش صدر گورننگ کونسل کے صدر۔
حکیم صاحب کو کانفرنس کی ہمہ وقت مصروفیت سے ہٹ کر جو وقت ملا وہ انھوں نے کینبرا کی سیر میں گزارا۔ وہ لکھتے ہیں ''ہم کینبرا کی سیر میں بہت دور نکل گئے۔ قدرت کا ازلی حسن جاذب نظر ہوا۔ پہاڑیاں، وادیاں، سبزہ زار، جھیلیں، آزاد چرند و پرند، گل و بلبل واقعی عجیب سماں تھا۔ اچھا ہوا کہ میں اس سیر کو آگیا۔ راہ میں جگہ جگہ کنگرو بھی دیکھے۔ ایک جگہ تو ایسا ہوا کہ ایک کنگرو دوست بن گیا اور میں نے اسے پیار کرلیا۔''
یہ سیر فطرت حکیم محمد سعید کے لیے بہت ضروری تھی۔ وہ کانفرنس کے اجلاسوں اور ٹریڈشنل میڈیسن کی انٹرنیشنل ایسوسی ایشن کی تشکیل میں اپنی مسلسل مصروفیت سے بہت تھک گئے تھے۔ ایسوسی ایشن کی تشکیل کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ''کسی اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عموماً تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے: خلوص کار، وقت اور روپیہ۔ اس ضمن میں مجھ میں خلوص کار کی کوئی کمی نہیں، البتہ میرے لیے وقت کا سوال ضرور ہے کہ میری مصروفیات بہت ہیں۔ اب رہا روپیہ تو میرا عقیدہ یہ ہے کہ نیک کام کے لیے قدم اٹھایا جائے تو اللہ تعالیٰ جو مسبب الاسباب ہے خود ہی مدد کردیتا ہے۔ نیت ثابت ہو تو منزل آسان ہوجاتی ہے۔''
حکیم محمد سعید کا قیام آسٹریلیا میں دس دن کا تھا۔ واپس آئے تو اسلام آباد میں نیشنل کونسل فار طبی ریسرچ کے کاموں میں مصروف ہوگئے۔ اب فوراً ہی انھیں فرانس جانا تھا۔ پیرس میں انھیں یونیسکو کے ماہنامہ رسالے ''کوریر'' کے ایڈیٹروں کی میٹنگ میں شرکت کرنا تھی۔ اس رسالے کے مختلف زبانوں میں بائیس ایڈیشن چھپتے تھے۔
پاکستانی ایڈیشن ''پیامی'' کے نام سے اردو میں شایع ہوتا تھا اور حکیم صاحب اس کے ایڈیٹر تھے۔ میٹنگ کا مقصد اگلے دو سال کے لیے جریدہ کی اشاعت کا پروگرام بنانا تھا۔ اس کے علاوہ دو کام اور تھے۔ ایک دسمبر میں یونیسکو کے تعاون میں پاکستان میں ہونے والی دو انٹرنیشنل کانفرنسوں کے انتظامات کو آخری شکل دینا تھی اور دوسرا پندرہویں صدی ہجری کے موقع پر UNESCOمیں ایک ورلڈ کانفرنس کے بارے میں تبادلہ خیال کرنا تھا۔
حکیم سعید کراچی سے فرینکفرٹ ہوتے ہوئے پیرس پہنچتے ہی مصروف ہوگئے۔''کوریر'' کا پچھلے دو سال کا جائزہ، تنقید اور تبصرہ اور پھر اگلے دو سال کا پروگرام۔ اس کے بعد وہ باقی دو کاموں کی طرف بھی اسی تندہی سے متوجہ ہوگئے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''ان دنوں غذا ضرورت سے زیادہ مل رہی ہے اور نیند بھی معمول سے زیادہ آرہی ہے، فکر بھی کم ہے یعنی عیاشی کا سامان پورا ہے۔ وزن اب کیوں نہیں بڑھے گا! ورزش کا کوئی موقع نہیں۔ ناشتہ میں نے چھوڑ دیا ہے مگر لنچ اور ڈنر نہیں چھوڑے جاسکتے۔ تبادلہ خیال اور میٹنگ کے لیے یہی وقت ہوتا ہے۔''
پھر اسلامیات کے مشہور عالم پروفیسر لوئی گاردے سے جو علالت کی وجہ سے گوشہ نشین ہوگئے تھے، ملنے کے لیے حکیم صاحب خاص طور پر پیرس طولوس گئے۔ یہ بڑا جذباتی سفر تھا۔ پروفیسر گاردے اور حکیم سعید دونوں گلے مل کر رو رہے تھے۔ یہ ان دونوں کی آخری ملاقات تھی۔
دوسرے روز حکیم محمد سعید پیرس سے لندن پہنچ گئے۔ لندن کے اس سفر کا مقصد اس مشین کے بارے میں تفاصیل طے کرنا تھیں جو خمیرے اور معجونوں کی پیکنگ کے لیے حکیم صاحب نے ڈیزائن کرانی تھیں اور کیلی لینڈ اسے بنا رہے تھے۔ اس مشین کی تیاری میں جو مسائل تھے وہ کمپنی کے ڈائریکٹر اور انجینئر کی حکیم صاحب سے ملاقات کے بغیر حل نہ ہوسکتے تھے۔اس کام کے علاوہ حکیم صاحب کو پاکستان میں ہونے والی دو عالمی کانفرنسوں کے انتظامات کے سلسلے میں سلائیڈ پروجیکٹر اور ہیڈ پروجیکٹر بھی لندن سے خریدنے تھے۔ پھر یہاں ان کے بہت سے دوست تھے جن سے ملنا اور ان مریضوں کو بھی دیکھنا تھا جو حکیم صاحب کے لندن آنے کے نجانے کب سے منتظر تھے۔
لندن میں حکیم سعید کا قیام مختصر تھا۔ سوئٹزر لینڈ میں اس سے بھی مختصر۔ لندن سے وہ باسل گئے۔ باسل سوئٹزرلینڈ کا پرانا شہر ہے۔ جس ضروری کام سے وہ یہاں آئے تھے اس سے جلد ہی فارغ ہوگئے اور پھر شہر کی سیر کو چل پڑے۔ پیدل کوئی ڈیڑھ گھنٹے تک شہر کی سڑکوں اور بازاروں میں گھومتے پھرتے رہے۔ یہاں ایک قدیم کیتھڈرل ہے اس کی سیر کی۔ یہ سولہویں صدی کا تعمیر شدہ ہے۔ یہاں کا نیشنل میوزیم آف آرٹ بھی قابل دید ہے۔
دریائے رہائن اس شہر کے درمیان سے بہتا ہے۔ ایک طرف ایک صنعتی شہر آباد ہے جو دوا سازی کے علاوہ اپنی دھات کی مصنوعات، کپڑے، ریشمی ملبوسات اور محفوظ شدہ غذائی اشیا کی تیاری کے لیے مشہور ہے۔ باسل سے حکیم صاحب ایمسٹرڈیم روانہ ہوئے جہاں سے انھیں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن سے اسلام آباد جانا تھا۔
عالمی طب ایشیائی کانفرنس میں شرکت کے لیے حکیم محمد سعید جب آسٹریلیا گئے تھے تو کینبرا میں ان کے قیام کا انتظام آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی میں کیا گیا تھا۔ وہ اس یونیورسٹی سے بہت متاثر ہوئے تھے۔ اگلے سال اسی یونیورسٹی کو یہ فخر و امتیاز حاصل ہوا کہ یہاں عالمی قرآن کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کے انعقاد کی خبر حکیم صاحب کو آسٹریلیا جانے سے پہلے ہی مل گئی تھی جب انھیں اس کانفرنس میں نہ صرف شرکت کی دعوت دی گئی تھی بلکہ اس کارخیر میں تعاون کی درخواست بھی کی گئی تھی۔ چنانچہ حکیم صاحب نے عالمی قرآن کانفرنس میں شرکت کی اور اس کے کنوینر ڈاکٹر جوہنز سے اس کے انعقاد کے سلسلے میں بھرپور تعاون بھی کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس کانفرنس کی تحریک کا آغاز کرنے کا شرف حکیم محمد سعید کو حاصل تھا۔ انھوں نے فروری 1924 میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر تمام اسلامی ملکوں کے سربراہوں کی خدمت میں تحریری طور پر یہ تجویز پیش کی تھی کہ اب سے تقریباً سات سال بعد جب اسلام کی چودھویں صدی اختتام کو پہنچ رہی ہوگی اور عالم اسلام پندرہویں صدی میں داخل ہو رہا ہوگا۔ (اس کی عیسوی تاریخ 9 نومبر 1980 ہوگی) اس موقع کو پوری اہمیت دینی چاہیے۔
حکیم صاحب نے اسلامی ممالک کے سربراہوں کے نام ایک خط میں لکھا تھا ''پورا عالم اسلام پوری دیانت سے اپنی چودہ صدیوں کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے اور اس کی روشنی میں اگلے سو سال کے لیے ایک جامع منصوبہ عمل تیار کرکے انقلاب انگیز توانائیوں کے ساتھ پندرہویں صدی ہجری میں قدم رکھے۔''
اس لیے ان کا زیادہ وقت اہل علم سے ملاقاتوں اور مشوروں میں صرف ہوتا ہے۔ تاہم وہ دوسرے پہلوؤں سے بھی یکسر آنکھیں بند نہیں کرتے۔'' چنانچہ حکیم صاحب جہاں جاتے ہیں وہاں جانے کا مقصد بتاتے ہیں۔ اس جگہ کی تاریخ، اہم مقامات اور وہاں کی شخصیتوں کا تعارف بھی کراتے ہیں۔ یہاں کے شب و روز کا احوال بتاتے ہوئے اپنی سوچ اپنے دکھ اور اپنی خوشی کا بھی برملا اظہار کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ان کے ان سفرناموں کو جمع کرلیا جائے تو ان کی خودنوشت سرگزشت زندگی بن جائے۔ وہ ماضی کو کھنگالتے ہیں، حال سے اس کا مقابلہ کرتے ہیں اور مستقبل کی پیش گوئی کرتے ہیں مشورے دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جو کھو دیا ہے اس کا غم ضرور کرو مگر جو پاسکتے ہو اس کی تو کوشش کرو۔
حکیم محمد سعید 31 اگست 1979 کو کراچی سے بنکاک اور سنگاپور ہوتے ہوئے سڈنی پہنچے۔ یہاں دو دن بعد انھیں کینبرا جانا تھا جہاں وہ طب ایشیائی قدیمی کی عالمی کانفرنس میں پاکستان کی نمایندگی کرنے کے لیے آئے تھے۔ اس زمانے میں وہ حکومت کے مشیر طب تھے اور ان کا عہدہ وفاقی وزیر مملکت کا تھا۔ اس عالمی کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ''جس کام کو پاکستان میں ہونا چاہیے تھا، ماشاء اللہ وہ آسٹریلیا میں ہو رہا ہے۔
مجھے یاد آتا ہے کہ 1965 میں، میں نے اس تحریک کا آغاز کیا تھا کہ طب پر پاکستان میں ایک عالمی کانفرنس ہونی چاہیے اور اس میدان میں خشت اول رکھنے کا اعزاز حاصل کرلینا چاہیے مگر پاکستان کے اہل نظر نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔'' افسوس کہ یہ عدم اتفاق بار بار ہوا۔ آسٹریلیا میں جس عالمی کانفرنس میں حکیم صاحب طب یونانی کی نمایندگی کر رہے تھے اس میں طب چین اور طب ہند (آیورویدک) کی نمایندگی کے لیے چین اور ہندوستان کے لیے چین اور ہندوستان سے نمایندے آئے تھے۔ اس کانفرنس میں طب ایشیائی قدیم کے مطالعہ کے لیے ایک انٹرنیشنل ایسوسی ایشن بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ حکیم محمد سعید اس کے نائب صدر منتخب ہوئے، دوسرے دو نائب صدر چین اور ہندوستان کے نمایندے تھے، ڈاکٹر ہامش صدر گورننگ کونسل کے صدر۔
حکیم صاحب کو کانفرنس کی ہمہ وقت مصروفیت سے ہٹ کر جو وقت ملا وہ انھوں نے کینبرا کی سیر میں گزارا۔ وہ لکھتے ہیں ''ہم کینبرا کی سیر میں بہت دور نکل گئے۔ قدرت کا ازلی حسن جاذب نظر ہوا۔ پہاڑیاں، وادیاں، سبزہ زار، جھیلیں، آزاد چرند و پرند، گل و بلبل واقعی عجیب سماں تھا۔ اچھا ہوا کہ میں اس سیر کو آگیا۔ راہ میں جگہ جگہ کنگرو بھی دیکھے۔ ایک جگہ تو ایسا ہوا کہ ایک کنگرو دوست بن گیا اور میں نے اسے پیار کرلیا۔''
یہ سیر فطرت حکیم محمد سعید کے لیے بہت ضروری تھی۔ وہ کانفرنس کے اجلاسوں اور ٹریڈشنل میڈیسن کی انٹرنیشنل ایسوسی ایشن کی تشکیل میں اپنی مسلسل مصروفیت سے بہت تھک گئے تھے۔ ایسوسی ایشن کی تشکیل کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ''کسی اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عموماً تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے: خلوص کار، وقت اور روپیہ۔ اس ضمن میں مجھ میں خلوص کار کی کوئی کمی نہیں، البتہ میرے لیے وقت کا سوال ضرور ہے کہ میری مصروفیات بہت ہیں۔ اب رہا روپیہ تو میرا عقیدہ یہ ہے کہ نیک کام کے لیے قدم اٹھایا جائے تو اللہ تعالیٰ جو مسبب الاسباب ہے خود ہی مدد کردیتا ہے۔ نیت ثابت ہو تو منزل آسان ہوجاتی ہے۔''
حکیم محمد سعید کا قیام آسٹریلیا میں دس دن کا تھا۔ واپس آئے تو اسلام آباد میں نیشنل کونسل فار طبی ریسرچ کے کاموں میں مصروف ہوگئے۔ اب فوراً ہی انھیں فرانس جانا تھا۔ پیرس میں انھیں یونیسکو کے ماہنامہ رسالے ''کوریر'' کے ایڈیٹروں کی میٹنگ میں شرکت کرنا تھی۔ اس رسالے کے مختلف زبانوں میں بائیس ایڈیشن چھپتے تھے۔
پاکستانی ایڈیشن ''پیامی'' کے نام سے اردو میں شایع ہوتا تھا اور حکیم صاحب اس کے ایڈیٹر تھے۔ میٹنگ کا مقصد اگلے دو سال کے لیے جریدہ کی اشاعت کا پروگرام بنانا تھا۔ اس کے علاوہ دو کام اور تھے۔ ایک دسمبر میں یونیسکو کے تعاون میں پاکستان میں ہونے والی دو انٹرنیشنل کانفرنسوں کے انتظامات کو آخری شکل دینا تھی اور دوسرا پندرہویں صدی ہجری کے موقع پر UNESCOمیں ایک ورلڈ کانفرنس کے بارے میں تبادلہ خیال کرنا تھا۔
حکیم سعید کراچی سے فرینکفرٹ ہوتے ہوئے پیرس پہنچتے ہی مصروف ہوگئے۔''کوریر'' کا پچھلے دو سال کا جائزہ، تنقید اور تبصرہ اور پھر اگلے دو سال کا پروگرام۔ اس کے بعد وہ باقی دو کاموں کی طرف بھی اسی تندہی سے متوجہ ہوگئے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''ان دنوں غذا ضرورت سے زیادہ مل رہی ہے اور نیند بھی معمول سے زیادہ آرہی ہے، فکر بھی کم ہے یعنی عیاشی کا سامان پورا ہے۔ وزن اب کیوں نہیں بڑھے گا! ورزش کا کوئی موقع نہیں۔ ناشتہ میں نے چھوڑ دیا ہے مگر لنچ اور ڈنر نہیں چھوڑے جاسکتے۔ تبادلہ خیال اور میٹنگ کے لیے یہی وقت ہوتا ہے۔''
پھر اسلامیات کے مشہور عالم پروفیسر لوئی گاردے سے جو علالت کی وجہ سے گوشہ نشین ہوگئے تھے، ملنے کے لیے حکیم صاحب خاص طور پر پیرس طولوس گئے۔ یہ بڑا جذباتی سفر تھا۔ پروفیسر گاردے اور حکیم سعید دونوں گلے مل کر رو رہے تھے۔ یہ ان دونوں کی آخری ملاقات تھی۔
دوسرے روز حکیم محمد سعید پیرس سے لندن پہنچ گئے۔ لندن کے اس سفر کا مقصد اس مشین کے بارے میں تفاصیل طے کرنا تھیں جو خمیرے اور معجونوں کی پیکنگ کے لیے حکیم صاحب نے ڈیزائن کرانی تھیں اور کیلی لینڈ اسے بنا رہے تھے۔ اس مشین کی تیاری میں جو مسائل تھے وہ کمپنی کے ڈائریکٹر اور انجینئر کی حکیم صاحب سے ملاقات کے بغیر حل نہ ہوسکتے تھے۔اس کام کے علاوہ حکیم صاحب کو پاکستان میں ہونے والی دو عالمی کانفرنسوں کے انتظامات کے سلسلے میں سلائیڈ پروجیکٹر اور ہیڈ پروجیکٹر بھی لندن سے خریدنے تھے۔ پھر یہاں ان کے بہت سے دوست تھے جن سے ملنا اور ان مریضوں کو بھی دیکھنا تھا جو حکیم صاحب کے لندن آنے کے نجانے کب سے منتظر تھے۔
لندن میں حکیم سعید کا قیام مختصر تھا۔ سوئٹزر لینڈ میں اس سے بھی مختصر۔ لندن سے وہ باسل گئے۔ باسل سوئٹزرلینڈ کا پرانا شہر ہے۔ جس ضروری کام سے وہ یہاں آئے تھے اس سے جلد ہی فارغ ہوگئے اور پھر شہر کی سیر کو چل پڑے۔ پیدل کوئی ڈیڑھ گھنٹے تک شہر کی سڑکوں اور بازاروں میں گھومتے پھرتے رہے۔ یہاں ایک قدیم کیتھڈرل ہے اس کی سیر کی۔ یہ سولہویں صدی کا تعمیر شدہ ہے۔ یہاں کا نیشنل میوزیم آف آرٹ بھی قابل دید ہے۔
دریائے رہائن اس شہر کے درمیان سے بہتا ہے۔ ایک طرف ایک صنعتی شہر آباد ہے جو دوا سازی کے علاوہ اپنی دھات کی مصنوعات، کپڑے، ریشمی ملبوسات اور محفوظ شدہ غذائی اشیا کی تیاری کے لیے مشہور ہے۔ باسل سے حکیم صاحب ایمسٹرڈیم روانہ ہوئے جہاں سے انھیں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن سے اسلام آباد جانا تھا۔
عالمی طب ایشیائی کانفرنس میں شرکت کے لیے حکیم محمد سعید جب آسٹریلیا گئے تھے تو کینبرا میں ان کے قیام کا انتظام آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی میں کیا گیا تھا۔ وہ اس یونیورسٹی سے بہت متاثر ہوئے تھے۔ اگلے سال اسی یونیورسٹی کو یہ فخر و امتیاز حاصل ہوا کہ یہاں عالمی قرآن کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کے انعقاد کی خبر حکیم صاحب کو آسٹریلیا جانے سے پہلے ہی مل گئی تھی جب انھیں اس کانفرنس میں نہ صرف شرکت کی دعوت دی گئی تھی بلکہ اس کارخیر میں تعاون کی درخواست بھی کی گئی تھی۔ چنانچہ حکیم صاحب نے عالمی قرآن کانفرنس میں شرکت کی اور اس کے کنوینر ڈاکٹر جوہنز سے اس کے انعقاد کے سلسلے میں بھرپور تعاون بھی کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس کانفرنس کی تحریک کا آغاز کرنے کا شرف حکیم محمد سعید کو حاصل تھا۔ انھوں نے فروری 1924 میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر تمام اسلامی ملکوں کے سربراہوں کی خدمت میں تحریری طور پر یہ تجویز پیش کی تھی کہ اب سے تقریباً سات سال بعد جب اسلام کی چودھویں صدی اختتام کو پہنچ رہی ہوگی اور عالم اسلام پندرہویں صدی میں داخل ہو رہا ہوگا۔ (اس کی عیسوی تاریخ 9 نومبر 1980 ہوگی) اس موقع کو پوری اہمیت دینی چاہیے۔
حکیم صاحب نے اسلامی ممالک کے سربراہوں کے نام ایک خط میں لکھا تھا ''پورا عالم اسلام پوری دیانت سے اپنی چودہ صدیوں کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے اور اس کی روشنی میں اگلے سو سال کے لیے ایک جامع منصوبہ عمل تیار کرکے انقلاب انگیز توانائیوں کے ساتھ پندرہویں صدی ہجری میں قدم رکھے۔''