ضمیر کی آخری چیخ
کیا تم کوئی گناہ کررہے ہو، کیا حکومت نہیں کھاتی؟ کیا وزیر نہیں بکتے، تم انوکھے ہو کیا؟
FAISALABAD:
ایماندار افسر: نہیں نہیں، یہ حرام ہے۔ میری تنخواہ بہت اچھی ہے۔ یہ تحفہ ہے، رشوت یا کمیشن جو بھی ہے، میں نہیں لوں گا۔
لالچ: تم نئے نئے آئے ہو، سب لیتے ہیں۔ اگر تم یہ رقم نہیں لوگے تو افسرانِ بالا ناراض ہوجائیں گے، تمہارا بائیکاٹ ہوجائے گا۔ سرخ حاشیے آجائیں گے تمہاری سالانہ رپورٹ پر سمجھے تم! لالچ نے خوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ تاویل کا پھندا لگایا۔
میرے والدین نے بہت تنگ دستی میں زندگی گذاری اور انہوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر مجھے اعلیٰ تعلیم دی لیکن حرام سے دامن بچایا۔ ناں! اب میں اپنے بچوں کو لقمہِ حرام نہیں کھلاؤں گا۔ یہ صاف بے ایمانی ہے کہ میں چند روپوں کی خاطر ایک بدنام ٹھیکے دار کی فائل پر اچھا نوٹ لکھ کر اربوں روپے کا منصوبہ اس کے حوالے کردوں، افسر نے ہمت سے کہا۔ اچانک بے لالچ کی دیوی نے مسکراتے ہوئے چٹکی بجائی تو ایک حسین دوشیزہ سرخ پوشاک پہنے نمودار ہوئی۔ اس کے ہونٹوں پر سرخی، آنکھوں میں نشیلی شرارت اور سراپا غضب کا تھا، شہد جیسے بال کمر پر لہرارہے تھے اور رنگت سرخی مائل سفید تھی۔ حسینہ افسر کے قریب اور قریب آتی گئی، اتنے نزدیک کہ افسر کو اپنے گال پر اس کی سانسیں محسوس ہورہی تھیں۔
یہ ہے رشوت، دیکھی ہے کبھی تم نے؟ تم حقارت سے جن چند روپوں کا ذکر کررہے تھے وہ یہ محترمہ ہیں۔ لالچ نے خوبرو خاتون کی جانب اشارہ کیا جو ترچھی نگاہوں سے افسر کو دیکھ رہی تھی۔ افسر چپ رہا اور اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
''اربوں روپے کا ٹھیکہ ہے، ایک دو کروڑ تو تمہیں بھی مل جائیں گے، بے ضمیر دیو نے ایک اور وار کیا'' ۔
لیکن یہ غلط ہے، میں چپ رہوں گا، کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔ نہ لوگوں کو، نہ میڈیا کو یہاں تک کہ اپنی بیوی کو بھی نہیں۔ افسران جو چاہیں کریں۔ میں اس تالاب میں رہ لوں گا مجھے معاف رکھو، افسر نے پھر اپنے ضمیر کو آواز دی۔ ہوں! لالچ نے ایک لمبی آہ بھری اور افسر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گویا ہوئی۔ تمہاری چھوٹی بیٹیاں ہیں۔ ان کی اعلیٰ تعلیم کا سوچو، اپنی وفادار بیوی کو خوش رکھو، بڑھاپے کے لیے کچھ بچا رکھو۔
اچانک رشوت نے بے ضمیر کا کندھا کھینچ کر اسے پیچھے کیا اور بولی، میں سمجھاتی ہوں، پھر اس نے بہت اپنائیت کے ساتھ اپنا ہاتھ افسر کے کندھے پر رکھا اور کہا، ایک شاندار مکان بناؤ، تمہاری بیٹیوں کے رشتے بھی اچھے آئیں گے، اپنی بوڑھی ماں کے علاج کا بھی سوچو، بیٹیوں کی اعلیٰ تعلیم اور شادی پر 100 تولہ جہیز میں دینا بھی ممکن ہے اور جب ہیروں کا ہار اپنی نیک بیوی کے گلے میں ڈالو گے تو اس کی زبان خود ہی بند ہوجائے گی۔ جو رشتے دار تمہیں کچھ کہیں تو ان کا بھی منہ بند کردو۔ رہا سوال تمہارے خلاف انکوائری کا تو یہاں سب ایک ہی ڈور سے بندھے ہیں اور رقم اوپر تک جاتی ہے۔ محتسب، قاضی، وزیر اور ساری قوتیں اسی رقم کے سامنے ناچتی ہیں۔ تمہیں معلوم ہے کہ پیسے میں کتنی طاقت ہوتی ہے۔ اس نے ایک سانس میں ساری باتیں کہہ دیں۔ اب اس کے پاس دفاعی الفاظ ختم ہورہے تھے، وہ گونگا ہوچکا تھا۔
تم کوئی گناہ کررہے ہو، اس رقم سے سڑک ہی تو بن رہی ہے بچوں کا کوئی اسپتال تو نہیں۔ کیا حکومت نہیں کھاتی، کیا وزیر نہیں بکتے، تم انوکھے ہو کیا؟ رشوت نے ایک اور دلیل جڑ دی اور اس بار اس کی آواز بہت تیز تھی۔ افسر بہت دیر تک خاموش رہا۔ اس کے پنجر میں تیز حرکت ہونے لگی کہ کوئی اس کے وجود سے باہر نکلنا چاہتا ہے۔ اچانک اس کے ہاتھ پیر ٹھنڈے ہونے لگے اور زبان تالو سے چپک کر رہ گئی۔ پھر اچانک ایک کے بعد ایک ہولناک واقعہ ہوا اور بہت سی قیمتی اشیاء اس کے بدن میں ٹوٹ گئیں۔
ضمیر کا دم گھٹنے لگا اور وہ بدن سے باہر نکل کر افسر کے سر پر پھڑ پھڑانے لگا کہ کاش وہ واپس بدن میں جاسکے۔ لیکن ضمیر کے باہر نکلتے ہی اس کے دم میں دم آیا اور وہ بولنے لگا۔ یہ سب ہوگا کس طرح؟ِ اس نے معصومیت سے سوال کیا۔
اچانک اس کا ایک ہاتھ رشوت نے تھاما اور دوسرا ہاتھ بے ضمیری نے اور کہا، آؤ ہم بتاتے ہیں۔ دونوں افسر کے دائیں اور بائیں چلنے لگے اور دونوں نے اپنی بانہیں اس کی گردن میں ڈالی ہوئی تھیں۔ اتنے میں ضمیر غش کھاکر سڑک پر گرا اور لالچ نے چلتے ہوئے گردن موڑ کر حقارت سے اس کی طرف دیکھا اور آواز آئی ۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
ایماندار افسر: نہیں نہیں، یہ حرام ہے۔ میری تنخواہ بہت اچھی ہے۔ یہ تحفہ ہے، رشوت یا کمیشن جو بھی ہے، میں نہیں لوں گا۔
لالچ: تم نئے نئے آئے ہو، سب لیتے ہیں۔ اگر تم یہ رقم نہیں لوگے تو افسرانِ بالا ناراض ہوجائیں گے، تمہارا بائیکاٹ ہوجائے گا۔ سرخ حاشیے آجائیں گے تمہاری سالانہ رپورٹ پر سمجھے تم! لالچ نے خوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ تاویل کا پھندا لگایا۔
میرے والدین نے بہت تنگ دستی میں زندگی گذاری اور انہوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر مجھے اعلیٰ تعلیم دی لیکن حرام سے دامن بچایا۔ ناں! اب میں اپنے بچوں کو لقمہِ حرام نہیں کھلاؤں گا۔ یہ صاف بے ایمانی ہے کہ میں چند روپوں کی خاطر ایک بدنام ٹھیکے دار کی فائل پر اچھا نوٹ لکھ کر اربوں روپے کا منصوبہ اس کے حوالے کردوں، افسر نے ہمت سے کہا۔ اچانک بے لالچ کی دیوی نے مسکراتے ہوئے چٹکی بجائی تو ایک حسین دوشیزہ سرخ پوشاک پہنے نمودار ہوئی۔ اس کے ہونٹوں پر سرخی، آنکھوں میں نشیلی شرارت اور سراپا غضب کا تھا، شہد جیسے بال کمر پر لہرارہے تھے اور رنگت سرخی مائل سفید تھی۔ حسینہ افسر کے قریب اور قریب آتی گئی، اتنے نزدیک کہ افسر کو اپنے گال پر اس کی سانسیں محسوس ہورہی تھیں۔
یہ ہے رشوت، دیکھی ہے کبھی تم نے؟ تم حقارت سے جن چند روپوں کا ذکر کررہے تھے وہ یہ محترمہ ہیں۔ لالچ نے خوبرو خاتون کی جانب اشارہ کیا جو ترچھی نگاہوں سے افسر کو دیکھ رہی تھی۔ افسر چپ رہا اور اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
''اربوں روپے کا ٹھیکہ ہے، ایک دو کروڑ تو تمہیں بھی مل جائیں گے، بے ضمیر دیو نے ایک اور وار کیا'' ۔
لیکن یہ غلط ہے، میں چپ رہوں گا، کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔ نہ لوگوں کو، نہ میڈیا کو یہاں تک کہ اپنی بیوی کو بھی نہیں۔ افسران جو چاہیں کریں۔ میں اس تالاب میں رہ لوں گا مجھے معاف رکھو، افسر نے پھر اپنے ضمیر کو آواز دی۔ ہوں! لالچ نے ایک لمبی آہ بھری اور افسر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گویا ہوئی۔ تمہاری چھوٹی بیٹیاں ہیں۔ ان کی اعلیٰ تعلیم کا سوچو، اپنی وفادار بیوی کو خوش رکھو، بڑھاپے کے لیے کچھ بچا رکھو۔
اچانک رشوت نے بے ضمیر کا کندھا کھینچ کر اسے پیچھے کیا اور بولی، میں سمجھاتی ہوں، پھر اس نے بہت اپنائیت کے ساتھ اپنا ہاتھ افسر کے کندھے پر رکھا اور کہا، ایک شاندار مکان بناؤ، تمہاری بیٹیوں کے رشتے بھی اچھے آئیں گے، اپنی بوڑھی ماں کے علاج کا بھی سوچو، بیٹیوں کی اعلیٰ تعلیم اور شادی پر 100 تولہ جہیز میں دینا بھی ممکن ہے اور جب ہیروں کا ہار اپنی نیک بیوی کے گلے میں ڈالو گے تو اس کی زبان خود ہی بند ہوجائے گی۔ جو رشتے دار تمہیں کچھ کہیں تو ان کا بھی منہ بند کردو۔ رہا سوال تمہارے خلاف انکوائری کا تو یہاں سب ایک ہی ڈور سے بندھے ہیں اور رقم اوپر تک جاتی ہے۔ محتسب، قاضی، وزیر اور ساری قوتیں اسی رقم کے سامنے ناچتی ہیں۔ تمہیں معلوم ہے کہ پیسے میں کتنی طاقت ہوتی ہے۔ اس نے ایک سانس میں ساری باتیں کہہ دیں۔ اب اس کے پاس دفاعی الفاظ ختم ہورہے تھے، وہ گونگا ہوچکا تھا۔
تم کوئی گناہ کررہے ہو، اس رقم سے سڑک ہی تو بن رہی ہے بچوں کا کوئی اسپتال تو نہیں۔ کیا حکومت نہیں کھاتی، کیا وزیر نہیں بکتے، تم انوکھے ہو کیا؟ رشوت نے ایک اور دلیل جڑ دی اور اس بار اس کی آواز بہت تیز تھی۔ افسر بہت دیر تک خاموش رہا۔ اس کے پنجر میں تیز حرکت ہونے لگی کہ کوئی اس کے وجود سے باہر نکلنا چاہتا ہے۔ اچانک اس کے ہاتھ پیر ٹھنڈے ہونے لگے اور زبان تالو سے چپک کر رہ گئی۔ پھر اچانک ایک کے بعد ایک ہولناک واقعہ ہوا اور بہت سی قیمتی اشیاء اس کے بدن میں ٹوٹ گئیں۔
پہلے ایمان کا آئینہ چٹخ کر ٹوٹا
پھر نفس کی چادر پھٹ گئی
ایک شمع تھی خود توقیری کی وہ اچانک بجھ گئی
دماغ کے پاس اصولوں کی ایک ریشمی ڈوربھی تھی
جو آپ ہی آپ الجھی اور دھواں دے کر بھڑک اُٹھی
دل کے پاس رہنے والے ضمیر کی آنکھیں جلنے لگی
اس کے بعد جو ہوا وہ بہت خوفناک تھا
جسم اور روح میں دھواں بھرگیا
اس کا وجود ہلنے لگا لیکن دوسرے اسے نہیں دیکھ سکے اور نہ سن سکے ۔
ضمیر کا دم گھٹنے لگا اور وہ بدن سے باہر نکل کر افسر کے سر پر پھڑ پھڑانے لگا کہ کاش وہ واپس بدن میں جاسکے۔ لیکن ضمیر کے باہر نکلتے ہی اس کے دم میں دم آیا اور وہ بولنے لگا۔ یہ سب ہوگا کس طرح؟ِ اس نے معصومیت سے سوال کیا۔
اچانک اس کا ایک ہاتھ رشوت نے تھاما اور دوسرا ہاتھ بے ضمیری نے اور کہا، آؤ ہم بتاتے ہیں۔ دونوں افسر کے دائیں اور بائیں چلنے لگے اور دونوں نے اپنی بانہیں اس کی گردن میں ڈالی ہوئی تھیں۔ اتنے میں ضمیر غش کھاکر سڑک پر گرا اور لالچ نے چلتے ہوئے گردن موڑ کر حقارت سے اس کی طرف دیکھا اور آواز آئی ۔
''آخ تھو''۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس