یوم آزادی ستاروں کو چھو لیں گے

لوگوں کا خیال ہے کہ ابھی تک ہم بھیڑکی شکل میں ہے قوم کی طرح متحد نہیں یا ابھی تک ہماری قوم کی طرح شکل بن نہیں سکی۔

ffarah.ffarah@gmail.com

پاکستان کے غریب عوام ہم سب کے لیے اتنے ہی اہم اور اتنے ہی قابل قدر ہیں، جتنے امراء وزراء جو اپنے محلوں میں آرام و آرائش کی زندگی گزار رہے ہیں ، تمام شہروں کو ان کی آبادی کے تناسب سے ترقی کے راستے پر گامزن کرنا اور چھوٹے بڑے دیہی علاقوں کو بھی نئی ضروریات زندگی سے matchکرنا، بڑی بڑی سائنسی ایجادوں سے لے کر پینے کے پانی کا صاف اور hygiene ہونا، آج کل کی دنیا میں رہتے ہوئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ شاید سانس لینا بے حد ضروری نظر آتا ہے۔ پاکستان کا قدم بہ قدم ترقی و کامرانی کے راستے پر چلنا کہ اب شاید یہ ہماری بقا کی جنگ ہے۔ ماضی سے سبق سیکھنا اور حال کو بہتر کرتے ہوئے ایک بہترین مستقبل کی جانب گامزن ہونا اب یہی مقصد ہو اور اس کے علاوہ کوئی Choice نہ ہو۔

لوگوں کا خیال ہے کہ ابھی تک ہم بھیڑکی شکل میں ہے قوم کی طرح متحد نہیں یا ابھی تک ہماری قوم کی طرح شکل بن نہیں سکی۔ تو کیا ایسا ہی چلتا رہے گا؟ یا پھر ہم سمجھ بوجھ کے ساتھ کچھ انفرادی طور پر بھی کچھ بہتر سوچ کے ساتھ اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لائیں گے اور مثبت تبدیلی تعلیم و تربیت کے بغیر ممکن نہیں، تعلیم کے میدان کو وسیع کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں Positive سوشل سرگرمیاں کا وجود ضروری نظر آتا ہے۔ نوجوان نسل میں بہت کچھ کرنے کا جذبہ ہے اور یہ نوجوان نسل بہت کچھ کر گزرنے کی صلاحیت رکھتی ہے خاص طور پر ہمارے ملک کے نوجوان، چاہے وہ لڑکی ہو یا لڑکا۔ ترقی کے راستے پر دونوں یکساں اپنے جوہر دکھا سکتے ہیں۔

مجھے یقین ہے چند دنوں بعد آنے والا یوم آزادی ایک نیا جذبہ ایک نیا جنون ایک نئی امید لے کر آرہا ہے، ہم نے کیا کھویا اور ہم کیا پا رہے ہیں اور کتنی بے توقیری کی زندگی ہم حاصل کر رہے ہیں، کبھی اپنے گرین پاسپورٹ کو برا بھلا کہتے ہیں کبھی اپنے لوگوں کو، اب ایسا لگتا ہے کہ شاید یہ 14 اگست 2015 ہمیں جگا رہا ہے، اٹھا رہا ہے کہ بس ہم اب بھیڑ سے نکل رہے ہیں اور آہستہ آہستہ ایک قوم کی طرح ایک قوم بن کر ابھریں گے۔

زمین کی پستیوں سے آسمان کی بلندیوں تک، کامیابی اور کامرانی کے جھنڈے لگائیں گے کہ ایک دفعہ پھر آزادی کی نعمت بلند آوازوں کے ساتھ ہم سب کو پکار رہی ہے کہ آزادی غلامی سے کہیں اعلیٰ ہے۔ بے تحاشا جانوں نے اپنا نذرانہ دیا اس آزادی کے لیے، ایک جنون ہزاروں انسانوں کی زندگی لے کر آگے بڑھا اور آج ہم خوش نصیب۔ اس آزاد وطن کے آزاد شہری ہیں ان قربانیوں کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ ان جذبوں کو کیسے فراموش کرسکتے ہیں جن جذبوں نے لہو کو گرمایا، جن جذبوں نے غلامی کی زنجیروں کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ کیا کوئی ان کی قیمت لگا سکتا ہے؟ کیا کوئی ان قربانیوں کو فراموش کرسکتا ہے؟

میرے خیال میں پاکستان بنانے کی بڑی وجہ حقوق کی پامالی اور نایابی تھی۔ غلامی اور خوف انسانوں کی زندگی کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ اس کا وجود تو باقی رہتا ہے لیکن جذبات و احساسات کبھی آتش فشاں بن جاتے ہیں کبھی مر جاتے ہیں اور آج کے دور میں تو ہم ان باتوں کو زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں، زندگی اور زندگی کا حق سب کے لیے ہونا ضروری تر ہے۔ ہم زندہ ہوں گے تو زندہ لوگوں کی قدر کرسکیں گے اور اگر اندر سے مردے ہوجائیں گے تو کیا خاک جان پائیں گے کہ زندگی اور زندہ لوگوں کی قدر کیا ہے؟

رفتار زندگی چاہے کچھ بھی ہو مگر بہت قیمتی احساس ہے کہ آپ زندہ ہیں۔ اور زندہ لوگ ہی زندہ لوگوں کے کام آتے ہیں۔ 1947 سے 2015 تک سفر جوکہ انشا اللہ جاری و ساری رہے گا آزادی کی قدر و قیمت کے ساتھ ساتھ حقوق کی ادائیگی، تحفظ اور انصاف و عدل کے ساتھ جاری رہے تو ہم ایٹمی قوت ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت کی قوت بھی بن جائیں گے۔

سیر و سیاحت کے حوالے سے ہم پوری دنیا میں بہت پیچھے ہیں بے حساب خوبصورت جگہوں کے باوجود ہم ابھی تک سیر و سیاحت کے فروغ کے لیے ایسا کچھ نہیں کرپائے جوکہ ہماری خوبصورت جگہوں کو پوری دنیا میں پہچان کرواسکیں۔

سیرو سیاحت کی بات کی جائے تو فوراً اپنی سیکیورٹی کا خوف دماغ میں سماتا ہے جوکہ ایک بڑی وجہ ہے اس کے نہ ہونے کی۔مغرب پرستی کا رجحان بھی اسی وقت کم ہوگا جب معاشرہ اور ثقافت میں ہم آہنگی ہوگی صرف چند صدیوں پہلے یورپ انسانوں اور حیوانوں سے ناآشنا تھا مگر اب یہ ماضی کی بات ہے۔


مگر آج بھی یورپ میں جس طرح عورت اور مرد زندگی گزارتے ہیں وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ہمیں اپنی ثقافت، اپنا کلچر اپنی روایات کو پروان چڑھانا ہوگا اور خاص طور پر مغرب پرستی کا بھوت نوجوان نسل سے اتارنے کے لیے روایات کو خوبصورتی کے ساتھ پیش کرنا ضروری ہے۔

اسلامی تاریخ اور تہذیب کو صرف کتابوں میں بند کردینا کافی نہیں بلکہ ان کو گلی کوچوں میں رائج کرنا اور ان کی خوبصورتی کو واضح کرنا ہے۔ ہم اور آپ اس بکھرے ہوئے معاشرے میں کچھ نہ کچھ تو کر ہی سکتے ہیں ۔کم ازکم اپنے اردگرد کے طالب علموں کو اخلاقیات اور معاشرتی ضرورتوں کو سمجھا سکتے ہیں۔ اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ نہ کچھ وقت ہم سب کو کچھ مثبت کاموں کی طرف بھی صرف کرنا ہوگا۔

ابھی رمضان المبارک کو گزرے زیادہ وقت نہیں گزرا مگر شاید ہمیں اندازہ نہیں ہے کہ جو محبتیں اور عقیدتیں پاکستان میں دیکھنے کو ملتی ہیں وہ دنیا کے کسی اور کونے میں نہیں۔ نبی آخرالزماں کی امت ہونے پر جو عشق و پیار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم میں نظر آتا ہے وہ شاید ہی کسی اور خطے میں ہو۔

مقصد ان مختلف باتوں کا ذکر کرنے کا یہ ہے کہ ہم جو ہیں وہ ہم بھولتے جا رہے ہیں، جو چیزیں چمکتی ہوئی نظر آرہی ہیں ان کی طرف دوڑ لگاتے جا رہے ہیں بغیر سوچے سمجھے کہ ہماری اس بھاگ دوڑ کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ اور بہت ساری بھاگ دوڑ کے نتیجے اب ہم دیکھ بھی رہے ہیں، جانا تھا کہیں اور جا کہیں رہے ہیں۔ ہم تو وہ لوگ ہیں جو ایک اللہ عالی شان کی جانب سے ایک ضابطہ حیات رکھتے ہیں۔ بہترین زندگیوں کے نمونے ہیں ہمارے پاس۔ ہمیں تو صرف ان کو Follow کرنا ہے جب کہ آج تک یورپ بہتر زندگی گزارنے کے لیے تجربات ہی کر رہا ہے۔

آئیں ہم سب مل کر اس یوم آزادی پر کچھ عہد کریں اور عملاً ان کو پورا کرنے کے لیے اپنی اپنی کوششیں کریں، یہ یوم آزادی پر اپنے گھروں میں جھنڈے لہرانا، جگہ جگہ پاکستانی پرچم کی جھنڈیاں لہرانا، ملکی ترانے گانا کیا صرف یہی کافی ہے، تمام بڑی عمارتوں کو روشنیوں سے جگمگا دینا یوم آزادی کو جشن آزادی کی طرح منانا کیا صرف ہم یہی کرسکتے ہیں۔

خوشیوں سے بھرے لمحات پورے سال منائیں، ایک دوسرے کی عزت کیجیے، ایک دوسرے کا سہارا بنیے، برائی کو برائی سمجھیں، فیشن بنا لیں گے تو آسانی ہوگی۔ تمام گلیاں تمام محلے، تمام شہر ریاست سے شدید توجہ چاہتے ہیں کہ ہم ٹیبل پر بیٹھ کر صرف اور صرف گرما گرم باتیں نہ کریں بلکہ عملاً اپنے آپ کو اپنے لیے اور دوسرے کے لیے کام آنے والا سمجھیں۔

بے حساب ایسے کام ہیں جس میں ہم سب مل کر اپنے ملک کے ہاتھ مضبوط کرسکتے ہیں خاص طور پر ہمیں اپنی خواتین کو ایک ایسا ماحول فراہم کرنا ہے جس میں وہ عزت و سہولت کے ساتھ اپنے علم و ہنر سے نہ صرف اپنا معیار زندگی بلند کریں بلکہ اپنے خاندان کے لیے بھی باعث فخر بنیں۔2015 میں بھی اگر خواتین کی بے حرمتی ہو، اداروں میں کام کرنے والے مرد حضرات اگر ان کو دوران کام ہراساں کریں، بس اسٹاپ پر انھیں تنگ کیا جائے۔

یہاں تک کہ بسوں اور اسپتالوں میں بھی ان کو جسمانی طور پر ہراساں کیا جائے اور ہراساں کرنے والے کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے تو پھر کب ہم اپنے آپ کو صحیح راستے پر لے کر چلیں گے۔ ویسے تو ہم ہر چیز میں یورپ کی نقل کرتے ہیں مگر یورپ کی عورت کی طرح اپنی عورتوں کو حق دینے سے ڈرتے ہیں۔ کریں کچھ اچھے کام کریں آغاز ایک شاندار یوم آزادی سے، کہ ستاروں کو چھو لیں گے، آسمانوں تک کامیابی حاصل کریں گے، کریں گے بلند اپنا پرچم ہر قدم پر حاصل کریں گے وہ فلاحی ریاست جو واقعی عوام الناس کے لیے فلاح و بہبود کی اعلیٰ مثال ہوگی، تمام بیرونی اور اندرونی سازشوں کو کچل دیجیے اپنے پیروں سے۔

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
Load Next Story