’’ڈر ستاتا ہے‘‘
بھارت نے کشمیر میں آپریشن کیا اورایسی خونریزی کی کہ یہ خطہ زمین دوزخ بن گیا اورساری دنیا نے اس کی تپش محسوس کی۔
آج کی صورت حال پر ایک پرانا گیت سارا نہیں، اس کا ایک آدھ مصرعہ پورا اُترتا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ ''کہا کابل چلے جائو۔ کہا افغان کا ڈر ہے۔''
کہا افغان تو ہوگا۔
ہم سے کابل جانے کو تو کہا جارہا لیکن جہاں جانے کوکہا جارہا ہے وہاں افغان ہی کا ڈر ہے۔ یعنی وزیرستان اور ہماری صورتحال یہ ہے کہ ایک دن کہتے ہیں، وزیرستان جائیں گے، دوسرے دن کہتے ہیں نہیں، وہاں افغان کا ڈر ہے، تیسرے دن پھر کہتے ہیں کہ وزیرستان جائیں گے اور چوتھے دن پھر افغان کا ڈر ستاتا ہے۔ اجلاس پر اجلاس ہو رہے ہیں۔ تقریریں ہیں اور بیانات ہیں اور نتیجہ یہی کہ :افغان کا ڈر ہے۔ اہم ترین وزیر یعنی وزیر داخلہ کا تین روز پہلے بیان تھا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن پر غور کیا جارہا ہے۔
اگلے دن بیان آیا کہ کس زبان میں سمجھائوں کہ آپریشن نہیں ہوگا۔ اس کا ترجمہ یہی ہوگا کہ کس زبان میں سمجھائوں، وہاں افغان کا ڈر ہے۔ مقتدر حضرات کے حساس اجلاس کی خبر ذرائع کے حوالے سے آتی ہے۔ یہ حساس ذرائع تیسرے دن کہتے ہیں کہ افغان کا ڈر توہے لیکن اتنا زیادہ نہیں، اس لیے محدود آپریشن ہوگا۔ اس ساری رام کہانی میں قوم دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک حصہ کہتا ہے خبردار، آپریشن کا خیال بھی دل میں نہ لانا، دوسرا حصہ اتنے ہی زور سے کہتا ہے کہ اب بھی آپریشن نہیں کرو گے تو کب کرو گے۔ سب سے مزیدار پلٹا عمران خان نے کھایا ہے اور ایسا پلٹا کہ اس پلٹے کے اندر پھر پلٹا موجود ہے۔
اب تک وہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کی قطعی او ر دوٹوک مخالفت کرتے تھے لیکن اب پلٹا کھا کر کہا کہ اگر فوج امن کی ضمانت دے تو آپریشن کی حمایت کرنے کے لیے تیار ہوں اور اس پلٹے کے اندر پلٹا یہ ہے کہ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ فوجی آپریشن سے کبھی امن نہیں ہوسکتا۔ اگر یہ قطعی طے ہے کہ فوجی آپریشن سے امن نہیں ہوسکتا تو پھر امن کی ضمانت کیوں مانگی جارہی ہے۔ ایک طرف ملکی صورتحال ہے دوسری طرف آپریشنوں کی تاریخ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مشرقی پاکستان میں آپریشن ہوا اور بنگلہ دیش بن گیا۔خیر شمالی وزیرستان کا معاملہ الگ ہے۔ وہ عملی طور پر پہلے ہی ''بنگلہ دیش'' ہے۔ہم وہاں اپنا نقلی چوکیدار بھی کھڑا نہیں کرسکتے لیکن ڈرون حملوں میں صرف یہ کہہ کر احتجاج کرتے ہیں کہ ہماری علاقائی سالمیت پر حملے ہو رہے ہیں۔
بھارت نے کشمیر میں آپریشن کیا اورایسی خونریزی کی کہ یہ خطہ زمین دوزخ بن گیا اورساری دنیا نے اس کی تپش محسوس کی۔ آخر بھارت کو حریت پسندوں سے مذاکرات کرنا پڑے۔ باقی ماندہ پاکستان میں آپریشنوں کی ایک تاریخ بلوچستان کی ہے اور ایک کراچی کی، اور تیسری وہ جس کی ایک کڑی شمالی وزیرستان ہے۔ بلوچستان کے حالات سب کے سامنے ہیں اور کراچی کے بھی۔ کراچی میں متحدہ کے خلاف دو بڑے آپریشن ہوئے اور آپریشن کرنے کے ذمے داروں کو بھی بعدازاں اعتراف کرنا پڑا کہ اس میں بے گناہ اور غیر متعلقہ لوگ بھی مارے گئے۔
یہ نتیجہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ متحدہ دونوں آپریشنوں کے بعد پہلے سے زیادہ طاقتور جماعت بن گئی۔ وزیرستان آپریشن جس سلسلے کی کڑی ہے اس کا آغاز مشرف کے دور میں ہوا۔ وزیر ستان کے قبائلیوں اور وفاقی حکومت کے نمائندگان کے درمیان اب تک 13 معاہدے ہو چکے ہیں لیکن اس کے فائدے کم سے کم سامنے آ سکے ہیں۔مشرف دور میں ان معاہدوں میں خیبر پختونخوا کے فوجی گورنر بھی شریک ہوئے ۔فریقین نے ایک دوسرے کے گلے میں ہار بھی ڈالے ۔بعد ازاں مختلف قبائلی علاقوں میں محدود نوعیت کے آپریشنوں کے نتیجے میں ملک بھر میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہوا جس نے لال مسجد کے آپریشن کے بعد نہایت سنگین شکل اختیار کرلی۔ کئی برسوں تک ملک دھماکوں سے گونجتا رہا۔
پھر امن تو نہیں لیکن امن سے ملتی جلتی فضا بننے لگی تو ڈرون حملوں نے معاملہ زیادہ خراب کر دیا۔ اس دوران سوات میں بھی آپریشن ہوا اور مولوی فضل اللہ گروپ بھاگ کر افغانستان چلا گیا اور انہی لوگوں سے جا ملا جن کے خلاف وہ ماضی میں جہاد کرتا رہا۔ اب افغان فوج اور فضل اللہ دونوں مل کر پاکستان کے خلاف ''جہاد'' کررہے ہیں اسی ''جہاد'' کی کڑی ملالہ پر حملہ ہے اور اسی حملے کے بعد پاکستان میں نظریاتی یا سیاسی کشمکش ایک بھرپور محاذ آرائی بن گئی۔ ایک طرف سے وزیرستان میں آپریشن کے مطالبے ہیں تو دوسری طرف سے خبردار کی صدائیں ہیں۔
شمالی وزیرستان کا ملالہ پر حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن وہاں آپریشن کی دوسری ضروریات ہیں، ایک طرف امریکا کا دبائو ہے اور دوسری طرف یہ حقیقت بھی ہے کہ بہت سے جرائم پیشہ عناصر نے بھی شمالی وزیرستان میں پناہ لے رکھی ہے۔ ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ پاکستان امریکا پر واضح کردے کہ اگر وہ ڈرون حملے سو فیصدی بند کردے تو ہم آپریشن کرکے معاملہ سنبھال لیں گے۔ اب یہ پتہ نہیں کہ ہمارے والی وارثوں میں امریکا سے یہ کہنے کی جرأت ہی نہیں ہے یا پھر امریکا ان کی بات نہیں مانتا۔ جو بھی صورت ہو نتیجہ قوم کے حق میں بُرا ہے۔
پاکستان آپریشن نہیں کرتا تو ایک طرف امریکا کا دبائو بڑھے گااور اس دبائو میں سرحد پار سے حملے بھی شامل ہوں گے اور بھارت کی طرف سے پریشانیاں کھڑی کرنے کا سلسلہ بھی اور دوسری طرف آپریشن نہ کرنے کے نتیجے میں مقامی طالبان کی طاقت بڑھ جائے گی جن کے بارے میں اب ہر کوئی کہتا ہے کہ نہ صرف ان میں جرائم پیشہ گروہ شامل ہیں بلکہ یہ بھی کہ انھیں بھارت وغیرہ کی سرپرستی اور امداد بھی حاصل ہے اور اگر پاکستان آپریشن کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے تو اس صورت میں جوابی کارروائی کے طورپر دہشت گردی کی نئی لہر آنے کا سخت خطرہ بھی موجود ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں دہشت گردی کی نئی لہر آئی تو اس کا سیاسی نقصان حکومت کو ہوگا اور ان حلقوں کو فائدہ ہوگا جو خبردار، خبردار کے نعرے لگا رہے ہیں۔ قوموں پر ایسے وقت آتے ہیں اور وہ ان سے سرخرو ہو کر بھی نکلتی ہیں لیکن ان قوموں کی کامیابی کا واحد راز یہ ہے کہ بحران سے نمٹنے کے لیے متحد ہوتی ہیں۔
پاکستان میں اتحاد کا نام و نشان تک نہیں رہا۔ قومی وجود خطرے میں ہے اور قوم ایسے دو دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے جن میں اختلاف 90 درجے کا نہیں، 180 ڈگری کا ہے، تھوڑا بہت اختلاف ہو تو غورو غوض سے حل ہوسکتا ہے۔ یہاں 180 درجے کا ''بُعدالمشرقین'' ہے جسے پاٹنے کے خیال سے ہی حوصلہ خود بخود ہار جاتا ہے۔
کہا افغان تو ہوگا۔
ہم سے کابل جانے کو تو کہا جارہا لیکن جہاں جانے کوکہا جارہا ہے وہاں افغان ہی کا ڈر ہے۔ یعنی وزیرستان اور ہماری صورتحال یہ ہے کہ ایک دن کہتے ہیں، وزیرستان جائیں گے، دوسرے دن کہتے ہیں نہیں، وہاں افغان کا ڈر ہے، تیسرے دن پھر کہتے ہیں کہ وزیرستان جائیں گے اور چوتھے دن پھر افغان کا ڈر ستاتا ہے۔ اجلاس پر اجلاس ہو رہے ہیں۔ تقریریں ہیں اور بیانات ہیں اور نتیجہ یہی کہ :افغان کا ڈر ہے۔ اہم ترین وزیر یعنی وزیر داخلہ کا تین روز پہلے بیان تھا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن پر غور کیا جارہا ہے۔
اگلے دن بیان آیا کہ کس زبان میں سمجھائوں کہ آپریشن نہیں ہوگا۔ اس کا ترجمہ یہی ہوگا کہ کس زبان میں سمجھائوں، وہاں افغان کا ڈر ہے۔ مقتدر حضرات کے حساس اجلاس کی خبر ذرائع کے حوالے سے آتی ہے۔ یہ حساس ذرائع تیسرے دن کہتے ہیں کہ افغان کا ڈر توہے لیکن اتنا زیادہ نہیں، اس لیے محدود آپریشن ہوگا۔ اس ساری رام کہانی میں قوم دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک حصہ کہتا ہے خبردار، آپریشن کا خیال بھی دل میں نہ لانا، دوسرا حصہ اتنے ہی زور سے کہتا ہے کہ اب بھی آپریشن نہیں کرو گے تو کب کرو گے۔ سب سے مزیدار پلٹا عمران خان نے کھایا ہے اور ایسا پلٹا کہ اس پلٹے کے اندر پھر پلٹا موجود ہے۔
اب تک وہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کی قطعی او ر دوٹوک مخالفت کرتے تھے لیکن اب پلٹا کھا کر کہا کہ اگر فوج امن کی ضمانت دے تو آپریشن کی حمایت کرنے کے لیے تیار ہوں اور اس پلٹے کے اندر پلٹا یہ ہے کہ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ فوجی آپریشن سے کبھی امن نہیں ہوسکتا۔ اگر یہ قطعی طے ہے کہ فوجی آپریشن سے امن نہیں ہوسکتا تو پھر امن کی ضمانت کیوں مانگی جارہی ہے۔ ایک طرف ملکی صورتحال ہے دوسری طرف آپریشنوں کی تاریخ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مشرقی پاکستان میں آپریشن ہوا اور بنگلہ دیش بن گیا۔خیر شمالی وزیرستان کا معاملہ الگ ہے۔ وہ عملی طور پر پہلے ہی ''بنگلہ دیش'' ہے۔ہم وہاں اپنا نقلی چوکیدار بھی کھڑا نہیں کرسکتے لیکن ڈرون حملوں میں صرف یہ کہہ کر احتجاج کرتے ہیں کہ ہماری علاقائی سالمیت پر حملے ہو رہے ہیں۔
بھارت نے کشمیر میں آپریشن کیا اورایسی خونریزی کی کہ یہ خطہ زمین دوزخ بن گیا اورساری دنیا نے اس کی تپش محسوس کی۔ آخر بھارت کو حریت پسندوں سے مذاکرات کرنا پڑے۔ باقی ماندہ پاکستان میں آپریشنوں کی ایک تاریخ بلوچستان کی ہے اور ایک کراچی کی، اور تیسری وہ جس کی ایک کڑی شمالی وزیرستان ہے۔ بلوچستان کے حالات سب کے سامنے ہیں اور کراچی کے بھی۔ کراچی میں متحدہ کے خلاف دو بڑے آپریشن ہوئے اور آپریشن کرنے کے ذمے داروں کو بھی بعدازاں اعتراف کرنا پڑا کہ اس میں بے گناہ اور غیر متعلقہ لوگ بھی مارے گئے۔
یہ نتیجہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ متحدہ دونوں آپریشنوں کے بعد پہلے سے زیادہ طاقتور جماعت بن گئی۔ وزیرستان آپریشن جس سلسلے کی کڑی ہے اس کا آغاز مشرف کے دور میں ہوا۔ وزیر ستان کے قبائلیوں اور وفاقی حکومت کے نمائندگان کے درمیان اب تک 13 معاہدے ہو چکے ہیں لیکن اس کے فائدے کم سے کم سامنے آ سکے ہیں۔مشرف دور میں ان معاہدوں میں خیبر پختونخوا کے فوجی گورنر بھی شریک ہوئے ۔فریقین نے ایک دوسرے کے گلے میں ہار بھی ڈالے ۔بعد ازاں مختلف قبائلی علاقوں میں محدود نوعیت کے آپریشنوں کے نتیجے میں ملک بھر میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہوا جس نے لال مسجد کے آپریشن کے بعد نہایت سنگین شکل اختیار کرلی۔ کئی برسوں تک ملک دھماکوں سے گونجتا رہا۔
پھر امن تو نہیں لیکن امن سے ملتی جلتی فضا بننے لگی تو ڈرون حملوں نے معاملہ زیادہ خراب کر دیا۔ اس دوران سوات میں بھی آپریشن ہوا اور مولوی فضل اللہ گروپ بھاگ کر افغانستان چلا گیا اور انہی لوگوں سے جا ملا جن کے خلاف وہ ماضی میں جہاد کرتا رہا۔ اب افغان فوج اور فضل اللہ دونوں مل کر پاکستان کے خلاف ''جہاد'' کررہے ہیں اسی ''جہاد'' کی کڑی ملالہ پر حملہ ہے اور اسی حملے کے بعد پاکستان میں نظریاتی یا سیاسی کشمکش ایک بھرپور محاذ آرائی بن گئی۔ ایک طرف سے وزیرستان میں آپریشن کے مطالبے ہیں تو دوسری طرف سے خبردار کی صدائیں ہیں۔
شمالی وزیرستان کا ملالہ پر حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن وہاں آپریشن کی دوسری ضروریات ہیں، ایک طرف امریکا کا دبائو ہے اور دوسری طرف یہ حقیقت بھی ہے کہ بہت سے جرائم پیشہ عناصر نے بھی شمالی وزیرستان میں پناہ لے رکھی ہے۔ ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ پاکستان امریکا پر واضح کردے کہ اگر وہ ڈرون حملے سو فیصدی بند کردے تو ہم آپریشن کرکے معاملہ سنبھال لیں گے۔ اب یہ پتہ نہیں کہ ہمارے والی وارثوں میں امریکا سے یہ کہنے کی جرأت ہی نہیں ہے یا پھر امریکا ان کی بات نہیں مانتا۔ جو بھی صورت ہو نتیجہ قوم کے حق میں بُرا ہے۔
پاکستان آپریشن نہیں کرتا تو ایک طرف امریکا کا دبائو بڑھے گااور اس دبائو میں سرحد پار سے حملے بھی شامل ہوں گے اور بھارت کی طرف سے پریشانیاں کھڑی کرنے کا سلسلہ بھی اور دوسری طرف آپریشن نہ کرنے کے نتیجے میں مقامی طالبان کی طاقت بڑھ جائے گی جن کے بارے میں اب ہر کوئی کہتا ہے کہ نہ صرف ان میں جرائم پیشہ گروہ شامل ہیں بلکہ یہ بھی کہ انھیں بھارت وغیرہ کی سرپرستی اور امداد بھی حاصل ہے اور اگر پاکستان آپریشن کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے تو اس صورت میں جوابی کارروائی کے طورپر دہشت گردی کی نئی لہر آنے کا سخت خطرہ بھی موجود ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں دہشت گردی کی نئی لہر آئی تو اس کا سیاسی نقصان حکومت کو ہوگا اور ان حلقوں کو فائدہ ہوگا جو خبردار، خبردار کے نعرے لگا رہے ہیں۔ قوموں پر ایسے وقت آتے ہیں اور وہ ان سے سرخرو ہو کر بھی نکلتی ہیں لیکن ان قوموں کی کامیابی کا واحد راز یہ ہے کہ بحران سے نمٹنے کے لیے متحد ہوتی ہیں۔
پاکستان میں اتحاد کا نام و نشان تک نہیں رہا۔ قومی وجود خطرے میں ہے اور قوم ایسے دو دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے جن میں اختلاف 90 درجے کا نہیں، 180 ڈگری کا ہے، تھوڑا بہت اختلاف ہو تو غورو غوض سے حل ہوسکتا ہے۔ یہاں 180 درجے کا ''بُعدالمشرقین'' ہے جسے پاٹنے کے خیال سے ہی حوصلہ خود بخود ہار جاتا ہے۔