بھارت میں نکسل باڑی کمزور پڑگئے
نکسل باڑیوں کی تعداد کے بارے میں مختلف اندازے لگائے گئے ہیں جو دس ہزار سے ایک لاکھ تک ہیں
ریبیکا ایک قبائلی لڑکی ہے، مشرقی بھارت کی ریاست اڑیسہ میں ماؤنوازباغیوں کی ایک ایریاکمانڈر۔ ماؤنوازوں کو نکسل باڑی بھی کہتے ہیں۔ جب اخبارنویس کی ریبیکا سے ملاقات ہوئی تو وہ ایک خودکار رائفل اٹھائے ہوئے تھی، اس کے چہرے پر نقاب تھاتاکہ وہ کندھمل جیسے علاقے میں خطرناک مچھروں سے بھرے ہوئے جنگلوں میں ملیریا سے محفوظ رہ سکے۔
ریبیکا کی بہن 2010ء میں ماؤنوازعلیحدگی پسندوں میں شامل ہوئی تھی۔ جب وہ گرفتار ہوئی تو وہ پولیس اہلکاروں کے گینگ ریپ کا نشانہ بنی۔ پھرسیکورٹی فورسز نے اس کے بھائی کو بھی گرفتارکرلیا اوردوران حراست پراسرارطورپر ہلاک کردیا۔ ریبیکا کہتی ہے کہ ریاستی ظلم وتشدد ہی نے اسے اسلحہ اٹھانے اور علیحدگی پسندوں میں شامل ہونے پر مجبورکیا۔ میں ایسی سخت زندگی گزارناپسند نہیں کرتی تاہم میرے پاس کوئی اور چارہ کارنہیں تھا۔ اب واپسی کا راستہ بھی نہیں ہے''۔
یہ پہلو بھی انتہائی دلچسپ ہے کہ ماؤنوازوں میں آدھی سے زیادہ خواتین ہیں۔ ان کی عمریں سولہ برس سے چالیس برس تک ہوتی ہے۔ زیادہ تر نے اس تحریک میں شامل مردوں سے ہی شادی کرلی ہے یاپھر دوستانہ تعلقات۔ خواتین آپریشنز میں شاطرانہ کردار اداکرتی ہیں مثلاً سیکورٹی فورسز کی توجہ ادھرادھرکرنا، اس اثنا میں مرد نکسل باڑی اپنی کارروائی مکمل کرلیتے ہیں جبکہ بعض اوقات خود ماؤنوازخواتین بھی بھارت میں بڑی کارروائیاں کرتی ہیں۔ مثلاً انھوں نے چھتیس گڑھ میں ایک حملے میں بعض اہم ریاستی سیاست دانوں سمیت24افراد ہلاک کئے تھے۔
سوال یہ ہے کہ اس قدر بڑی تعداد میں عورتیں کیوں ماؤنوازتحریک میں شامل ہورہی ہیں؟ دراصل بھارت میں بڑے بڑے کاروبارشروع کرانے کے لئے چھوٹے چھوٹے کسانوں کو ان کی اپنی زمینوں سے بے دخل کردیاجاتاہے۔ ان چھوٹے لوگوں کو ایک طرف شدیدترین غربت کا سامنا ہوتاہے، دوسری طرف نکسل باڑیوں سے نمٹنے والی سیکورٹی فورسز اور سلوا جودم( Salwa Judum) جیسی حکومت نواز''امن لشکروں''کے ظلم وتشدد کا بھی۔
سلواجودم ماؤنوازعلیحدگی پسندوں سے نمٹنے کے لئے ایک خصوصی فورس قائم کی گئی تھی۔تیسرا سبب معاشرے کے طاقت ور لوگوں یا پھر سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں جنسی تشدد کا نشانہ بننا۔ قانون ان کی مدد نہیں کرتا، ان کے تن بدن میں انتقام کی آگ جل رہی ہوتی ہے چنانچہ وہ ماؤنوازوں کے پاس اپنی فریادلے کر جاتی ہیں۔
رشمی ماہی سن2011ء سے پہلے تک ریاست جھاڑ کھنڈ میں ماؤنواز عسکریت پسندوں میں شامل رہی ہیں۔ اب وہ رانچی قصبہ میں چائے کی دکان چلارہی ہیں۔ اسے غربت ہی گھنے جنگل میں لے گئی۔ وہ بتاتی ہے'' ہم سات بہن بھائی تھے۔ ہماری تھوڑی سی زمین اس قدر پیداوارنہیں دیتی تھی کہ اس پر پورے گھرانے کی گزراوقات ہوتی۔ نتیجتاً انھیں دن میں صرف ایک ہی بار کھانا میسر آتاتھا۔ ماؤنوازوں نے لوگوں کو بھرتی کرنے کے لئے ہمارے گاؤں کا دورہ کیا۔
انھوں نے ہم سے اچھی رقم فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا، چنانچہ ہم شامل ہوگئے۔ میری شادی بھی ایک ماؤنوازعسکریت پسند سے ہوئی، میں ایک بچے کی ماں بھی بنی۔ بچے کی پیدائش کے بعد میں مزید جنگل میں نہ رہ سکی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ میرا بچہ بھی میری جیسی زندگی بسرکرے۔ ہم نے ہمیشہ بھاگتے چھپتے زندگی بسر کی۔ چنانچہ میں ہتھیارپھینک کر موجودہ زندگی کی طرف آگئی''۔
بھارتی پالیسی ساز سمجھتے ہیں کہ یہی وہ سوچ ہے جو ماؤنوازتحریک کی قوت کو ختم کررہی ہے۔ شاید یہ بھارتی حکومتوں، پالیسی سازوں کی خوش فہمی ہے۔ جس ملک کے دیہاتی علاقوں میں75فیصد لوگ محض روزانہ33روپے کماتے ہوں('انڈیاٹودے'، 13جولائی2015ء)، وہاں غربت کے خلاف نعروں کی گونج میں اضافہ ہوسکتاہے، کمی نہیں۔
اب بھی دیہاتی علاقوں میں آدھے سے زیادہ کچے مکانات ہیں یا پھر گھاس پھوس کی جھونپڑیاں۔ غربت اور ریاستی جبر کے ہوتے ہوئے نکسل باڑیوں کی تحریک کو کوئی خطرہ نہیں۔ ابھی محض دوہفتے قبل ریاست چھتیس گڑھ کے ضلع بیجاپور میں ماؤنواز علیحدگی پسندوں نے ایک مسافر بس کو روکا، اس میں سے چارپولیس اہلکاروں کواتارا اور اپنے ساتھ لے کر چلے گئے لیکن حکومت نہ انھیں بچانے کے لئے کچھ کرسکی چنانچہ وہ قتل کردئیے گئے۔
ماؤنوازوں کی تحریک ریاست مغربی بنگال کے ضلع دارجیلنگ کے ایک چھوٹے سے گاؤں نکسل باڑی سے شروع ہوئی۔25 مئی1967ء کو ایک مقامی جاگیردار کے خلاف یہاں کے قبائلیوں اور کمیونسٹوں نے مل کر لڑائی لڑی۔ اس جاگیردار نے کسی کی زمین پر قبضہ کیاہواتھا، اس نے ایک غریب قبائلی کسان کو بھی شدید تشدد کا نشانہ بنایاتھا۔
ان قبائلیوں کی جدوجہد ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنی، اس کے بعد یہ تحریک گاؤں ہی کے نام سے مشہورہوگئی۔ بہت جلد یہ تحریک مغربی بنگال سے نکل کر بہار، اترپردیش اور آندھرا پردیش میں پھیلنے لگی۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت بھارت کی 16ریاستوں کے 604 اضلاع میں 195 گروہ جدوجہد کررہے ہیں۔ تاہم اب بھارت ی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ اس کی کارروائیوں کے نتیجے میں نکسل باڑیوں کو غیرمعمولی نقصان پہنچاہے۔ ان کی سرگرمیاں اب 83اضلاع میں ہیں۔
بھارت کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق نکسل باڑیوں کو 92 ہزار مربع کلومیٹر یعنی ملک کے ایک تہائی حصے میں اثرورسوخ حاصل ہے۔ ان کے زیراثر ریاستوں میں آندھرا پردیش، چھتیس گڑھ، جھاڑکھنڈ، بہار، اڑیسہ، اترپردیش، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، مغربی بنگال کرناٹک، تامل ناڈو، اترانچل اور کیرالا شامل ہیں جبکہ وہ گجرات، پنجاب، راجستھان اور ہماچل پردیش میں بھی اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کی کوششیں کررہی ہے۔
انھوں نے2013ء میں اس وقت پوری دنیا کی توجہ حاصل کی جب ان کی ایک کارروائی میں اس وقت کی حکمران انڈین نیشنل کانگریس کے 24 رہنماؤں کو ہلاک ہوئے۔ ان میں ایک سابق ریاستی وزیر مہندر کرم اور نیشنل کانگریس چھتیس گڑھ کے سربراہ بھی شامل تھے۔ سابق وزیراعظم من موہن سنگھ ماؤنوازوں کو بھارت کے لئے سب سے بڑا داخلی خطرہ قراردے چکے ہیں۔
نکسل باڑی بھارت کے موجودہ نظام کے خلاف ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ بھارتیوں کو بھوک اور احساس محرومی کے خلاف دولت مند طبقات، جاگیرداروں، صنعت کاروں اور تاجروں سے جنگ جیتنی ہوگی۔
اس کے لئے پیداوار کے ذرائع پر قبضہ کرناہوگا۔جب نکسل باڑیوں نے ساٹھ کی دہائی میں یہ نعرہ لگایا تو ان میں ایسے قبائلی بھی شامل ہوئے جو جنگلوں میں رہتے تھے۔ یہ نچلی ذات کے لوگ تھے یا پھر جاگیرداروں اورزمینداروں کے ہاں کام کرتے تھے۔ پہلے پہل اس تحریک کی باگ ڈور دانشوروں اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل نوجوانوں کے ہاتھ میں تھی۔
وہ اُس نظام سے متنفر تھے جو انھیں ان کے پسند کی زندگی فراہم کرنے میں ناکام رہا۔ وہ غریب دیہاتیوں کو انقلاب کے لئے اٹھ کھڑے ہونے کو کہتے رہے۔ نتیجتاً بہت جلد یہ قبائلی،کسان اور معاشرے کے دوسرے پسے ہوئے طبقات اس تحریک میں شامل ہوگئے۔ جب بھارتی حکومت کو اس مسئلے کی سنگینی کا احساس ہواتو اس بے چینی کے اسباب تلاش کرنے کے لئے ایک کمیٹی قائم کردی گئی ۔ کمیٹی نے پتہ چلایا کہ نکسل باڑی تحریک کے پیچھے سماجی، سیاسی، معاشی اور کلچرل امتیاز کا ہاتھ ہے۔ اس امتیاز کا زیادہ شکار غریب طبقہ ہے چنانچہ وہ ماؤنوازوں کی طرف کھچاچلاگیا۔
نکسل باڑیوں کی تعداد کے بارے میں مختلف اندازے لگائے گئے ہیں جو دس ہزار سے ایک لاکھ تک ہیں۔ ابتدا میں نکسل باڑی بہتر اندازمیں مسلح نہیں تھے تاہم آنے والے برسوں میں انھوں نے جدید اسلحہ حاصل کرلیا ان میں AK سیریز کی رائفلز بھی شامل تھیں جو سیکورٹی فورسز سے چھینی گئی تھیں۔
پھر انھوں نے راکٹ لانچرز اور بم بنانے کی صلاحیت حاصل کرلی۔ انھیںجنگلات کے بڑے علاقے پر کنٹرول حاصل ہے جس کا رقبہ 60 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ یہ ریاست چھتیس گڑھ کا قریباً 41فیصد بنتاہے۔ وہ لکڑی کی تجارت اور دیگرجنگلاتی اشیا کی پیداوارسے پیسہ کماتے ہیں۔ اسی طرح وہ میری جوانا کی کاشت اور فروخت بھی کرتے ہیں۔ ایک گرفتارماؤنوازکمانڈرنے انکشاف کیا کہ 2007ء کے ایک سال کے دوران دس ارب روپے اپنے نافذ کردہ ٹیکسز کی مد میں جمع کئے تھے۔
اب تک نکسل باڑیوں کی جدوجہد سے متاثرہ ہر ریاست اپنے ہاں اپنے ہی وسائل کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے تاہم تین برس قبل مرکزی حکومت نے 10ہزار اہلکاروں پر مشتمل ایک کوبرا بٹالین تشکیل دی۔ سنٹرل ریزور پولیس فورس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول میں کوبرا کے اہلکاروں کو نکسل باڑیوں کے علاقوں میں لڑائی لڑنے کی خصوصی تربیت دی گئی۔ کوبرا اور سلوا جودم جیسے لشکروں سے حاصل کیا ہوا؟ بھارتی حکومت کے دعوے اپنی جگہ لیکن ماؤنواز ابھی تک سیکورٹی فورسز پر حملے کرکے ان کا قتل کرتے ہیں، انھیں اغوا کرکے لے جاتے ہیں،سرکاری عمارتوں کو نذرآتش کردیتے ہیں۔
آج بھی ریڈکوریڈور( وہ علاقے جہاں ماؤنوازوںکو اثرورسوخ حاصل ہے) میں سرکاری ملازمین کام کرنے سے ڈرتے ہیں۔مثلاً چھتیس گڑھ جہاں سرکاری ملازمین بھی خوف کا شکار ہیں۔ نتیجتاً کئی سرکاری شعبوں میں عملہ کی کمی ہے۔ بالخصوص ڈاکٹرز اور اساتذہ اس علاقے میں جانے کو قطعی طورپر تیارنہیں۔ وہ اس خطے کو'کالاپانی' قراردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے دیہاتوں، سکولوں اور ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور اساتذہ نہیں ہیں۔ کیا یہ ہے وہ ''کامیابی '' جس کا بھارتی حکومت دعویٰ کرتی ہے؟؟؟
ریبیکا کی بہن 2010ء میں ماؤنوازعلیحدگی پسندوں میں شامل ہوئی تھی۔ جب وہ گرفتار ہوئی تو وہ پولیس اہلکاروں کے گینگ ریپ کا نشانہ بنی۔ پھرسیکورٹی فورسز نے اس کے بھائی کو بھی گرفتارکرلیا اوردوران حراست پراسرارطورپر ہلاک کردیا۔ ریبیکا کہتی ہے کہ ریاستی ظلم وتشدد ہی نے اسے اسلحہ اٹھانے اور علیحدگی پسندوں میں شامل ہونے پر مجبورکیا۔ میں ایسی سخت زندگی گزارناپسند نہیں کرتی تاہم میرے پاس کوئی اور چارہ کارنہیں تھا۔ اب واپسی کا راستہ بھی نہیں ہے''۔
یہ پہلو بھی انتہائی دلچسپ ہے کہ ماؤنوازوں میں آدھی سے زیادہ خواتین ہیں۔ ان کی عمریں سولہ برس سے چالیس برس تک ہوتی ہے۔ زیادہ تر نے اس تحریک میں شامل مردوں سے ہی شادی کرلی ہے یاپھر دوستانہ تعلقات۔ خواتین آپریشنز میں شاطرانہ کردار اداکرتی ہیں مثلاً سیکورٹی فورسز کی توجہ ادھرادھرکرنا، اس اثنا میں مرد نکسل باڑی اپنی کارروائی مکمل کرلیتے ہیں جبکہ بعض اوقات خود ماؤنوازخواتین بھی بھارت میں بڑی کارروائیاں کرتی ہیں۔ مثلاً انھوں نے چھتیس گڑھ میں ایک حملے میں بعض اہم ریاستی سیاست دانوں سمیت24افراد ہلاک کئے تھے۔
سوال یہ ہے کہ اس قدر بڑی تعداد میں عورتیں کیوں ماؤنوازتحریک میں شامل ہورہی ہیں؟ دراصل بھارت میں بڑے بڑے کاروبارشروع کرانے کے لئے چھوٹے چھوٹے کسانوں کو ان کی اپنی زمینوں سے بے دخل کردیاجاتاہے۔ ان چھوٹے لوگوں کو ایک طرف شدیدترین غربت کا سامنا ہوتاہے، دوسری طرف نکسل باڑیوں سے نمٹنے والی سیکورٹی فورسز اور سلوا جودم( Salwa Judum) جیسی حکومت نواز''امن لشکروں''کے ظلم وتشدد کا بھی۔
سلواجودم ماؤنوازعلیحدگی پسندوں سے نمٹنے کے لئے ایک خصوصی فورس قائم کی گئی تھی۔تیسرا سبب معاشرے کے طاقت ور لوگوں یا پھر سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں جنسی تشدد کا نشانہ بننا۔ قانون ان کی مدد نہیں کرتا، ان کے تن بدن میں انتقام کی آگ جل رہی ہوتی ہے چنانچہ وہ ماؤنوازوں کے پاس اپنی فریادلے کر جاتی ہیں۔
رشمی ماہی سن2011ء سے پہلے تک ریاست جھاڑ کھنڈ میں ماؤنواز عسکریت پسندوں میں شامل رہی ہیں۔ اب وہ رانچی قصبہ میں چائے کی دکان چلارہی ہیں۔ اسے غربت ہی گھنے جنگل میں لے گئی۔ وہ بتاتی ہے'' ہم سات بہن بھائی تھے۔ ہماری تھوڑی سی زمین اس قدر پیداوارنہیں دیتی تھی کہ اس پر پورے گھرانے کی گزراوقات ہوتی۔ نتیجتاً انھیں دن میں صرف ایک ہی بار کھانا میسر آتاتھا۔ ماؤنوازوں نے لوگوں کو بھرتی کرنے کے لئے ہمارے گاؤں کا دورہ کیا۔
انھوں نے ہم سے اچھی رقم فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا، چنانچہ ہم شامل ہوگئے۔ میری شادی بھی ایک ماؤنوازعسکریت پسند سے ہوئی، میں ایک بچے کی ماں بھی بنی۔ بچے کی پیدائش کے بعد میں مزید جنگل میں نہ رہ سکی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ میرا بچہ بھی میری جیسی زندگی بسرکرے۔ ہم نے ہمیشہ بھاگتے چھپتے زندگی بسر کی۔ چنانچہ میں ہتھیارپھینک کر موجودہ زندگی کی طرف آگئی''۔
بھارتی پالیسی ساز سمجھتے ہیں کہ یہی وہ سوچ ہے جو ماؤنوازتحریک کی قوت کو ختم کررہی ہے۔ شاید یہ بھارتی حکومتوں، پالیسی سازوں کی خوش فہمی ہے۔ جس ملک کے دیہاتی علاقوں میں75فیصد لوگ محض روزانہ33روپے کماتے ہوں('انڈیاٹودے'، 13جولائی2015ء)، وہاں غربت کے خلاف نعروں کی گونج میں اضافہ ہوسکتاہے، کمی نہیں۔
اب بھی دیہاتی علاقوں میں آدھے سے زیادہ کچے مکانات ہیں یا پھر گھاس پھوس کی جھونپڑیاں۔ غربت اور ریاستی جبر کے ہوتے ہوئے نکسل باڑیوں کی تحریک کو کوئی خطرہ نہیں۔ ابھی محض دوہفتے قبل ریاست چھتیس گڑھ کے ضلع بیجاپور میں ماؤنواز علیحدگی پسندوں نے ایک مسافر بس کو روکا، اس میں سے چارپولیس اہلکاروں کواتارا اور اپنے ساتھ لے کر چلے گئے لیکن حکومت نہ انھیں بچانے کے لئے کچھ کرسکی چنانچہ وہ قتل کردئیے گئے۔
ماؤنوازوں کی تحریک ریاست مغربی بنگال کے ضلع دارجیلنگ کے ایک چھوٹے سے گاؤں نکسل باڑی سے شروع ہوئی۔25 مئی1967ء کو ایک مقامی جاگیردار کے خلاف یہاں کے قبائلیوں اور کمیونسٹوں نے مل کر لڑائی لڑی۔ اس جاگیردار نے کسی کی زمین پر قبضہ کیاہواتھا، اس نے ایک غریب قبائلی کسان کو بھی شدید تشدد کا نشانہ بنایاتھا۔
ان قبائلیوں کی جدوجہد ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنی، اس کے بعد یہ تحریک گاؤں ہی کے نام سے مشہورہوگئی۔ بہت جلد یہ تحریک مغربی بنگال سے نکل کر بہار، اترپردیش اور آندھرا پردیش میں پھیلنے لگی۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت بھارت کی 16ریاستوں کے 604 اضلاع میں 195 گروہ جدوجہد کررہے ہیں۔ تاہم اب بھارت ی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ اس کی کارروائیوں کے نتیجے میں نکسل باڑیوں کو غیرمعمولی نقصان پہنچاہے۔ ان کی سرگرمیاں اب 83اضلاع میں ہیں۔
بھارت کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق نکسل باڑیوں کو 92 ہزار مربع کلومیٹر یعنی ملک کے ایک تہائی حصے میں اثرورسوخ حاصل ہے۔ ان کے زیراثر ریاستوں میں آندھرا پردیش، چھتیس گڑھ، جھاڑکھنڈ، بہار، اڑیسہ، اترپردیش، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، مغربی بنگال کرناٹک، تامل ناڈو، اترانچل اور کیرالا شامل ہیں جبکہ وہ گجرات، پنجاب، راجستھان اور ہماچل پردیش میں بھی اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کی کوششیں کررہی ہے۔
انھوں نے2013ء میں اس وقت پوری دنیا کی توجہ حاصل کی جب ان کی ایک کارروائی میں اس وقت کی حکمران انڈین نیشنل کانگریس کے 24 رہنماؤں کو ہلاک ہوئے۔ ان میں ایک سابق ریاستی وزیر مہندر کرم اور نیشنل کانگریس چھتیس گڑھ کے سربراہ بھی شامل تھے۔ سابق وزیراعظم من موہن سنگھ ماؤنوازوں کو بھارت کے لئے سب سے بڑا داخلی خطرہ قراردے چکے ہیں۔
نکسل باڑی بھارت کے موجودہ نظام کے خلاف ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ بھارتیوں کو بھوک اور احساس محرومی کے خلاف دولت مند طبقات، جاگیرداروں، صنعت کاروں اور تاجروں سے جنگ جیتنی ہوگی۔
اس کے لئے پیداوار کے ذرائع پر قبضہ کرناہوگا۔جب نکسل باڑیوں نے ساٹھ کی دہائی میں یہ نعرہ لگایا تو ان میں ایسے قبائلی بھی شامل ہوئے جو جنگلوں میں رہتے تھے۔ یہ نچلی ذات کے لوگ تھے یا پھر جاگیرداروں اورزمینداروں کے ہاں کام کرتے تھے۔ پہلے پہل اس تحریک کی باگ ڈور دانشوروں اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل نوجوانوں کے ہاتھ میں تھی۔
وہ اُس نظام سے متنفر تھے جو انھیں ان کے پسند کی زندگی فراہم کرنے میں ناکام رہا۔ وہ غریب دیہاتیوں کو انقلاب کے لئے اٹھ کھڑے ہونے کو کہتے رہے۔ نتیجتاً بہت جلد یہ قبائلی،کسان اور معاشرے کے دوسرے پسے ہوئے طبقات اس تحریک میں شامل ہوگئے۔ جب بھارتی حکومت کو اس مسئلے کی سنگینی کا احساس ہواتو اس بے چینی کے اسباب تلاش کرنے کے لئے ایک کمیٹی قائم کردی گئی ۔ کمیٹی نے پتہ چلایا کہ نکسل باڑی تحریک کے پیچھے سماجی، سیاسی، معاشی اور کلچرل امتیاز کا ہاتھ ہے۔ اس امتیاز کا زیادہ شکار غریب طبقہ ہے چنانچہ وہ ماؤنوازوں کی طرف کھچاچلاگیا۔
نکسل باڑیوں کی تعداد کے بارے میں مختلف اندازے لگائے گئے ہیں جو دس ہزار سے ایک لاکھ تک ہیں۔ ابتدا میں نکسل باڑی بہتر اندازمیں مسلح نہیں تھے تاہم آنے والے برسوں میں انھوں نے جدید اسلحہ حاصل کرلیا ان میں AK سیریز کی رائفلز بھی شامل تھیں جو سیکورٹی فورسز سے چھینی گئی تھیں۔
پھر انھوں نے راکٹ لانچرز اور بم بنانے کی صلاحیت حاصل کرلی۔ انھیںجنگلات کے بڑے علاقے پر کنٹرول حاصل ہے جس کا رقبہ 60 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ یہ ریاست چھتیس گڑھ کا قریباً 41فیصد بنتاہے۔ وہ لکڑی کی تجارت اور دیگرجنگلاتی اشیا کی پیداوارسے پیسہ کماتے ہیں۔ اسی طرح وہ میری جوانا کی کاشت اور فروخت بھی کرتے ہیں۔ ایک گرفتارماؤنوازکمانڈرنے انکشاف کیا کہ 2007ء کے ایک سال کے دوران دس ارب روپے اپنے نافذ کردہ ٹیکسز کی مد میں جمع کئے تھے۔
اب تک نکسل باڑیوں کی جدوجہد سے متاثرہ ہر ریاست اپنے ہاں اپنے ہی وسائل کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے تاہم تین برس قبل مرکزی حکومت نے 10ہزار اہلکاروں پر مشتمل ایک کوبرا بٹالین تشکیل دی۔ سنٹرل ریزور پولیس فورس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول میں کوبرا کے اہلکاروں کو نکسل باڑیوں کے علاقوں میں لڑائی لڑنے کی خصوصی تربیت دی گئی۔ کوبرا اور سلوا جودم جیسے لشکروں سے حاصل کیا ہوا؟ بھارتی حکومت کے دعوے اپنی جگہ لیکن ماؤنواز ابھی تک سیکورٹی فورسز پر حملے کرکے ان کا قتل کرتے ہیں، انھیں اغوا کرکے لے جاتے ہیں،سرکاری عمارتوں کو نذرآتش کردیتے ہیں۔
آج بھی ریڈکوریڈور( وہ علاقے جہاں ماؤنوازوںکو اثرورسوخ حاصل ہے) میں سرکاری ملازمین کام کرنے سے ڈرتے ہیں۔مثلاً چھتیس گڑھ جہاں سرکاری ملازمین بھی خوف کا شکار ہیں۔ نتیجتاً کئی سرکاری شعبوں میں عملہ کی کمی ہے۔ بالخصوص ڈاکٹرز اور اساتذہ اس علاقے میں جانے کو قطعی طورپر تیارنہیں۔ وہ اس خطے کو'کالاپانی' قراردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے دیہاتوں، سکولوں اور ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور اساتذہ نہیں ہیں۔ کیا یہ ہے وہ ''کامیابی '' جس کا بھارتی حکومت دعویٰ کرتی ہے؟؟؟