قصور زیادتی اسکینڈل میں اہم پیشرفت مرکزی ملزم نے اعتراف جرم کرلیا
ملزموں سے کوئی رعایت نہ برتی جائے اور انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے، وزیراعظم نوازشریف
قصور زیادتی اسکینڈل میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے اور بچوں سے زیادتی کے الزام میں گرفتار مرکزی ملزم حسیب عامرنے اعتراف جرم کرلیا جب کہ وزیراعظم نے قصور واقعات پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے قصورمیں بچوں کے ساتھ بدفعلی کے اسکینڈل پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملزموں سے کوئی رعایت نہ برتی جائے اور انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے جب کہ بچوں سے زیادتی کے ملک کے سب سے بڑے اسکینڈل میں ملوث مبینہ مرکزی ملزم حسیب عامر نے دوران تفتیش اعتراف کیا ہے کہ وہ اور اس کے ساتھی بچوں کے والدین کو بلیک میل کرنے کے لئے انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنا کران کی ویڈیوز بناتے تھے جس کے بعد بچوں کے والدین سے پیسے بٹورے جاتے تھے۔
ایس پی انویسٹی گیشن ندیم عباس کا کہنا ہے کہ ملزموں سے برآمد ہونے والے 30 ویڈیو کلپس میں سے 10 میں ملزموں کی شناخت ہوگئی جب کہ ملزموں کے کمپیوٹرز اور میموری کارڈز بھی تحویل میں لئے جاچکے ہیں اور معاملے کی مفصل تحقیقات کے لئے سائبر کرائم سے متعلق ایف آئی اے کی مدد بھی لی جاسکتی ہے۔ ایس پی انویسٹی گیشن قصور کا کہنا ہے کہ شامل تفتیش کی گئی ویڈیوز کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ واقعات جنسی اسکینڈل ہی ہیں تاہم ملزموں کا ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد چالان مکمل کر کے عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ وزیرقانون رانا ثنااللہ اور ڈی پی او قصور نے بچوں سے زیادتی کے اسکینڈل کو اراضی کا تنازع قرار دیا تھا۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے محکمہ داخلہ کو قصورمیں بچوں کے ساتھ زیادتی اوران کی وڈیو بنانے کے معاملے کی تحقیقات کے لئے لاہورہائی کورٹ سے جوڈیشل انکوائری کے لئے کمیشن بنانے کی درخواست کا حکم دیا ہے۔ لاہور سے جاری بیان کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے کہا ہے کہ قصور میں متاثرہ خاندانوں کو ہر قیمت پر انصاف فراہم کریں گے، ملزمان اپنے انجام سے نہیں بچ پائیں گے، انہیں کڑی سے کڑی سزا دی جائے گی، انہوں نے محکمہ داخلہ پنجاب کو ہدایت کی کہ معاملے کی نچلی سطح پر عدالتی تحقیقات کے لئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو کمیشن تشکیل دینے کی درخواست کرے۔
https://www.dailymotion.com/video/x30zk7a_cm-punjab-orders-judicial-inquiry_news
پیپلز پارٹی نے قصور میں بچوں سے زیادتی پر قومی اسمبلی میں توجہ دلاؤ نوٹس بھی جمع کرا دیا۔ ڈاکٹر نفیسہ شاہ، شازیہ مری، بیلم حسنین اور شاہدہ رحمانی کی جانب سے جمع کرائے گئے توجہ دلاؤ نوٹس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ قصور میں بچوں سے زیادتی میں بااثر افراد ملوث ہیں، وفاقی وزیرداخلہ معاملے کا نوٹس لیں اور ایوان میں اس مسئلے پر بحث کی جائے۔ اس کے علاوہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی سربراہ رحمان ملک نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے عوام سے اس سلسلے میں شواہد مہیاں کرنے کی اپیل کردی ہے اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے بھی پیرکو قومی اسمبلی میں معاملہ اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔
پولیس نے مقامی عدالت سے بچوں سے زیادتی اسکینڈل میں گرفتار کئے گئے 7 میں سے 6 افراد کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا ہے۔ ڈی پی او قصور رائے بابر نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ اسکینڈل کے حوالے سے 'بعض غلط فہمیاں' موجود ہیں، متاثرہ بچوں کی تعداد 300 نہیں، اس سلسلے مساجد سے اعلانات کروائے گئے تھے کہ متاثرین بغیر کسی خوف کے شکایت درج کرانے کے لیے پولیس اسٹیشن پہنچیں لیکن پولیس کو اب تک صرف 7 'شکایات موصول ہوئی ہیں جب کہ بچوں سے زیادتی کے 60 سے70 کلپس ملے ہیں تاہم یہ معاملہ بچوں سے زیادتی کا نہیں زمینوں پرقبضے کا ہے اور وزیرقانون رانا ثناء اللہ بھی بچوں سے زیادتی کے اسکینڈل کو اراضی کا تنازع قرار دے چکے ہیں۔ گاؤں کے مکینوں نے پولیس کی جانب سے تفتیش پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس حکام نے پہلے اس معاملے میں ملوث افراد کو حراست میں لینے سے گریز کیا اور اب ملزمان کو بچانے کے لئے اسے زمین کے تنازع کا رنگ دیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز میڈیا پر قصور میں بچوں کے ساتھ بدفعلی کا اسکینڈل منظرعام پر آنے کے بعد مقامی پولیس سمیت صوبائی و وفاقی حکومت حرکت میں آگئی ہے۔
https://www.dailymotion.com/video/x3105pf_suspects_news
ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے قصورمیں بچوں کے ساتھ بدفعلی کے اسکینڈل پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملزموں سے کوئی رعایت نہ برتی جائے اور انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے جب کہ بچوں سے زیادتی کے ملک کے سب سے بڑے اسکینڈل میں ملوث مبینہ مرکزی ملزم حسیب عامر نے دوران تفتیش اعتراف کیا ہے کہ وہ اور اس کے ساتھی بچوں کے والدین کو بلیک میل کرنے کے لئے انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنا کران کی ویڈیوز بناتے تھے جس کے بعد بچوں کے والدین سے پیسے بٹورے جاتے تھے۔
ایس پی انویسٹی گیشن ندیم عباس کا کہنا ہے کہ ملزموں سے برآمد ہونے والے 30 ویڈیو کلپس میں سے 10 میں ملزموں کی شناخت ہوگئی جب کہ ملزموں کے کمپیوٹرز اور میموری کارڈز بھی تحویل میں لئے جاچکے ہیں اور معاملے کی مفصل تحقیقات کے لئے سائبر کرائم سے متعلق ایف آئی اے کی مدد بھی لی جاسکتی ہے۔ ایس پی انویسٹی گیشن قصور کا کہنا ہے کہ شامل تفتیش کی گئی ویڈیوز کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ واقعات جنسی اسکینڈل ہی ہیں تاہم ملزموں کا ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد چالان مکمل کر کے عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ وزیرقانون رانا ثنااللہ اور ڈی پی او قصور نے بچوں سے زیادتی کے اسکینڈل کو اراضی کا تنازع قرار دیا تھا۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے محکمہ داخلہ کو قصورمیں بچوں کے ساتھ زیادتی اوران کی وڈیو بنانے کے معاملے کی تحقیقات کے لئے لاہورہائی کورٹ سے جوڈیشل انکوائری کے لئے کمیشن بنانے کی درخواست کا حکم دیا ہے۔ لاہور سے جاری بیان کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے کہا ہے کہ قصور میں متاثرہ خاندانوں کو ہر قیمت پر انصاف فراہم کریں گے، ملزمان اپنے انجام سے نہیں بچ پائیں گے، انہیں کڑی سے کڑی سزا دی جائے گی، انہوں نے محکمہ داخلہ پنجاب کو ہدایت کی کہ معاملے کی نچلی سطح پر عدالتی تحقیقات کے لئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو کمیشن تشکیل دینے کی درخواست کرے۔
https://www.dailymotion.com/video/x30zk7a_cm-punjab-orders-judicial-inquiry_news
پیپلز پارٹی نے قصور میں بچوں سے زیادتی پر قومی اسمبلی میں توجہ دلاؤ نوٹس بھی جمع کرا دیا۔ ڈاکٹر نفیسہ شاہ، شازیہ مری، بیلم حسنین اور شاہدہ رحمانی کی جانب سے جمع کرائے گئے توجہ دلاؤ نوٹس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ قصور میں بچوں سے زیادتی میں بااثر افراد ملوث ہیں، وفاقی وزیرداخلہ معاملے کا نوٹس لیں اور ایوان میں اس مسئلے پر بحث کی جائے۔ اس کے علاوہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی سربراہ رحمان ملک نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے عوام سے اس سلسلے میں شواہد مہیاں کرنے کی اپیل کردی ہے اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے بھی پیرکو قومی اسمبلی میں معاملہ اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔
پولیس نے مقامی عدالت سے بچوں سے زیادتی اسکینڈل میں گرفتار کئے گئے 7 میں سے 6 افراد کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا ہے۔ ڈی پی او قصور رائے بابر نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ اسکینڈل کے حوالے سے 'بعض غلط فہمیاں' موجود ہیں، متاثرہ بچوں کی تعداد 300 نہیں، اس سلسلے مساجد سے اعلانات کروائے گئے تھے کہ متاثرین بغیر کسی خوف کے شکایت درج کرانے کے لیے پولیس اسٹیشن پہنچیں لیکن پولیس کو اب تک صرف 7 'شکایات موصول ہوئی ہیں جب کہ بچوں سے زیادتی کے 60 سے70 کلپس ملے ہیں تاہم یہ معاملہ بچوں سے زیادتی کا نہیں زمینوں پرقبضے کا ہے اور وزیرقانون رانا ثناء اللہ بھی بچوں سے زیادتی کے اسکینڈل کو اراضی کا تنازع قرار دے چکے ہیں۔ گاؤں کے مکینوں نے پولیس کی جانب سے تفتیش پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس حکام نے پہلے اس معاملے میں ملوث افراد کو حراست میں لینے سے گریز کیا اور اب ملزمان کو بچانے کے لئے اسے زمین کے تنازع کا رنگ دیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز میڈیا پر قصور میں بچوں کے ساتھ بدفعلی کا اسکینڈل منظرعام پر آنے کے بعد مقامی پولیس سمیت صوبائی و وفاقی حکومت حرکت میں آگئی ہے۔
https://www.dailymotion.com/video/x3105pf_suspects_news