صحرا کی گرم ریت
بہت عجیب، نہایت غیرمعمولی۔یہ درویش اوران سے منسلک لوگ بھی بے انتہامحیرالعقول ہوتے ہیں
بہت عجیب، نہایت غیرمعمولی۔یہ درویش اوران سے منسلک لوگ بھی بے انتہامحیرالعقول ہوتے ہیں۔دوستوں کاسب کچھ اپنے لمبے کُرتے کی جیب میں ڈال لیتے ہیں۔ اس کے بعداپنی مرضی سے جیب میں ہاتھ ڈال کرآپکوحسبِ ضرورت اُدھاردیتے رہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے،میرے علم میں قطعاً نہیں۔ شائد کسی کے بھی نہیں!
چندماہ قبل آئرلینڈکاصوفی میرے دفترآیا۔کہنے لگا،یہ آپ آج کل کس طرح کے کالم لکھ رہے ہیں۔ہم تو سرِبازار عریاں ہوجائیں گے۔ لہجے میں ہلکا سا گلہ تھا۔خفیف سی شکایت۔چنانچہ میں نے روحانیت پرلکھنابندکردیا۔بہت سے دوستوں نے بارہاپوچھاکہ اب آپ اس موضوع پرکیوں نہیں لکھ رہے۔ کیا وجہ ہے۔میں کسی کویہ نہیں عرض کرسکاکہ مجھے روک دیاگیاہے۔کیوں روکاگیاہے۔یہ اسرارمیرے علم میں بھی نہیں۔
امریکا آنے سے چنددن پہلے صوفی میرے پاس آیا۔ کہنے لگاکہ اب آپ لکھتے کیوں نہیں۔کیامسئلہ ہے۔اب میں کیاجواب دوں کہ منع بھی آپ نے کیا تھا۔ روکا بھی آپ نے تھااوراُلٹاآپ مجھ سے انتہائی سادگی سے دریافت کر رہے ہیں کہ لکھتاکیوں نہیں۔خیرکہنے لگاکہ آپ ضرور لکھیں۔ صوفی نے کہا، آپ کے لیے پیغام ہے کہ آپ دوبارہ اس موضوع پرکام کرناشروع کردیں۔میں گزشتہ ایک ماہ سے لکھنے کی کوشش کررہاہوں۔مگربات نہیں بن پائی۔ اب بہت ہمت کرکے چند سطریں قلمبندکررہاہوں۔
گزشتہ ایک برس میں صوفی بہت تبدیل ہوچکا ہے۔ کئی بارگمان ہوتاہے کہ میں جس بندے سے شروع میں ملا تھا،وہ کوئی اورانسان تھا۔صوفی میں ایک عجیب طرح کا ٹھہراؤ آچکاہے۔لگتاہے کہ کسی ایسے جزیرے پرپہنچ چکاہے جو نظر نہیں آتامگرمحسوس کیاجاسکتاہے۔شائداب وہ کسی اور قافلے کا مسافر ہے۔ایساقافلہ جسکی منزل عشق سے شروع ہوتی ہے اورعشق ہی پرختم ہوجاتی ہے۔ایساگمان ہے کہ صوفی اب برف میں منجمدانسان ہے۔ عشق کی برف!حقیقت کی برف، وجدان کی دھلی ہوئی سفیدچادر۔
دفترمیں میراایک دوست آیاہواتھا۔کافی پیتے ہوئے گپ شپ جاری تھی۔صوفی بھی موجودتھا۔میرادوست باتیں کرتے ہوئے بارباراپنی گردن کے پچھلے حصے کودباناشروع کر دیتاتھا۔لگتاتھاکہ وہ شدیدتکلیف میں مبتلاہے۔صوفی غور سے اسکودیکھتارہا۔پوچھنے لگاکہ کیامعاملہ ہے۔دوست نے جواب دیا کہ گردن کے پٹھوں میں کچھاؤکی بدولت شدیدتکلیف ہے۔ایسے معلوم ہوتاہے کہ کسی جھاڑی کے لمبے لمبے کانٹے گردن میں چھب رہے ہیں۔صوفی نے اس سے اجازت طلب کی کہ میں آپکوذرادیکھ لوں۔مجھے بھی عجیب سا لگا۔ کیونکہ میرادوست ڈاکٹرہے اوروہ اپناعلاج کررہا تھا یا کر سکتا تھا۔ صوفی اپنی کرسی سے اٹھ کراس کے پہلومیں کھڑا ہوگیا۔ پھر اس کے بازوپرکلام پاک کی چندآیات پڑھنے کے بعداپنے ہاتھ کو باہرکی طرف لے گیا۔ ایسے لگتاتھاکہ وہ دردکوبازوکے راستے جسم سے باہرنکال رہاہے۔اس نے تین بارایسا کیا۔اس کے بعد کہنے لگاکہ اب دردنہیں ہوگا۔میں اپنے اندرہنس رہا تھاکہ مریض توخودڈاکٹرہے۔بھلااسے اس سے کیافرق پڑیگا۔ تھوڑی دیرمیں نشست برخاست ہوئی۔میں بھول گیاکہ کوئی ایساواقعہ ہواہے۔
ایک ماہ بعد وہی دوست دوبارہ ملنے آیاتو میں نے دردکاپوچھا۔جواب عجیب ساتھا۔بتانے لگاکہ نہ صرف دردمکمل طورپرٹھیک ہوگیابلکہ دوبارہ کبھی نہیں ہوا۔ صوفی کوبتایا تو وہ خاموش ہوگیا۔صرف یہ کہاکہ خداکے کلام میں بے انتہا طاقت ہے۔مگرمیرے پاس اس تمام واقعہ کی کوئی عقلی دلیل نہیں ہے۔ صوفی نے درد کیسے ختم کیا۔کیایہ سائنسی طورپرممکن ہے۔ بہرحال یہ میرے سامنے ہواہے۔مگراس دن سے صوفی مجھے پُراسرارلگنے لگاہے۔ بالکل برف کے گلیشئرجیسا،جوپانی کے باہرتونظرآتاہے مگراسکانوے فیصدحصہ پانی کے اندر ہوتا ہے۔کسی کوبھی نظرنہیں آتا۔مجھے ایسے لگتاہے کہ میں صوفی کو بالکل نہیں جانتا۔ایک فیصدبھی نہیں۔
چھ ماہ پہلے میرے پاس بیٹھے بیٹھے کہنے لگاکہ میں نے نوکری چھوڑدی ہے۔صوفی ایک انتہائی باعزت نوکری کر رہا تھا۔چھوڑنے کی وجہ پوچھی توکوئی معقول وجہ بیان نہ کی۔اصرارکرنے پربتانے لگاکہ درویش نے حکم دیا تھا۔ میری معلومات کے مطابق صوفی کا گزارہ صرف اورصرف نوکری پرتھا۔مگرمیں غلط ثابت ہوا۔ اسکااصل گزارہ ''توکل'' پر تھا۔ نوکری چھوڑکراب کیاکرناہے۔جواب تھا، سب کچھ درویش کوسونپ دیا ہے۔اپنی مشکلات اورالمیے بھی،اپنی خواہشات اور حسرتیں بھی۔میرے نزدیک صوفی نے یہ نوکری چھوڑ کر غلطی کی تھی۔اس سے زیادہ عجیب بات یہ کہ صوفی نے اپنی جمع شدہ پونجی سے مقامات مقدسہ کاسفرکرنے کا ارادہ کرلیا۔
کسی بحث اورتاویل کے بغیروہ بے حداطمینان سے تین ہفتے گزارکر واپس آیا توایسے معلوم ہوتا کہ ری کنڈیشن (Re-Condition)ہوکرواپس آیا ہے۔ کسی فکراورالجھن کے بغیر۔میں وقفہ وقفہ سے پوچھتا تھاکہ حضرت اب کیا کرنا ہے۔ہمیشہ جواب یہی آیا،کہ اسے معلوم نہیں۔جب بھی حکم ملے گا، نوکری دوبارہ شروع کردونگا۔چارپانچ مہینے، بڑے اطمینان سے گھربیٹھنے کے بعدتین ہفتے پہلے پھر دوسرے ادارے میں کام کرناشروع کردیا۔اس بار میں نے قطعاًنہیں پوچھا، کہ اب دوبارہ کس کے حکم پرکام شروع کیا ہے۔ پوچھنے پروہ بتائے گابھی نہیں۔یہ خداکے نظام کی وہ رمزیں ہیں جنکو سمجھنے کی کم ازکم میرے اندرتواستطاعت ہرگز ہرگز موجود نہیں۔
دوسری طرف،ڈاکٹرعلوی نے ایسی روشن مثال قائم کردی ہے کہ اس راہ پرچلناتودرکنار،سوچنابھی انتہائی مشکل ہے۔علوی اپنے مرشد کے ہمراہ آنکھوں کے مفت آپریشن کرتاہے۔اس کے مرشدبھی کے ای کے پڑھے ہوئے انتہائی قابل ڈاکٹرہیں۔جس طرح علوی نے دنیاکو چھوڑا ہے،وہ اپنی جوہری حیثیت میںانتہائی ریاضت کاکام ہے۔ اپنی ضروریات زندگی،اس حدتک کم کرلی ہیں کہ بیان نہیں کر سکتا۔ راہِ سلوک اورراہِ عشق میں اب وہ ہر چیز سے بالاتر ہوتا جا رہا ہے۔چارپانچ ماہ پہلے مجھ سے کہنے لگاکہ بیٹالندن جاکرایف آر سی ایس کرناچاہتاہے۔علوی کابیٹابھی ڈاکٹرہے اورانتہائی قابل انسان ہے۔جس طرح خدانے اس بچے کی انگلی پکڑی، میں عرض نہیں کرسکتا۔لندن جاتے ہی اسے انتہائی معقول اسپتال میں کام کرنے کی نوکری مل گئی۔
ایف آر سی ایس کاپہلاامتحان اس نے چٹکیوں میں پاس کرلیا۔میراعملی تجربہ ہے کہ جب انسان خداکی راہ میں جدوجہدکرتاہے اوراس کے بنائے ہوئے اصولوں پرسختی سے کاربندہوتاہے تواس کے دنیاوی کام خودبخودہونے لگتے ہیں۔ اسکامشکل سے مشکل دنیاوی کام بھی اس آسانی سے ہوجاتا ہے کہ تعجب ہوتاہے۔خداکے نظام میں اتنی طاقت ہے جوصرف اس وقت محسوس ہوتی ہے جب انسان بغیرکسی لالچ اورغرض کے اس راہ پرچلناشروع کردیتا ہے۔ مگریہ بذات خودآسان بات نہیں۔اپنے نفس کومارنا،ضروریات کوکم کرنااورتوکل کرناانتہائی صبرآزماکام ہے۔مگرعجیب بات یہ ہے کہ اس راہ پرچلنے والے ہرشرسے محفوظ ہوجاتے ہیں۔
امریکا میں علی حمادسے کافی ملاقات رہی۔علی بنیادی طورپردل کاڈاکٹرہے۔کنسس(Kansas)کے نزدیک ایک چھوٹے سے شہرمیں سالہاسال سے مقیم ہے۔کوئی اسے دیکھ کریہ نہیں کہہ سکتاکہ وہ پاکستانی ہے۔وہ شکل وصورت اوررہن سہن میں بالکل امریکی نظرآتا ہے۔ مگر یہیں سے وہ لوگوں کو فریب نظرکاشکارکرتاہے۔بنیادی طور پروہ ایک لاہور سے تعلق رکھنے والامنفردانسان ہے۔وہ پچیس برس سے لاہورسے نکل چکاہے مگرلاہوراس کے اندر سے نہیں نکل پایا۔ وہی روایتی مہمان نوازی،وہی قہقہے اور وہی طرزِ زندگی۔ بہرحال میں جس تبدیلی کاذکر کرنا چاہتا ہوں،وہ بالکل مختلف ہے۔ علی حمادنے کچھ عرصے سے صوفیانہ شاعری شروع کردی ہے۔عشق حقیقی سے لبریز۔ اور زندگی کے مقصدکوپہچاننے کی کوشش۔مجھے اس بار ایسے لگاکہ وہ راہ سلوک کے کارواں میں شامل ہوچکا ہے۔ ڈاکٹرعلی کے چند اشعارآپ کی نظر کرتا ہوں
خضر چاہیں نہ گر چاہیں، چلاچل
نہ رستے بھی نظر آئیں، چلاچل
افق کے پارملتے ہیں مہربھی
توآکچھ روشنی لائیں چلاچل
ایک دوسری غزل کے اشعار
ہے حساب توسیدھاساجہان داری کا
روح کے ہے منہاکا،جسم کی شماری کا
ہے ظہوربھی جن کا مشتبہ توان کو پھر
مسئلہ بتانا کیاعاقبت سنواری کا
یہ تمام لوگ اپنی اپنی جگہ حیرت انگیزصلاحیتوں کے مالک ہیں۔عشق کے جس راستے پرگامزن ہیں،اس میں آبلہ پائی ہی آبلاپائی ہے!صحراکی گرم ریت پرننگے پاؤں چلنے کامقام ہے۔مگریہ نابغہ روزگاراشخاص ہیں۔ انتہائی اچھے لوگ!
چندماہ قبل آئرلینڈکاصوفی میرے دفترآیا۔کہنے لگا،یہ آپ آج کل کس طرح کے کالم لکھ رہے ہیں۔ہم تو سرِبازار عریاں ہوجائیں گے۔ لہجے میں ہلکا سا گلہ تھا۔خفیف سی شکایت۔چنانچہ میں نے روحانیت پرلکھنابندکردیا۔بہت سے دوستوں نے بارہاپوچھاکہ اب آپ اس موضوع پرکیوں نہیں لکھ رہے۔ کیا وجہ ہے۔میں کسی کویہ نہیں عرض کرسکاکہ مجھے روک دیاگیاہے۔کیوں روکاگیاہے۔یہ اسرارمیرے علم میں بھی نہیں۔
امریکا آنے سے چنددن پہلے صوفی میرے پاس آیا۔ کہنے لگاکہ اب آپ لکھتے کیوں نہیں۔کیامسئلہ ہے۔اب میں کیاجواب دوں کہ منع بھی آپ نے کیا تھا۔ روکا بھی آپ نے تھااوراُلٹاآپ مجھ سے انتہائی سادگی سے دریافت کر رہے ہیں کہ لکھتاکیوں نہیں۔خیرکہنے لگاکہ آپ ضرور لکھیں۔ صوفی نے کہا، آپ کے لیے پیغام ہے کہ آپ دوبارہ اس موضوع پرکام کرناشروع کردیں۔میں گزشتہ ایک ماہ سے لکھنے کی کوشش کررہاہوں۔مگربات نہیں بن پائی۔ اب بہت ہمت کرکے چند سطریں قلمبندکررہاہوں۔
گزشتہ ایک برس میں صوفی بہت تبدیل ہوچکا ہے۔ کئی بارگمان ہوتاہے کہ میں جس بندے سے شروع میں ملا تھا،وہ کوئی اورانسان تھا۔صوفی میں ایک عجیب طرح کا ٹھہراؤ آچکاہے۔لگتاہے کہ کسی ایسے جزیرے پرپہنچ چکاہے جو نظر نہیں آتامگرمحسوس کیاجاسکتاہے۔شائداب وہ کسی اور قافلے کا مسافر ہے۔ایساقافلہ جسکی منزل عشق سے شروع ہوتی ہے اورعشق ہی پرختم ہوجاتی ہے۔ایساگمان ہے کہ صوفی اب برف میں منجمدانسان ہے۔ عشق کی برف!حقیقت کی برف، وجدان کی دھلی ہوئی سفیدچادر۔
دفترمیں میراایک دوست آیاہواتھا۔کافی پیتے ہوئے گپ شپ جاری تھی۔صوفی بھی موجودتھا۔میرادوست باتیں کرتے ہوئے بارباراپنی گردن کے پچھلے حصے کودباناشروع کر دیتاتھا۔لگتاتھاکہ وہ شدیدتکلیف میں مبتلاہے۔صوفی غور سے اسکودیکھتارہا۔پوچھنے لگاکہ کیامعاملہ ہے۔دوست نے جواب دیا کہ گردن کے پٹھوں میں کچھاؤکی بدولت شدیدتکلیف ہے۔ایسے معلوم ہوتاہے کہ کسی جھاڑی کے لمبے لمبے کانٹے گردن میں چھب رہے ہیں۔صوفی نے اس سے اجازت طلب کی کہ میں آپکوذرادیکھ لوں۔مجھے بھی عجیب سا لگا۔ کیونکہ میرادوست ڈاکٹرہے اوروہ اپناعلاج کررہا تھا یا کر سکتا تھا۔ صوفی اپنی کرسی سے اٹھ کراس کے پہلومیں کھڑا ہوگیا۔ پھر اس کے بازوپرکلام پاک کی چندآیات پڑھنے کے بعداپنے ہاتھ کو باہرکی طرف لے گیا۔ ایسے لگتاتھاکہ وہ دردکوبازوکے راستے جسم سے باہرنکال رہاہے۔اس نے تین بارایسا کیا۔اس کے بعد کہنے لگاکہ اب دردنہیں ہوگا۔میں اپنے اندرہنس رہا تھاکہ مریض توخودڈاکٹرہے۔بھلااسے اس سے کیافرق پڑیگا۔ تھوڑی دیرمیں نشست برخاست ہوئی۔میں بھول گیاکہ کوئی ایساواقعہ ہواہے۔
ایک ماہ بعد وہی دوست دوبارہ ملنے آیاتو میں نے دردکاپوچھا۔جواب عجیب ساتھا۔بتانے لگاکہ نہ صرف دردمکمل طورپرٹھیک ہوگیابلکہ دوبارہ کبھی نہیں ہوا۔ صوفی کوبتایا تو وہ خاموش ہوگیا۔صرف یہ کہاکہ خداکے کلام میں بے انتہا طاقت ہے۔مگرمیرے پاس اس تمام واقعہ کی کوئی عقلی دلیل نہیں ہے۔ صوفی نے درد کیسے ختم کیا۔کیایہ سائنسی طورپرممکن ہے۔ بہرحال یہ میرے سامنے ہواہے۔مگراس دن سے صوفی مجھے پُراسرارلگنے لگاہے۔ بالکل برف کے گلیشئرجیسا،جوپانی کے باہرتونظرآتاہے مگراسکانوے فیصدحصہ پانی کے اندر ہوتا ہے۔کسی کوبھی نظرنہیں آتا۔مجھے ایسے لگتاہے کہ میں صوفی کو بالکل نہیں جانتا۔ایک فیصدبھی نہیں۔
چھ ماہ پہلے میرے پاس بیٹھے بیٹھے کہنے لگاکہ میں نے نوکری چھوڑدی ہے۔صوفی ایک انتہائی باعزت نوکری کر رہا تھا۔چھوڑنے کی وجہ پوچھی توکوئی معقول وجہ بیان نہ کی۔اصرارکرنے پربتانے لگاکہ درویش نے حکم دیا تھا۔ میری معلومات کے مطابق صوفی کا گزارہ صرف اورصرف نوکری پرتھا۔مگرمیں غلط ثابت ہوا۔ اسکااصل گزارہ ''توکل'' پر تھا۔ نوکری چھوڑکراب کیاکرناہے۔جواب تھا، سب کچھ درویش کوسونپ دیا ہے۔اپنی مشکلات اورالمیے بھی،اپنی خواہشات اور حسرتیں بھی۔میرے نزدیک صوفی نے یہ نوکری چھوڑ کر غلطی کی تھی۔اس سے زیادہ عجیب بات یہ کہ صوفی نے اپنی جمع شدہ پونجی سے مقامات مقدسہ کاسفرکرنے کا ارادہ کرلیا۔
کسی بحث اورتاویل کے بغیروہ بے حداطمینان سے تین ہفتے گزارکر واپس آیا توایسے معلوم ہوتا کہ ری کنڈیشن (Re-Condition)ہوکرواپس آیا ہے۔ کسی فکراورالجھن کے بغیر۔میں وقفہ وقفہ سے پوچھتا تھاکہ حضرت اب کیا کرنا ہے۔ہمیشہ جواب یہی آیا،کہ اسے معلوم نہیں۔جب بھی حکم ملے گا، نوکری دوبارہ شروع کردونگا۔چارپانچ مہینے، بڑے اطمینان سے گھربیٹھنے کے بعدتین ہفتے پہلے پھر دوسرے ادارے میں کام کرناشروع کردیا۔اس بار میں نے قطعاًنہیں پوچھا، کہ اب دوبارہ کس کے حکم پرکام شروع کیا ہے۔ پوچھنے پروہ بتائے گابھی نہیں۔یہ خداکے نظام کی وہ رمزیں ہیں جنکو سمجھنے کی کم ازکم میرے اندرتواستطاعت ہرگز ہرگز موجود نہیں۔
دوسری طرف،ڈاکٹرعلوی نے ایسی روشن مثال قائم کردی ہے کہ اس راہ پرچلناتودرکنار،سوچنابھی انتہائی مشکل ہے۔علوی اپنے مرشد کے ہمراہ آنکھوں کے مفت آپریشن کرتاہے۔اس کے مرشدبھی کے ای کے پڑھے ہوئے انتہائی قابل ڈاکٹرہیں۔جس طرح علوی نے دنیاکو چھوڑا ہے،وہ اپنی جوہری حیثیت میںانتہائی ریاضت کاکام ہے۔ اپنی ضروریات زندگی،اس حدتک کم کرلی ہیں کہ بیان نہیں کر سکتا۔ راہِ سلوک اورراہِ عشق میں اب وہ ہر چیز سے بالاتر ہوتا جا رہا ہے۔چارپانچ ماہ پہلے مجھ سے کہنے لگاکہ بیٹالندن جاکرایف آر سی ایس کرناچاہتاہے۔علوی کابیٹابھی ڈاکٹرہے اورانتہائی قابل انسان ہے۔جس طرح خدانے اس بچے کی انگلی پکڑی، میں عرض نہیں کرسکتا۔لندن جاتے ہی اسے انتہائی معقول اسپتال میں کام کرنے کی نوکری مل گئی۔
ایف آر سی ایس کاپہلاامتحان اس نے چٹکیوں میں پاس کرلیا۔میراعملی تجربہ ہے کہ جب انسان خداکی راہ میں جدوجہدکرتاہے اوراس کے بنائے ہوئے اصولوں پرسختی سے کاربندہوتاہے تواس کے دنیاوی کام خودبخودہونے لگتے ہیں۔ اسکامشکل سے مشکل دنیاوی کام بھی اس آسانی سے ہوجاتا ہے کہ تعجب ہوتاہے۔خداکے نظام میں اتنی طاقت ہے جوصرف اس وقت محسوس ہوتی ہے جب انسان بغیرکسی لالچ اورغرض کے اس راہ پرچلناشروع کردیتا ہے۔ مگریہ بذات خودآسان بات نہیں۔اپنے نفس کومارنا،ضروریات کوکم کرنااورتوکل کرناانتہائی صبرآزماکام ہے۔مگرعجیب بات یہ ہے کہ اس راہ پرچلنے والے ہرشرسے محفوظ ہوجاتے ہیں۔
امریکا میں علی حمادسے کافی ملاقات رہی۔علی بنیادی طورپردل کاڈاکٹرہے۔کنسس(Kansas)کے نزدیک ایک چھوٹے سے شہرمیں سالہاسال سے مقیم ہے۔کوئی اسے دیکھ کریہ نہیں کہہ سکتاکہ وہ پاکستانی ہے۔وہ شکل وصورت اوررہن سہن میں بالکل امریکی نظرآتا ہے۔ مگر یہیں سے وہ لوگوں کو فریب نظرکاشکارکرتاہے۔بنیادی طور پروہ ایک لاہور سے تعلق رکھنے والامنفردانسان ہے۔وہ پچیس برس سے لاہورسے نکل چکاہے مگرلاہوراس کے اندر سے نہیں نکل پایا۔ وہی روایتی مہمان نوازی،وہی قہقہے اور وہی طرزِ زندگی۔ بہرحال میں جس تبدیلی کاذکر کرنا چاہتا ہوں،وہ بالکل مختلف ہے۔ علی حمادنے کچھ عرصے سے صوفیانہ شاعری شروع کردی ہے۔عشق حقیقی سے لبریز۔ اور زندگی کے مقصدکوپہچاننے کی کوشش۔مجھے اس بار ایسے لگاکہ وہ راہ سلوک کے کارواں میں شامل ہوچکا ہے۔ ڈاکٹرعلی کے چند اشعارآپ کی نظر کرتا ہوں
خضر چاہیں نہ گر چاہیں، چلاچل
نہ رستے بھی نظر آئیں، چلاچل
افق کے پارملتے ہیں مہربھی
توآکچھ روشنی لائیں چلاچل
ایک دوسری غزل کے اشعار
ہے حساب توسیدھاساجہان داری کا
روح کے ہے منہاکا،جسم کی شماری کا
ہے ظہوربھی جن کا مشتبہ توان کو پھر
مسئلہ بتانا کیاعاقبت سنواری کا
یہ تمام لوگ اپنی اپنی جگہ حیرت انگیزصلاحیتوں کے مالک ہیں۔عشق کے جس راستے پرگامزن ہیں،اس میں آبلہ پائی ہی آبلاپائی ہے!صحراکی گرم ریت پرننگے پاؤں چلنے کامقام ہے۔مگریہ نابغہ روزگاراشخاص ہیں۔ انتہائی اچھے لوگ!