سندھ میں سیلابی صورتحال

بھٹو کا دور تھا اور میں سندھ انفارمیشن میں ملازمت کرتا تھا، جس کی رپورٹنگ اخباروں میں پڑھتا تھا۔

ISLAMABAD:
میں جب چھوٹا تھا تو اپنے بڑوں سے پوچھتا تھا کہ آپ کی عمرکیا ہوگی تو کہتے تھے کہ انھیں یاد نہیں،کیونکہ اس وقت اکثر لوگ اپنے پیدا ہونے کی تاریخ کہیں درج نہیں کرواتے تھے اور بڑے شہروں میں تو پھر بھی نام، ولدیت اور دوسرے کوائف میونسپل میں درج کیے جاتے تھے۔ بہرحال تو لوگ ایک مثال دیتے تھے کہ جب سندھ میں پاکستان بننے سے پہلے جو سیلاب آیا تھا وہ اس سے پہلے یا بعد میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ سیلاب 1942 میں آیا تھا جس سے بڑی تباہی ہوئی تھی۔ اس کے بعد بھی سیلاب آتے رہے ہیں مگر مجھے یاد نہیں۔ ہاں 1973 میں جب سیلاب آیا تو وہ مجھے بالکل یاد ہے۔

بھٹو کا دور تھا اور میں سندھ انفارمیشن میں ملازمت کرتا تھا، جس کی رپورٹنگ اخباروں میں پڑھتا تھا۔ لاڑکانہ کے متعلق جو خبریں سیلاب کی ہوتی تھیں انھیں میں ٹائپ کرتا تھا۔ جب میں خود اس محکمے میں افسر ہوگیا تو میں سیلاب کے بارے میں ہونے والی میٹنگز میں شرکت کرنے لگا اور لاڑکانہ ضلع کی سیلابی صورت حال دیکھنے کے لیے ڈی سی، کمشنر اور وزرا کے ساتھ دریائے سندھ پر Vulnerable جگہوں کا معائنے کے دوران میں بھی موجود ہوتا تھا۔ اس وقت چاہے حکومت کسی کی بھی ہو مگر سیلاب اور بارشوں سے پہلے صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس پے در پے ہوتے رہتے تھے۔ اس اجلاس میں ضلع کے سارے افسران شریک ہوتے تھے جس میں ریونیو، فاریسٹ، فوڈ، پولیس، صحت، تعلیم، محکموں وغیرہ کے ساتھ علاقوں کے بااثر زمیندار بھی شریک ہوتے تھے۔

اجلاس میں جو فیصلے ہوتے تھے، ان پر عمل در آمد کے لیے سارے اجلاس کے شرکا سائٹ کا وزٹ کرتے تھے اور انھیں اپنی Requirement اور ذمے داریوں کے بارے میں رپورٹ پیش کرتے تھے۔ جو حکومت سندھ کو بھیجی جاتی تھی تاکہ پیسے منظور کرلیے جائیں اور ایمرجنسی سے پہلے تدابیر اختیار کیے جائیں ، جس کی وجہ سے خطرات سے صحیح سمت میں نمٹا جاتا تھا جس کی وجہ سے نقصانات کے کافی اندازے کم ہوجاتے تھے۔ اس سلسلے میں آبپاشی کا وزیر، چیف انجینئر اور دوسرے افسران ہر کام چھوڑ کر سیلاب اور بارشوں سے نمٹنے میں لگ جاتے تھے۔

مجھے بھٹو کا سیلاب سے نمٹنے کا انداز آج بھی یاد ہے کہ وہ خود ہیلی کاپٹر پر پورے پاکستان کا دورہ کرتے تھے اور اپنے ساتھ ٹی وی، ریڈیو اور اخبار والوں کو لے کر صورتحال دکھاتے تھے۔ اس زمانے میں سندھ کے وزیراعلیٰ ممتاز علی بھٹو تھے جو سیلاب کے پانی کے ساتھ ساتھ چلتے تھے اور اتنی گرمی کے باوجود دریائے سندھ کے کنارے پر چارپائی ڈال کر سارا دن اور ساری رات کام کرتے نظر آتے تھے۔ ظاہر ہے جب وزیراعلیٰ خود جس کام کی نگرانی کرتے ہوں تو پھر باقی تو خود بخود الرٹ رہتے تھے۔ بھٹو ہر اس جگہ پہنچ جاتے تھے جہاں انھیں بتایا جاتا تھا کہBreech ہونے کا خطرہ ہے یا پشتے کمزور ہیں۔

رات بھر سارے لوگ جاگ کرگزارتے تھے، ہر طرف ٹریکٹر چلنے کی آوازیں آتی تھیں، بڑے بڑے پتھروں کے ٹرک آتے جاتے رہتے تھے، آب کیانی سامان جس میں درختوں کے بڑے Stem اور درمیانی سائز کی لکڑیاں ریت بھری بوریاں،کھجور کے درخت سے بنی ہوئی چٹائیاں لائی جاتی تھیں اور جیسے ہی محسوس ہوتا تھا کہ یہاں سے Erosion ہونے والی ہے وہاں پر یہ لایا ہوا سامان ڈالا جاتا تھا۔ علاقے کے زمیندار اپنے لوگوں کو لاتے تھے جو آبپاشی ملازموں کی مدد کرتے تھے، اس کے علاوہ کرائے پر مزدور بھی لائے جاتے تھے۔ اس سلسلے میں آرمی اور پولیس کے جوان بھی ساتھ ساتھ ہوتے تھے اور کسی جانی یا مالی نقصان کو بچانے کے لیے Rescue کام کرتے تھے۔


ایک تو شدت کی گرمی اور اوپر سے مچھروں کے حملے ایک بڑی آزمائش ہوتی تھی۔ لیکن اس کام میں ایک رکاوٹ نہیں ہوتی تھی وہ تھی امن وامان اور کام کرنے والے بغیر خوف کے ساری رات اپنے کام میں لگے رہتے تھے اور ضرورت کا سامان لاتے رہتے تھے۔ پورا علاقہ لالٹینوں کی روشنی سے منور ہوتا تھا۔ اس سے پہلے کہ سیلاب زمین کے ساتھ وہاں پر رہنے والوں کو اپنے ساتھ بہاکر لے جائے گاؤں کے لوگوں، مویشیوں اورگھر کے سامان کو بچاکر اونچے مقام پر لے آتے تھے۔ جہاں پر ان کے لیے حکومت کی جانب سے پہلے ہی سے کھانے پینے کا بندوبست ہوتا تھا، ان کے لیے شامیانوں اور قناتوں کے کیمپ بنائے جاتے تھے جہاں پر انھیں رکھا جاتا تھا۔

کیا ہے کہ جب سیلاب یا بارشیں ہوتی ہیں تو صحت کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں جن سے نمٹنے کے لیے پہلے ہی سے ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف اور ادویات مہیا کی جاتی تھیں۔ اگر لوگ زیادہ ہوجاتے تھے یا انھیں وہاں پر مسئلہ ہوتا تھا تو انھیں پکی عمارتوں میں جیسا کہ شہر کے اسکولوں میں رکھا جاتا تھا۔ ڈی سی ایک ایسا حکومتی ہرزہ تھا جو چوبیس گھنٹے متحرک رہتا تھا، ایسے انتظامات کی وجہ سے لوگ کئی مشکلات سے بچ جاتے تھے اور وہ بھٹو پر پکا اعتماد رکھتے تھے، ممتاز بھٹو جیسا آدمی بھی کئی روز تک شیو نہیں کر پاتا تھا اور کھانا اور آرام اس کے لیے حرام تھا۔ بھٹو نے ایک مرتبہ 1973 میں جب دیکھا کہ لاڑکانہ شہر کو ڈوبنے کا خطرہ ہے تو اس نے حکم دیا کہ سیلاب کے پانی کو اس کی اور ممتاز بھٹو کی زمینوں میں چھوڑا جائے۔

بھٹو کے زمانے میں جب سیلاب کی ایمرجنسی ختم ہوجاتی تھی اور لوگ واپس اپنے گھروں کی طرف لوٹتے تھے تو انھیں کافی رقم دی جاتی تھی تاکہ جو ان کے کھڑی فصلوں کو نقصان ہوا ہے اسے پورا کرنے کے لیے کچھ کرسکیں۔ اس کے علاوہ بہت کم شرح پر قرضے بھی دیے جاتے جو کبھی آسان اقساط پر ادا کیے جاتے تھے اور کبھی معاف بھی ہوجاتے تھے۔ سیلاب کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے کئی بین الاقوامی اداروں سے قرضے اور امداد لی گئی جس سے دریائے سندھ کے ان پشتوں کو مضبوط کرنے کے لیے Stone Pitching Vulnerability کی گئی اور Spurs بنائے گئے جہاں زیادہ تھی۔

اس دور میں اب ایسا کیوں نہیں ہے جس کی کئی وجوہات ہیں جس میں سب سے بڑی رشوت خوری ہے۔ کوئی بھی ترقیاتی کام شروع کرنے سے پہلے ٹھیکیدار کو اوپر سے رشوت دینی پڑتی ہے جب کہ پہلے ایسا نہیں تھا اور صرف چھوٹے افسر رشوت لیتے تھے مگر وہ بھی ڈرکر، وہ مانگتے نہیں تھے اور جو مل جائے۔ دوسرا یہ کہ اب آبپاشی کے چھوٹے سے چھوٹے ملازم سے لے کر بڑے افسر تک وزٹ پر نہیں جاتے کیونکہ خاص طور پر شکارپور، جیکب آباد، سکھر، خیرپور، دادو، قنبر علی خان، شہداد کوٹ، گھوٹکی وغیرہ کے جنگل والے علاقوں پر ڈاکوؤں کا راج ہے اگر کوئی بھتہ نہیں دے گا تو اسے اغوا کیا جائے گا جس کی وجہ سے دریائے سندھ کے پشتوں کی دیکھ بھال نہیں ہوپاتی۔ اب اگرکوئی وزرا یا بڑا افسر جاتا ہے تو اپنے ساتھ کچھ میڈیا کے لوگ لے کر جانا پڑتا ہے تاکہ یہ بات ظاہر ہوجائے کہ وزیر صاحب نے دورہ کیا ہے اور کام کا جائزہ لیا ہے۔

اب اجلاس بھی کم کم ہوتے ہیں اور ڈی سی، کمشنر اور آبپاشی افسران کو وہ پاور نہیں ہیں، اب تعیناتی ان افسران کی ہوتی ہے، جو بڑی بولی لگاتے ہیں یا ان کا اثر حکومتی Corridor میں مضبوط ہے۔ اس وقت صرف میڈیا کو استعمال کیا جاتا ہے اور خاص طور پر چھوٹے علاقوں میں جہاں پر میڈیا کے نمائندے جلد ہی بک جاتے ہیں یا انھیں دھمکایا جاتا ہے اور وہ کچھ لے کر خاموش ہوجاتے ہیں۔

زرعی وسائل ہماری معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جسے بچانے کے لیے آبپاشی نظام کی بہتری ضروری ہے اور سیلاب کو روک کر اس پانی کو بچاکر رکھ کر خوشحالی کا پیغام دینا چاہیے اور اس میں جو بھی کوتاہی کرتا ہے اسے نہ بخشا جائے۔
Load Next Story