سختی بھی برتیے
بچوں کی معصوم باتیں، شرارتیں، اچھل کود کس کو اچھی نہیں لگتی، لیکن یہ سب ایک حد تک ہی بھلا معلوم ہوتا ہے،
بچوں کی معصوم باتیں، شرارتیں، اچھل کود کس کو اچھی نہیں لگتی، لیکن یہ سب ایک حد تک ہی بھلا معلوم ہوتا ہے، جب وہ بڑوں کی ہدایات سمجھنے کے قابل ہو تو اسے نظم وضبط سکھانا چاہیے۔ اکثر لوگ بچے کی معصومیت کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں، جس سے بچہ پھر ضدی ہونے لگتا ہے اور یہ امر بعد میں مسائل کا باعث بنتا ہے۔
جس طرح ذائقے میں کڑوی ہونے کے باوجود بہت سی چیزوں کی تاثیر بہت اچھی ہوتی ہے، بالکل اسی طرح بچوں کی متوازن شخصیت کے لیے سنجیدہ ہدایات ضروری ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ 5 سال کی عمر تک ہی بچے کو لاڈ پیار دیں، اس کے بعد اس کی بہتری کے لیے اس کے ساتھ تھوڑی بہت سختی بھی ضرور کریں۔ 16 سال کی عمر کے بعد بچوں کے ساتھ دوستانہ سلوک رکھنا ضروری ہے۔ اس موقع پر نہ ہی اس سے بہت زیادہ ڈانٹ ڈپٹ کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اسے جسمانی سزا دی جا سکتی ہے۔ اس عمرمیں اسے صرف سمجھا کر ہی قائل کرنا پڑتا ہے۔
ہر والدین کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ منظم اور فرماں بردار بنے، لیکن بچے تو بچے ہیں، انہیں اپنی آزادی میں ذرا بھی خلل پسند نہیں۔ ایسے میں سب سے بڑا مسئلہ یہی ہوتا ہے کہ بچوں کی تربیتکا صحیح طریقہ کیا ہو؟ انہیں کس حد تک کنٹرول کیا جائے اور کتنی چھوٹ دی جائے؟ اس سلسلے میں چائلڈ کاؤنسلر کہتے ہیں کہ کسی بچے کو ایک دن میں ڈسپلن کا پابند نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کے لیے بہت محنت اور توجہ کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے بچے کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہوئے والدین کو یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ بچے کی کن عادات میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ اسے پیار سے سمجھائیں۔ ہو سکتا ہے کہ پہلی دوسری بار بچہ آپ کی باتیں نہ مانے، لیکن آپ کوشش جاری رکھیں۔ آپ خود اس کے ساتھ مل کر اس کی پڑھائی اور دوسرے کاموں میں مدد کریں۔
وقت کے ساتھ والدین کی تربیت کے اصولوں میں بھی تیزی سے تبدیلی آرہی ہے۔ ماہرین کے مطابق پہلے ہماری سوچ کا دائرہ بہت تنگ تھا۔ ہم لگے بندھے قوانین پر عمل صرف اس لیے کرتے آرہے تھے۔ والدین کے لیے پہلے سے طے شدہ فارمولا تھا کہ صرف بچے کو ڈرا کر ہی ڈسپلن سکھایا جا سکتا ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اس طریقے میں تبدیلی لانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ وہ ایسے مسائل پر کھل کر بات چیت کرنے لگے۔ اس طرح لوگوں نے تھوڑا نرم رویہ اپنانا شروع کر دیا۔
والدین کے رویے میں نرمی برتنے کی ضرورت اس لیے بھی محسوس کی جانے لگی کہ اب ہماری زندگی کافی بدل چکی ہے اور بچوں کی عادات پر بھی اس کا اثر پڑنا لازمی ہے۔ بڑے شہروں میں بہت سے ماں باپ دونوں ہی دفاتر جاتے ہیں۔ ایسے میں وہ رات کو ہی بچے سے باتیں کرنے کا وقت نکال پاتے ہیں۔ اس لیے بچوں کے معمولات پہلے جیسے نہیں رہ پاتے۔
والدین کے نرم رویہ اپنانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کو من مانی کے لیے چھوڑ دیں۔ کہیں نہ کہیں ہمیں نظم و ضبط کی حد مقرر کرنی پڑے گی۔ آج کل والدین کے پاس بچوں کے لیے وقت نہیں ہوتا۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے وہ بچے کا ہر مطالبہ اس لیے پورا کر دیتے ہیں کہ ان کے دل میں اس بات پر جرم کا احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچے کی دیکھ بھال اچھی طرح نہیں کر پارہے، لیکن یہ طریقہ بالکل غلط ہے۔ والدین کے اسی رویہ کی وجہ سے بچوں کی عادات بگڑ رہی ہیں۔
بچوں کے ساتھ دوستانہ رشتہ رکھنے کے تصور کو بھی کچھ والدین صحیح طور پر اپنا نہیں پاتے۔ نتیجے میں بچے یہی سوچتے ہیں کہ امی اور ابو سے کیا ڈرنا؟ بچوں کے ساتھ آپ کا دوستانہ رویہ وہیں تک ٹھیک ہے جب تک کہ وہ اپنے دل کی باتیں آپ کے ساتھ کھل کر کہہ سکیں۔ جیسے ہی بچوں کے غلط رویے کو کنٹرول کرنے کی بات آئے تو اس کے لیے ضرورت پڑنے پر بچے کے ساتھ تھوڑی سختی بھی برتنی پڑے تو اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔
والدین کے لیے مندرجہ ذیل باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے:
٭...بچے سے پوری توجہ اور اطمینان کے ساتھ بات کرنے کی عادت ڈالیں۔
٭... اس کے تمام دوستوں اور اساتذہ سے رابطے میں رہیں۔
٭... اگر اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ کا رویہ ٹھیک نہ ہو تو اسے ایسا کرنے سے اسی وقت روکیں۔
٭... والدین کی باہمی گفتگو میں بھی احتیاط ہونی چاہیے، کیوں کہ بچے ان کے رویے سے ہی سیکھتے ہیں۔
٭... اگر بچہ موبائل اور انٹرنیٹ کا استعمال کرتا ہے، تو آپ اس کی سرگرمیوں پر مکمل نظر رکھیں۔
٭... آزادی دینے کے ساتھ بچے کو ذمے داریاں بھی سونپیے اور انہیں اچھی طرح نبھانے پر شاباشی بھی دیں۔
ماہر اساتذہ کرام اپنی کلاس میں بچوں کو کبھی بھی سزا نہیں دیتے بلکہ انہیں درست رکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اسی طرح گھر میں بھی ایک چارٹ کی مدد سے اچھی بری باتوں کے نمبر درج کیے جا سکتے ہیں، پھر سب سے زیادہ نمبر والے بچے کو اس کا انعام دیا جائے تو یقیناً یہ ایک بہترین راہ ہوگی اور بچے خود ہی اپنی عادات بہتر بنانے میں لگے رہیں گے۔
بچوں کے ساتھ ہمیشہ ڈانٹ ڈپٹ میں بات نہ کریں۔ اس سے وہ والدین کی باتیں نہیں مانتے اور باغی بن جاتے ہیں۔ بچوں کو نظم وضبط سکھانے کے معاملے میں ماں اور باپ دونوں کا متفق ہونا ضروری ہے۔ جب کوئی ایک بچے کی سرزنش کرے تو دوسرے کو بچے کی طرف داری نہیں کرنی چاہیے۔ یہ امر نہایت منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اگر ایسے موقع پر دوسرے فریق کو کچھ کہنا بھی ہو تو وہ بچے کے سامنے اس کا اظہار نہ کرے تو بہتر ہے۔
جس طرح ذائقے میں کڑوی ہونے کے باوجود بہت سی چیزوں کی تاثیر بہت اچھی ہوتی ہے، بالکل اسی طرح بچوں کی متوازن شخصیت کے لیے سنجیدہ ہدایات ضروری ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ 5 سال کی عمر تک ہی بچے کو لاڈ پیار دیں، اس کے بعد اس کی بہتری کے لیے اس کے ساتھ تھوڑی بہت سختی بھی ضرور کریں۔ 16 سال کی عمر کے بعد بچوں کے ساتھ دوستانہ سلوک رکھنا ضروری ہے۔ اس موقع پر نہ ہی اس سے بہت زیادہ ڈانٹ ڈپٹ کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اسے جسمانی سزا دی جا سکتی ہے۔ اس عمرمیں اسے صرف سمجھا کر ہی قائل کرنا پڑتا ہے۔
ہر والدین کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ منظم اور فرماں بردار بنے، لیکن بچے تو بچے ہیں، انہیں اپنی آزادی میں ذرا بھی خلل پسند نہیں۔ ایسے میں سب سے بڑا مسئلہ یہی ہوتا ہے کہ بچوں کی تربیتکا صحیح طریقہ کیا ہو؟ انہیں کس حد تک کنٹرول کیا جائے اور کتنی چھوٹ دی جائے؟ اس سلسلے میں چائلڈ کاؤنسلر کہتے ہیں کہ کسی بچے کو ایک دن میں ڈسپلن کا پابند نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کے لیے بہت محنت اور توجہ کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے بچے کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہوئے والدین کو یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ بچے کی کن عادات میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ اسے پیار سے سمجھائیں۔ ہو سکتا ہے کہ پہلی دوسری بار بچہ آپ کی باتیں نہ مانے، لیکن آپ کوشش جاری رکھیں۔ آپ خود اس کے ساتھ مل کر اس کی پڑھائی اور دوسرے کاموں میں مدد کریں۔
وقت کے ساتھ والدین کی تربیت کے اصولوں میں بھی تیزی سے تبدیلی آرہی ہے۔ ماہرین کے مطابق پہلے ہماری سوچ کا دائرہ بہت تنگ تھا۔ ہم لگے بندھے قوانین پر عمل صرف اس لیے کرتے آرہے تھے۔ والدین کے لیے پہلے سے طے شدہ فارمولا تھا کہ صرف بچے کو ڈرا کر ہی ڈسپلن سکھایا جا سکتا ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اس طریقے میں تبدیلی لانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ وہ ایسے مسائل پر کھل کر بات چیت کرنے لگے۔ اس طرح لوگوں نے تھوڑا نرم رویہ اپنانا شروع کر دیا۔
والدین کے رویے میں نرمی برتنے کی ضرورت اس لیے بھی محسوس کی جانے لگی کہ اب ہماری زندگی کافی بدل چکی ہے اور بچوں کی عادات پر بھی اس کا اثر پڑنا لازمی ہے۔ بڑے شہروں میں بہت سے ماں باپ دونوں ہی دفاتر جاتے ہیں۔ ایسے میں وہ رات کو ہی بچے سے باتیں کرنے کا وقت نکال پاتے ہیں۔ اس لیے بچوں کے معمولات پہلے جیسے نہیں رہ پاتے۔
والدین کے نرم رویہ اپنانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کو من مانی کے لیے چھوڑ دیں۔ کہیں نہ کہیں ہمیں نظم و ضبط کی حد مقرر کرنی پڑے گی۔ آج کل والدین کے پاس بچوں کے لیے وقت نہیں ہوتا۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے وہ بچے کا ہر مطالبہ اس لیے پورا کر دیتے ہیں کہ ان کے دل میں اس بات پر جرم کا احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچے کی دیکھ بھال اچھی طرح نہیں کر پارہے، لیکن یہ طریقہ بالکل غلط ہے۔ والدین کے اسی رویہ کی وجہ سے بچوں کی عادات بگڑ رہی ہیں۔
بچوں کے ساتھ دوستانہ رشتہ رکھنے کے تصور کو بھی کچھ والدین صحیح طور پر اپنا نہیں پاتے۔ نتیجے میں بچے یہی سوچتے ہیں کہ امی اور ابو سے کیا ڈرنا؟ بچوں کے ساتھ آپ کا دوستانہ رویہ وہیں تک ٹھیک ہے جب تک کہ وہ اپنے دل کی باتیں آپ کے ساتھ کھل کر کہہ سکیں۔ جیسے ہی بچوں کے غلط رویے کو کنٹرول کرنے کی بات آئے تو اس کے لیے ضرورت پڑنے پر بچے کے ساتھ تھوڑی سختی بھی برتنی پڑے تو اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔
والدین کے لیے مندرجہ ذیل باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے:
٭...بچے سے پوری توجہ اور اطمینان کے ساتھ بات کرنے کی عادت ڈالیں۔
٭... اس کے تمام دوستوں اور اساتذہ سے رابطے میں رہیں۔
٭... اگر اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ کا رویہ ٹھیک نہ ہو تو اسے ایسا کرنے سے اسی وقت روکیں۔
٭... والدین کی باہمی گفتگو میں بھی احتیاط ہونی چاہیے، کیوں کہ بچے ان کے رویے سے ہی سیکھتے ہیں۔
٭... اگر بچہ موبائل اور انٹرنیٹ کا استعمال کرتا ہے، تو آپ اس کی سرگرمیوں پر مکمل نظر رکھیں۔
٭... آزادی دینے کے ساتھ بچے کو ذمے داریاں بھی سونپیے اور انہیں اچھی طرح نبھانے پر شاباشی بھی دیں۔
ماہر اساتذہ کرام اپنی کلاس میں بچوں کو کبھی بھی سزا نہیں دیتے بلکہ انہیں درست رکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اسی طرح گھر میں بھی ایک چارٹ کی مدد سے اچھی بری باتوں کے نمبر درج کیے جا سکتے ہیں، پھر سب سے زیادہ نمبر والے بچے کو اس کا انعام دیا جائے تو یقیناً یہ ایک بہترین راہ ہوگی اور بچے خود ہی اپنی عادات بہتر بنانے میں لگے رہیں گے۔
بچوں کے ساتھ ہمیشہ ڈانٹ ڈپٹ میں بات نہ کریں۔ اس سے وہ والدین کی باتیں نہیں مانتے اور باغی بن جاتے ہیں۔ بچوں کو نظم وضبط سکھانے کے معاملے میں ماں اور باپ دونوں کا متفق ہونا ضروری ہے۔ جب کوئی ایک بچے کی سرزنش کرے تو دوسرے کو بچے کی طرف داری نہیں کرنی چاہیے۔ یہ امر نہایت منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اگر ایسے موقع پر دوسرے فریق کو کچھ کہنا بھی ہو تو وہ بچے کے سامنے اس کا اظہار نہ کرے تو بہتر ہے۔