مزدوروں کو حقوق کب ملیں گے

بھٹو سے پہلے حکومت خواہ سیاستدانوں کی رہی ہو یا فوجی بیوروکریسی کی عوام کو ہمیشہ سیاست سے لاتعلق رکھا گیا۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پیپلز پارٹی کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ اس کے بانی مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے پہلی بارکراچی سے کشمیر تک عوام میں سیاسی ہلچل مچا دی ۔پاکستانی سیاست میں پہلی بار عوام نامی عنصر داخل ہوا اور ساری سیاسی جماعتوں نے اور سیاستدانوں نے اس عنصر کی اہمیت کو تسلیم کر لیا۔

بھٹو سے پہلے حکومت خواہ سیاستدانوں کی رہی ہو یا فوجی بیوروکریسی کی عوام کو ہمیشہ سیاست سے لاتعلق رکھا گیا۔ عوام کی حیثیت محض رعایا سے ہی اس دور میں اگر کچھ سیاسی ہلچل اور عوامی بیداری رہی تو اس کا کریڈٹ ترقی پسند جماعتوں کو جاتا ہے'جنہوں نے نامساعد حالات میں بھی جبر کے خلاف جدوجہد جاری رکھی۔ خواہ وہ نیب ہو، NSF، DSF یا طلبا اور مزدور تنظیمیں ہوں ان کے سوا ساری دائیں بازو کی سیاست محلاتی سازشوں اور اقتدار کے جھروکوں تک محدودرہیں اور عوام کا استحصال کرتی رہیں اور حکومت کرتی رہیں۔

ترقی پسند جماعتوں نے ہمیشہ عوامی مسائل پر عوامی سیاست کی اور ہر قومی مسئلے پر عوام کو متحرک کیا۔ترقی پسندوں نے عوام کو اس کا احساس دلایا کہ ملک کے مالک وہ ہیں۔وہی محنت کر کے دولت کماتے ہیں لیکن اس دولت میں ان کا حصہ انتہائی کم ہے۔ریاست کے اداروں پر ان طبقات کا قبضہ ہے جو عوام کو اس کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی یہاں ترقی پسند سیاست کا آغاز ہو گیا تھا۔ اس دور میں ترقی پسند طاقتیں جن محاذوں پر سرگرم عمل رہیں ان میں مزدور کسان اور طلبا سرفہرست رہے۔یہی طبقے ترقی پسند سیاست کا ہر اول دستہ بنے۔

1968 میں جب ایوب آمریت کے خلاف تحریک اٹھی تو کراچی میں متحدہ مزدور فیڈریشن مزدوروں کی وہ تنظیم تھی جس نے ایوبی اکثریت کے خلاف سائٹ سے ہزاروں مزدوروں کا جلوس نکالا اور مزدوروں کا یہ تاریخی جلوس ایوبی آمریت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔کراچی اس حوالے سے ترقی پسندوں کا اولین مرکزتھا کیونکہ یہ وہ شہر تھا جہاں ورکنگ کلاس خاصی بڑی تعداد میں موجود تھی اور ان میں سیاسی شعور بھی بیدار تھا ۔یہیں سے ایوب خان کی آمریت کے خلاف جدوجہد کا آغاز ہوا جو ملک بھر میں پھیل گیا۔اسی لہر پر سوار ہو کر ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی قائم کی۔

ذوالفقار علی بھٹو بہت ذہین سیاستدان تھے، انھیں اندازہ ہوگیا تھا کہ 1947 سے 1968 تک کی جانے والی سیاست اب ازکار رفتہ ہوگئی ہے اب وہی رہنما عوام میں مقبول ہوگا جو عوامی سیاست کرے گا۔ سو بھٹو نے روٹی، کپڑا، مکان اور مزدور کسان راج کے نعروں کے ساتھ ایسی سیاست شروع کی جو سوئے ہوئے عوام کو خواب گاہوں سے باہر لائی روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ ایک اقتصادی نعرہ تھا۔

1947 سے اقتصادی ناانصافی کا شکار رہنے والی عوام کو اس نعرے میں ایک انفرادیت ایک کشش نظر آئی اور وہ بھٹو کے ایسے دلدادہ ہوئے کہ ان کی جھلک دیکھنے کے لیے ریلوے اسٹیشنوں پر رات رات بھر انتظار کرتے تھے، مزدور طبقہ خاص طور پر بھٹو کا طرفدار بن گیا۔ یحییٰ خان کے دور میں مزدوروں پر جو ظلم ڈھائے گئے، مزدور بھٹو کی قیادت میں ان مظالم کا ازالہ چاہتے تھے۔

بھٹو نے اگرچہ مزدور کسان راج کے نعرے لگائے لیکن وہ ان دوستوں کو ساتھ لے کر نہ چل سکے جو بھٹوکے منشور کو عملی جامہ پہنانے میں مخلص تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ پیپلز پارٹی میں فیوڈل طبقہ آہستہ آہستہ پیر جمانے لگا اور ایک وقت ایسا آگیا کہ بھٹو کو دو آپشن میں سے ایک آپشن پر چلنا تھا، ایک طرف وہ لوگ تھے جو بھٹو کے منشور پر عملدرآمد چاہتے تھے ان میں معراج محمد خان اور ان کے ساتھی تھے دوسری طرف جاگیردار طبقہ تھا۔ بھٹو نے دوسرا آپشن قبول کیا یوں وہ بہت جلد عوامی سیاست سے کٹ کر رہ گئے اور پیپلز پارٹی وڈیروں جاگیرداروں کی پارٹی بن کر رہ گئی۔


پیپلز پارٹی کے برسراقتدار آتے ہی وہ مزدور طبقہ جو ایوبی اور یحییٰ آمریت کے مظالم سہہ چکا تھا بھٹو حکومت میں اپنے مسائل کا حل ڈھونڈنے لگا۔ بدقسمتی سے اس وقت بھی بیوروکریسی مضبوط تھی' سائٹ اور لانڈھی میں اپنا حق مانگنے والے مزدوروں پر اس بیدردی سے گولی چلائی گئی کہ درجنوں مزدور پولیس کی گولیوں کی نذر ہوئے اور سیکڑوں مزدوروں اور رہنماؤں کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کرکے لمبی لمبی سزائیں دے دی گئیں۔ یوں مزدور کسان راج کی بھیانک تعبیر عوام کے سامنے آئی اور مزدور طبقہ پی پی پی سے دور ہوگیا۔

بے نظیر بھٹو کے دور میں کراچی کے مزدور رہنماؤں نے بے نظیر پر زور دیا کہ وہ ایک ایسی لیبر پالیسی تشکیل دیں جو مزدوروں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کرسکے، بے نظیر بھی لیبر پالیسی لانا چاہتی تھیں لیکن بیورو کریسی نے ان کی ایک چلنے نہ دی، یوں لیبر پالیسی ڈسٹ بن میں چلی گئی۔ بھٹو صاحب کے بعد بدقسمتی سے مزدور طبقے سے وہ حقوق بھی چھین لیے گئے جو طویل جدوجہد اور قربانیوں سے انھوں نے حاصل کیے تھے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ مزدور طبقہ اپنے ان حقوق سے محروم جو بڑی قربانیوں سے حاصل ہوئے تھے، صنعتی غلاموں جیسی زندگی گزار رہا ہے اور ملوں کارخانوں میں وہ ٹھیکیداری نظام رائج ہے، جس میں مزدوروں کا حال شکاگو کے مزدوروں سے بدتر ہوکر رہ گیا کسی مزدور میں یونین کا نام لینے کی ہمت نہیں۔

پچھلے کچھ دنوں سے مزدوروں کے حقوق اور مزدوروں پر ہونے والے مظالم کے خلاف مزدور رہنماؤں کے بیانات آ رہے ہیں جن میں پیپلز پارٹی لیبر بیورو کے رہنماؤں کے بیانات بھی شامل ہیں حبیب جنیدی مزدوروں سے مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ مزدوروں کے حقوق کے حصول کے لیے متحد ہوجائیں۔ یہ بات بڑی حیرت انگیز ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور پیپلز پارٹی کے رہنما مزدوروں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کی بات کر رہے ہیں۔

2008 سے 2013 تک ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہی صوبہ سندھ بھی پیپلز پارٹی کی تحویل میں رہا اگر پیپلز پارٹی کی قیادت چاہتی تو نہ صرف مزدور طبقے کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کرسکتی تھی بلکہ ایک منصفانہ لیبر پالیسی دے کر مزدور طبقے کی حمایت حاصل کرسکتی تھی لیکن ایسا نہ ہوا۔ ایسا کیوں نہیں ہوا یہ ایک لمبی اور الجھی ہوئی داستان ہے جس کا ذکر بے کار ہے۔

پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ کارکردگی سے عوام اس حد تک مایوس رہے کہ 2013 کے الیکشن میں انھوں نے پیپلز پارٹی کو مسترد کردیا، پیپلز پارٹی اگرچہ مرکزی حکومت میں شامل نہ ہوسکی لیکن سندھ میں وہ بلا شرکت غیرے اقتدارکی مالک ہے ماضی میں پیپلز پارٹی نے مزدور کسان راج جیسے نعرے ایجاد کیے جو وقت کی ہواؤں میں اڑ گئے۔

اب پیپلز پارٹی کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ کم ازکم سندھ کی سطح تک مزدوروں کے جائز مطالبات کو پورا کرے۔ صنعتی علاقوں میں یا تو ٹھیکیداروں کا راج ہے یا مالکان خدا بنے ہوئے ہیں۔ مزدوروں کو اپنی تنظیمیں بنانے، سودا کاری اور ہڑتال کا حق حاصل ہے جسے ساری دنیا تسلیم کرتی ہے، لیکن کراچی میں صورتحال یہ ہے کہ مزدور یونین کے نام سے خوفزدہ ہے کیونکہ یونین کا نام لینے والوں کو گیٹ کے باہر کردیا جاتا ہے۔

بڑے ملوں کارخانوں میں ٹھیکیداری نظام قائم ہے چارکروڑ سے زیادہ مزدور اپنے جائز قانونی حق سے محروم ہیں کیا پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت مزدوروں کو ان کے جائز قانونی حقوق دلا کر مزدور طبقے کی شکایات کا ازالہ کرے گی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر حالات حاضرہ کی روشنی میں پیپلز پارٹی کی قیادت کو غور کرنا چاہیے۔
Load Next Story