جعلی ادویات مافیا اور وزیر اعلیٰ پنجاب
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف زیرک سیاستدان ہیں، ان کے منصوبے دیرپا ہوتے ہیں۔
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف زیرک سیاستدان ہیں، ان کے منصوبے دیرپا ہوتے ہیں جن سے دوسرے صوبے بھی استفادہ حاصل کرتے ہیں۔ کئی کاموں میں وہ تھوڑے جذباتی ضرور ہیں مگر ان کی نیت صاف ہوتی ہے۔
جیسے الیکشن سے پہلے انھوں نے ملک سے بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے بیشتر وعدے کیے لیکن بعد میں انھیں 'احساس' ہوا کہ اس حوالے سے ان کا ہوم ورک مکمل نہیں تھا۔گزشتہ دنوں انھوں نے پنجاب ڈرگ اتھارٹی بنانے کی منظوری دی یعنی جعلی ادویات بنانے اور فروخت کرنے والوں کے خلاف ''اعلان جنگ'' کیا تو مجھے چند واقعات یاد آگئے۔
جن میں کھانسی کا شربت پینے کی وجہ سے سولہ افراد کی ہلاکت کا واقعہ یاد آگیا اور اُسی سال کے آغاز میں ایک ملاوٹ شدہ دوا کے استعمال کی وجہ سے لاہور میں 119 افراد کی ہلا کت کا واقعہ بھی ذہن میں آگیا۔ 2014 میں ان جعلی ادویات کی وجہ سے پاکستان میں ایک سو پچاس سے زائد لوگ موت کے منہ میں گئے۔ مجھے وہ خبر بھی یاد آگئی جب ملیریا کی ایک تہائی ادویات جعلی پائی گئیں جن کے استعمال کی مدت ختم ہونے کے بعد تازہ لیبل لگاکر ری کنڈیشن انداز میں فروخت کر دیا گیا تھا۔
پنجاب میں جعلی ادویات کی تیاری اور فروخت سنگین معاملہ ہے۔ لاہور جیسے شہر میں گزشتہ سال ایف آئی اے نے جعلی ادویات کی روک تھام کے ضمن میں لاہور شہر میں مختلف علاقوں میں چھاپے مار کر 13 فیکٹریاں سیل کیں۔ اب جب کہ حکومت پنجاب نے جعلی ادویات کی تیاری' فروخت اور اس دھندہ میں ملوث افراد کے خلاف ڈرگ ایکٹ 1976 میں ترمیم کرتے ہوئے قید اور جرمانوں کی سزاؤں میں اضافہ کردیا ہے۔ ملاوٹ شدہ ادویات کی فروخت پر 10 سال قید 5 لاکھ جرمانہ' اسی طرح غلط وارنٹی دینے پر 7 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔
غیر مستند اور جعلی ادویات انسانیت کے خلاف سب سے بڑا جرم ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ملک بھر میں ہزاروں سے زائد جعلی ادویات کی فیکٹریاں عام بازاروں او ر گھروں میں بدستور کام کر رہی ہیں۔ پنجاب میں ایسی فیکٹریوں کی تعداد ہزاروں میں ہے مگر یہ عوام کو موت کی نیند سلانے والی فیکٹریاں نہ جانے کب تک اپنا کام دکھاتی رہیں گی۔
جعلی ایلو پیتھک میڈیکل، ہر بل میڈیسن، چا ئنہ، کا سمیٹکس، با ئیوکیمیکل میڈیسن بنانیوالی فیکٹریاں گلیوں محلوں میں مو ت کا سامان تیا ر کر رہی ہیں اور ایک باقاعدہ نظام کے تحت مارکیٹس اور میڈیکل اسٹورز پر ان ادویات کی تر سیل و فروخت جاری ہے۔ لوگوں کی اکثریت ان پڑھ ہونے کی وجہ سے زائد المعیاد ادویات بھی بڑے آرام سے فروخت کر دی جاتی ہیں۔ خسرہ ،پولیو اور ہیپاٹائٹس سی کی جعلی ویکسین بھی تیارکر کے فروخت کی جا رہی ہیں۔
وطن عزیز میں ادویات سازی کی صنعت جس قابل رشک تیزی سے فروغ پارہی ہے۔ وہ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کی ہماری حالت زار پر رحم دلی کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کھلی چھوٹ کا شاخسانہ ہے جو انھیں کہیں اور حاصل ہو ہی نہیں سکتی۔ آپ اندازہ لگائیں ایک رپورٹ کے مطابق چین میں1 دوائی کی رجسٹریشن46 ہزار ڈالر فیس اور تین سال کے عرصہ میں ہوتی ہے جب کہ پاکستان میں یہ کام بلا تحقیق16 ہزار روپے میں کردیا جاتا ہے۔ اور اس پر مستزاد یہ کے غلط فارمولا کیمیکل اور جعلی ادویات کو جانچنے کے لیے لیبارٹریوں میں جدید آلات تک دستیاب نہیں۔
جناب خادم اعلیٰ! روایتی بلند و بالا دعوی چھوڑ کچھ عملی اور حقیقی ایکشن لیں نہیں تو عام دوائیاں بھی زہر بن کر یونہی قتل عام کرتی رہیں گی۔ قانون تو پہلے سے بھی موجود تھا جس کے تحت آج تک کسی کو کوئی سنگین سزا نہیں دی گئی۔ مجرمان پانچ سو روپے سے ایک ہزار روپے کے جرمانے کی ادائیگی کے بعد دوبارہ اپنے کاروبار میں مصروف رہنے کے لیے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔
خدارا ''ہوم ورک'' کرکے میدان میں آئیں چیک اینڈ بیلنس رکھنے سے دنیا کا ہر بگڑا ہوا نظام ٹھیک ہو سکتا ہے تو یہ کیوں نہیں۔۔؟ ہنگامی بنیادوں پر صرف اتنا ہی کر دیں کہ ہر میڈیکل اسٹور پر لازم ہو کہ وہ مستند افراد کو ملازم رکھیں، ادویات کو دھوپ سے بچائیں، ڈیپ فریزر کا استعمال کریں اور صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھنے کے علاوہ ہر دوا کو تیس سینٹی گریڈ تک محفوظ بنائیں تاہم اس معیار کا خیال نہیں رکھا جارہا جس سے ادویات بے اثر ہوجاتی ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق اس سے بیماریاں خطرناک حد تک بڑھنے کا تناسب تیس فی صد تک بڑھ جاتا ہے۔
وزیر اعلیٰ صاحب اللہ تعالیٰ نے آپ کو انسانیت کی خدمت کا جو منصب عطاء کیا ہے اس کے ساتھ انصاف کریں کیوں کہ چشمے کہاں سے پھوٹتے ہیں، جھرنے کہاں سے بہتے ہیں، آبشاروں کی روانی کہاں سے جنم لیتی ہے یہ سب جانتے ہیں مگر یہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ کہاں تک بہتے ہیں، ان کی منزل کہاں ہے بس جہاں جہاں سے یہ گزرتے ہیں ہر کوئی ان سے سیرابی حاصل کرتا ہے۔ ہر قریہ، ہر فرد، ہر بستی ان سے فیض یاب ہوتی اور شادابی حاصل کرتی ہے یہی حال نیکی کے سفر کا ہے۔
ان راستوں پر جو چل پڑتا ہے اسے اپنی منزل کے آخری اسٹاپ کا بھی علم ہوتا ہے۔ بہتے چشمے دور کہیں گھاٹیوں میں جا کر نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں مگر ''نیکی'' خدمت خلق کے کارواں اپنے نشانات زمانے کے سینے پر ثبت کرتے چلے جاتے ہیں۔ خادم اعلیٰ پنجاب آپ اس کارواں کے میرِ سالار ہیں اگر آپ ہی 2 تین مہینوں بعد اپنے کیے ہوئے وعدے بھول جائیں گے اور اس عوام کو جعلی دواؤں کے سہارے چھوڑ دیں گے تو یہ بے کس و بے سہارا لوگ کسے اپنا مسیحا کہیں گے۔۔۔!بقول شاعر
کوئی طوفانِ بلا خیز ڈبو دے نہ مجھے
بے سہارا ہوں خدا کے لیے ساحل ہو جاؤ
جیسے الیکشن سے پہلے انھوں نے ملک سے بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے بیشتر وعدے کیے لیکن بعد میں انھیں 'احساس' ہوا کہ اس حوالے سے ان کا ہوم ورک مکمل نہیں تھا۔گزشتہ دنوں انھوں نے پنجاب ڈرگ اتھارٹی بنانے کی منظوری دی یعنی جعلی ادویات بنانے اور فروخت کرنے والوں کے خلاف ''اعلان جنگ'' کیا تو مجھے چند واقعات یاد آگئے۔
جن میں کھانسی کا شربت پینے کی وجہ سے سولہ افراد کی ہلاکت کا واقعہ یاد آگیا اور اُسی سال کے آغاز میں ایک ملاوٹ شدہ دوا کے استعمال کی وجہ سے لاہور میں 119 افراد کی ہلا کت کا واقعہ بھی ذہن میں آگیا۔ 2014 میں ان جعلی ادویات کی وجہ سے پاکستان میں ایک سو پچاس سے زائد لوگ موت کے منہ میں گئے۔ مجھے وہ خبر بھی یاد آگئی جب ملیریا کی ایک تہائی ادویات جعلی پائی گئیں جن کے استعمال کی مدت ختم ہونے کے بعد تازہ لیبل لگاکر ری کنڈیشن انداز میں فروخت کر دیا گیا تھا۔
پنجاب میں جعلی ادویات کی تیاری اور فروخت سنگین معاملہ ہے۔ لاہور جیسے شہر میں گزشتہ سال ایف آئی اے نے جعلی ادویات کی روک تھام کے ضمن میں لاہور شہر میں مختلف علاقوں میں چھاپے مار کر 13 فیکٹریاں سیل کیں۔ اب جب کہ حکومت پنجاب نے جعلی ادویات کی تیاری' فروخت اور اس دھندہ میں ملوث افراد کے خلاف ڈرگ ایکٹ 1976 میں ترمیم کرتے ہوئے قید اور جرمانوں کی سزاؤں میں اضافہ کردیا ہے۔ ملاوٹ شدہ ادویات کی فروخت پر 10 سال قید 5 لاکھ جرمانہ' اسی طرح غلط وارنٹی دینے پر 7 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔
غیر مستند اور جعلی ادویات انسانیت کے خلاف سب سے بڑا جرم ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ملک بھر میں ہزاروں سے زائد جعلی ادویات کی فیکٹریاں عام بازاروں او ر گھروں میں بدستور کام کر رہی ہیں۔ پنجاب میں ایسی فیکٹریوں کی تعداد ہزاروں میں ہے مگر یہ عوام کو موت کی نیند سلانے والی فیکٹریاں نہ جانے کب تک اپنا کام دکھاتی رہیں گی۔
جعلی ایلو پیتھک میڈیکل، ہر بل میڈیسن، چا ئنہ، کا سمیٹکس، با ئیوکیمیکل میڈیسن بنانیوالی فیکٹریاں گلیوں محلوں میں مو ت کا سامان تیا ر کر رہی ہیں اور ایک باقاعدہ نظام کے تحت مارکیٹس اور میڈیکل اسٹورز پر ان ادویات کی تر سیل و فروخت جاری ہے۔ لوگوں کی اکثریت ان پڑھ ہونے کی وجہ سے زائد المعیاد ادویات بھی بڑے آرام سے فروخت کر دی جاتی ہیں۔ خسرہ ،پولیو اور ہیپاٹائٹس سی کی جعلی ویکسین بھی تیارکر کے فروخت کی جا رہی ہیں۔
وطن عزیز میں ادویات سازی کی صنعت جس قابل رشک تیزی سے فروغ پارہی ہے۔ وہ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کی ہماری حالت زار پر رحم دلی کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کھلی چھوٹ کا شاخسانہ ہے جو انھیں کہیں اور حاصل ہو ہی نہیں سکتی۔ آپ اندازہ لگائیں ایک رپورٹ کے مطابق چین میں1 دوائی کی رجسٹریشن46 ہزار ڈالر فیس اور تین سال کے عرصہ میں ہوتی ہے جب کہ پاکستان میں یہ کام بلا تحقیق16 ہزار روپے میں کردیا جاتا ہے۔ اور اس پر مستزاد یہ کے غلط فارمولا کیمیکل اور جعلی ادویات کو جانچنے کے لیے لیبارٹریوں میں جدید آلات تک دستیاب نہیں۔
جناب خادم اعلیٰ! روایتی بلند و بالا دعوی چھوڑ کچھ عملی اور حقیقی ایکشن لیں نہیں تو عام دوائیاں بھی زہر بن کر یونہی قتل عام کرتی رہیں گی۔ قانون تو پہلے سے بھی موجود تھا جس کے تحت آج تک کسی کو کوئی سنگین سزا نہیں دی گئی۔ مجرمان پانچ سو روپے سے ایک ہزار روپے کے جرمانے کی ادائیگی کے بعد دوبارہ اپنے کاروبار میں مصروف رہنے کے لیے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔
خدارا ''ہوم ورک'' کرکے میدان میں آئیں چیک اینڈ بیلنس رکھنے سے دنیا کا ہر بگڑا ہوا نظام ٹھیک ہو سکتا ہے تو یہ کیوں نہیں۔۔؟ ہنگامی بنیادوں پر صرف اتنا ہی کر دیں کہ ہر میڈیکل اسٹور پر لازم ہو کہ وہ مستند افراد کو ملازم رکھیں، ادویات کو دھوپ سے بچائیں، ڈیپ فریزر کا استعمال کریں اور صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھنے کے علاوہ ہر دوا کو تیس سینٹی گریڈ تک محفوظ بنائیں تاہم اس معیار کا خیال نہیں رکھا جارہا جس سے ادویات بے اثر ہوجاتی ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق اس سے بیماریاں خطرناک حد تک بڑھنے کا تناسب تیس فی صد تک بڑھ جاتا ہے۔
وزیر اعلیٰ صاحب اللہ تعالیٰ نے آپ کو انسانیت کی خدمت کا جو منصب عطاء کیا ہے اس کے ساتھ انصاف کریں کیوں کہ چشمے کہاں سے پھوٹتے ہیں، جھرنے کہاں سے بہتے ہیں، آبشاروں کی روانی کہاں سے جنم لیتی ہے یہ سب جانتے ہیں مگر یہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ کہاں تک بہتے ہیں، ان کی منزل کہاں ہے بس جہاں جہاں سے یہ گزرتے ہیں ہر کوئی ان سے سیرابی حاصل کرتا ہے۔ ہر قریہ، ہر فرد، ہر بستی ان سے فیض یاب ہوتی اور شادابی حاصل کرتی ہے یہی حال نیکی کے سفر کا ہے۔
ان راستوں پر جو چل پڑتا ہے اسے اپنی منزل کے آخری اسٹاپ کا بھی علم ہوتا ہے۔ بہتے چشمے دور کہیں گھاٹیوں میں جا کر نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں مگر ''نیکی'' خدمت خلق کے کارواں اپنے نشانات زمانے کے سینے پر ثبت کرتے چلے جاتے ہیں۔ خادم اعلیٰ پنجاب آپ اس کارواں کے میرِ سالار ہیں اگر آپ ہی 2 تین مہینوں بعد اپنے کیے ہوئے وعدے بھول جائیں گے اور اس عوام کو جعلی دواؤں کے سہارے چھوڑ دیں گے تو یہ بے کس و بے سہارا لوگ کسے اپنا مسیحا کہیں گے۔۔۔!بقول شاعر
کوئی طوفانِ بلا خیز ڈبو دے نہ مجھے
بے سہارا ہوں خدا کے لیے ساحل ہو جاؤ