سانحہ قصور اور اونچی کرین
بچوں پر جنسی تشدد معاشرتی سرطان کی طرح پوری دنیا میں پھیلتا چلا جا رہا ہے۔
بچوں پر جنسی تشدد معاشرتی سرطان کی طرح پوری دنیا میں پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ صرف برطانیہ میں گزشتہ ایک سال کے دوران 23ہزار کیس رجسٹر ہوئے۔ پاکستان میں گزشتہ سال کے دوران 70مختلف اخبارات میں بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے 3508 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 2054 واقعات کے ساتھ صوبہ پنجاب سر فہرست رہا۔
ان تمام واقعات کی سب سے زیادہ لرزہ خیز مشابہت یہ ہے کہ 90فیصد مجرم وہ تھے جو کسی نہ کسی حوالے سے یا تو، ان معصوم بچوں کو جانتے تھے، یا انکے ساتھ خاندانی، کاروباری اور معاشرتی تعلق رکھتے تھے۔
آج سے تقریباً 12سال ادھر ایک ڈاکو مینٹری فلم پر کام کرتے ہوئے ہم نے اپنے طور پر ایک سروے کنڈکٹ کیا جس کے نتائج ہماری ڈپریشن میں بے پناہ اضافے کا باعث بنے۔ اس سروے کے مطابق تقریباً 82فیصد گھریلو ملازمین بچے، بچیاں جنسی تشدد کا شکار بنتے ہیں۔ تقریباً 45 فیصد گھریلو ملازم اور خادمائیں مالکان کے بچوں کو جنسی تشددکانشانہ بناتے اور بناتی ہیں۔
قصور میں رونما ہونے والا واقعہ ہماری معاشرتی ذلالتوں کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ اس حوالے سے بہت بھاری ذمے داری والدین پر عائد ہوتی ہے جو بچوں سے متعلق اپنے اولین فرائض سے روگردانی کرتے ہیں۔ پھر ذمے داری عائد ہوتی ہے معاشرے پر، ان ہمسایوں پر، محلے داروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر کہ جن کی ناک تلے یہ انسانیت سوزی وقوع پذیر ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ہماری پولیس کا کردار نہایت شرمناک ہے۔
اس کے ڈر سے زیادہ تر والدین جانتے بوجھتے بھی معاملے کو دبا جاتے ہیں۔ اس کی وجہ ایک تو ہمارا تھانہ کلچر اور پولیس کا عمومی رویہ ہے اور دوسرا وہ قانونی سقم جن کا سہارا لے کر یہ درندے تختہ دار پر چڑھنے کی بجائے تخت طاؤس پر جا بیٹھتے ہیں اور بیچارے والدین بدنامی اور دشمنی کی دوزخ میں ساری عمر جلتے رہتے ہیں۔
اہل نظر کو معلوم ہے کہ بچوں اور عورتوں پر ہونے والے جنسی تشدد میں روز افزوں اضافے کی بڑی وجہ ہمارے ہاں موجود قانون میں سقم بتائی جاتی ہے کہ جس کے سبب متاثرہ خاندان نہ تو پولیس پر اعتماد کرتے ہیں اور نہ ہی عدالتوں پر۔
اس حوالے سے دو بڑے مشہور روسی ناول ہیں جن پر لازوال فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ ان میں پہلا پرزنرایکس (Prisoner-x)ہے جس پر بنی فلم کسی شاہکار سے کم نہیں دوسرا ناول چائلڈ فورٹی فور (Child-44) ہے اور اس پر حال ہی میں ایک فلم بنی ہے۔ ان فلموں کی خاص بات یہ ہے کہ اس قدر گھناؤنے جرائم سرزد ہو جانے کے باوجود معاشرے کی منفی قوتیں مجرم کو بچانے اور معاملے کو دبانے پر مصر دکھائی دیتی ہیں۔
یعنی جوزف سٹالن اپنے بھیانک دور کو بزعم خویش جنت نظیر دور کہا کرتا تھا۔ اس دور میں رونما ہونے والے ان دونوں سچے واقعات کو صرف اس بنا پر چھپایا، تفتیشی افسروں کو ڈرایا، دھمکایا اور عہدوں سے ہٹایا گیا کہ سٹالن کا روس تو فردوس برِیں ہے اور فردوس میں جرم نہیں ہوا کرتے!!
اب ظاہر ہے اس تناظر میں ہمارا دھیان لا محالہ خادم پنجاب کی طرف جاتا ہے جن کے بارے میں پچھلے چند گھنٹوں سے ہم لگاتار سنتے چلے آ رہے ہیں کہ آپ اس واقعے میں ملوث افراد کے خاندانوں کی طرف سے شدید پریشر کا شکار ہیں۔ اب جس شہباز شریف کو ہم جانتے ہیں وہ شاید دیگر تمام طرح کے پریشر تو قبول کر لے مگر اس قسم کا پریشر تو دورحاضر کا بدترین اور احمق ترین حکمران بھی قبول نہیں کر سکتا۔ لیکن اس کے باوجود سوشل میڈیا میں یہ بات بار بار کہی جا رہی تھی کہ شہباز شریف پر شدید سیاسی پریشر ہے ،وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
ہم نے کافی غوروخوض کیا مگر ہمیں اس پریشر کی سمجھ نہ آسکی جس کا شہباز شریف مبینہ طور پرشکار ہیں۔ چنانچہ تھک ہار کر ہم نے موصوف کو فون کر ڈالا کہ جناب اس سلسلے میں اپنی پوزیشن واضح کریں۔
کہنے لگے، آفتاب صاحب میں نے جان اللہ کو دینی ہے کسی سیاسی حلیف یا حکومتی دوست کو نہیں۔ خدا کی قسم، کوئی مائی کا لعل ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوا جو مجھ پر اس جیسے سنگین معاملے میں پریشر ڈالنے کی جرات بھی کر سکے''۔ خیر ہماری ذاتی تشفی کیلیے تو وزیراعلیٰ کا اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے البتہ ان کے سیاسی حریف کیا سوچتے اور کہتے پائے جاتے ہیں۔ یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ تو صرف یہ ہے کہ قصور شہر میں واقع موبائل فون شاپ پر بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے وڈیو کلپ فروخت ہوتے رہے ہیں اور جن جن مجرمان نے اقبال جرم بھی کر لیا ہے اب ان کے معاملے میں انصاف اور قانون کسی تعطل کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
اب اگر قانونی سقم کو دیکھیں تو ایک نیا پنڈورا بکس کھولنے کا اندیشہ ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ درندے اپنے اپنے اقبالی بیانات سے پھر جائیں۔ ایسی صورت میں پولیس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچتا کہ وہ ان کے ''فرار'' کی دعائیں کرے اور پھر یہ جانور صفت انسان پولیس کی حراست سے ''فرار'' ہونے کی کوشش میں گولیوں کا نشانہ بن جائیں۔ ہماری دعا ہے کہ ایسا نہ ہو ورنہ عبرت دلانے کا ایک بہت بڑا اور نادر موقع ضائع ہو جائے گا۔
ضیا الحق کے دور میں ایک مشہور واقعہ رونما ہوا جسے دنیا آج بھی پپو قتل کیس کے نام سے یاد کرتی ہے۔ پپو وہ معصوم بچہ تھا جسے چند درندوں نے ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کر ڈالا۔ یہ وہ دور تھا جب ہر تیسرے چوتھے روز بچوں کا اغوا اور جنسی تشدد دیہی علاقوں میں رپورٹ ہوا کرتا تھا۔ مگر شہری علاقے میں پپو کیس اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے خصوصی عدالت نے تمام قاتلوں کو سزائے موت سنائی اور ضیا الحق نے انکی سرعام پھانسی کا حکم دیا۔ چنانچہ کیمپ جیل لاہور کے اندر انہیں انتہائی اونچی کرین کے ساتھ تقریباً دو لاکھ افراد کے سامنے لٹکا دیا گیا۔ اب اس واقعے کا تذکرہ ہم نے صرف اس لیے کیا ہے کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف کو معلوم ہو سکے کہ پپو کے قاتلوں کی پھانسی کے بعد تقریباً 300روز تک اس نوعیت کا واقعہ نہ تو رونما ہوا اور نہ ہی رپورٹ۔ اب اگر ان درندوں کو بھی انکاؤنٹر یعنی ''پلس مقابلہ'' میں پار کر دیا گیا تو یہ بھیڑیے تو کیفر کردار تک پہنچ جائیں گے مگر وہ لاتعداد پاگل کتے جو گلی محلے کی نکڑ پر کھڑے آتے جاتے معصوم بچوں کو للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔
انھیں عبرت بھلا کیسے ہو گی؟ حضور یہ کیس انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دیں، خود مدعی بنیں اور فوری طور پر ایک اونچی کرین کا بندوبست کریں ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔
ان تمام واقعات کی سب سے زیادہ لرزہ خیز مشابہت یہ ہے کہ 90فیصد مجرم وہ تھے جو کسی نہ کسی حوالے سے یا تو، ان معصوم بچوں کو جانتے تھے، یا انکے ساتھ خاندانی، کاروباری اور معاشرتی تعلق رکھتے تھے۔
آج سے تقریباً 12سال ادھر ایک ڈاکو مینٹری فلم پر کام کرتے ہوئے ہم نے اپنے طور پر ایک سروے کنڈکٹ کیا جس کے نتائج ہماری ڈپریشن میں بے پناہ اضافے کا باعث بنے۔ اس سروے کے مطابق تقریباً 82فیصد گھریلو ملازمین بچے، بچیاں جنسی تشدد کا شکار بنتے ہیں۔ تقریباً 45 فیصد گھریلو ملازم اور خادمائیں مالکان کے بچوں کو جنسی تشددکانشانہ بناتے اور بناتی ہیں۔
قصور میں رونما ہونے والا واقعہ ہماری معاشرتی ذلالتوں کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ اس حوالے سے بہت بھاری ذمے داری والدین پر عائد ہوتی ہے جو بچوں سے متعلق اپنے اولین فرائض سے روگردانی کرتے ہیں۔ پھر ذمے داری عائد ہوتی ہے معاشرے پر، ان ہمسایوں پر، محلے داروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر کہ جن کی ناک تلے یہ انسانیت سوزی وقوع پذیر ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ہماری پولیس کا کردار نہایت شرمناک ہے۔
اس کے ڈر سے زیادہ تر والدین جانتے بوجھتے بھی معاملے کو دبا جاتے ہیں۔ اس کی وجہ ایک تو ہمارا تھانہ کلچر اور پولیس کا عمومی رویہ ہے اور دوسرا وہ قانونی سقم جن کا سہارا لے کر یہ درندے تختہ دار پر چڑھنے کی بجائے تخت طاؤس پر جا بیٹھتے ہیں اور بیچارے والدین بدنامی اور دشمنی کی دوزخ میں ساری عمر جلتے رہتے ہیں۔
اہل نظر کو معلوم ہے کہ بچوں اور عورتوں پر ہونے والے جنسی تشدد میں روز افزوں اضافے کی بڑی وجہ ہمارے ہاں موجود قانون میں سقم بتائی جاتی ہے کہ جس کے سبب متاثرہ خاندان نہ تو پولیس پر اعتماد کرتے ہیں اور نہ ہی عدالتوں پر۔
اس حوالے سے دو بڑے مشہور روسی ناول ہیں جن پر لازوال فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ ان میں پہلا پرزنرایکس (Prisoner-x)ہے جس پر بنی فلم کسی شاہکار سے کم نہیں دوسرا ناول چائلڈ فورٹی فور (Child-44) ہے اور اس پر حال ہی میں ایک فلم بنی ہے۔ ان فلموں کی خاص بات یہ ہے کہ اس قدر گھناؤنے جرائم سرزد ہو جانے کے باوجود معاشرے کی منفی قوتیں مجرم کو بچانے اور معاملے کو دبانے پر مصر دکھائی دیتی ہیں۔
یعنی جوزف سٹالن اپنے بھیانک دور کو بزعم خویش جنت نظیر دور کہا کرتا تھا۔ اس دور میں رونما ہونے والے ان دونوں سچے واقعات کو صرف اس بنا پر چھپایا، تفتیشی افسروں کو ڈرایا، دھمکایا اور عہدوں سے ہٹایا گیا کہ سٹالن کا روس تو فردوس برِیں ہے اور فردوس میں جرم نہیں ہوا کرتے!!
اب ظاہر ہے اس تناظر میں ہمارا دھیان لا محالہ خادم پنجاب کی طرف جاتا ہے جن کے بارے میں پچھلے چند گھنٹوں سے ہم لگاتار سنتے چلے آ رہے ہیں کہ آپ اس واقعے میں ملوث افراد کے خاندانوں کی طرف سے شدید پریشر کا شکار ہیں۔ اب جس شہباز شریف کو ہم جانتے ہیں وہ شاید دیگر تمام طرح کے پریشر تو قبول کر لے مگر اس قسم کا پریشر تو دورحاضر کا بدترین اور احمق ترین حکمران بھی قبول نہیں کر سکتا۔ لیکن اس کے باوجود سوشل میڈیا میں یہ بات بار بار کہی جا رہی تھی کہ شہباز شریف پر شدید سیاسی پریشر ہے ،وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
ہم نے کافی غوروخوض کیا مگر ہمیں اس پریشر کی سمجھ نہ آسکی جس کا شہباز شریف مبینہ طور پرشکار ہیں۔ چنانچہ تھک ہار کر ہم نے موصوف کو فون کر ڈالا کہ جناب اس سلسلے میں اپنی پوزیشن واضح کریں۔
کہنے لگے، آفتاب صاحب میں نے جان اللہ کو دینی ہے کسی سیاسی حلیف یا حکومتی دوست کو نہیں۔ خدا کی قسم، کوئی مائی کا لعل ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوا جو مجھ پر اس جیسے سنگین معاملے میں پریشر ڈالنے کی جرات بھی کر سکے''۔ خیر ہماری ذاتی تشفی کیلیے تو وزیراعلیٰ کا اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے البتہ ان کے سیاسی حریف کیا سوچتے اور کہتے پائے جاتے ہیں۔ یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ تو صرف یہ ہے کہ قصور شہر میں واقع موبائل فون شاپ پر بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے وڈیو کلپ فروخت ہوتے رہے ہیں اور جن جن مجرمان نے اقبال جرم بھی کر لیا ہے اب ان کے معاملے میں انصاف اور قانون کسی تعطل کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
اب اگر قانونی سقم کو دیکھیں تو ایک نیا پنڈورا بکس کھولنے کا اندیشہ ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ درندے اپنے اپنے اقبالی بیانات سے پھر جائیں۔ ایسی صورت میں پولیس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچتا کہ وہ ان کے ''فرار'' کی دعائیں کرے اور پھر یہ جانور صفت انسان پولیس کی حراست سے ''فرار'' ہونے کی کوشش میں گولیوں کا نشانہ بن جائیں۔ ہماری دعا ہے کہ ایسا نہ ہو ورنہ عبرت دلانے کا ایک بہت بڑا اور نادر موقع ضائع ہو جائے گا۔
ضیا الحق کے دور میں ایک مشہور واقعہ رونما ہوا جسے دنیا آج بھی پپو قتل کیس کے نام سے یاد کرتی ہے۔ پپو وہ معصوم بچہ تھا جسے چند درندوں نے ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کر ڈالا۔ یہ وہ دور تھا جب ہر تیسرے چوتھے روز بچوں کا اغوا اور جنسی تشدد دیہی علاقوں میں رپورٹ ہوا کرتا تھا۔ مگر شہری علاقے میں پپو کیس اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے خصوصی عدالت نے تمام قاتلوں کو سزائے موت سنائی اور ضیا الحق نے انکی سرعام پھانسی کا حکم دیا۔ چنانچہ کیمپ جیل لاہور کے اندر انہیں انتہائی اونچی کرین کے ساتھ تقریباً دو لاکھ افراد کے سامنے لٹکا دیا گیا۔ اب اس واقعے کا تذکرہ ہم نے صرف اس لیے کیا ہے کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف کو معلوم ہو سکے کہ پپو کے قاتلوں کی پھانسی کے بعد تقریباً 300روز تک اس نوعیت کا واقعہ نہ تو رونما ہوا اور نہ ہی رپورٹ۔ اب اگر ان درندوں کو بھی انکاؤنٹر یعنی ''پلس مقابلہ'' میں پار کر دیا گیا تو یہ بھیڑیے تو کیفر کردار تک پہنچ جائیں گے مگر وہ لاتعداد پاگل کتے جو گلی محلے کی نکڑ پر کھڑے آتے جاتے معصوم بچوں کو للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔
انھیں عبرت بھلا کیسے ہو گی؟ حضور یہ کیس انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دیں، خود مدعی بنیں اور فوری طور پر ایک اونچی کرین کا بندوبست کریں ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔