قدر کیجیے کہ پاکستان ایک نعمت ہے
میرے دوست تو لاکھ پاکستان کو بُرا کہہ لے لیکن ایک بات سمجھ لے کہ تو کہیں بھی چلا جا، کہلائے گا پاکستانی ہی
یار! یہاں کا سارا سسٹم ہی خراب ہے۔ خدا کی قسم! نفل ادا کروں گا جب اس ملک سے جان چھوٹے گی میری، عاصم جو ایم ایس سی کا امتحان تو پاس کرچکا تھا مگر ڈگری حاصل کرنے کے لیے پچھلے دو ماہ سے خوار ہو رہا تھا اور اپنے دوست طاہر سے مخاطب تھا جو اُس کا کلاس فیلو بھی تھا۔
کیا ہوگیا ہے یار! بھلا اپنے ہی ملک کے بارے میں کوئی ایسے بولتا ہے کیا؟ تو اورکیا کہوں؟ سب کچھ تیرے سامنے ہی ہے کہ کیسے اپنی ہی ڈگری حاصل کرنے کے لیے کس قدر اذیت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ہمیں، جیسے ہم یہ ڈگری امتحان پاس کرکے نہیں بلکہ پیسے دے کر لے رہے ہوں۔ میں بھی تو دو ماہ سے تیرے ساتھ ہی خوار ہو رہا ہوں، مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ میں اپنے ہی ملک کو کوسنا شروع کردوں۔ طاہر، عاصم کے خیالات سے ہرگز متفق نہیں تھا۔ دو دن بعد آخری تاریخ ہے اسکالر شپ کے فارم جمع کروانے کی، اگر آج بھی ڈگری نہ ملی تو گئے کام سے، اللہ اللہ کرکے اس ملک سے نکلنے کا موقع مل رہا ہے اور میں یہ موقع کسی صورت بھی ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ یار! ایسے بول رہا ہے جیسے تونے پی ایچ ڈی مکمل کرکے پاکستان واپس آنا ہی نہیں ہے۔ طاہر نے ہنستے ہوئے کہا۔ بالکل درست اندازہ لگایا ہے تو نے، میں اتنی جدوجہد پاکستان واپس آنے کے لیے نہیں کر رہا ہوں۔ عاصم نے سنجیدگی سے کہا۔
حلف نامہ جو جمع کرارہے ہو اُس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ میں اپنی تعلیم مکمل کرکے پاکستان واپس آؤں گا اور پانچ سال تک یہاں کے اداروں میں نوکری کروں گا، اُس کا کیا؟ وہ سب تو کاغذی کارروائی ہے، اُسے کون پوچھتا ہے، یار! اور جو ضمانت دینی ہے، وہ؟ طاہر کو اُس کی باتوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ ہم پاکستان میں رہتے ہیں یار، یہاں بس جیب میں پیسہ ہونا چاہیے ہر مشکل حل ہوجاتی ہے۔ بس دعا کرو کہ کسی طرح مجھے یہ اسکالر شپ مل جائے، پھر نہیں میں دوبارہ پاکستان میں قدم رکھنے والا۔ کہیں بھی چلا جا، کہلائے گا تو آخر پاکستانی ہی ناں۔ طاہر کے لہجے میں اب طنز تھا۔ کب تک، آخر کب تک؟ صرف دوسرے ملک کا پاسپورٹ ملنے کی دیر ہے، پھر کونسا پاکستان اور کون پاکستانی، پھر یہ داغ بھی دھل جائے گا۔ داغ؟ کیا تیرے لیے پاکستانی ہونا ایک داغ ہے، آخرکیا خرابی ہے اس ملک میں؟
تمھارے پاکستان میں ڈھنگ کی کوئی نوکری نہیں، اور تو کہتا ہے کہ کیا خرابی ہے اس ملک میں۔ تیرے ابّو نے اپنی پوری ملازمت کے دوران ایک مرتبہ بھی رشوت نہیں لی، اور اُنہیں اس ایمانداری کا کیا صلہ دیا گیا؟ اُنہیں رشوت لینے کے جرم میں نوکری سے برخاست کر دیا گیا، اور تجھے اس ملک میں سب اچھا نظر آتا ہے۔ یہاں جس کے پاس جتنی زیادہ دولت ہے اُس کی اُتنی زیادہ عزت ہے۔ یہ ملک صرف طاقتوروں، دولتمندوں اور لٹیروں کو نوازتا ہے، ہمارے جیسوں کو تو اپنا حق لینے کے لیے بھی ایڑیاں رگڑنا پڑتی ہیں اور تجھے پھر بھی اس ملک میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی۔ عاصم جذباتی ہوگیا تھا۔ اس میں قصور پاکستان کا نہیں، ہمارا اپنا ہے۔ یہ ملک ہمارے بڑوں نے بڑی قربانیوں سے حاصل کیا تھا، یہ ہم ہی ہیں جنہوں نے ان قربانیوں کی قدر نہ کی۔ اگر ہم ٹھیک ہوجائیں تو یہ ملک خود بخود ہی جنت بن جائے گا۔ ابھی یہ بحث نہ جانے اور کتنی دیر چلتی کہ ایک ادھیڑ عمر کلرک نے آکر آواز لگائی، اپنی ڈگریاں ایڈمن آفس سے وصول کرلیں، اور دونوں اپنی بحث چھوڑ کر ایڈمن آفس کی طرف چل پڑے۔
عاصم کو اُس کی محنت سے حاصل کی ہوئی ڈگری بھی مل گئی اور امریکہ کی اسکالرشپ بھی، امریکہ پہنچ کر اُسے ایسا لگا جیسے وہ دوزخ سے نکل کر اچانک جنت میں آگیا ہو، بالکل ویسے ہی جیسا اُس نے ہمیشہ سے چاہا تھا، اُسے اپنی قسمت پر رشک آرہا تھا۔ وقت گزرتا گیا، طاہر نے پاکستان میں مقابلے کا امتحان پاس کیا اور پولیس کا محکمہ جوائن کرلیا، عاصم کی تعلیم کا بھی امریکہ میں آخری سال تھا، مگر اُس کا پلان کے عین مطابق پاکستان واپس آنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ یونیورسٹی میں عاصم کا ایک کلاس فیلو تھا جس کا نام جتندرکمار تھا، جتندر بھی انڈیا سے اسکالر شپ پر پڑھنے کے لیے آیا تھا۔ ایک دن عاصم کو یونیورسٹی کے کسی کام میں مدد کے سلسے میں اُس کے روم میں جانا پڑگیا۔ جتندر کے روم کا دروازہ تقریباََ کھلا ہی تھا، جب ایک دو مرتبہ دروازہ کھٹکھٹانے کے باوجود بھی جتندر باہر نہ آیا تو عاصم بغیر اجازت کے ہی اندر داخل ہو گیا۔ سامنے کا منظر عاصم کے لیے ناقابلِ یقین تھا، جتندر کمار زمیں پر جائے نماز بچھائے عشاء کی نماز پڑھنے میں مصروف تھا، ساتھ ہی ایک اسٹینڈ پر قرآن شریف رکھا تھا۔
آپ کب آئے؟ جتندر کی آواز نے سوچوں میں گم عاصم کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ ہاں۔۔۔ بس ابھی، کیا آپ نماز پڑھ رہے تھے؟ عاصم نے فوراََ ہی وہ سوال پوچھ ڈالا جس نے اسے پچھلے کچھ لمحوں سے مخمصے میں ڈال رکھا تھا۔ کیا آپ مسلمان ہیں؟ بھائی مسلمان ہوں تو نماز پڑھ رہا ہوں، جتندر نے کولڈ ڈرنک کا گلاس عاصم کو پکڑاتے ہوئے کہا۔ آپ کا نام تو، الفاظ عاصم کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ میرا نام مسلمانوں والا نہیں، یہی ناں؟ دراصل یہ نام میرے بابا نے رکھا ہی اس وجہ سے تھا کہ مجھے اپنے نام کی وجہ سے کبھی کسی رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ رکاوٹ؟ رکاوٹ کیسی؟ جتندر کی بات بالکل بھی عاصم کے پلّے نہیں پڑی تھی۔
بھائی آپ خوش قسمت ہیں کہ تقسیم کے وقت آپ کے بزرگوں نے پاکستان کا انتخاب کیا، اور ہمارے بڑے، وہ تو تھے ہی قیامِ پاکستان کے مخالف، ہمارے بڑوں نے بہت سے اور مسلمانوں کی طرح بھارت میں ہی رہنے کو ترجیح دی۔ مسلمانوں کے لیے تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ میرے بابا انجینئر تھے، مگر اپنی ساری زندگی ایک معمولی سے مکینک کی حیثیت سے کام کرتے گزار دی، اُنہیں صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے نوکری نہیں ملی۔ میرے چچا یونیورسٹی میں پڑھتے تھے، ایک دن ساتھی طلباء سے کسی بات پربحث ہوگئی۔ اگلے ہی دن سادہ کپڑوں میں ملبوس کچھ اہلکار ہمارے گھر آئے اور چچا کوزبردستی اُٹھا کرلے گئے، چند دن بعد ہمیں اطلاع دی گئی کہ ہمارے چچا پولیس اور دہشت گردوں کے درمیان ہونے والی ایک جھڑپ میں مارے گئے ہیں ۔
تو اگر ہندوستان میں رہ کر ہندوستان کے خلاف اس طرح بولتا تو تجھے معلوم پڑجاتا کہ ہمارے بڑوں نے یہ وطن حاصل کرنے کے لیے اتنی قربانیاں کیوں دی تھیں، طاہر کے الفاظ عاصم کے کانوں میں گونج رہے تھے۔ ابھی پچھلے دنوں ہی ہمارے محلے کی ایک مسلمان لڑکی کو چند اوباشوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کردیا. سب جانتے ہیں کہ ایسا کس نے کیا، اور اُن کا مذہب کیا تھا، گجرات کا ہندو مسلم فساد کسے یاد نہیں، میرے بابا نے میرا نام صرف اس لیے ہندؤں والا رکھ دیا تاکہ مجھے بھی اُن کی طرح مسلمان ہونے کی وجہ سے ہر جگہ امتیازی سلوک کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ میرے بابا کا یقین تھا کہ اگر بھارت میں ہمارے لئے کچھ ہوتا تو محمد یوسف خان کو مشہور ہونے کے لیے دلیپ کمار نہ بننا پڑتا۔ جتندر کی بات ابھی جاری تھی مگر عاصم میں سننے کی مزید سکت نہیں تھی، وہ چپ چاپ اُٹھ کر کمرے سے باہر آگیا۔
آج اُسے آزادی کا مطلب بھی سمجھ آ گیا تھا اور پاکستان کی اہمیت کا احساس بھی ہوگیا تھا۔ آج شعور کی آنکھ کھلی تو اُسے امریکہ میں بھی سب کچھ بدلا بدلا سا نظرآ رہا تھا، یہاں قانون کی بالادستی صرف اس وجہ سے ہے کیونکہ یہاں کے لوگ قانون کا احترام کرتے ہیں، اور ہم بھی صرف ان جیسے ملکوں میں آ کر ہی قانون کا احترام سیکھتے ہیں ورنہ پاکستان میں تو ہر چیز کا شارٹ کٹ ہی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اگر پاکستان میں ہم پر چھوٹا سا بھی ٹیکس نافذ کردیا جائے تو ہم سڑکوں پر آجاتے ہیں۔ مگر یہاں ہمیں سب اچھا ہی نظر آتا ہے۔ ہم ہر چیز کا ذمہ دار حکمرانوں کو تو ٹھہراتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ ان حکمرانوں کو منتخب کرکے ایوانوں میں بھی تو ہم خود ہی بھیجتے ہیں۔ میں آج جس مقام پر ہوں وہ بھی تو پاکستان کی وجہ سے ہی ہے، جس تعلیم کی بنیاد پر مجھے یہ اسکالرشپ ملا وہ بھی تو میں نے پاکستان میں رہ کر ہی حاصل کی تھی۔ عاصم کو سمجھ آ گیا تھا کہ ہم دوسروں سے پیچھے کیوں ہیں، ہماری اس حالت کا ذمہ دار پاکستان نہیں بلکہ ہم خود ہیں، ہمارے پیارے وطن نے تو ہمیں سب کچھ دیا مگر ہم ہی ناشکرے ہیں جنہوں نے ہمیشہ پاکستان میں صرف خامیاں ہی تلاش کیں۔
ابھی وہ ان سوچوں میں ہی گم تھا کہ پاکستان سے طاہر کا SMS آگیا، جشنِ آزادی مبارک۔ مجھے تو یاد بھی نہیں تھا کہ آج 14 اگست ہے، ان چار سالوں میں میں کتنا بدل گیا ہوں کہ اپنی آزادی کا دن بھی بھول گیا۔ اُسے اپنے آپ سے شرم آ رہی تھی۔ بس یار Phd تو کمپلیٹ ہوگئی ہے مگر یونیورسٹی والے کہتے ہیں کہ ڈگری دو ماہ بعد ملے گی، عاصم فون پر طاہر کو ہنستے ہوئے بتا رہا تھا۔ بس اِدھر ڈگری ملی، اُدھر میں اپنے ''پاکستان'' آنکھوں سے آنسو رواں تھے مگر دل سے بوجھ اُتر چکا تھا۔
[poll id="600"]
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
کیا ہوگیا ہے یار! بھلا اپنے ہی ملک کے بارے میں کوئی ایسے بولتا ہے کیا؟ تو اورکیا کہوں؟ سب کچھ تیرے سامنے ہی ہے کہ کیسے اپنی ہی ڈگری حاصل کرنے کے لیے کس قدر اذیت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ہمیں، جیسے ہم یہ ڈگری امتحان پاس کرکے نہیں بلکہ پیسے دے کر لے رہے ہوں۔ میں بھی تو دو ماہ سے تیرے ساتھ ہی خوار ہو رہا ہوں، مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ میں اپنے ہی ملک کو کوسنا شروع کردوں۔ طاہر، عاصم کے خیالات سے ہرگز متفق نہیں تھا۔ دو دن بعد آخری تاریخ ہے اسکالر شپ کے فارم جمع کروانے کی، اگر آج بھی ڈگری نہ ملی تو گئے کام سے، اللہ اللہ کرکے اس ملک سے نکلنے کا موقع مل رہا ہے اور میں یہ موقع کسی صورت بھی ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ یار! ایسے بول رہا ہے جیسے تونے پی ایچ ڈی مکمل کرکے پاکستان واپس آنا ہی نہیں ہے۔ طاہر نے ہنستے ہوئے کہا۔ بالکل درست اندازہ لگایا ہے تو نے، میں اتنی جدوجہد پاکستان واپس آنے کے لیے نہیں کر رہا ہوں۔ عاصم نے سنجیدگی سے کہا۔
حلف نامہ جو جمع کرارہے ہو اُس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ میں اپنی تعلیم مکمل کرکے پاکستان واپس آؤں گا اور پانچ سال تک یہاں کے اداروں میں نوکری کروں گا، اُس کا کیا؟ وہ سب تو کاغذی کارروائی ہے، اُسے کون پوچھتا ہے، یار! اور جو ضمانت دینی ہے، وہ؟ طاہر کو اُس کی باتوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ ہم پاکستان میں رہتے ہیں یار، یہاں بس جیب میں پیسہ ہونا چاہیے ہر مشکل حل ہوجاتی ہے۔ بس دعا کرو کہ کسی طرح مجھے یہ اسکالر شپ مل جائے، پھر نہیں میں دوبارہ پاکستان میں قدم رکھنے والا۔ کہیں بھی چلا جا، کہلائے گا تو آخر پاکستانی ہی ناں۔ طاہر کے لہجے میں اب طنز تھا۔ کب تک، آخر کب تک؟ صرف دوسرے ملک کا پاسپورٹ ملنے کی دیر ہے، پھر کونسا پاکستان اور کون پاکستانی، پھر یہ داغ بھی دھل جائے گا۔ داغ؟ کیا تیرے لیے پاکستانی ہونا ایک داغ ہے، آخرکیا خرابی ہے اس ملک میں؟
تمھارے پاکستان میں ڈھنگ کی کوئی نوکری نہیں، اور تو کہتا ہے کہ کیا خرابی ہے اس ملک میں۔ تیرے ابّو نے اپنی پوری ملازمت کے دوران ایک مرتبہ بھی رشوت نہیں لی، اور اُنہیں اس ایمانداری کا کیا صلہ دیا گیا؟ اُنہیں رشوت لینے کے جرم میں نوکری سے برخاست کر دیا گیا، اور تجھے اس ملک میں سب اچھا نظر آتا ہے۔ یہاں جس کے پاس جتنی زیادہ دولت ہے اُس کی اُتنی زیادہ عزت ہے۔ یہ ملک صرف طاقتوروں، دولتمندوں اور لٹیروں کو نوازتا ہے، ہمارے جیسوں کو تو اپنا حق لینے کے لیے بھی ایڑیاں رگڑنا پڑتی ہیں اور تجھے پھر بھی اس ملک میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی۔ عاصم جذباتی ہوگیا تھا۔ اس میں قصور پاکستان کا نہیں، ہمارا اپنا ہے۔ یہ ملک ہمارے بڑوں نے بڑی قربانیوں سے حاصل کیا تھا، یہ ہم ہی ہیں جنہوں نے ان قربانیوں کی قدر نہ کی۔ اگر ہم ٹھیک ہوجائیں تو یہ ملک خود بخود ہی جنت بن جائے گا۔ ابھی یہ بحث نہ جانے اور کتنی دیر چلتی کہ ایک ادھیڑ عمر کلرک نے آکر آواز لگائی، اپنی ڈگریاں ایڈمن آفس سے وصول کرلیں، اور دونوں اپنی بحث چھوڑ کر ایڈمن آفس کی طرف چل پڑے۔
عاصم کو اُس کی محنت سے حاصل کی ہوئی ڈگری بھی مل گئی اور امریکہ کی اسکالرشپ بھی، امریکہ پہنچ کر اُسے ایسا لگا جیسے وہ دوزخ سے نکل کر اچانک جنت میں آگیا ہو، بالکل ویسے ہی جیسا اُس نے ہمیشہ سے چاہا تھا، اُسے اپنی قسمت پر رشک آرہا تھا۔ وقت گزرتا گیا، طاہر نے پاکستان میں مقابلے کا امتحان پاس کیا اور پولیس کا محکمہ جوائن کرلیا، عاصم کی تعلیم کا بھی امریکہ میں آخری سال تھا، مگر اُس کا پلان کے عین مطابق پاکستان واپس آنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ یونیورسٹی میں عاصم کا ایک کلاس فیلو تھا جس کا نام جتندرکمار تھا، جتندر بھی انڈیا سے اسکالر شپ پر پڑھنے کے لیے آیا تھا۔ ایک دن عاصم کو یونیورسٹی کے کسی کام میں مدد کے سلسے میں اُس کے روم میں جانا پڑگیا۔ جتندر کے روم کا دروازہ تقریباََ کھلا ہی تھا، جب ایک دو مرتبہ دروازہ کھٹکھٹانے کے باوجود بھی جتندر باہر نہ آیا تو عاصم بغیر اجازت کے ہی اندر داخل ہو گیا۔ سامنے کا منظر عاصم کے لیے ناقابلِ یقین تھا، جتندر کمار زمیں پر جائے نماز بچھائے عشاء کی نماز پڑھنے میں مصروف تھا، ساتھ ہی ایک اسٹینڈ پر قرآن شریف رکھا تھا۔
آپ کب آئے؟ جتندر کی آواز نے سوچوں میں گم عاصم کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ ہاں۔۔۔ بس ابھی، کیا آپ نماز پڑھ رہے تھے؟ عاصم نے فوراََ ہی وہ سوال پوچھ ڈالا جس نے اسے پچھلے کچھ لمحوں سے مخمصے میں ڈال رکھا تھا۔ کیا آپ مسلمان ہیں؟ بھائی مسلمان ہوں تو نماز پڑھ رہا ہوں، جتندر نے کولڈ ڈرنک کا گلاس عاصم کو پکڑاتے ہوئے کہا۔ آپ کا نام تو، الفاظ عاصم کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ میرا نام مسلمانوں والا نہیں، یہی ناں؟ دراصل یہ نام میرے بابا نے رکھا ہی اس وجہ سے تھا کہ مجھے اپنے نام کی وجہ سے کبھی کسی رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ رکاوٹ؟ رکاوٹ کیسی؟ جتندر کی بات بالکل بھی عاصم کے پلّے نہیں پڑی تھی۔
بھائی آپ خوش قسمت ہیں کہ تقسیم کے وقت آپ کے بزرگوں نے پاکستان کا انتخاب کیا، اور ہمارے بڑے، وہ تو تھے ہی قیامِ پاکستان کے مخالف، ہمارے بڑوں نے بہت سے اور مسلمانوں کی طرح بھارت میں ہی رہنے کو ترجیح دی۔ مسلمانوں کے لیے تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ میرے بابا انجینئر تھے، مگر اپنی ساری زندگی ایک معمولی سے مکینک کی حیثیت سے کام کرتے گزار دی، اُنہیں صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے نوکری نہیں ملی۔ میرے چچا یونیورسٹی میں پڑھتے تھے، ایک دن ساتھی طلباء سے کسی بات پربحث ہوگئی۔ اگلے ہی دن سادہ کپڑوں میں ملبوس کچھ اہلکار ہمارے گھر آئے اور چچا کوزبردستی اُٹھا کرلے گئے، چند دن بعد ہمیں اطلاع دی گئی کہ ہمارے چچا پولیس اور دہشت گردوں کے درمیان ہونے والی ایک جھڑپ میں مارے گئے ہیں ۔
تو اگر ہندوستان میں رہ کر ہندوستان کے خلاف اس طرح بولتا تو تجھے معلوم پڑجاتا کہ ہمارے بڑوں نے یہ وطن حاصل کرنے کے لیے اتنی قربانیاں کیوں دی تھیں، طاہر کے الفاظ عاصم کے کانوں میں گونج رہے تھے۔ ابھی پچھلے دنوں ہی ہمارے محلے کی ایک مسلمان لڑکی کو چند اوباشوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کردیا. سب جانتے ہیں کہ ایسا کس نے کیا، اور اُن کا مذہب کیا تھا، گجرات کا ہندو مسلم فساد کسے یاد نہیں، میرے بابا نے میرا نام صرف اس لیے ہندؤں والا رکھ دیا تاکہ مجھے بھی اُن کی طرح مسلمان ہونے کی وجہ سے ہر جگہ امتیازی سلوک کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ میرے بابا کا یقین تھا کہ اگر بھارت میں ہمارے لئے کچھ ہوتا تو محمد یوسف خان کو مشہور ہونے کے لیے دلیپ کمار نہ بننا پڑتا۔ جتندر کی بات ابھی جاری تھی مگر عاصم میں سننے کی مزید سکت نہیں تھی، وہ چپ چاپ اُٹھ کر کمرے سے باہر آگیا۔
آج اُسے آزادی کا مطلب بھی سمجھ آ گیا تھا اور پاکستان کی اہمیت کا احساس بھی ہوگیا تھا۔ آج شعور کی آنکھ کھلی تو اُسے امریکہ میں بھی سب کچھ بدلا بدلا سا نظرآ رہا تھا، یہاں قانون کی بالادستی صرف اس وجہ سے ہے کیونکہ یہاں کے لوگ قانون کا احترام کرتے ہیں، اور ہم بھی صرف ان جیسے ملکوں میں آ کر ہی قانون کا احترام سیکھتے ہیں ورنہ پاکستان میں تو ہر چیز کا شارٹ کٹ ہی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اگر پاکستان میں ہم پر چھوٹا سا بھی ٹیکس نافذ کردیا جائے تو ہم سڑکوں پر آجاتے ہیں۔ مگر یہاں ہمیں سب اچھا ہی نظر آتا ہے۔ ہم ہر چیز کا ذمہ دار حکمرانوں کو تو ٹھہراتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ ان حکمرانوں کو منتخب کرکے ایوانوں میں بھی تو ہم خود ہی بھیجتے ہیں۔ میں آج جس مقام پر ہوں وہ بھی تو پاکستان کی وجہ سے ہی ہے، جس تعلیم کی بنیاد پر مجھے یہ اسکالرشپ ملا وہ بھی تو میں نے پاکستان میں رہ کر ہی حاصل کی تھی۔ عاصم کو سمجھ آ گیا تھا کہ ہم دوسروں سے پیچھے کیوں ہیں، ہماری اس حالت کا ذمہ دار پاکستان نہیں بلکہ ہم خود ہیں، ہمارے پیارے وطن نے تو ہمیں سب کچھ دیا مگر ہم ہی ناشکرے ہیں جنہوں نے ہمیشہ پاکستان میں صرف خامیاں ہی تلاش کیں۔
ابھی وہ ان سوچوں میں ہی گم تھا کہ پاکستان سے طاہر کا SMS آگیا، جشنِ آزادی مبارک۔ مجھے تو یاد بھی نہیں تھا کہ آج 14 اگست ہے، ان چار سالوں میں میں کتنا بدل گیا ہوں کہ اپنی آزادی کا دن بھی بھول گیا۔ اُسے اپنے آپ سے شرم آ رہی تھی۔ بس یار Phd تو کمپلیٹ ہوگئی ہے مگر یونیورسٹی والے کہتے ہیں کہ ڈگری دو ماہ بعد ملے گی، عاصم فون پر طاہر کو ہنستے ہوئے بتا رہا تھا۔ بس اِدھر ڈگری ملی، اُدھر میں اپنے ''پاکستان'' آنکھوں سے آنسو رواں تھے مگر دل سے بوجھ اُتر چکا تھا۔
''پاکستان زندہ باد''
[poll id="600"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس