سندھ میں سیلاب اور وزیر اعظم کا دورہ
ملک میں حالیہ بارشوں کے بعد دریاؤں میں سیلابی صورتحال ہے۔
ISLAMABAD:
ملک میں حالیہ بارشوں کے بعد دریاؤں میں سیلابی صورتحال ہے۔ سیلابی ریلوں نے چترال، گلگت، بلتستان سمیت بالائی علاقوں میں بڑی تباہی مچا دی ہے، اب یہ سیلابی ریلے سندھ میں بیراجوں سے گزر کر بحیرہ عرب میں گر رہے ہیں، ابھی یہ سلسلہ جاری ہے گڈو بیراج، سکھر بیراج اور کوٹری بیراج پر زبردست دباؤ ہے جب کہ کشمور سے کیٹی بندر تک کچے کا علاقہ زیر آب آ چکا ہے۔ ضلع گھوٹکی اور سکھر بھی سیلابی صورتحال سے بری طرح متاثر ہیں۔ گھوٹکی سے درجنوں دیہات پہلے ہی زیر آب آ چکے تھے اور سیلاب سے جانی و مالی نقصان علیحدہ ہوا ہے جب کہ بڑے پیمانے پر لوگوں نے اپنے گھروں سے نقل مکانی کر کے بندوں پر پناہ لے رکھی ہے۔ یہ نقل مکانی کرنے والے پانی اور خوراک سے محروم ہیں اور ان میں مختلف موسمی بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے مطابق خیرپور، سکھر اور گھوٹکی کے کچے کے علاقے میں 375,000 سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ 445,350 ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں۔ 7272 گھر بھی مکمل یا نصف تباہ ہو چکے ہیں۔ جب کہ فوجی جوانوں نے سیلاب متاثرین کی مدد اور انھیں محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے خصوصی آپریشن ''مدو'' بھی شروع کر رکھا ہے اس کے علاوہ رینجرز کے اہلکار بھی بندوں کی دن رات نگرانی کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں جی او سی پنو عاقل کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، میں متاثرین کی بروقت مدد کرنے پر فوجی جوانوں کو سلام کرتا ہوں۔ جب کہ مسلم لیگ ن سندھ کے رہنماؤں نے بھی نوشہرو فیروز، حیدرآباد، بدین میں دورہ کر کے سیلابی صورتحال کا جائزہ لیا ہے لیکن سندھ کے عوام کی نظریں اپنے وزیر اعظم محمد نواز شریف کی منتظر تھیں کیونکہ تھر میں بھوک اور قحط سے ہلاکتیں ہوں یا 2010ء، 2011ء یا 2014ء کا سیلاب ہو وزیر اعظم محمد نواز شریف سندھ کے مظلوم عوام کی دادرسی کے لیے خود سندھ آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتے وزیر اعظم محمد نواز شریف سکھر پہنچے اور انھوں نے گھوٹکی، سکھر اور خیرپور کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا فضائی دورہ کیا۔
وزیر اعظم محمد نواز شریف کے دورۂ سکھر کے موقعے پر صوبائی وزیر نثار کھوڑو نے ان کی توجہ دریائے سندھ کے دونوں اطراف حفاظتی دریائی بندوں کو مضبوط کرنے کی جانب کراتے ہوئے وفاقی حکومت سے درخواست کی کہ وہ سندھ کا ساتھ دے۔ اسی نوعیت کا سوال سیکریٹری آبپاشی نے بھی اٹھایا اور کہا کہ بندوں کو مضبوط کرنے کی ذمے داری وفاقی حکومت کی ہے لیکن بریفنگ کے دوران سی ڈی ایم کے سربراہ نے یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھی کہ وفاق بندوں کو مضبوط کرنے کے لیے فنڈز ضرور مختص کرتا ہے مگر بعدازاں اسے چاروں صوبوں میں مساوی طور پر تقسیم کر دیا جاتا ہے اور پھر صوبے اس رقم کو خود استعمال کرتے ہیں۔ راقم یہ دلچسپ انکشاف بھی کرنا چاہتا ہوں کہ 2010ء میں سندھ حکومت نے بندوں کے اخراجات خود برداشت کیے تھے کیونکہ اس وقت وفاق میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ اس لیے وفاق سے کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا جب کہ اب یہ بات بھی طشت ازبام ہو چکی ہے کہ کوٹری بند ٹوٹا نہیں تھا بلکہ اسے توڑا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے اور بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ بہرحال اس کے باوجود وزیر اعظم محمد نواز شریف نے وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ کو تعاون کی بھرپور یقین دہانی کرائی۔ قادر پور شینک بند پر وزیر اعظم محمد نواز شریف کو بریفنگ دی گئی۔ اس کے بعد وزیر اعظم نے سیلاب متاثرین سے خطاب بھی کیا۔
اس موقعے پر انھوں نے سیلاب سے نمٹنے کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ، صوبائی وزراء، این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے کی کارکردگی کی تعریف کی۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں سندھ میں مسلم لیگ ن کی حکومت نہیں ہے ایسے میں وزیر اعظم محمد نواز شریف کی جانب سے وزیر اعلیٰ سندھ اور مقامی انتظامیہ کے اقدامات کی تعریف کرنا اچھی سیاسی مثال ہے اس طرح باہمی سیاسی تعلقات کو فروغ دینے میں خاصی مدد ملتی ہے۔ سیلاب متاثرین سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے ایک ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا۔ اور کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مل کر حفاظتی بندوں کو مضبوط بنانے کا کام مستقل بنیادوں پر کرنا چاہیے تا کہ سیلاب کو ہمیشہ کے لیے روک کر لوگوں کی جان و مال کو بچایا جا سکے۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف نے جس خواہش کا اظہار کیا ہے اس پر انھیں خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ اور ہر پاکستانی کی بھی یہی خواہش ہے کہ اب سیلاب کا سلسلہ بند ہونا چاہیے کیونکہ حکومت کسی کی بھی ہو سیلاب ضرور آتے ہیں اور ہر سال تقریباً ایسا ہی ہوتا ہے۔
قارئین کرام! بارشیں پوری دنیا میں ہوتی ہیں لیکن دریاؤں اور نہروں کے بند ٹوٹنے، کرنٹ سے اموات اور سیوریج نالوں کے ابلنے کا وہ تناسب نہیں ہوتا جو ہم برسوں سے بھگت رہے ہیں۔ لہٰذا اب بندوں کو اتنا مضبوط کیا جائے کہ سیلاب کا راستہ روکا جا سکے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے دورے کے دوران سکھر بیراج، گدو بیراج اور مختلف دریائی بندوں کا بھی معائنہ کیا۔ انھوں نے گھوٹکی میں سیلاب متاثرین میں امداد بھی تقسیم کی۔ وزیر اعظم نواز شریف کا دورہ اس حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل تھا کہ وہ سیلاب متاثرین اور مظلوم عوام کی دادرسی کرنا چاہتے تھے اور وفاقی حکومت کی جانب سے امداد بھی فراہم کرنا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے بیراجوں اور دریائی بندوں کا از خود معائنہ کر کے حالات کو صحیح تصویر بھی دیکھ لی۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف مشکل حالات میں سندھ کے عوام کی مدد کے لیے دورے پر آئے ہوں وہ ہر مشکل گھڑی میں سندھ کے عوام کے ساتھ رہے ہیں۔ اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر میں سندھ حکومت کی خدمات میں بھی کچھ گزارشات کرنا چاہوں گا۔
میری تجویز یہ ہے کہ سندھ حکومت فوری طور پر صوبے میں تھر، نارا، کاچھو ر ساحلی پٹی اور اچھروتھر کے ریگزاروں میں چھوٹے ڈیم تعمیر کرے اور رینی کینال کے اس پروجیکٹ کو مکمل کرے جس کے ذریعے سیلابی پانی نہ صرف صحراؤں کو سبزہ زاروں میں تبدیل کرے گا بلکہ سندھ آبپاشی اور توانائی کے مسائل سے بھی نمٹے گا اور خوشحالی کی لہر صوبے کے عوام کا مقدر بنے گی۔ حکومت کو سیلاب کے انتظار کے بجائے اسے روکنے کے پیشگی انتطامات کرنے چاہئیں اور وزیر اعظم کی طرف شینک بند پر بریفنگ دوران یہ سوال کرنا کہ جب پتہ تھا کہ پانی آ رہا ہے تو بندوں کو مضبوط پہلے کیوں نہیں کیا گیا اور یہ اب کیوں کہا جا رہا ہے کہ بند حساس ہے اگرچہ پہلے انتظامات کیے جاتے تو اتنی ایمرجنسی سے کام کی ضرورت نہ ہوتی۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ سندھ حکومت وزیر اعظم کی طرف دی گئی رقم صاف و شفاف طریقے سے متاثرین تک پہنچائے اور سکھر سے کٹی بندر تک متاثرین سیلاب کی بھرپور مدد کرے اور ماضی کی طرح سیاسی بنیادوں اور مفاداتوں کی بنیاد کے بجائے پورے صوبے کی عوام کو ایک نظر سے دیکھ کر بلا سیاسی تفریق ان کو ریلیف دے۔
ملک میں حالیہ بارشوں کے بعد دریاؤں میں سیلابی صورتحال ہے۔ سیلابی ریلوں نے چترال، گلگت، بلتستان سمیت بالائی علاقوں میں بڑی تباہی مچا دی ہے، اب یہ سیلابی ریلے سندھ میں بیراجوں سے گزر کر بحیرہ عرب میں گر رہے ہیں، ابھی یہ سلسلہ جاری ہے گڈو بیراج، سکھر بیراج اور کوٹری بیراج پر زبردست دباؤ ہے جب کہ کشمور سے کیٹی بندر تک کچے کا علاقہ زیر آب آ چکا ہے۔ ضلع گھوٹکی اور سکھر بھی سیلابی صورتحال سے بری طرح متاثر ہیں۔ گھوٹکی سے درجنوں دیہات پہلے ہی زیر آب آ چکے تھے اور سیلاب سے جانی و مالی نقصان علیحدہ ہوا ہے جب کہ بڑے پیمانے پر لوگوں نے اپنے گھروں سے نقل مکانی کر کے بندوں پر پناہ لے رکھی ہے۔ یہ نقل مکانی کرنے والے پانی اور خوراک سے محروم ہیں اور ان میں مختلف موسمی بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے مطابق خیرپور، سکھر اور گھوٹکی کے کچے کے علاقے میں 375,000 سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ 445,350 ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں۔ 7272 گھر بھی مکمل یا نصف تباہ ہو چکے ہیں۔ جب کہ فوجی جوانوں نے سیلاب متاثرین کی مدد اور انھیں محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے خصوصی آپریشن ''مدو'' بھی شروع کر رکھا ہے اس کے علاوہ رینجرز کے اہلکار بھی بندوں کی دن رات نگرانی کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں جی او سی پنو عاقل کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، میں متاثرین کی بروقت مدد کرنے پر فوجی جوانوں کو سلام کرتا ہوں۔ جب کہ مسلم لیگ ن سندھ کے رہنماؤں نے بھی نوشہرو فیروز، حیدرآباد، بدین میں دورہ کر کے سیلابی صورتحال کا جائزہ لیا ہے لیکن سندھ کے عوام کی نظریں اپنے وزیر اعظم محمد نواز شریف کی منتظر تھیں کیونکہ تھر میں بھوک اور قحط سے ہلاکتیں ہوں یا 2010ء، 2011ء یا 2014ء کا سیلاب ہو وزیر اعظم محمد نواز شریف سندھ کے مظلوم عوام کی دادرسی کے لیے خود سندھ آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتے وزیر اعظم محمد نواز شریف سکھر پہنچے اور انھوں نے گھوٹکی، سکھر اور خیرپور کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا فضائی دورہ کیا۔
وزیر اعظم محمد نواز شریف کے دورۂ سکھر کے موقعے پر صوبائی وزیر نثار کھوڑو نے ان کی توجہ دریائے سندھ کے دونوں اطراف حفاظتی دریائی بندوں کو مضبوط کرنے کی جانب کراتے ہوئے وفاقی حکومت سے درخواست کی کہ وہ سندھ کا ساتھ دے۔ اسی نوعیت کا سوال سیکریٹری آبپاشی نے بھی اٹھایا اور کہا کہ بندوں کو مضبوط کرنے کی ذمے داری وفاقی حکومت کی ہے لیکن بریفنگ کے دوران سی ڈی ایم کے سربراہ نے یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھی کہ وفاق بندوں کو مضبوط کرنے کے لیے فنڈز ضرور مختص کرتا ہے مگر بعدازاں اسے چاروں صوبوں میں مساوی طور پر تقسیم کر دیا جاتا ہے اور پھر صوبے اس رقم کو خود استعمال کرتے ہیں۔ راقم یہ دلچسپ انکشاف بھی کرنا چاہتا ہوں کہ 2010ء میں سندھ حکومت نے بندوں کے اخراجات خود برداشت کیے تھے کیونکہ اس وقت وفاق میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ اس لیے وفاق سے کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا جب کہ اب یہ بات بھی طشت ازبام ہو چکی ہے کہ کوٹری بند ٹوٹا نہیں تھا بلکہ اسے توڑا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے اور بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ بہرحال اس کے باوجود وزیر اعظم محمد نواز شریف نے وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ کو تعاون کی بھرپور یقین دہانی کرائی۔ قادر پور شینک بند پر وزیر اعظم محمد نواز شریف کو بریفنگ دی گئی۔ اس کے بعد وزیر اعظم نے سیلاب متاثرین سے خطاب بھی کیا۔
اس موقعے پر انھوں نے سیلاب سے نمٹنے کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ، صوبائی وزراء، این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے کی کارکردگی کی تعریف کی۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں سندھ میں مسلم لیگ ن کی حکومت نہیں ہے ایسے میں وزیر اعظم محمد نواز شریف کی جانب سے وزیر اعلیٰ سندھ اور مقامی انتظامیہ کے اقدامات کی تعریف کرنا اچھی سیاسی مثال ہے اس طرح باہمی سیاسی تعلقات کو فروغ دینے میں خاصی مدد ملتی ہے۔ سیلاب متاثرین سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے ایک ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا۔ اور کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مل کر حفاظتی بندوں کو مضبوط بنانے کا کام مستقل بنیادوں پر کرنا چاہیے تا کہ سیلاب کو ہمیشہ کے لیے روک کر لوگوں کی جان و مال کو بچایا جا سکے۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف نے جس خواہش کا اظہار کیا ہے اس پر انھیں خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ اور ہر پاکستانی کی بھی یہی خواہش ہے کہ اب سیلاب کا سلسلہ بند ہونا چاہیے کیونکہ حکومت کسی کی بھی ہو سیلاب ضرور آتے ہیں اور ہر سال تقریباً ایسا ہی ہوتا ہے۔
قارئین کرام! بارشیں پوری دنیا میں ہوتی ہیں لیکن دریاؤں اور نہروں کے بند ٹوٹنے، کرنٹ سے اموات اور سیوریج نالوں کے ابلنے کا وہ تناسب نہیں ہوتا جو ہم برسوں سے بھگت رہے ہیں۔ لہٰذا اب بندوں کو اتنا مضبوط کیا جائے کہ سیلاب کا راستہ روکا جا سکے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے دورے کے دوران سکھر بیراج، گدو بیراج اور مختلف دریائی بندوں کا بھی معائنہ کیا۔ انھوں نے گھوٹکی میں سیلاب متاثرین میں امداد بھی تقسیم کی۔ وزیر اعظم نواز شریف کا دورہ اس حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل تھا کہ وہ سیلاب متاثرین اور مظلوم عوام کی دادرسی کرنا چاہتے تھے اور وفاقی حکومت کی جانب سے امداد بھی فراہم کرنا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے بیراجوں اور دریائی بندوں کا از خود معائنہ کر کے حالات کو صحیح تصویر بھی دیکھ لی۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف مشکل حالات میں سندھ کے عوام کی مدد کے لیے دورے پر آئے ہوں وہ ہر مشکل گھڑی میں سندھ کے عوام کے ساتھ رہے ہیں۔ اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر میں سندھ حکومت کی خدمات میں بھی کچھ گزارشات کرنا چاہوں گا۔
میری تجویز یہ ہے کہ سندھ حکومت فوری طور پر صوبے میں تھر، نارا، کاچھو ر ساحلی پٹی اور اچھروتھر کے ریگزاروں میں چھوٹے ڈیم تعمیر کرے اور رینی کینال کے اس پروجیکٹ کو مکمل کرے جس کے ذریعے سیلابی پانی نہ صرف صحراؤں کو سبزہ زاروں میں تبدیل کرے گا بلکہ سندھ آبپاشی اور توانائی کے مسائل سے بھی نمٹے گا اور خوشحالی کی لہر صوبے کے عوام کا مقدر بنے گی۔ حکومت کو سیلاب کے انتظار کے بجائے اسے روکنے کے پیشگی انتطامات کرنے چاہئیں اور وزیر اعظم کی طرف شینک بند پر بریفنگ دوران یہ سوال کرنا کہ جب پتہ تھا کہ پانی آ رہا ہے تو بندوں کو مضبوط پہلے کیوں نہیں کیا گیا اور یہ اب کیوں کہا جا رہا ہے کہ بند حساس ہے اگرچہ پہلے انتظامات کیے جاتے تو اتنی ایمرجنسی سے کام کی ضرورت نہ ہوتی۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ سندھ حکومت وزیر اعظم کی طرف دی گئی رقم صاف و شفاف طریقے سے متاثرین تک پہنچائے اور سکھر سے کٹی بندر تک متاثرین سیلاب کی بھرپور مدد کرے اور ماضی کی طرح سیاسی بنیادوں اور مفاداتوں کی بنیاد کے بجائے پورے صوبے کی عوام کو ایک نظر سے دیکھ کر بلا سیاسی تفریق ان کو ریلیف دے۔